مؤمن اور کافر کا سفر آخرت

مسند احمد میں ہے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری کے جنازے میں ہم حضور اکرم    صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے جب قبرستان پہنچے تو قبر تیار ہونے میں کچھ دیر تھی سب بیٹھ گئے ہم اس طرح خاموش اور با ادب تھے کہ گویا ہمارے سروں پر پرند ہیں۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ایک تنکا تھا جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر پھرا رہے تھے تھوڑی دیر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سر اٹھا کردو بار یا تین بار ہم سے فرمایا کہ عذاب قبر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو، پھر فرمایا مومن جب دنیا کی آخری اور آخرت کی پہلی گھڑی میں ہوتا ہے اس کے پاس آسمان سے نورانی چہروں والے فرشتے آتے ہیں گویا کہ ان کا منہ آفتاب ہے ان کے ساتھ جنت کا کفن اور جنت کی خوشبو ہوتی ہے وہ آکر مرنے والے مومن کے پاس بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں 

يَآ اَيَّتُـهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّـةُ o۔

اِرْجِعِىٓ اِلٰى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً o

اے اطمینان والی روح

اپنے رب کی طرف لوٹ چل، تو اس سے راضی وہ تجھ سے راضی۔

یہ سنتے ہی وہ روح اس طرح بدن سے نکل جاتی ہے جیسے مشک کے منہ سے پانی کا قطرہ ٹپک جائے۔ اسی وقت ایک پلک جھپکنے کے برابر کی دیر میں وہ جنتی فرشتے اس پاک روح کو اپنے ہاتھوں میں لے لیتے ہیں اور جنتی کفن اور جنتی خوشبو میں رکھ لیتے ہیں اس میں ایسی عمدہ اور بہترین خوشبو نکلتی ہے کہ کبھی دنیا والوں نے نہ سونگھی ہو۔ اب یہ اسے لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں فرشتوں کی جو جماعت انہیں ملتی ہے وہ پوچھتی ہے کہ یہ پاک روح کس کی ہے ؟ یہ اس کا بہتر سے بہتر جو نام دنیا میں مشہور تھا وہ لے کر کہتے ہیں فلاں بن فلاں کی۔ یہاں تک کہ آسمان دنیا تک پہنچ جاتے ہیں دروازہ کھلوا کر اوپر چڑھ جاتے ہیں یہاں سے اس کے ساتھ اسے دوسرے آسمان تک پہنچانے کے لئے فرشتوں کی اور بڑی جماعت ہوجاتی ہے اس طرح ساتویں آسمان تک پہنچتے ہیں اللہ عزوجل فرماتا ہے اس میرے بندے کی کتاب (علیین) میں رکھ کر اور اسے زمین کی طرف لوٹا دو میں نے انہیں اسی سے پیدا کیا ہے اسی میں لوٹاؤں گا اور اسی سے دوبارہ نکالوں گا۔ پس وہ روح لوٹا دی جاتی ہے وہیں اس کے پاس دو فرشتے آتے ہیں اسے بٹھاتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں کہ  تیرا رب کون ہے ؟ تووہ کہتا ہے میرا رب الله ہے  پھر پوچھتے ہیں کہ تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہتا ہے میرا دین اسلام ہے۔ پھر پوچھتے ہیں کہ وہ شخص جو تم میں بھیجے گئے تھے کون تھے؟ وہ کہتا ہے وہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے ۔ فرشتے اس سے دریافت کرتے ہیں کہ تجھے کیسے معلوم ہوا ؟ جواب دیتا ہے کہ میں نے اللہ کی کتاب پڑھی اس پر ایمان لایا اور اسے سچا مانا۔ وہیں آسمان سے ایک منادی ندا کرتا ہے کہ میرا بندہ سچا ہے اس کیلئے جنت کا فرش بچھا دو ۔ اسے جنتی لباس پہنا دو اور اس کیلئے جنت کا دروازہ کھول دو ۔ پس اس کے پاس جنت کی تروتازگی اس کی خوشبو اور وہاں کی ھوا آتی رہتی ہے اور اسکی قبر کشادہ کردی جاتی ہے۔ جہاں تک اس کی نظر پہنچتی ہے اسے کشادگی ہی کشادگی نظر آتی ہے اس کے پاس ایک نہایت حسین وجمیل شخص لباس فاخرہ پہنے ہوئے خوشبو لگائے ہوئے آتا ہے اور اس سے کہتا ہے خوش ہوجا یہی وہ دن ہے جس کا تجھے وعدہ دیا جاتا تھا ان سے پوچھتا ہے تو کون ہے ؟ تیرے چہرے سے بھلائی پائی جاتی ہے وہ جواب دیتا ہے کہ میں تیرا نیک عمل ہوں۔ اب تو مومن آرزو کرنے لگتا ہے کہ اللہ کرے قیامت آج ہی قائم ہوجائے تاکہ میں جنت میں پہنچ کر اپنے مال اور اپنے اہل و عیال کو پالوں۔


اور کافر کی جب دنیا کی آخری گھڑی آتی ہے تو اس کے پاس سیاہ چہرے والے فرشتے آسمان سے آتے ہیں ان کے ساتھ ٹاٹ ہوتا ہے اس کی نگاہ تک اسے یہی نظر آتے ہیں پھر ملک الموت آ کر اس کے سرہانے بیٹھ جاتے ہیں اور فرماتے ہیں اے خبیث روح اللہ کی ناراضگی اور اس کے غضب کی طرف چل  (قرآن پاک میں اس کا  اس طرح زکر کیا گیا ھے 

وَلَوْ تَـرٰٓى اِذْ يَتَوَفَّى الَّـذِيْنَ كَفَرُوا الْمَلَآئِكَـةُ يَضْرِبُوْنَ وُجُوْهَهُـمْ وَاَدْبَارَهُـمْۚ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِيْقِ o

اور اگر تو دیکھے جس وقت فرشتے کافروں کی جان قبض کرتے ہیں ان کے مونہوں اور پیٹھوں پر مارتے ہیں، اور (کہتے ہیں) جلنے کا عذاب چکھو۔)

یہ سن کر وہ روح بدن میں چھپنے لگتی ہے جسے ملک الموت جبراً گھسیٹ کر نکالتے ہیں اسی وقت وہ فرشتے ان کے ہاتھ سے ایک آنکھ جھپکنے میں لے لیتے ہیں اور اس جہنمی ٹاٹ میں لپیٹ لیتے ہیں اور اس سے نہایت ہی سڑی ہوئی بدبو نکلتی ہے یہ اسے لے کر چڑھنے لگتے ہیں فرشتوں کا جو گروہ ملتا ہے اس سے پوچھتا ہے کہ یہ ناپاک روح کس کی ہے ؟ یہ اس کی روح جس کا بدترین نام دنیا میں تھا انہیں بتاتے ہیں پھر آسمان کا دروازہ اس کیلئے کھلوانا چاہتے ہیں مگر کھولا نہیں جاتا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن کریم کی یہ آیت تلاوت فرمائی۔ 

اِنَّ الَّـذِيْنَ كَذَّبُوْا بِاٰيَاتِنَا وَاسْتَكْـبَـرُوْا عَنْـهَا لَا تُفَتَّحُ لَـهُـمْ اَبْوَابُ السَّمَآءِ وَلَا يَدْخُلُوْنَ الْجَنَّـةَ حَتّـٰى يَلِجَ الْجَمَلُ فِىْ سَمِّ الْخِيَاطِ ۚ وَكَذٰلِكَ نَجْزِى الْمُجْرِمِيْنَ o

بے شک جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا اور ان کے مقابلہ میں تکبر کیا ان کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے اور نہ وہ جنت میں داخل ہوں گے یہاں تک کہ اونٹ سوئی کے ناکے میں گھس جائے، اور ہم گناہگاروں کو اسی طرح سزا دیتے ہیں۔

جناب باری عزوجل کا ارشاد ہوتا ہے اس کی کتاب (سجین) میں سب سے نیچے کی زمین میں رکھو پھر اس کی روح وہاں سے پھینک دی جاتی ہے۔ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی 

وَمَنْ يُّشْرِكْ بِاللّـٰهِ فَكَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْـرُ اَوْ تَهْوِىْ بِهِ الرِّيْحُ فِىْ مَكَانٍ سَحِيْقٍ o

اور جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرتا ہے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا پھر اسے پرندے اچک لیتے ہیں یا اسے ہوا اڑا کر کسی دور جگہ پھینک دیتی ہے۔

اب اس کی روح اس کے جسم میں لوٹائی جاتی ہے۔ اور اس کے پاس وہ فرشتے پہنچتے ہیں اسے اٹھا کر بٹھاتے ہیں اور پوچھتے ہیں تیرا رب کون ہے ؟ یہ کہتا ہے ہائے ہائے مجھے خبر نہیں۔ پوچھتے ہیں تیرا دین کیا ہے ؟ جواب دیتا ہے افسوس مجھے اس کی بھی خبر نہیں۔ پوچھتے ہیں بتا اس شخص کی بابت تو کیا کہتا ہے جو تم میں بھیجے گئے تھے ؟ یہ کہتا ہے آہ میں اس کا جواب بھی نہیں جانتا۔ اسی وقت آسمان سے ندا ہوتی ہے کہ میرے اس غلام نے غلط کہا اس کیلئے جہنم کی آگ بچھا دو اور جہنم کا دروازہ اس کی قبر کی طرف کھول دو وہاں سے اسے گرمی اور آگ کے جھونکے آنے لگتے ہیں اس کی قبر اس پر تنگ ہوجاتی ہے یہاں تک کہ ادھر کی پسلیاں ادھر اور ادھر کی ادھر ہوجاتی ہیں، اس کے پاس ایک شخص نہایت مکروہ اور ڈراؤنی صورت والا برے کپڑے پہنے بری بدبو والا آتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ اب اپنی برائیوں کا مزہ چکھ اسی دن کا تجھ سے وعدہ کیا جاتا تھا یہ پوچھتا ہے تو کون ہے ؟ تیرے تو چہرے سے وحشت اور برائی ٹپک رہی ہے ؟ یہ جواب دیتا ہے کہ میں تیرا خبیث عمل ہوں۔ یہ کہتا ہے یا اللہ قیامت قائم نہ ہو۔ اسی روایت کی دوسری سند میں ہے کہ مومن کی روح کو دیکھ کر آسمان و زمین کے تمام فرشتے دعائے مغفرت و رحمت کرتے ہیں اس کیلئے آسمانوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ہر دورازے کے فرشتوں کی تمنا ہوتی ہے کہ اللہ کرے یہ روح ہماری طرف سے آسمان پر چڑھے اس میں یہ بھی ہے کہ کافر کی قبر میں اندھا بہرا گونگا فرشتہ مقرر ہوجاتا ہے جس کے ہاتھ میں ایک گرج ہوتا ہے کہ اگر اسے کسی بڑے پہاڑ پر مارا جائے تو وہ مٹی ہوجائے پھر اسے جیسا وہ تھا اللہ تعالیٰ کردیتا ہے۔ فرشتہ دوبارہ اسے گرج مارتا ہے جس سے یہ چیخنے چلانے لگتا ہے جسے انسان اور جنات کے سوا تمام مخلوق سنتی ہے ابن جریر میں ہے کہ نیک صالح شخص سے فرشتے کہتے ہیں اسے مطمئن نفس جو طیب جسم میں تھا تو تعریفوں والا بن کر نکل اور جنت کی خوشبو اور نسیم جنت کی طرف چل۔ اس اللہ کے پاس چل جو تجھ پر غصے نہیں ہے۔ فرماتے ہیں کہ جب اس روح کو لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں دروازہ کھلواتے ہیں تو پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے، یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو وہ اسے مرحبا کہہ کر وہی کہتے ہیں یہاں تک کہ یہ اس آسمان میں پہنچتے ہیں جہاں اللہ ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ برے شخص سے وہ کہتے ہیں اے خبیث نفس ! جو خبیث جسم میں تھا تو برا بن کر نکل اور تیز کھولتے ہوئے پانی اور لہو پیپ اور اسی قسم کے مختلف عذابوں کی طرف چل۔ اس کے نکلنے تک فرشتے اسے یہی سناتے رہتے ہیں۔ پر اسے لے کر آسمانوں کی طرف چڑھتے ہیں پوچھا جاتا ہے کہ یہ کون ہے ؟ یہ اس کا نام بتاتے ہیں تو آسمان کے فرشتے کہتے ہیں اس خبیث کو مرحبا نہ کہو۔ یہ تھی بھی خبیث جسم میں بد بن کر لوٹ جا۔ اس کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھلتے اور آسمان و زمین کے درمیان چھوڑ دی جاتی ہے پھر قبر کی طرف لوٹ آتی ہے۔


امام ابن جریر رحمہ اللہ  نے لکھا ہے کہ نہ ان کے اعمال چڑھیں نہ ان کی روحیں اس سے دونوں قول مل جاتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ 

اس کے بعد کے جملے میں جمہور کی قرأت تو جمل ہے جس کے معنی نر اونٹ کے ہیں۔ لیکن ایک قرأت میں جبل ہے اس کے معنی بڑے پہاڑ کے ہیں۔ مطلب بہ ہر دو صورت ایک ہی ہے کہ نہ اونٹ سوئی کے ناکے سے گذر سکے نہ پہاڑ، اسی طرح کافر جنت میں نہیں جاسکتا ان کا اوڑھنا بچھونا آگ ہے ظالموں کی یہی سزا ہے

(بحوالہ ابن کثیر)

Share: