بھلائی کی نسبت اللہ تعالی کی طرف اور برائی کی نسبت بندے کی طرف ھونا




*مَّـآ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَـةٍ فَمِنَ اللّـٰهِ ۖ وَمَآ اَصَابَكَ مِنْ سَيِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ ۚ وَاَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا ۚ وَكَفٰى بِاللّـٰهِ شَهِيْدًا *

(اور کہہ دو کہ) تجھے جو بھلائی پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے، اور تجھے جو برائی پہنچے وہ تیرے نفس کی طرف سے ہے، (اے رسول) ہم نے تجھے لوگوں کو پیغام پہنچانے والا بنا کر بھیجا ہے، اور اللہ کی گواہی کافی ہے


ارشادفرمایا گیا کہ اے مخاطب! تمہیں جو بھلائی پہنچتی ہے وہ اللہ کریم کا فضل و رحمت ہے اور تجھے جو برائی پہنچتی ہے وہ تیری اپنی وجہ سے ہے کہ تو نے ایسے گناہوں کا ارتکاب کیا کہ تو اس کا مستحق ہوا۔ یہاں بھلائی کی نسبت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف اور برائی کی نسبت بندے کی طرف کی گئی ہے جب کہ اس سے پہلے والی آیت میں ھر چیز کی نسبت اللہ عَزَّوَجَلَّ کی طرف کی گئی ھے ہے چنانچہ  ارشاد باری تعالی  ھے  


اَيْنَمَا تَكُـوْنُوْا يُدْرِكْكُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنْتُـمْ فِىْ بُـرُوْجٍ مُّشَيَّدَةٍ ۗ وَاِنْ تُصِبْـهُـمْ حَسَنَـةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِ اللّـٰهِ ۖ وَاِنْ تُصِبْـهُـمْ سَيِّئَةٌ يَّقُوْلُوْا هٰذِهٖ مِنْ عِنْدِكَ ۚ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِنْدِ اللّـٰهِ ۖ فَمَالِ هٰٓؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُوْنَ يَفْقَهُوْنَ حَدِيْثًا 

تم جہاں کہیں ہو گے موت تمہیں آ ہی پکڑے گی اگرچہ تم مضبوط قلعوں میں ہی ہو، اور اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے، اور اگر کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں کہ یہ تیری (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )طرف سے ہے، کہہ دو کہ سب کچھ اللہ ھی کی طرف سے ہے، ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی۔


قرآنِ مجید میں سورۂ نساء کی آیت نمبر 79 میں جو یہ ہے کہ جو کچھ اچھائی ہے وہ میری طرف سے ہے اور جو کچھ بھی برائی ہے وہ تمہاری طرف سے ہے۔

اس آیت کا مطلب ومفہوم سمجھنے لیے ضروری ہے کہ اس کو اس کے سیاق و سباق اور سلسلۂ کلام میں رکھ کر سمجھنے کی کوشش کی  جائے جو پیچھے سے چلا آ رہا ہے ۔اس سلسلۂ کلام میں مدینہ منورہ کے وہ منافقین زیر بحث ہیں جو پیش آنے والی ہر مصیبت کی ذمہ داری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ڈال دیتے تھے ۔ البتہ اپنے دعویٰ ایمان کو ثابت کرنے کے لیے یہ ضرور کہتے تھے کہ بھلائیاں اللہ کی طرف ہی سے آتی ہیں۔ گویا انہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو الگ الگ کر دیا تھا۔ چنانچہ ان آیات سے قبل آنے والی آیت میں اللہ تعالیٰ منافقین کے اسی طرز عمل کو بیان کرتے ہوئے پہلے یہ بتاتے ہیں کہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہوتا ہے اور پھر اگلی آیت میں یہ حقیقت واضح کرتے ہیں کہ شر کے ظہور کی اصل ذمہ داری انسانوں ہی پر عائدہوتی ہے ۔

اس آیت میں منافقین کی ایک اورحماقت کی طرف بھی اشارہ فرمایا گیا ھے جس کوان کی اس بزدلی کی پرورش میں بڑا دخل تھاوہ یہ کہ حق و باطل کی اس کشمکش کے دوران میں جونرم گرم حالات پیش آ رہے تھے وہ ان سب کو  اللہ تعالی کی طرف سے نہیں سمجھتے تھے بلکہ کامیابیوں کوتو   اللہ تعالی کی طرف سے سمجھتے ، لیکن کوئی مشکل یا کوئی آزمائش پیش آ جاتی  تواسے نبی کریم   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے تدبیری پرمحمول کرتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدبرلیڈرنہیں ہیں اس وجہ سے غلط اندازے اور غلط فیصلے کرتے ہیں جس کے نتائج غلط نکلتے ہیں (چنانچہ سورۂ آل عمران میں ہے کہ منافقین نے اُحدکی شکست کی ساری ذمہ داری آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرڈالنے کی کوشش کی تھی کہ انہی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بے تدبیری سے یہ شکست پیش آئی) اس سے یہ بات صاف نکلتی ہے کہ یہ لوگ نہ تویہ مانتے تھے کہ کائنات میں صرف  اللہ تعالی کی مشیت کارفرما ہے اورنہ یہ مانتے تھے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاہرکام     اللہ تعالی کے حکم کے تحت ہوتا ہے ۔یہ لوگ بظاہرتوآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کا اقرارکرتے تھے لیکن باطن میں ان کے یہی خیال چھپا ہوا رھتا تھاکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سارے کام اپنی رائے اورتدبیرسے کرتے ہیں ۔ان کے اس وھم کی تردیدکے لیے نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوہدایت فرمائی گئی کہ ان پرواضح فرمادیجیے کہ کامیابی ہویاناکامی، دکھ ہویا سکھ، ان میں سے کوئی چیز بھی میری (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) طرف سے نہیں ہے بلکہ سب کچھ اللہ ہی کی طرف سے ہے اس لیے بھی کہ میں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کوئی کام اللہ تعالی کے حکم کے بغیر نہیں کرتا اوراس لیے بھی کہ مصرف حقیقی اس کائنات کا اللہ ’وحدہ لاشریک ‘ہی ہے ۔اس کی مشیت کے بغیرنہ اس دنیامیں کسی کو دکھ پہنچ سکتا ہے نہ سکھ۔لیکن ان لوگوں کاحال تویہ ہے کہ کسی بات کوسمجھنے کے پاس ہی نہیں پھٹکتے ۔

’’تمھیں جوسکھ بھی پہنچتا ہے خداکی طرف سے پہنچتا ہے اورجودکھ پہنچتا ہے وہ تمھارے اپنے نفس کی طرف سے پہنچتا ہے ۔‘‘ (نساء4: 79)

اس آیت کی وضاحت یہ ھے کہ 

یہ آیت اوپروالی آیت ہی کے بعض اجمالات کو واضح کر رہی ہے ۔پہلے ان لوگوں کو، جوکامیابیوں کواللہ تعالیٰ کی طرف اور ناکامیوں کورسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب کر رہے تھے ، مخاطب کر کے فرمایا کہ اصل حقیقت تویہی ہے کہ خیروشر ہر چیزکاظہور  اللہ تعالی ھی کی مشیت سے ہوتا ہے ۔اس کے حکم و اذن کے بغیرکوئی چیزبھی ظہورمیں نہیں آ سکتی۔لیکن خیراور شرمیں یہ فرق ہے کہ خیر  اللہ تعالی کی رحمت کے اقتضا سے ظہورمیں آتا ہے اورشرانسان کے اپنے اعمال پرمترتب ہوتا ہے ۔اس پہلو سے شرکاتعلق انسان کے اپنے نفس سے ہے ۔

یہ حقیقت یہاں ملحوظ خاطر رہے کہ اللہ تعالیٰ خیرمطلق ہے ۔اس نے یہ دنیا اپنی رحمت کے لیے بنائی ہے ۔اس وجہ سے اس کی طرف کسی شرکی نسبت کرنا اس کی پاکیزہ صفات کے منافی ہے ۔شر جتنا  بھی ظہورمیں آتا ہے وہ صرف انسان کے لیے اپنے اختیارکے استعمال سے ظہورمیں آتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص دائرے کے اندرآزادی بخشی ہے ۔یہ آزادی اللہ تعالیٰ کی بہت بڑ ی نعمت ہے ۔اسی پرانسان کے تمام شرف کی بنیادہے ۔اسی کی وجہ سے انسان آخرت میں جزاوسزا کا مستحق ٹھہرے گا۔اگریہ آزادی انسان کوحاصل نہ ہوتی توحیوان اورانسان کے درمیان کوئی فرق نہ ہوتا۔لیکن اس آزادی کے متعلق یہ بات یادرکھنی چاہیے کہ یہ غیرمحدوداورغیرمقیدنہیں ہے بلکہ، جیساکہ اشارہ کیا گیا یہ ایک خاص دائرے کے اندر محدود ھے ۔پھراس دائرے کے اندربھی  اللہ تعالی کی مشیت اوراس کی حکمت کے تحت ہے۔  اللہ تعالی کے اذن اورمشیت کے بغیرانسان اپنے کسی ارادے کوپورانہیں کرسکتا۔نیک ارادے بھی  اللہ تعالی کی توفیق بخشی سے پورے ہوتے ہیں اوربرے ارادے بھی اسی کے مہلت دینے سے بروئے کارآتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ کسی کے کسی برے ارادے کوبروئے کار آنے  دیتا ہے تواس پہلوسے وہ  اللہ تعالی کی طرف منسوب ہوتا ہے کہ اس کابروئے کار آنا  اللہ تعالی ھی کے اذن ومشیت سے ہوالیکن دوسرے پہلوسے وہ چونکہ انسان کافعل ہے کیونکہ اس کا ارادہ انسان نے خود ھی تو کیا تھا

تو اس بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ بندہ جب مُؤثّر ِ حقیقی کی طرف نظر کرے تو ہر چیز کو اُسی کی طرف سے جانے اور جب اسباب پر نظر کرے تو برائیوں کو اپنی شامت ِنفس کے سبب سے سمجھے۔

اللہ پاک ھمیں بھلائیوں کے کرنے کی توفیق بخشے اور برائیوں سے کلی طور پر دور رھنے کی توفیق عنایت فرمائے آمین یا رب العالمین

Share: