نماز ميں خشوع وخضوع كي إهميت

نماز ميں خشوع وخضوع كي إهميت 

 يه بات تو واضح هے كه نماز كا ادا كرنا هر مسلمان كے لئے لازمي هے إهتمام كرنے والے كے لئے أنعام وأكرام كا وعده اور ترك كرنے والے كے لئے عذاب كي وعيديں قرآن وحديث ميں موجود هيں جن ميں كچهـ كا ذكركيا جاچكا هے . نماز كو زياده سے زياده قيمتي بنانے كے لئے ضروري هے كه نماز إنتهائى دهيان سے ادا كى جائے نماز پڑهنے والا اپنے آپ كو أحكم احاكمين كي دربار ميں حاضر سمجهـے اور يوں گمان كرے كه وه الله تعالى كو ديكهـ رها هے اگر يه ممكن نه هوسكے تو كم ازكم يه خيال تو ضرور جمائے كه الله تعالى مجهـے ديكهـ رهے هيں إس دهيان كے ساتهـ نماز ادا كرنے كو خشوع وخضوع كها جاتا هے جو نماز ميں عين مطلوب هے جتنا خشوع وخضوع زياده هوگا اتنا هي نماز بهي الله كے دربار ميں زياده قيمتي هوگي بہت سے لوگ ایسے ہیں جو نماز تو پڑھتے ہیں اور ان میں بہت سے جماعت کا بھی اہتمام فرماتے ہیں لیکن اس کے باوجود نماز ایسی بری طرح پڑھتے ہیں کہ وہ نماز بجائے ثواب و اجر کے، ناقص ہونے کی وجہ سے منہ پر مار دی جاتی ہے گو نہ پڑھنے سے یہ بھی بہتر ہے کیونکہ نہ پڑھنے کی صورت میں جو عذاب ہے وہ بہت زیادہ سخت ہے اور اس صورت میں وہ قابل قبول نہ ہوئی اور منہ پر پھینک کر مار دی گئی اس پر کوئی ثواب نہیں ہوا بس فرض سر سے أترگيا سوچنے كي بات ہے کہ جب آدمی وقت خرچ کرے کاروبار چھوڑے اور مشقت بهي اٹھائے تو کوشش کرنا چاہئے کہ نماز زیادہ سے زیادہ وزنی اور قیمتی پڑھ لے اس میں کوتاہی نہ هو حضرت عبداﷲ بن عباس رضي الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ نماز قائم کرنے سے یہ مراد ہے کہ اس کے رکوع و سجود کو اچھی طرح ادا کرے ہمہ تن متوجہ رہے اور خشوع کے ساتھ پڑھے حضرت قتادہ رضي الله تعالى عنه سے بھی یہی نقل کیا گیا کہ نماز کا قائم کرنا اس کے اوقات کی حفاظت رکھنا - وضو کا آچهي طرح كرنا اور رکوع سجدے کا اچھی طرح ادا کرنا ہے - الله تعالى كے هاں تو إخلاص كي قيمت هے سو نماز ميں جس درجہ کا اخلاص ہو گا اسی درجہ کی مقبولیت ہو گی ایک حدیث میں حضور أكرم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ اﷲ تعالی ضعیف لوگوں کی برکت سے اس امت کی مدد فرماتے ہیں نیز ان کی دعا سے , ان کی نماز سے ان کے اخلاص سے 
 نماز کے بارے میں ﷲ جل شانه کا ارشاد ہے
فَوَیْلٌ لِلْمُصَلِّینَ 0 الَّذینَ هُمْ عَنْ صَلاتِهِمْ ساهُونَ 0 الَّذینَ هُمْ یُراءوُنَ0 
بڑی خرابی ہے ان لوگوں کے لئے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں جو ایسے ہیں کہ دکھلاوا کرتے ہیں

دوسری جگہ منافقین کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے
وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلَاةِ قَامُوا كُسَالَىٰ يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيلًا.0
اور جب نماز کو کھڑے ہوتے ہیں تو بہت کاہلی سے کھڑے ہوتے ہیں صرف لوگوں کو دکھلاتے ہیں اور اﷲ تعالی کا ذکر نہیں کرتے مگر بہت تھوڑا سا

چند انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کا ذکر فرمانے کے بعد ارشاد ہے
فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا 0
پس ان نبیوں کے بعد بعضے ایسے نا خلف پیدا ہوئے جنہوں نے نماز کو برباد کر دیا اور خواہشات نفسانیہ کے پیچھے پڑ گئے سو عنقریب آخرت میں خرابی دیکھیں گے

ایک جگہ ارشاد ربي ہے
وَمَا مَنَعَهُـمْ اَنْ تُقْبَلَ مِنْـهُـمْ نَفَقَاتُـهُـمْ اِلَّآ اَنَّـهُـمْ كَفَرُوْا بِاللّـٰهِ وَبِرَسُوْلِـهٖ وَلَا يَاْتُوْنَ الصَّلَاةَ اِلَّا وَهُـمْ كُسَالٰى وَلَا يُنْفِقُوْنَ اِلَّا وَهُـمْ كَارِهُوْنَ 0
اور ان کے خرچ کے قبول ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں ہوئی سوائے اس کے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے کفر کیا اور نماز میں سست ہو کر آتے ہیں اور ناخوش ہو کر خرچ کرتے ہیں۔

اچھی طرح سے نماز پڑھنے والوں کے بارے میں ارشاد خداوندي ہے ۔
بِسْمِ اللّـٰهِ الرَّحْـمٰنِ الرَّحِيْـمِ
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُـوْنَ (1)اَلَّـذِيْنَ هُـمْ فِىْ صَلَاتِـهِـمْ خَاشِعُوْنَ (2)وَالَّـذِيْنَ هُـمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ (3) وَالَّـذِيْنَ هُـمْ لِلزَّكَاةِ فَاعِلُوْنَ (4)وَالَّـذِيْنَ هُـمْ لِفُرُوْجِهِـمْ حَافِظُوْنَ (5) اِلَّا عَلٰٓى اَزْوَاجِهِـمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُـهُـمْ فَاِنَّـهُـمْ غَيْـرُ مَلُوْمِيْنَ (6)فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْعَادُوْنَ (7) وَالَّـذِيْنَ هُـمْ لِاَمَانَاتِـهِـمْ وَعَهْدِهِـمْ رَاعُوْنَ (8) وَالَّـذِيْنَ هُـمْ عَلٰى صَلَوَاتِـهِـمْ يُحَافِظُوْنَ (9)اُولٰٓئِكَ هُـمُ الْوَارِثُوْنَ (10) اَلَّـذِيْنَ يَرِثُـوْنَ الْفِرْدَوْسَۖ هُـمْ فِيْـهَا خَالِـدُوْنَ (11) (المؤمنون)
بے شک ایمان والے کامیاب ہو گئے۔ جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔ اور جو بے ہودہ باتو ں سے منہ موڑنے والے ہیں۔ اور جو زکوٰۃ دینے والے ہیں۔ اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ مگر اپنی بیویوں یا لونڈیوں پر اس لیے کہ ان میں کوئی الزام نہیں۔ پس جو شخص اس کے علاوہ طلب گار ہو تو وہی حد سے نکلنے والے ہیں۔ اور جو اپنی امانتوں اور اپنے وعدہ کا لحاظ رکھنے والے ہیں۔ اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔ وہی وارث ہیں۔ جو جنت الفردوس کے وارث ہوں گے، وہ اس میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے

ايك دوسري جگه ارشاد خداوندي هے
وَاسْتَعِيْنُـوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَاِنَّـهَا لَكَبِيْـرَةٌ اِلَّا عَلَى الْخَاشِعِيْنَ (45)اَلَّـذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّـهُـمْ مُّلَاقُوْا رَبِّـهِـمْ وَاَنَّـهُـمْ اِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ (46) (البقرة)
اور صبر کرنے اور نماز پڑھنے سے مدد لیا کرو، اور بے شک وہ (نماز) مشکل ہے مگر (سوائے) ان پر جو عاجزی کرنے والے ہیں۔جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں ضرور اپنے رب سے ملنا ہے اور ہمیں اس کے پاس لوٹ کر جانا ہے۔

ایسے ہی لوگوں کی تعریف میں ایک جگہ ارشاد خداوندی ہے:
فِیْ بُیُوتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنْ تُرْفَعَ وَیُذْکَرَ فِیْہَا اسْمُہٗ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیْہَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ رِجَالُ لَا تُلْہِیْہِمْ تِجَارَۃُ وَّلَا بَیْعُ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَاءِ الزَّکوٰۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیِہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ لِیَجْزِیَہُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَیَزِیْدَہُمْ مِنْ فَضْلِہٖ وَاللّٰہُ یَرْزُق منُ یشاُ بِغَیْرِ حِسَاب 
ایسے گھروں میں جن کے متعلق اﷲ جل شانہ نے حکم فرما دیا ہے کہ ان کا ادب کیا جائے ان کو بلند کیا جائے ان میں صبح شام ﷲ کی تسبیح کرتے ہیں ایسے لوگ جن کو ﷲ کی یاد سے اور نماز کے قائم کرنے سے اور زکوۃ کے دینے سے نہ تو تجارت غافل کرتی ہے نہ خرید و فروخت غفلت میں ڈالتی ہے وہ لوگ ایسے دن کی سختی سے ڈرتے ہیں جس دن دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہو جائیں گی ( یعنی قیامت کا دن اور وہ لوگ یہ سب کچھ اس لئے کرتے ہیں کہ اﷲ جل شانہ ان کے نیک اعمال کا بدلہ ان کو عطا فرماویں اور بدلہ سے بھی بہت زیادہ انعامات اپنے فصل سے عطا فرماویں اور اﷲ جل شانہ، تو جس کو چاہتے ہیں بے شمار عطا فرما دیتے ہیں ۔

دوسری جگہ ارشاد خداوندي هے :
وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ہَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَہُمُ الْجَاہِلُوْنَ قَالُوْ سَلَامَاً وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّہِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامَاً 
اور رحمن کے خاص بندے وہ ہیں جو چلتے ہیں زمین پر عاجزی سے اکڑ کر نہیں چلتے اور جب ان سے جاہل لوگ ( جہالت کی) بات کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ سلام اور یہ وہ لوگ ہیں جو رات بھر گزار دیتے ہیں اپنے رب کے لئے سجدے کرنے میں اور نماز میں کھڑے رہنے میں 
آگے ارشاد ہے
اُولٰئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْہَا تَحِیَّۃَ وَّ سَلَامَاً خَالِدِیْنَ فِیْہَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرَّا وَّمُقَامَاً 
یہی لوگ ہیں جن کو جنت کے بالا خانے بدلہ میں دئے جائیں گے اس لئے کہ انہوں نے صبر کیا اور جنت میں فرشتوں کی طرف سے دعا و سلام سے استقبال کیا جاوے گا اور اس جنت میں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے کیا ہی اچھا ٹھکانہ اور رہنے کی جگہ ہے

دوسری جگہ ارشاد ہے 
وَالْمَلٰئِکَۃُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْہِمْ مِنْ کُلِّ بَابٍ سَلَامُٗ عَلَیْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَی الدَّارِ
اور فرشتے ہر دروازہ سے داخل ہوں گے اور کہیں گے کہ تم پر سلام ( اور سلامتی) ہو اس وجہ سے کہ تم نے صبر کیا( یا دین پر مضبوط اور ثابت قدم رہے) پس کیا ہی اچھا انجام کار ٹھکانہ ہے

انہیں لوگوں کی تعریف دوسری جگہ ان الفاظ سے فرمائی گئی ہے
تَتَجَافَی جُنُوْبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ خَوْفَاً وَطَمَعَاً وَ مِمَّا رَزَقْنَاہُمْ یُنْفِقُوْنَ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسُٗ مَّا اُخْفِیَ لَہُمْ مِنْ قُرَّۃِ اَعْیُنٍ جَزَائً بِمَا کَانُوْ یَعْمَلُوْنَ 
وہ لوگ ایسے ہیں کہ رات کو ان کے پہلو ان کی خواب گاہوں اور بستروں سے علیحدہ رہتے ہیں ( کہ نماز پڑھتے رہتے ہیں اور) اپنے رب کو عذاب کے ڈر سے اور ثواب کی امید میں پکارتے رہتے ہیں اور ہماری عطا کی ہوئی چیزوں سے خرچ کرتے ہیں سوکوئی بھی نہیں جانتا کہ ایسے لوگوں کے لئے کیا کچھ آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان پردہ غیب میں موجود ہے جو بدلہ ہے ان کے نیک اعمال کا

انہیں لوگوں کی شان میں ہے
اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَعُیُوْنٍ اٰخِذِیْنَ مَآ اٰتَاہُمْ رَبَّہُمْ اِنَّہُمْ کَانُوْ قَبْلَ ذَلِکَ مُحْسِنِیْنَ کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ اللَّیْلِ مَا یَہْجَعُوْنَ وَبِالْاَسْحَارِ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ 
بے شک متقی لوگ جنتوں اور پانی کے چشموں کے درمیان میں ہوں گے اور ان کو ان کے رب اور مالک نے جو کچھ ثواب عطا فرمایا اس کو خوشی خوشی لے رہے ہوں گے اور کیوں نہ ہو کہ وہ لوگ اس سے پہلے اچھے کام کرنے والے تھے وہ لوگ رات کو بہت کم سوتے تھے اور اخیر شب میں استغفار کرنے والے تھے

ایک اور جگہ ارشاد خداوندی ہے 
اَمَّنْ ُهوَ قَانِتُ اٰنَآئَ اللَّیْلِ سَاجِدًا وَ قَائِمَاً یَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَ یَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ قُلْ ہَلْ یَسْتَوِیْ الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُولُو الْاَلْبَاب
کیا برابر ہو سکتا ہے بے دین اور وہ شخص جو عبادت کرنے والا ہو رات کے اوقات میں کبھی سجدہ کرنے والا ہو اور کبھی نیت باندھ کر کھڑا ہونے والا ہو آخرت سے ڈرتا ہو اور اپنے رب کی رحمت کا امیدوار ہو ( اچھا آپ ان سے یہ پوچھیں ) کہیں عالم اور جاہل برابر ہو سکتا ہے ( اور یہ ظاہر ہے کہ عالم اپنے رب کی عبادت کرے ہی گا اور جو ایسے کریم مولا کی عبادت نہ کرے وہ جاہل بلکہ اجہل ہے ہی) نصیحت وہی لوگ مانتے ہیں جو اہل عقل ہیں

ایک اور جگہ ارشاد خداوندی ہے 
اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ہَلُوعَاً اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعَاً وَ اِذَامَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعَا اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ الَّذِیْنَ ہُمْ عَلَی صَلٰوتِہِمْ دَائِمُوْنَ 
اس میں شک نہیں کہ انسان غیر مستقل مزاج پیدا ہوا ہے کہ جب کوئی تکلیف اس کو پہنچتی ہے تو بہت زیادہ گھبرا جاتا ہے اور جب کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے کہ دوسرے کو یہ بھلائی نہ پہنچے مگر(ہاں ) وہ نمازی جو اپنی نماز کے ہمیشہ پابند رہتے ہیں اور سکون و وقار سے پڑھنے والے ہیں

ایک اور جگہ ارشاد خداوندی ہے 
وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلَی صَلوٰتِہِمْ یُحَافِظُوْنَ اُولٰئِکَ فِیْ جَنّٰتٍ مُکْرَمُون
اور وہ لوگ نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کا جنتوں میں اکرام کیا جائے گا 
 ان کے علاوہ اور بھی بہت سے آیات مباركه ہیں جن میں نماز کا حکم اور نمازیوں کے فضائل ان کے اعزاز و اکرام ذکر فرمائے گئے ہیں اور حقیقت میں نماز ایسی ہی دولت ہے اسی وجہ سے دو جہاں کے سردار فخر رسل حضور صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے اسی وجہ سے حضرت ابراہیم عليه السلام دعا فرماتے ہیں
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۚ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ 0 
اے رب مجھ کو نماز کا خاص اہتمام کرنے والا بنا دے اور میری اولاد میں سے بھی ایسے لوگ پیدا فرما جو اہتمام کرنے والے ہوں اے ہمارے رب میری یہ دعا قبول فرمالے 

خود حق سبحانہ و تقدس اپنے محبوب سید المرسلین حضرت محمد صلى الله عليه وآله وسلم کو حکم فرماتے ہیں
وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا لَا نَسْأَلُكَ رِزْقًا نَحْنُ نَرْزُقُكَ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوَى0
( ترجمہ )اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم کرتے رہئے اور خود بھی اس کا اہتمام کیجئے ہم آپ سے روزی (کموانا) نہیں چاہتے روزی تو آپ کو ہم دیں گے اور بہترین انجام تو پرہیز گاری کا ہے
نماز ميں خشوع وخضوع كے متعلق رسول كريم صلى الله عليه وآله سلم كے كچهـ ارشادات ملاحظه فرمائيں : 1۔ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم كا راشاد ہے کہ آدمی نماز سے فارغ ہوتا ہے اور اس کے لئے ثواب کا دسواں حصہ لکھا جاتا ہے اسی طرح بعض کیلئے نواں حصہ بعض کیلئے آٹھواں ساتواں چھٹا پانچواں چوتھائی تہائی آدھا حصہ لکھا جاتا ہے۔ (رواہ ابوداؤد ٔوالنسائی وابن حبان ٔ) ف- احادیث میں آیا ہے کہ لوگوں میں سے سب سے پہلے خشوع اٹھایا جائے گا کہ پوری جماعت میں ایک شخص بھی خشوع سے پڑھنے والا نہ ملے گا ۔
2۔ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ جو شخص نمازوں کو اپنے وقت پر پڑھے وضو بھی اچھی طرح کرے خشوع و خضوع سے بھی پڑھے کھڑا بھی پورے وقار سے ہو پھر اسی طرح رکوع سجدہ بھی اچھی طرح سے اطمینان سے کرے غرض ہر چیز کو اچھی طرح ادا کرے تو وہ نماز نہایت روشن جمکدار بن کر جاتی ہے اور نمازی کودعا دیتی ہے کہ اﷲ تعالی شانہ تیری بھی ایسی ہی حفاظت کرے جیسی تو نے میری حفاظت کی اور جو شخص نمازکو بری طرح پڑھے وقت کو بھی ٹال دے وضو بھی آچھی طرح نہ کرے رکوع سجدہ بھی اچھی طرح نہ کرے تو وہ نماز بری صورت سے سیاہ رنگ میں بد دعا دیتی ہوئی جاتی ہے کہ اﷲ تعالی تجھے بھی ایسا ہی برباد کرے جیسا تو نے مجھے ضائع کیا اس کے بعد وہ نماز پرانے کپڑے کی طرح سے لپیٹ کر نمازی کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔ (رواہ الطبرانی) ف: ۔ حضرت عائشہ رضي الله تعالى عنها فرماتی ہیں میں نے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم سے سنا کہ جو قیامت کے دن پانچوں نمازیں ایسی لے کر حاضر ہو کہ ان کے اوقات کی بھی حفاظت کرتا رہا ہو اور وضو کا بھی اہتمام کرتا رہا ہو اور ان نمازوں کو خشوع خضوع سے پڑھتا رہا ہو تو حق تعالیٰ جل شانہ نے عہد فر ما لیا ہے کہ اس کو عذاب نہیں کیا جائے گا اور جو ایسی نمازیں نہ لے کر حاضر ہوا اس کے لئے کو ئی وعدہ نہیں ہے چاہے اپنی رحمت سے معاف فرمادیں چاہے عذاب دیں ایک اور حدیث میں ہے کہ ایک مرتبہ حضور اقدس صلى الله عليه وآله وسلم صحابہ كرام رضوان الله عليهم سے ارشاد فرماياا کہ حق تعالیٰ جل شانہ اپنی عزت اور اپنی بڑائی کی قسم کھا کر فرماتے ہیں کہ جو شخص ان نمازوں کو اوقات کی پابندی کے ساتھ پڑھتا رہے گا میں اس کو جنت میں داخل کروں گا اور جو پابندی نہ کرے گا تو میرا دل چاہے گا رحمت سے بخش دوں گا ورنہ عذاب دوں گا ۔
3۔ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت میں آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرص نماز کا حساب کیا جائے گا اگر نماز اچھی نکل آئی تو وہ شخص کامیاب ہو گا اور بامراد اور اگر نماز بیکار ثابت ہوئی تو وہ نامراد خسارہ میں ہو گا اور اگر کجھ نماز میں کمی پائی گئی تو ارشاد خداوندی ہو گا کہ دیکھو اس بندہ کے پاس کچھ نفلیں بھی ہیں جن سے فرضوں کو پورا کر دیا جائے اگر نکل آئیں تو ان سے فرضوں کی تکمیل کر دی جائے گی اس کے بعد پھراسی طرح باقی اعمال روزہ زکوۃ وغیرہ کا حساب ہو گا ۔ (رواہ الترمذی وابن ماجہ والحاکم) ف : ایک دوسری حدیث میں بهي یہ مضمون آیا ہے ارشاد ہے کہ اﷲ تعالی نے عبادات میں سب سے پہلے نماز کو فرص فرمایا ہے اور سب سے پہلے اعمال میں سے نماز ہی پیش کی جاتی ہے اور سب سے پہلے قیامت میں نماز ہی کا حساب ہو گا اگر فرض نمازوں میں کچھ کمی رہ گئی تو نفلوں سے اس کو پورا کیا جائے گا اور پھر اس کے بعد اسی طرح روزوں کا حساب کیا جائے گا اور فرص روزوں میں جو کمی ہو گی وہ نفل روزوں سے پوری کر دی جائے گی اور پھر زکوۃ کا حساب اسی طریقہ سے ہو گا ان سب چیزروں میں نوافل کو ملا کر بھی اگر نیکیوں کا پلہ بھاری ہو گیا تو وہ شخص خوشی خوشی جنت میں داخل ہو جائے گا ورنہ جہنم میں پھینک دیا جائے گا خود نبی اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کا معمول یہی تھا کہ جو شخص مسلمان ہوتا سب سے اول اس کو نماز سکھائی جاتی ۔
4- رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ قیامت میں سب سے پہلے نماز کا حساب کیا جائے گا اگر وہ اچھی اور پوری نکل آئی تو باقی اعمال بھی پورے اتریں گے اور اگر وہ خراب ہو گئی تو باقی اعمال بھی خراب نکلیں گے۔ حضرت عمر رضي الله تعالى عنه نے اپنے زمانہ خلافت میں ایک اعلان سب جگہ کے حکام کے پاس بھیجا تھا کہ سب سے زیادہ مہتمم بالشان چیز میرے نزدیک نماز ہے جو شخص اس کی حفاظت اور اس کا اہتمام کرے گا وہ دین کے اور اجزاء کا بھی اہتمام کر سکتا ہے اور جو اس کو ضائع کر دے گا وہ دین کے اور اجزاء کو زیادہ برباد کر دے گا ۔ (رواہ الطبرانی) ف: رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کے اس پاک ارشاد اور حضرت عمر رضي الله تعالى عنه کے اس اعلان کا منشاء بظاہر یہ ہے جو دوسری حدیث میں آیا ہے کہ شیطان مسلمان سے اس وقت تک ڈرتا رہتا ہے جب تک وہ نماز کا پابند اور اس کو اچھی طرح ادا کرتا رہتا ہے کیونکہ خوف کی وجہ سے اس کو زیادہ جرأت نہیں ہوتی لیکن جب وہ نماز کو ضائع کر دیتا ہے تو اس کی جرات بہت بڑھ جاتی ہے اور اس آدمی کے گمراہ کرنیکی امنگ پیدا ہو جاتی ہے اورپھربہت سے مہلکات اور بڑے بڑے گناہوں میں اس کو مبتلا کر دیتا ہے اور یہی مطلب ہے حق سبحانہ و تقدس کے ارشاد ان الصلوۃ تنہی عن الفحشاء و المنکر کا
5- رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کا اِرشاد ہے کہ بدترین چوری کرنے والا شخص وہ ہے جو نماز میں سے بھی چوری کرلے۔ صحابہ كرام رضوان الله عليهم نے عرض کیا یا رسُوْلَ اللہ صلى الله عليه وآله وسلم نماز میں سے کس طرح چوری کرے گا۔ آپ صلى الله عليه وآله وسلم نے اِرشاد فرمایا کہ اس کا رکوع اور سجدہ اچھی طرح سے نہ کرے۔ (رواہ احمد و الطبرانی)
6- حضرت عائشہ صديقه رضي الله تعالى عنها کی والدہ ام رومان رضي الله تعالى عنها فرماتی ہیں کہ میں ایک مرتبہ نماز پڑھ رہی تھی نماز میں ادھر ادھر جھکنے لگی حضرت ابو بکر صدیق رضي الله تعالى عنه نے دیکھ لیا تو مجھے اس زور سے ڈانٹا کہ میں ( ڈر کی وجہ سے ) نماز توٹنے کے قریب ہو گئی پھر ارشاد فرمایا کہ میں نے حضور آكرم صلى الله عليه وآله وسلم سے سنا ہے کہ جب کوئی شخص نماز میں کھڑا ہو تو اپنے بدن کو بالکل سکون سے رکھے یہود کی طرح ہلے نہیں بدن کے تمام اعضاء کا نماز میں بالکل سکون سے رہنا نماز کے پورا ہونیکا جزو ہے ۔ ( الحاكم والترمذی ) ف: حضرت ابوبکر صديق رضي الله تعالى عنه فرماتے ہیں کہ رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایا کہ نفاق کے خشوع سے اﷲ ہی سے پناہ مانگو صحابہ كرام رضوان الله عليهم نے عرض کیا کہ حضور أكرم صلى الله عليه وآله وسلم نفاق کا خشوع کیا چیز ہے ارشاد فرمایا کہ ظاہر میں تو سکون ہو اور دل میں نفاق ہو
7- رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم سے کسی نے حق تعالیٰ جل شانہ کے ارشاد ان الصلوۃ تنہی الخ ( بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی سے اور نا شائستہ حرکتوں سے ) کے متعلق دریافت کیا تو رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کی نماز ایسی نہ ہو اور اس کو بے حیائی اور ناشائستہ حرکتوں سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں(رواه حاتم) ۔ ف : حضرت ابن عباس رضي الله تعالى عنه حضور اقدس صلى الله عليه وآله وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ جو نماز بری باتوں اور نامناسب حرکتوں سے نہ روکے وہ نماز بجائے اﷲ کے قرب کے اﷲ سے دوری پیدا کرتی ہے حضرت حسن رضي الله تعالى عنه بھی رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم سے یہی نقل کرتے ہیں کہ جس شخص کی نماز اس کو بری باتوں سے نہ روکے وہ نماز ہی نہیں بلكه اس نماز کی وجہ سے اﷲ سے دوری پیدا ہوتی ہے رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کا ارشاد ہے کہ افضل نماز وہ ہے جس میں لمبی لمبی رکعتیں ہوں مجاہد کہتے ہین کہ حق تعالیٰ جل شانہ کے ارشاد قومو ﷲ قانتین ( اور نماز میں ) کھڑے رہو اﷲ کے سامنے مؤدب اس آیت میں رکوع بھی داخل ہے اور خشوع بھی اور لمبی رکعت ہونا بھی اور آنکھوں کو پست کرنا بازوؤں کو جھکانا ( یعنی اکڑ کے کھڑا نہ ہونا) اور اﷲ سے ڈرنا بھی شامل ہے کہ لفظ قنوت میں جس کااس آیت میں حکم دیا گیا یہ سب چیزیں داخل ہیں رسول كريم صلى الله عليه وآله وسلم کے صحابہ كرام میں سے جب کوئی شخص نماز کو کھڑا ہوتا تھا تو اﷲ تعالی سے ڈرتا تھا اس بات سے کہ ادھر ادھر دیکھے یا ( سجدہ میں جاتے ہوئے ) کنکریوں کو الٹ پلٹ کرے ( عرب میں صفوں کی جگہ کنکریاں بچھائی جاتی ہیں ) یا کسی لغو چیز میں مشغول ہو یا دل میں کسی دنیاوی چیز کا خیال لائے ہاں بھول کے خیال آ گیا ہو تو دوسری بات ہے ۔ (اخرجہ البیہقی وغيرهما ) نماز حقیقت میں اﷲ جل شانہ کے ساتھ مناجات کرنا اور ہم کلام ہونا ہے جو غفلت کے ساتھ ہو ہی نہیں سکتا نماز کے علاوہ اور عبادتیں عفلت سے بھی ہو سکتی ہیں مثلاً زکوۃ ہے کہ اس کی حقیقت مال کا خرچ کرنا ہے یہ خود ہی نفس کو اتنا شاق ہے کہ اگر غفلت کے ساتھ ہو تب بھی نفس کو شاق گذرے گا اسی طرح روزہ دن بھر کا بھوکا پیاسا رہنا صحبت کی لذت سے رکنا کہ یہ سب چیزیں نفس کو مغلوب کرنے والی ہیں غفلت سے بھی اگر متحقق ہوں تو نفس کی شدت اور تیزی پر اثر پڑے گا لیکن نماز کا معظم حصہ ذکر ہے قرات قرآن ہے یہ چیزیں اگر غفلت کی حالت میں ہوں تو مناجات یا کلام نہیں ہیں ایسی ہی ہیں جیسے کہ بخار کی حالت میں ہذیان ہوتی ہے کہ جو چیز دل میں ہوتی ہے وہ زبان پر ایسے اوقات میں جاری ہو جاتی ہے نہ اس میں کوئی مشقت ہوتی ہے نہ کوئی نفع اسی طرح چونکہ نماز کی عادت پڑ گئی ہے اس لئے اگر توجہ نہ ہو تو عادت کے موافق بلا سوچے سمجھے زبان سے الفاظ نکلتے رہیں گے جیسا کہ سونے کی حالت میں اکثر باتیں زبان سے نکلتی ہیں کہ نہ سننے والا اس کو اپنے سے کلام سمجھتا ہے نہ اس کا کوئی فائدہ ہے اسی طرح حق تعالیٰ جل شانہ بھی ایسی نماز کی طرف التفات اور توجہ نہیں فرماتے جو بلاارادہ کے ہو اس لئے نہایت اہم ہے کہ نماز اپنی وسعت و ہمت کے موافق پوری توجہ سے پڑھی جائے یہ امر بهي نہایت ضروری ہے کہ اگر في الوقت خشوع اور خضوع پيدا نه هوا هو اور وه کیفیات جو پچھلوں کی معلوم ہوئی ہیں حاصل نہ بھی ہوں تب بھی نماز كو ترك نه كرے بلكه جس حال سے بھی ممکن ہو ضرور پڑھی جائے یہ بھی شیطان کاایک سخت ترین مکر ہو تا ہے وہ یہ سمجھائے کہ بری طرح پڑھنے سے تو نہ پڑھنا ہی اچھا ہے یہ غلط ہے نہ پڑھنے سے بری طرح کا پڑھنا ہی بہتر ہے اس لئے کہ نہ پڑھنے کا جو عذاب ہے وہ نہایت ہی سخت ہے حتیٰ کہ علماء کی ایک جماعت نے اس شخص کے کفر کا فتوی دیا ہے جو جان بوجھ کر نماز چھوڑ دے ۔البتہ اس کی کوشش ضرور ہونا چاہئے کہ نماز کا جو حق ہے اور اپنے اکابر اس کے مطابق پڑھ کر دکھا گئے ہیں حق تعالیٰ جل شانہ اپنے لطف سے اس کی توفیق عطا فرمائیں الله تعالى سے دعا هے كه وه رحيم وكريم ذات هم سبكو خشوع وخضوع سے نماز پڑهنے والا بنا دے (آمين ثم آمين)


Share: