غیبت ایک سنگین گناہ


امام نووی رحمہ اللہ علیہ نے ان گناہوں کا ذکر فرمایا ھے جو کہ زبان سے صادر ہوتے ہیں۔ ان میں سے پہلا گناہ جس کا رواج بہت زیادہ ہو چکا ہے اور جس کو کلمہ پڑھنے والا مسلمان شاید گناہ سمجھتا ہی نہیں وہ ہے ’’غیبت کا گناہ‘‘ یہ ایسا گناہ ہے اور ایسی مصیبت ہے جو ہماری مجلسوں پر اور ہمارے معاشرے پر چھا گئی ہے۔ کوئی محفل اس سے خالی نہیں۔ حضور اکرمﷺ نے اس پر بہت سخت وعیدیں ذکر فرمائی ہیں اور قرآن کریم نے غیبت کے لیے اتنے سخت الفاظ استعمال کیے ہیں کہ شاید کسی اور گناہ کے لیے اتنے سخت الفاظ استعمال نہیں کیے ھوں چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:

وَلا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضاً أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتاً فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ۔ (حجرات )

اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کیا کرو۔ کیا پسند کرتا ہے تم میں سے کوئی شخص کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟ تم اسے تو مکروہ سمجھتے ہو۔ اور ڈرتے رہا کرو اللہ سے، بے شک اللہ تعالی بہت توبہ قبول کرنے والا ہمیشہ رحم کرنے والا ہے۔

یہ آیت کریمہ اس پرسکون اور رحم دل معاشرہ میں شخصی عزت نفس، بزرگی اور آزادی کے ارد گرد ایک دیوار قائم کرتی ہے اور ساتھ ساتھ موثر انداز میں ہمیں یہ درس بھی دیتی ہے کہ ہم نے اپنے شعور اور ضمیر کو کیسے پاک کرنا ہے۔ بے شک لوگوں کی آزادی اور عزت نفس کی پامالی کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہے۔۔۔۔

    قرآن کریم نے غیبت سے منع کیا اور ہمارے سامنے ایک ایسی چیز کا تصور پیش کیا جس کے تصور سے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک ایسے بھائی کا تصور پیش کیا جو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہا ہے۔۔۔۔


غیبت کی تعریف

حدیث شریف میں ہے کہ حضور اکرمﷺ سے ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: یا رسول اللہ! غیبت کیا ہوتی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اپنے بھائی کو اس کی غیر موجودگی میں ایسے انداز میں یاد کرنا جس کو وہ ناپسند کرتا ہو، یعنی اگر اس کو پتہ چلے کہ میرا ذکر اس مجلس میں اس طرح کیا گیا تو اس کو تکلیف پہنچے اور اس کوبرا سمجھے تو یہ غیبت ہے۔ پھر صحابی رضی اللہ عنہ نے سوال کیا: اگر وہ خرابی یا عیب واقعتا میرے بھائی میں موجود ہو جو میں کہہ رہا ہوں؟ آپ نے فرمایا: وہ خرابی، برائی یا عیب تیرے بھائی میں پایا جاتا ہو تب ہی تو غیبت ہے اگر نہیں پایا جاتا تو بہتان ہے۔ اس کا گناہ غیبت سے بھی زیادہ ہے۔ (ابو دائود )

ذرا اپنی محفلوں، مجلسوں پر نظر ڈالیے! کس قدر اس گناہ کا رواج ہو چکا ہے اور ہم دن رات اس گناہ میں مبتلا ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین

بعض لوگ بڑے بہادر بنتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بات تو میں اس کے منہ پر بھی کہہ سکتا ہوں۔ بات اس کے منہ پر کہو یا نہ کہو ہر حالت میں غیبت ہے اور گناہ  کبیرہ ہے۔ غیبت کی تعریف سرکار دوعالم ﷺ نے کردی ہے ۔ اس کے سامنے اپنے فاسد خیالات بیان نہیں کرنے چاہئیں ورنہ کفر کا خطرہ ہے۔

غیبت ایسا گناہ کبیرہ ہے جیسے ڈاکہ ڈالنا، بدکاری کرنا، بہتان لگانا، داڑھی منڈانا وغیرہ۔

علامہ راغب اصفہانی [قرآن مجید کی ڈکشنری مرتب کرنے والے ایک بڑے عالم] المفردات میں غیبت کی تعریف کرتے ہوئے رقم طراز ہیں کہ غیبت یہ ہے کہ ایک آدمی بلا ضرورت دوسرے شخص کا وہ عیب بیان کرے جو اس میں ہو۔ امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا۔ آپ فرماتی ہیں۔

قلت لنبی صلی اللہ علیہ وسلم حسبک من صفیۃ کذا و کذا۔ قال عن مسدد، تعنی قصیرۃ، قال صلی اللہ علیہ وسلم، لقد قلت کلمۃ لو مزجت بماء البحر لمزحتہ۔ (ترمذی، کتاب البر و الصلۃ و الادب)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ صفیہ میں سے فلاں فلاں چیز آپ کے لئے کافی ہے۔ ابو داؤد نے مسدد سے روایت کیا کہ اس سے مراد قد کا چھوٹا ہونا ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا، "تم نے ایسا کلمہ کہا کہ اگر تم دریا کے پانی میں ملاؤ تو اس کی حالت کو بدل دے۔"


غیبت  کے اسباب

غیبت کے بے شمار اسباب ہو سکتے ہیں، لیکن پانچ قابل ذکر ہیں:

·      غصے کی حالت میں ایک انسان دوسرے انسان کی غیبت کرتا ہے۔

·      لوگوں کی دیکھا دیکھی اور دوستوں کی حمایت میں غیبت کی جاتی ہے۔

·      انسان کو خطرہ ہو کہ کوئی دوسرا آدمی میری برائی بیان کرے گا، تو اس کو لوگوں کی نظروں سے گرانے کے لئے اس کی غیبت کی جاتی ہے۔

·      کسی جرم میں دوسرے کو شامل کر لینا حالانکہ وہ شامل نہ تھا، یہ بھی غیبت کی ایک صورت ہے۔

·      ارادہ فخر و مباہات بھی غیبت کا سبب بنتا ہے۔ جب دوسرے کے عیوب و نقائص بیان کرنے سے اپنی فضیلت ثابت ہوتی ہو۔۔۔۔

امام ترمذی نے عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا:

یا رسول اللہ! ما النجاۃ؟ قال امسک علیک لسانک و لیسعک بیتک وابک علی خطبئتک۔

عرض کیا، "یا رسول اللہ! کامیابی کیا ہے؟" آپ نے ارشاد فرمایا، "اپنی زبان روک لو اور چاہیے کہ تمہارا گھر تم پر کشادہ ہو [یعنی اپنی زبان کو کنٹرول کرنے کے سبب تمہارے تعلقات اپنے گھر والوں سے اچھے ہو جائیں] اور اپنی غلطیوں پر رویا کرو۔"


غیبت سے بچنے کے طریقے

·      انسان ذکر خدا میں مشغول رہے۔ نماز میں خشوع و خضوع کی کیفیت اپنائے۔

·      قرآن و حدیث میں غیبت پر کی گئی وعید کا تصور کرے۔

·      موت کا تصور ہر وقت ذہن میں موجود رہے۔

·      معاشرتی سطح پر عزت نفس کے مجروح ہونے کا تصور بھی ذہن نشین رہے۔

·      انسان اکثر اوقات دشمنوں کی غیبت کرتا ہے۔ اسی عادت کی بنا پر دوستوں کی غیبت بھی ہو جاتی ہے لہذا یہ تصور پیش نظر رہنا چاہیے کہ اگر میرے دوست کو میری غیبت کا علم ہو گیا تو دوستی کا بھرم ٹوٹ جائے گا۔

·      غیبت کرنے والا شخص اپنی نیکیاں بھی اس شخص کو دے دیتا ہے جس کی وہ غیبت کرتا ہے لہذا یہ تصور ملحوظ خاطر رہنا چاہیے کہ روز قیامت میرے پاس کیا رہے گا۔

·      سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ رب نے غیبت سے منع فرمایا اور رب کے احکام کو پس پشت ڈال کر کامیابی سے ہم کنار ہونا ممکن نہیں۔


غیبت کی اقسام


علماء کرام نے غیبت کی چار اقسام بیان کی ہیں:

·      غیبت کرنا کفر ہے: وہ قسم جہاں غیبت کرنا کفر ہے وہ یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کی غیبت کر رہا ہو تو جب اس سے کہا جائے کہ تو غیبت نہ کر تو وہ جواب میں کہے، یہ غیبت نہیں۔ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں سچ کہہ رہا ہوں۔ تو ایسے شخص نے اللہ تعالی کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال کیا اور ہر وہ شخص جو اللہ تعالی کی حرام کی ہوئی چیز کو حلال قرار دے وہ کافر ہو جاتا ہے۔ لہذا اس صورت میں غیبت کرنا کفر ہے۔


·      غیبت کرنا منافقت ہے: 


دوسری وہ قسم جہاں غیبت کرنا منافقت ہے، وہ یہ ہے کہ انسان ایسے شخص کی غیبت کر رہا ہو جس کے بارے میں اس کی ذاتی رائے یہ ہو کہ وہ نیک ہے تو اس صورت میں غیبت کرنا منافقت ہے۔


·      غیبت کرنا معصیت ہے: 


تیسری وہ قسم جہاں غیبت کرنا معصیت ہے کہ انسان کا یہ جانتے ہوئے کہ غیبت کرنا معصیت ہے پھر بھی غیبت کر رہا ہو اور جس شخص کی غیبت کر رہا ہو اس کا نام بھی لے رہا ہو تو اس صورت میں غیبت کرنا معصیت ہے۔ وہ گناہگار ہے۔ اس کے لئے توبہ ضروری ہے۔


·      غیبت کرنا جائز ہے: 


چوتھی وہ قسم جہاں غیبت کرنا نہ صرف جائز بلکہ ثواب کا باعث بھی ہے، وہ یہ ہے کہ فاسق معلن [یعنی اعلانیہ گناہ کرنے والا] کے افعال و کردار کا ذکر، بدعتی کے کارناموں کا تذکرہ کرنا جائز ہے۔ اس میں ثواب ہے اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ فاجر کے برے افعال کا تذکرہ کرو تاکہ لوگ اس سے دور رہیں۔۔۔۔


غیبت کا سننا حرام ہے

جو شخص غیبت سن رہا ہے، اس پر واجب ہے کہ وہ غیبت کرنے والے کے قول کو رد کرے اور کہنے والے کا انکار کرے۔ اور اگر وہ انکار نہیں کر سکتا یا یہ کہ غیبت کرنے والا اس کی بات کو تسلیم نہیں کرتا تو پھر اگر ممکن ہو تو اس محفل کو چھوڑ دے۔ جس طرح غیبت کرنے والے سے پوچھا جائے گا کہ تو نے فلاں شخص کی غیبت کیوں کی، اسی طرح غیبت سننے والے سے بھی پوچھا جائے گا کہ تو نے فلاں شخص کی غیبت کیوں سنی۔

    اگر غیبت کو سننے والا شخص بھی صحت مند اور طاقتور ہو تو اس پر واجب ہے کہ وہ غیبت کرنے والے کو منع کرے اور اگر اتنی ہمت و جرأت نہیں ہے تو دل میں اس کے کہنے کو برا جانے۔۔۔۔ بعض اوقات بظاہر انسان کسی کو غیبت سے روک رہا ہوتا ہے مگر دلی طور پر وہ چاہتا ہے کہ غیبت ہوتی رہے۔ ایسا شخص منافق اور گناہگار ہے۔

    اگر کوئی شخص ہے جو نہ غیبت کرنے والے کو روک سکتا ہے اور نہ ہی محفل کو چھوڑ سکتا ہے تو پھر وہ غیبت کو توجہ سے نہ سنے بلکہ دل و زبان سے اللہ کا ذکر شروع کر دے۔ اس طریقہ پر عمل کے باوجود اگر کوئی بات اس کے کان میں پڑ جائے تو اس کا مواخذہ نہ ہو گا۔۔۔۔


غیبت کی جائز صورتیں

·      ظلم کی شکایت کرنا غیبت نہیں۔۔۔

·      برائی کو روکنے کے لئے مدد طلب کرنا غیبت نہیں۔

·      [اہل علم سے] فتوی طلب کرنے کے لئے کسی کا عیب بیان کرنا غیبت نہیں۔۔۔ مگر احتیاط اور افضلیت اسی میں ہے کہ وہ فتوی طلب کرتے وقت لوگوں کے نام نہ لے۔

·      [اعلانیہ] برائی کرنے والوں کی برائی کا اظہار کرنا غیبت نہیں [جیسے حکمران کی برائی۔]

·      مسلمانوں کی خیر خواہی کے لئے غیبت کرنا جائز ہے۔


غیبت اور حقوق العباد 


غیبت کا تعلق حقوق العباد 

سے  بھی ہے اور حقوق العباد کا معاملہ یہ ہے کہ جب تک بندہ اس کو معاف نہ کرے اس وقت تک یہ معاف نہ ہوگا۔

جس طرح غیبت کرنا گناہ کبیرہ ہے اسی طرح غیبت سننا بھی گناہ کبیرہ ہے۔ جس مجلس میں کسی کی غیبت ہو رہی ہو تو گفتگو کا رخ بدلنے کی کوشش کریں کوئی دوسرا موضوع چھیڑ دیں اگر یہ نہ ہو سکے تو اس مجلس سے اٹھ کر چلے جائیں۔



غیبت کا کفارہ

 غیبت کا کفارہ اگلے جہان میں یہ ہوگا کہ اپنے نیک اعمال اور کی ہوئی عبادتیں ا س کو دینی پڑیں گی جس کی غیبت کی ہے اور اس کے گناہ اپنے اوپر لے کر جہنم میں جانا پڑے گا۔

حضرت حسن بصری رحمہ اللہ علیہ کی کسی نے غیبت کی تو آپ نے اسے تحفے بھیج دیئے لوگوں نے عرض کیا: حضرت اس نے تو آپ کی غیبت کی ہے پھر تحفے کیوں؟ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے جواب دیا کہ اس غیبت کرنے والے نے وہ نیکیاں مجھے دی ہیں جو میں نے نہیں کیں اور گناہ مجھ سے لیے ہیں جو اس نے نہیں کیے تو بتائو اس نے میرے ساتھ احسان کیا ہے یا نہیں؟

ذرا سوچیئے! انسان آخرت کے معاملے میں کتنا خسارہ اٹھا رہا ہے۔ یاد رکھیے! غیبت ایک بد ترین سود ہے۔ حضور اکرمﷺ نے فرمایاکہ سود اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کے اندر بے شمار خرابیاں ہیں اور بہت سے گناہوں کا مجموعہ ہے اور سود کا کم از کم گناہ اتنا ہے جیسے کوئی آدمی اپنی ماں کے سا تھ بدکاری کرے۔

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ العالی فرماتے ہیں کہ ایک تابعی گزرے ہیں جن کا نام ربیع تھا وہ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں ایک مجلس میں پہنچا میں نے دیکھا کہ لوگ بیٹھے باتیں کر رہے ہیں میں بھی اس مجلس میں بیٹھ گیا، باتوں کے دوران کسی شخص کی غیبت شروع ہوگئی،مجھے یہ بات بری لگی کہ ہم یہاں مجلس میں بیٹھ کر کسی کی غیبت کریں چنانچہ میں اس مجلس سے اٹھ کر چلا گیا اس لیے کہ اگر کسی مجلس میں غیبت ہو رہی ہو تو آدمی کو چاہیے کہ اس کو روکے، اگر روکنے کی طاقت نہ ہو تو کم از کم اس گفتگو میں شریک نہ ہو بلکہ اٹھ کر چلا جائے۔ وہ تابعی فرماتے ہیں میں چلا گیا، تھوڑی دیر بعد خیال آیا اب اس مجلس میں غیبت کا موضوع ختم ہو گیا ہو گا اس لیے دوبارہ اس مجلس میں بیٹھ گیا، تھوڑی دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں پھر غیبت شروع ہوگئی اب میں اس مجلس سے نہ اٹھ سکا بلکہ غیبت ستنا رہا جب میں گھر واپس آیا اور رات کو سویا تو خواب میں ایک حبشی کو دیکھا جو ایک بڑے طشت میں میرے پاس گوشت لایا ہے جب میں نے غور سے دیکھا تو خنزیر کا گوشت تھا وہ حبشی مجھ سے کہہ رہا تھا کہ یہ خنزیر کا گوشت کھائو ، میں نے کہا کہ میں مسلمان ہوں خنزیر کا گوشت کیسے کھائوں؟ اس حبشی نے کہا: تجھے کھانا پڑے گا پھر اس نے زبردستی گوشت کے ٹکڑے میرے منہ میں ٹھونسنا شروع کردیئے، میں منع کرتا رہا وہ ٹھونستا رہا یہاںتک کہ مجھے قے آنے لگی مگر پھر بھی وہ ٹھونستا رہا اسی شدید تکلیف میں میں بیدار ہو گیا میں نے بیدار ہونے کے بعدکھانا کھایا تو جو خواب میں خنزیر کے گوشت کا بدبودار ذائقہ تھا مجھے کھانے میں محسوس ہوا، تیس دن تک میرا یہی حال رہا۔ (اصلاحی خطبات )


غیبت کی صورت میں حقوق کی تلافی

غیبت کی صورت میں حقوق کی تلافی کی صورت مولانا مفتی تقی عثمانی صاحب نے یہ فرمائی ہے کہ ان میں سے جن کی غیبت کی ہے جو لوگ زندہ ہیں ان سے معافی مانگی جائے جو لوگ فوت ہوچکے ہیں ان کے لیے استغفار کیا جائے اور بلندیٔ درجات کے لیے دعا کی جائے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں غیبت سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین


تھے جب اپنی برائیوں سے بے خبر

رہے ڈھونڈتے اوروں کے عیب و ہنر​

پڑی اپنی برائیوں پہ جب نظر

تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا

Share: