عہدِ نزولِ قرآن میں قبائل اور برادریوں کی عصبیتیں بہت شدید تھیں کسی قبیلے کو اشرف تو کسی کو ارذل سمجھا جاتا تھا.
اسی تناظر میں ایک عربی شاعر کہتا ہے :
فَغُضِّ الطَّرْفَ اِنَّکَ مِنْ نُمَیْرٍ
فَلَا کَعْباً بَلَغْتَ وَ لَا کِلَابَا
(نگاہ جھکا کر رکھو، تمھارا تعلق قبیلہ نمیر سے ہے
قبیلہ کعب اور قبیلہ کلاب سے تمھاری کیا نسبت)
اسلام نے ان عصبیتوں کو مٹایا چنانچہ ارشاد الہی ھے
يَآ اَيُّـهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِّنْ ذَكَرٍ وَّاُنْثٰى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ۚ اِنَّ اَكْـرَمَكُمْ عِنْدَ اللّـٰهِ اَتْقَاكُمْ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ عَلِيْـمٌ خَبِيْـرٌ
اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک ہی مرد اور عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہارے خاندان اور قومیں جو بنائی ہیں تاکہ تمہیں آپس میں پہچان ہو، بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے، بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا خبردار ہے۔
قرآن مجید میں کہا گیا کہ قبائل اور برادریوں کی نسبتیں محض تعارف کا ذریعہ تو ہیں لیکن اللہ تعالٰی کے نزدیک سب سے زیادہ معزز وہی ہے جو تمھارے اندر سب سے زیادہ پرہیزگار ہے ۔
سو يه کہ نسبتیں قوموں کی، نسلوں کی، برادریوں کی، یا علاقوں کی، یہ کسی انسان کے اشرف یا ارذل ہونے کی پہچان نہیں ہیں ، انسان کی اصل پہچان اس کے علم ، عمل ، کردار، اخلاق اور تقوی سے ہوتی ہے “
اس آیت مبارکہ میں قومی اور نسلی امتیازات پر ضرب لگائی گئی ہے کیونکہ یہی امتیازات دنیا میں عالمگیر فسادات کے موجب ہوتے ہیں۔ قوموں اور قبیلوں اور خاندانوں کا اپنے شرف پر فخر و غرور، اور دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنا، اور اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے دوسروں کو گرانا، ان اہم اسباب میں سے ہے جن کی بدولت دنیا ظلم وستم سے بھر گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مختصر سی آیت نازل فرما کر اس برائی کی جڑ کاٹ دی ہے کہ تمام انسان ایک ہی اصل سے پیدا ہوئے ہیں اور قوموں اور قبیلوں میں ان کا تقسیم ہونا تعارف کے لیے ہے نہ کہ تفاخر کے لیے، اور ایک انسان پر دوسرے انسان کی فوقیت کے لیے اخلاقی فضیلت کے سوا اور کوئی جائز بنیاد نہیں ہے
اس آیت کریمہ میں ایک بڑی اور عالمگیر گمراہی کی اصلاح کی گئی ہے جس سے دنیا میں ہمیشہ گمراہی پھیلی ہے اور جس سے ظلم و زیادتی کی جڑیں مضبوط ہوئی ہیں۔ یعنی نسلی، قومی، وطنی، لسانی اور رنگ کا تعصب۔ قدیم زمانے سے انسانوں نے انسانیت کو چھوڑ کر اپنے اردگرد کچھ دائرے کھینچے ہیں جن کے اندر بسنے والوں کو اس نے اپنا اور باہر والوں کو بیگانہ سمجھا ہے۔ یہ دائرے کسی عقلی یا اخلاقی بنیاد پر نہیں بلکہ اتفاقیہ پیدائش کی بنیاد پر کھینچے گئے ہیں۔ مثلا، ایک قبیلے یا خاندان میں پیدا ہونا۔ کسی خاص خطہ زمین پر پیدا ہونا، کوئی خاص زبان بولنا، کسی خاص رنگ و نسل سے متعلق ہونا وغیرہ۔ پھر ان بنیادوں پر اپنے اور غیر کی جو تمیز قائم کی گئی اگر اس میں صرف یہ ہوتا کہ اپنوں سے نسبتاً زیادہ محبت ہوتی، ان سے زیادہ ہمدردی ہوتی، ان سے زیادہ حسن سلوک کیا جاتا تو بات شاید بری نہ تھی۔ مگر اس تمیز نے دوسروں سے نفرت، عداوت، تحقیرو تذلیل اور ظلم و ستم کی بدترین صورتیں اختیار کیں۔ اس کے لئے فلسفے گھڑے گئے، جعلی مذہب ایجاد ہوئے، قوانین بنائے گئے، اخلاقی اصول وضع کئے گئے، قوموں اور سلطنتوں کی اس پر بنیاد رکھی گئی، صدیوں تک اس پر عمل ہوا اور ہو رہا ہے۔ چنانچہ یہودیوں نے اسی بناء پر بنی اسرائیل کو خدا کی برگزیدہ مخلوق ٹھہرایا۔ اور مذہبی معاملات تک میں دوسری قوموں کو اپنی قوم سے فروتر رکھا۔ ہندوؤں کے ہاں درم آشرم کو اسی خیال نے جنم دیا، جس کی رو سے برہمنوں کو باقی قوموں پر برتری حاصل ہوئی۔ اونچی ذا ت والوں کے مقابلے میں تمام انسان ہیچ اور ناپاک ٹھہرائے گئے۔ شودروں کو انتہائی ذلت کے گڑھے میں پھینک دیا گیا۔ کالے اور گورے کی تمیز نے افریقہ اور امریکہ میں سیاہ فام لوگوں پر جو مظالم ڈھائے ہیں، ان کو تاریخ کے اوراق میں تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ آج اس بیسویں صدی میں ہر شخص ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے۔ یورپ والوں نے امریکہ میں ریڈ انڈین نسل کے لوگوں سے جو سلوک کیا اور ایشیا و افریقہ کے اکثر ممالک پر تسلط قائم کر کے ان پر جو مظالم ڈھائے اور جس طرح ان کے مادی وسائل کا استحصال کیا اور سامراج کا چھوٹی قوموں سے جو ظالمانہ برتاؤ ہمیشہ رہا ہے، اس سے کون واقف نہیں؟۔ فلسطینی مسلمانوں پر اور ہندوستان میں اقلیتوں پر جو مشق ستم جاری ہے اس سب میں ایک ہی سبب کار فرما ہے کہ اپنی قوم کے سوا سب کا مال، جان اور عزت مباح ہے، جیسے چاہو پامال کرو۔ اپنی قوم کے سوا سب کو غلام بنا لو، ضرورت محسوس ہو تو نیست و نابود کر دو۔ دنیا میں پچھلی دو عظیم جنگیں ہو چکی ہیں۔ ان کے پیچھے بھی نسلی برتری کا یہی تصور موجود تھا۔ ا ن حقائق کو نظر میں رکھ کر اگر اس آیت کریمہ پر غور کیا جائے تو انسان بآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ وہ کتنی بڑی گمراہی ہے جس کی اصلاح کے لئے قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی۔ اس میں تین نہایت اہم اصولی باتیں بیان فرمائی گئی ہیں۔
اول یہ کہ ہم نے تمام انسانوں کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا۔ ان تمام قوموں اور نسلوں کی ابتداء صرف ایک آدم اور حواء سے ہوئی ہے۔ اس تمام سلسلہ میں کوئی بنیاد اس اونچ نیچ کے لئے نہیں جس میں لوگ مبتلا ہیں۔ ایک خدا پیدا کرنے والا۔ ایک مادہ منویہ سے سب کی پیدائش، ایک طریقہ تخلیق کے ماتحت تمام انسان پیدا کئے گئے۔
دوم یہ کہ اپنی اصل کے اعتبار سے ایک ہونے کے باوجود قوموں اور قبیلوں میں تقسیم ہو جانا فطری امر تھا۔ ظاہر ہے کہ پورے روئے زمین کے انسانوں کا ایک ہی خاندان یا ایک ہی علاقہ یا ایک جیسا رنگ یا ایک ہی زبان تو نہ ہونی تھی۔ نسل بڑھنے کے ساتھ ناگزیر تھا کہ خاندان بڑھیں۔ مختلف علاقوں میں آباد ہوں۔ خاندانوں سے قومیں بنیں اور کسب معاش کے لئے مختلف پیشے اختیار کریں اور تمدن کی بنیاد رکھیں۔ ان فطری اختلافات کو تو ظاہر ہونا ہی تھا، اس میں کوئی خاندانی خرابی نہ تھی بلکہ ان سے قوموں میں اور انسانوں کے مختلف طبقات میں تعارف پیدا ہوا جو ناگزیر تھا۔ مگر اس فطری فرق و امتیاز کا ہر گز منشاء یہ نہ تھا کہ اس امتیاز پر انسانوں میں اونچ نیچ، شریف کمین، برتر اور کمتر اور چھوٹے بڑے کے امتیازات قائم کئے جائیں۔ ایک نسل دوسری نسل پر اپنی فضیلت جتائے۔ ایک رنگ کے لوگ دوسرے رنگ کے لوگوں کی تحقیر کریں اور ایک قوم دوسری قوم پر اپنا تفوق جمائے اور انسانی حقوق میں ایک گروہ کو دوسرے پر ترجیح حاصل ہو۔ خالق نے مختلف اقوام اس لئے بنائیں کہ باہمی تعارف و تعاون ہو۔ ایک دوسرے سے محبت و مودت ہو اور لوگ ایک دوسرے کے معاون و مددگار ہوں۔
سوم کسی قوم اور برادری میں پیدا ہونا کسی کی بزرگی یا سعادت کی بنیاد نہیں۔ بزرگی و شرافت کی اصل بنیاد اخلاقی فضیلت ہے۔ کسی شخص کا کسی قوم میں پیدا ہونا اس کے لئے اتفاقی امر ہے۔ اس کا اپنا اس میں کوئی اختیار نہیں لہٰذا شرف بزرگی کا اصل سبب قوم و قبیلہ سے متعلق ہونا نہیں بلکہ اس کی ذاتی اخلاقی خوبیاں ہیں۔ جو شخص خدا سے زیادہ ڈرتا ہے، اس کے احکام کا پابند ہے، اس کی رضا کا متلاشی ہے، وہ عظیم ہے، شریف ہے، بزرگ ہے اور قابل تکریم و تعظیم ہے، اور جو شخص خدا کا باغی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گستاخ ہے وہ ذلیل ہے، نیچ ہے، حقیر ہے۔
_ارشاداتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم_
یہی حقائق جو قرآن کی مختصر سی آیت مبارکہ میں بیان فرمائے گئے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو مختلف خطبات میں مختلف مواقع پر تفصیلاً بیان فرمایا ہے۔ فتح مکہ کے موقع پر فرمایا۔
ألحمد ﷲ الذی أذهب عنکم عيبة الجاهلية و تکبرها. بأباها الناس رجلان برتقی کريم صلی الله عليه وآله وسلم علی اﷲ وفاجر شقی هين علی اﷲ، والناس بنو آدم و خلق اﷲ آدم من تراب
(سيوطی، الدر المنثور)
’’شکر ہے اس خدا کا جس نے تم سے جاہلیت کا عیب اور غرور دور فرمایا، لوگو! تمام انسان صرف دو قسم کے ہیں۔ ایک نیک، پرہیزگار، اللہ کی نگاہ میں عزت والا۔ دوسرا فاجر بدبخت جو اللہ کی نگاہ میں ذلیل ہوتا ہے۔ تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور آدم کو اللہ نے مٹی سے بنایا‘‘۔
حجۃ الوادع کے موقع پر فرمایا :
يٰا أيّها الناس ان ربکم واحد لا فضل لعربی علی عجمی ولا لعجمی علی عربی ولا لأسود علی أحمر ولا لا حمر علی أسود إلا بالتقوی إن أکر مکم عند اﷲ أتقٰــکم ألا هل بلغت؟ قالوا بلی يا رسول اﷲ قال فليبلغ الشاهد الغائب.
بيهقی، شعب الايمان
’’لوگو! سن لو، تمہارا خدا ایک ہے کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر، کسی کالے کو سرخ اور کسی سرخ کو کالے پر تقوی کے سوا کوئی فضیلت نہیں۔ بے شک تم میں اللہ کے نزدیک معزز وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔سنو! کیا میں نے تمہیں بات پہنچا دی؟ لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ! ہاں! فرمایا تو جو آدمی یہاں موجود ہے وہ ان لوگوں تک یہ بات پہنچا دے جو موجود نہیں‘‘۔
ایک حدیث میں ہے :
إن اﷲ لا ينظر إلی صورکم وأموالکم ولکن ينظر إلی قلوبکم و أعما لکم.
ابن ماجه ، السنن
’’بے شک اللہ تمہاری صورتیں اور تمہارے مال نہیں دیکھتا، بلکہ تمہارے دل اور تمہارے عمل دیکھتا ہے‘‘۔
یہ تعلیمات صرف الفاظ کی حد تک ہی محدود نہیں بلکہ اسلام نے ان کے مطابق اہل ایمان کی ایک عالمگیر برادری عملاً قائم کر کے دکھا دی ہے۔ جس میں رنگ، نسل، زبان، وطن اور قومیت کی کوئی تمیز نہیں۔ جس میں چھوت چھات اور تفریق و تعصب کا کوئی تصور موجود نہیں۔ جس میں شریک ہونے والے تمام انسان خواہ کسی قوم، نسل، وطن، رنگ اور زبان سے تعلق رکھنے والے ہوں، بالکل مساویانہ حقوق کے ساتھ شامل ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں۔ اسلام کے مخالفین تک کو یہ تسلیم کرنا پڑا کہ انسانی مساوات اور وحدت کے اصولوں کو جس طرح کامیابی کے ساتھ مسلم معاشرے میں عملی صورت دی گئی ہے، اس کی کوئی نظیر دنیا کے کسی ملک، کسی دین اور کسی نظام میں کہیں نہیں پائی گئی۔ صرف اسلام ہی وہ دین ہے جس نے دنیا کے کونے کونے میں پھیلے ہوئے مختلف قبیلوں اور قوموں کو ملا کر ایک امت بنا دیا ہے۔
اس سلسلہ میں اسلامی نظام معاشرت میں بیاہ شادی کے وقت کفو کا حکم دیا گیا ہے اس سے بعض لوگوں کو یہ وہم ہوتا ہے کہ اسلام میں بعض قوم قبیلے شریف اور کچھ رذیل ہوتے ہیں حالانکہ یہ بات غلط ہے۔ اسلام میں ایک مسلمان عورت کا نکاح ہر مسلمان سے ان شرائط کے ساتھ ہو سکتا ہے جو شریعت میں بیان کر دی گئیں ہیں۔ اس میں کہیں بھی ایسا کوئی حکم نہیں کہ جس سے ایک قوم کے مرد کا نکاح دوسری قوم کی عورت سے مخصوص قومی اختلاف کی وجہ سے ناجائز ہو جائے۔ البتہ میاں بیوی میں عمر، تعلیم، شکل و شباہت، سماجی و معاشی مناسبت وغیرہ کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔ جس کے بغیر ظاہر ہے کہ زوجین میں اتفاق اور نبھا مشکل ہوتا ہے۔ اس مناسبت کا خیال رکھنا ہرگز ذات پات کے وہ بندھن نہیں، جن میں مذکورہ بالا خرابیوں کی بھر مار ہوتی ہے۔ اللہ تعاليٰ ہم سب کو اسلامی بھائی چارہ مضبوط کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین یا رب العالمین