حقوق العباد کی ادائیگی کا حکم

حقوق العباد کی ادائیگی کا حکم 
(قرآن و حدیث کی روشنی میں)

اللہ تعالیٰ قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا ہے
فَـاٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٝ وَالْمِسْكِيْنَ وَابْنَ السَّبِيْلِ ۚ ذٰلِكَ خَيْـرٌ لِّلَّـذِيْنَ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَ اللّـٰهِ ۖ
وَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُفْلِحُوْنَ (سورۃ الرّوم،آیت 38)
پھر رشتہ دار اور محتاج اور مسافر کو اس کا حق دے، یہ بہتر ہے ان کے لیے جو اللہ کی رضا چاہتے ہیں اور وہی نجات پانے والے ہیں۔

  ایک اور مقام پر ارشادِ رَبّ ذوالجلال ہے
اِنَّ اللّـٰهَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِيْتَـآءِ ذِى الْقُرْبٰى وَيَنْـهٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْىِ ۚ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُوْنَ (90)
 بے شک اللہ انصاف کرنے کا اور بھلائی کرنے کا اور رشتہ داروں کو دینے کا حکم کرتا ہے اور بے حیائی اور بری بات اور ظلم سے منع کرتا ہے، تمہیں سمجھاتا ہے تاکہ تم سمجھو
(سورۃ النحل)

رسول كريم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا ارشادِ مبارکہ ہے :
’’مسلمان وہ ہے، جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘(مشکوٰۃ)
اس مختصر اور جامع حدیث ِمبارکہ میں شرعیہ اورتمدنیہ دو فائدے نظر آتے ہیں یعنی اس حدیثِ مبارکہ پر عمل پیرا ہوکر ہم رضائے الٰہی سے فیض یاب بھی ہوسکتے ہیں اور بندوں کے درمیان درست اخلاقی رشتہ بھی استوار کرسکتے ہیں۔ یاد رکھیے! جب ہم ایک دوسرے کے شر سے محفوظ ہوں گے تو یقینا بھائی چارگی، اُلفت اور قربانی کی فضا قائم ہوگی۔ مسلمان اگر مسلمان بھائیوں کے تین حقوق ادا کرنے لگیں تو ان شاء اﷲ ہم کبھی معاشرتی بدحالی کا شکار نہیں ہوں گے۔وہ حقو ق یہ ہیں
آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کریں،
کسی کا حق نہ ماریں
اور آبرو ریزی جیسا گھنا ؤنا جرم نہ کریں۔

یہ وہ مشعلِ راہ اور زرّیں اُصول و قواعد ہیں، جو ہمیں سردارِ انبیاء خاتم المرسلین سیّدی آنحضرت محمد مصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے بحیثیت مسلمان ورثے میں ملے ہیں۔اس لیے ان پر عمل کرکے سچّا عاشقِ رسولؐ ہونے کی سند حاصل کی جاسکتی ہے۔
ارشادِ رَبّانی ہے: ’’تمہارے رَبّ کو خوب معلوم ہے کہ جو کچھ تمہارے دل میں ہے ،اگر تمہارے اندر صلاحیت ہے تو وہ رُجوع ہونے والوں کے لیے غفور ہے۔‘‘
ہمارے آقا سیّدی آنحضرت محمدمصطفی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا ارشادِ عالی شان ہے: ’’قیامت کے دن ایک نِدا کرنے والا (حق سبحانہٗ و تعالیٰ کی جانب سے) زیرِ عرش سے نِدا کرے گا کہ اے اُمّتِ محمدؐ! میرا جو کچھ حق تمہاری طرف تھا، اُسے تو میں معاف کرچکا، سو تم بھی ایک دوسرے کو بخش دو اور میری رحمت سے جنت میں داخل ہوجائو۔‘‘
(التشرف بمعرفۃ احادیث التصوّف، ص155)
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ جس مسلمان میں تین خصوصیات ہوں گی، اﷲ جل شانہٗ قیامت کے روز اُس کا حساب آسان طریقے سے لے گا اور اسے اپنی رحمت سے داخل جنت فرمائے گا۔جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرنے والے،جو تم پر ظلم کرے اسے معاف کرنے والے اور جو تم سے قطع تعلق کرے، اس سے ملاپ کرنے والے بنو۔‘‘ ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کی دل جوئی کریں۔ مشکل میں ایک دوسرے کے کام آئیں۔ احسان کریں، مگر احساس نہ ہونے دیں۔ مدد کریں تو سامنے والے کو کم تری کا احساس نہ ہونے دیں۔ اپنی پسند کی طرح سب کی پسند کا خیال رکھیں، کسی کی حق تلفی نہ کریں، حتیٰ الامکان کوشش کریں کہ کسی کا حق ہم پر باقی نہ رہے۔ رضائے الٰہی، شفاعت ِ رسولؐ اور دائمی راحت کا حصول اُس وقت ممکن ہوگا، جب ہم دوسروں کے حقوق دینے میں پہل کریں گے،جب ایسا ہوگا تو اِن شاء ﷲ، ہم پراللہ عزوجل کی رحمت کے دروازے کھول دیے جائیں گے، ہم مسرور و شادمان کردیے جائیں گے۔ تفکّرات، ڈر، خوف ، اورفکرہم سے دور کردیے جائیں گے۔ اﷲ سبحانہٗ و تعالیٰ اپنی تجلّیات کی ہم پر بارش فرمادیں گے۔ یاد رکھیے! حقوق العباد کی ادائیگی ہی درحقیقت راہِ نجات ہے۔ یہی اسلامی تعلیمات کا منبع و ماخذ ہے۔ حضورِ اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:
’’قیامت کے دن اہلِ حقوق کو اُن کے حقوق دلائے جائیں گے۔‘‘ (مسلم)
ایک اور مقام پر ارشادِ محبوب رَبّ کائنات ہے :
’’وہ شخص جنت میں داخل نہ ہوگا، جس کی شرارتوں سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہوگا۔‘‘ (مسلم) تمام قرآنی حوالوں اور متفق علیہ احادیث ِ مبارکہ کی روشنی میں حقوق العباد کی اہمیت اور ادائیگی کی فضیلت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بارگاہِ الٰہی میں دُعا ہے کہ یااللہ، ہمیں نیک نیتی کے ساتھ حقوق العباد کی ادائیگی کی توفیق عطا فرما۔
(   آمين يا رب العالمين )
Share: