نیکی پر مدد کرنے اور گناہ پر مدد نہ کرنے کا حکم


دنیا جب سے وجود میں آئی ھے اس میں نیکی اور برائی کا وجود ھر دور میں موجود رھا ھے اور آئندہ بھی ایسا ھی رھے گا ایک مسلمان کو نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے اور برائی کے کاموں سے دور رھنے کا حکم دیا گیا ھے اسی طرح مسلمان کو کسی دوسرے سے تعاون کرنے میں بھی یہی شرط رکھی گئی ھے کہ اگر کوئی نیکی کا کام کر رھا ھے تو اس کے ساتھ تعاون کیا جائے اور اگر کوئی برائی کا کام کر رھا ھے تو اس سے تعاون نہ کیا جائے بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کی جائے مثلا اگر کوئی شخص کسی طرح کا بھی ظلم کر رھا ھے تو اسے کسی بھی قسم کا کوئی تعاون فراھم نہ کیا جائے بلکہ مظلوم کی داد رسی کی جائے  چنانچہ ارشاد باری تعال ھے

وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪-  اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(المآئدۃ)

اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔

اس آیتِ مبارکہ میں اللہ تعالٰی نے دو باتوں کا حکم دیا ہے

پہلی یہ کہ نیکی اورپرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو دوسری یہ کہ گناہ اور زیادتی پر باہمی تعاون نہ کرو


“بِر “ سے مراد ہر وہ نیک کام ہے جس کے کرنے کا شریعت نے حکم دیا ہے اور تقوٰی سے مراد یہ ہے کہ ہر اس کام سے بچا جائے جس سے شریعت نے روکا ہے۔

اِثْم سے مراد گناہ ہے اور عُدْوَان سے مراد اللہ تعالٰی کی حدود میں حد سے بڑھنا۔ 

ایک قول کے مطابق اِثْم سے مراد کفر ہے اور عُدْوَان سے مراد ظلم یا بدعت ہے۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُمَافرماتے ہیں کہ نیکی سے مراد سنت کی پیروی کرنا ہے

حضرت نواس بن سمعان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالیٰ عَنْہُ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم صلی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھا توآپ صلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نےارشادفرمایا: نیکی حُسنِ اَخلاق ہے اور گناہ وہ ہے جو تیرے دل میں کھٹکے اور لوگوں کا اس سے واقف ہونا تجھے ناپسند ہو۔ (ترمذی)


یہ انتہائی جامع آیت مبارکہ ہے،نیکی اورتقوٰی میں ان کی تمام انواع واقسام داخل ہیں اور اِثْم اور عُدْوَان میں ہر وہ چیز شامل ہے جو گناہ اور زیادتی کے زُمرے میں آتی ہو۔

عِلْمِ دین کی اشاعت میں جان ،وقت ،مال ، درس و تدریس اور تحریر وتقریر  وغیرہ سے ایک دوسرے کی مدد کرنا،دِیْنِ اسلام کی دعوت اور اس کی تعلیمات دنیا کے ہر گوشے میں پہنچانے کے لئے باہمی تعاون کرنا،اپنی اور دوسروں کی عملی حالت سدھارنے میں کوشش کرنا ،نیکی کی دعوت دینا اور برائی سے منع کرنا،ملک و ملت کے اجتماعی مفادات میں ایک دوسرے سے تعاون کرنا، سوشل ورک اور سماجی خدمات سب اس میں داخل ہیں۔ 

گناہ اور ظلم میں کسی کی بھی مدد نہ کرنے کا حکم ہے ۔ کسی کا حق مارنے میں دوسروں سے  کسی قسم کا کوئی بھی تعاون کرنا، 

رشوتیں لے کر فیصلے بدل دینا، جھوٹی گواہیاں دینا، 

بلا وجہ کسی مسلمان کو پھنسا دینا، 

ظالم کا اس کے ظلم میں کسی بھی طرح کی حمایت کرنا یا ساتھ دینا یا  مجرمانہ خاموشی اختیار کر کے  ظالم کی حوصلہ آفزائی کا سبب بننا یا باوجود قدرت کے مظلوم کی حق رسی کی کوشش نہ کرنا  

حرام و ناجائز کاروبار کرنے والی کمپنیوں یا بینکوں میں کسی بھی طرح شریک ہونا، 

برائی کے اڈوں میں نوکری کرنا  یہ بھی ایک طرح سے برائی کے ساتھ تعاون ہے اور ناجائزہے۔


سُبْحٰنَ اللہ! قرآنِ پاک کی تعلیمات کتنی عمدہ اور اعلیٰ ہیں،اس کا ہر حکم دل کی گہرائیوں میں اترنے والا،اس کی ہر آیت گمراہوں اور گمراہ گروں کے لئے روشنی کا ایک مینار ہے۔اس کی تعلیمات سے صحیح فائدہ اُسی وقت حاصل کیا جاسکتا ہے جب ان پر عمل بھی کیا جائے۔ افسوس، فی زمانہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعدادعملی طور پر قرآنی تعلیمات سے بہت دور جا چکی ہے۔اللہ تعالی  سبھی مسلمانوں کوقرآن پاک  کےاحکامات پرعمل کی توفیق عطا فرمائے- آمین 

اسلامی فقہ میں ارتکاب گناہ میں کسی کی اعانت کرنے اورظالمین کی مدد کرنے کے بارے میں ایک مفصل باب موجود ہے جس میں احادیث کثیرہ کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے کہ بد ترین گناہوں میں سے  ایک گناہ ظالموں ، ستمگاروںاورمجرموں  کی اعانت کرنابھی ہے . اگر کوئی ایساکرتا ہے تو اس کایہ عمل اس امرکا باعث بنتاہے کہ اس کا ( مددگار کا ) حشر اورعاقبت بھی ان ہی ستمگاروں کے ساتھ ہوگی ۔

یہ امر مسلّم ہے کہ ہر معاشرے میںظالم،ستمگار اور فرعون جیسے کچھ لوگ ہوتے ہیں اگر اس معاشرے کے عوام ان لوگوں کے کاموں کی تائید نہ کریں (یعنی خاموش نہ رہیں اوراظہار نا پسندیدگی کریں ) تو پھر کوئی بھی فرعون نہ بن سکے ۔

ان ظالم فرعونوں کے موئیدین عام طوپر کمینے ، مفلوک یاابن الوقت دنیا پرست لوگ ہوتے ہیں ، جو ان کے گرد جمع ہوجاتے ہیں اور ان کے دست و بازو یاکم ازکم ان کے لشکر اورجمعیت میں اضافے کاسبب بن جاتے ہیں تاکہ ان ستم شعاروں کے لیے شیطانی قوّت فراہم کریں ۔


قرآن پاک میں بصراحت مذکور ہے کہ ظالموں کے ساتھ تعاون عذاب جہنم کاسبب ہے ۔ خواہ قلبی میلان ہوں یا کسی کے ساتھ اس کے کام میںظاہری شریک ، یاکسی کے فعل پراظہار رضایت ، دوستی وخیر خواہی یااطاعت ،مفسرین نے ان میں سے ہر معنی کی تفسیر کی ہے ۔

اس میں  بھر وسہ ، اعتما د اور وابستگی بھی شامل  ہے   بلکہ یہ مفہوم اس مقصود کا زندہ گواہ ہے ۔

ا بن عباس کہتے ہیں :کہ یہ آیت 

رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَـىَّ فَلَنْ اَكُـوْنَ ظَهِيْـرًا لِّلْمُجْرِمِيْنَ 

 اے میرے رب! جیسا تو نے مجھ پر فضل کیا ہے پھر میں گناہگاروں کا کبھی مددگار نہیں ہوں گا۔ 

میں جملہ ان آیات کے ہے جو یہ گواہی دیتی ہیں کہ مجرمین کی مدد کرنا جرم و گناہ ہے اور مومنین کی اعانت کرنا فرمان الہٰی کی اطاعت ہے 

کہتے ہیں کہ لوگوں نے کسی عالم سے کہا کہ : 

” فلاں آدمی فلاں ظالم کامحرّ ر ہوگیا ہے اورصرف اس کی آمدنی اورخرچ کاحساب لکھتا ہے . اگر وہ اس کام کے معاوضے میں کچھ معاوضہ لے تو اس کی گزر بسر ہوجائے گی ورنہ وہ خود اور اس کے عیال فقرو فاقہ میں مبتلا ہوجائیں گے “ 

اس عالم نے اس سوال کے جواب میں صرف ایک ھی جملہ کہا :

تم نے اس مرد صالح ( حضرت موسٰی (علیه السلام) ) کاقول نہیں سنا ؟ 

رَبِّ بِمَآ اَنْعَمْتَ عَلَـىَّ فَلَنْ اَكُـوْنَ ظَهِيْـرًا لِّلْمُجْرِمِيْنَ 

 اے میرے رب! جیسا تو نے مجھ پر فضل کیا ہے پھر میں گناہگاروں کا کبھی مددگار نہیں ہوں گا۔


باھمی تعاون کی فضیلت

ھر آچھے معاشرےکے کچھ مشترکہ مقاصد ھوتے ہیں جن کے قیام کے لیے معاشرے کے ہر فرد کی حصہ دار ی ضروری ھوتی ہے اسلام معاشرے کے ہر فرد کے اندر باہمی تعاون کا احساس دلاتا ہے اور معاشرے کے ھر فرد میں اس کا بہترین شعور پیدا کراتا ہے ۔ قرآن و احادیث میں باہمی تعاون کی بڑی فضیلت آئی ہے اور اس کی بہت ھی ترغیب دلائی گئی ہے  چنانچہ فرمان الہی ھے:


وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَاء  بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُقِیْمُونَ الصَّلاَۃَ وَیُؤْتُونَ الزَّکَاۃَ وَیُطِیْعُونَ اللّہَ وَرَسُولَہُ أُوْلَـئِکَ سَیَرْحَمُہُمُ اللّہُ إِنَّ اللّہَ عَزِیْزٌ حَکِیْم۔ (۱)

مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے ( مددگار و معاون )دوست ہیں ، وہ بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نماز کو پابندی سے بجا لاتے ہیں زکاۃ ادا کرتے ہیں، اللہ کی اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات مانتے ہیں ، یہی لوگ ہیں جن پر اللہ تعالی بہت رحم فرمائے گا بے شک اللہ تعالی غلبے والا حکمت والا ہے ۔ 


ایک دوسرے مقام پر ارشاد ھے

یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَیْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَی وَاتَّقُوا اللَّہَ الَّذِیْ إِلَیْہِ تُحْشَرُونَ ۔ (۲)

اے ایمان والو ! تم جب سرگوشی کرو تو یہ سرگوشیا ں گناہ اور ظلم و ( زیادتی ) اور نافرمانی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نہ ہوں ، بلکہ نیکی اور پرہیزگاری کی باتوں پر سرگوشی کرو اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس کے پاس تم سب جمع کئے جاؤگے ۔ 


حدیث نبو ی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے: ’’ سب مسلمانوں کے خون آپس میں برابرہیں (حدود کے نفاذ میں معزز اور غیر معزز کا کوئی فرق نہیں ) ان میں جو بھی کسی کافر کو امان دے دے تو ان کا ادنی فرد بھی اس کا پاس رکھے ( جیسے کہ اعلی رکھتے ہیں ) اور ان میں کا دور والا بھی امان دے سکتا ہے (جیسے مرکز میں رہنے والا ) تمام مسلمان کفار کے مقابلے میں ایک ہاتھ ہیں ۔ ان کا تنو مند اور قوی رفتار اپنے ضعیف اور سست رفتار کو بھی ساتھ ملائے اور چھوٹے دستے میں جانے والا بڑے لشکر میں رہ جانے والوں کو بھی شریک سمجھے، کسی مومن کو کافر کے بدلے یا کسی عہد والے کو جب تک اس کا عہد باقی ہے قتل کر نا روا نہیں ۔


 جیسا کہ عرض کیا گیا کہ باہمی تعاون کے تعلق سے اسلام یہ اصول پیش کرتا ہے کہ تعاون ہمیشہ اچھائی ، بھلائی اور نیکی کے کاموں میں ہو ۔ ظلم و زیادتی ، فتنہ و فساد اور معاشرے میں فساد کے اسباب بننے والے کاموں میں کبھی بھی تعاون نہ کیا جائے ۔


 وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْبرِّ وَالتَّقْوَی وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الإِثْمِ وَالْعُدْوَان وَاتَّقُواْ اللّہَ إِنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ(۴)

نیکی اور پرہیز گاری میں ایک دوسرے کی امداد کرتے رہو اور گناہ اور ظلم و زیادتی میں مدد نہ کرو اور اللہ تعالی سے ڈرتے رہو ، بے شک اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے ۔ 


بہرحال دین اسلام ہمیں انسانوں کے ساتھ باھمی تعاون اور پیار و محبت کا درس دیتا ہے، صحابہ کرا مؓ باھمی تعاون کے لئے ھر وقت مستعد رھتے تھے اور اپنی ضرورتوں پر دوسروں کی ضرورتوں کو ترجیح دیتے تھے

باھمی تعاون کی شکلیں  


ا-خدمت ِ انسانیت

انسانوں سے پیار و محبت اور ضرورت مند انسانوں کی مددکے عمل کو ہر دین اور مذہب میں تحسین کی نظر سے دیکھا جاتا ہے لیکن دین اسلام نے خدمت ِ انسانیت کو بہترین اخلاق اور عظیم عبادت قرار دیا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو یکساں صلاحیتوں اور اوصاف سے نہیں نوازا بلکہ اُن کے درمیان فرق وتفاوت رکھا ہے اور یہی فرق و تفاوت اس کائنات رنگ وبو کا حسن و جمال ہے ۔ وہ رب چاہتا تو ہر ایک کو خوبصوت ،مال دار،اور صحت یاب پیدا کر دیتا لیکن یہ یک رنگی تواس کی شانِ خلاقی کے خلاف ہوتی اور جس امتحان کی خاطر انسان کو پیدا کیا ہے، شاید اس امتحان کا مقصد بھی فوت ہو جاتا ۔اُس علیم و حکیم رب نے جس کو بہت کچھ دیا ہے اُسکا بھی امتحان ہے اور جسے محروم رکھا ہے اس کا بھی امتحان ہے ۔وہ رب اس بات کو پسند کرتا ہے کہ معاشرے کے ضرورت مند اور مستحق افراد کی مدداُن کے وہ بھا ئی بند کریں جن کو اللہ نے اپنے فضل سے نوازا ہے تاکہ انسانوں کے درمیان باہمی الفت ومحبت کے رشتے بھی استوار ہوں اور دینے والوں کو اللہ کی رضا اور گناہوں کی بخشش بھی حاصل ہو ۔

    مسلم شریف کی روایت ہے:

     ’’مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور وہ شخص اللہ تعالی کو زیادہ محبوب ہے جوا س کے کنبے کے لئے زیادہ مفید ہو۔‘‘

    سبحان اللہ اس رب کو اپنے بندوں سے اس قدر محبت ہے کہ وہ ان کو اپنا کنبہ قرار دیتا ہے حالا نکہ وہ سبوح اور قدوس ذات ہے، اسے کسی کنبے کی ضرورت اور احتیاج ہرگز نہیں ۔

    انسانیت کی خدمت کے بہت سے طریقے ہیں۔ بیواؤں اور یتیموں کی مدد ،مسافروں ، محتاجوں ، فقراء ، اور مساکین سےہمدردی ،بیماروں،معذوروں،قیدیوں اور مصیبت زدگان سے تعاون یہ سب خدمت خلق کے کام ہیں اور وسیع تر تناظرمیں ان سب سے بڑھ کر انسانوں سے ہمدردی یہ ہے کہ ان کو دعوت و تبلیغ اور تعلیم و تربیت کے ذریعے دوزخ کی آگ سے بچایا جا ئے اور رب کی رضا اورصراط مستقیم کی طرف ان کو دعوت دی جا ئے ۔

     صحیح الجامع میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

    ٭  لوگوں میں سے اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ وہ ہیں جو انسانوں کے لئے زیادہ نفع بخش ہوں۔

    ٭  اعمال میں سے اللہ کے ہاں سب سے پسندیدہ وہ ہیں جن سے مسلمانوں کو خوشیاں ملیں، یا ان سے تکلیف دور ہو۔یاان سے قرض کی ادائیگی ہو یا ان سے بھوکوں کی بھوک دور ہو ۔

    حدیث شریف میں کسی ضرورت مند انسان کی حاجت کو پورا کرنے والے کے لئے بہت سے  انعامات کا ذکر کیا گیا ہے یعنی جو اپنے مسلمان بھائی کی ضرورت پوری کرنے چلا یہاں تک کہ وہ ضرورت پوری ہو جائے

صحابہ کرام ؓ  نیکیوں کے اس قدر حریص تھے کہ ہمیشہ ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر میں رہتے تھے ۔ حضرت عمر ؓ  فرماتے ہیں ایک دن میں مدینہ طیبہ کے مضافا ت میں ایک جھونپڑی کے قریب پہنچا تو اس میں تنہا ایک بڑ ھیا بستر پر پڑی نظرآئی اور جھونپڑی صاف ستھری اور ہر چیز قر ینے سے رکھی ہو ئی تھی  ۔

    میں نے بڑ ھیا سے پوچھا: اماں!  آپ کے یہ کام کون کرتا ہے ؟ عر ض کیا ایک شخص فجر سے بھی پہلے آتا ہے اور یہ سارے کا م کرکے چلا جا تا ہے۔ حضرت عمر ؓ کو تجسس ہواکہ وہ کون شخص ہے ۔ دوسرے دن صبح آئے تو وہ کا م کرکے چلا گیا تھا ۔ پھر آئے تو  وہ گھر کی صفائی کر رہے تھے دیکھا تو حضرت ابوبکر ؓ تھے ۔ سید القوم خادمھم ۔یہ تھے قوم کے حقیقی رہنمااور خادم ۔

    سیدناابوبکر ؓ  کئی گھرانوں کی مستقل کفالت بھی کرتے تھے اور محلے میں کئی گھروں کی بکریوں کا دودھ بھی دھوتے تھے ۔ خلیفہ بنے تو ایک دن محلے سے گزرتے ہوئے ایک لڑکی نے دیکھا تو کہنے لگی آپ تو مسلمانوں کے خلیفہ بن گئے ہیں۔ اب ہماری بکریو ں کا دودھ کون دھوئے گا ؟آپؓ نے فرمایا:ــ مجھے تمہاری بکریوں کا دودھ دھونے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی (گویا کہ میںخلیفہ ہوتے ہوئے بھی یہ کام کر وںگا) ۔                

    مومنین کی ایک اہم صفت یہ ہے کہ ’’وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے مسکین ، یتیم اور قیدی کو کھا نا کھلاتے ہیں۔‘‘

    یتیم کی کفالت کرنے والے کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جنت کی رفاقت نصیب ہو گی ۔یتیموں کو دھتکارنااور مسکین کو کھانا نہ کھلانا مشرکین کا عمل ہے جیسا کہ قرآن مجید میں جا بجا اس کا ذکر آیا ہے ۔

    یتیموں اور بیواؤں،فقراء اور مساکین سے اللہ تعالیٰ کو کس قدر محبت ہے اور کن کن طریقوں سے اللہ پاک ان کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ۔دیکھئے جتنی عبادات اللہ تعالیٰ نے ہم پر فرض کی ہیں بالخصوص روزہ ،حج اورعمرہ اورشرعی قسم توڑنے کا کفارہ وغیرہ ۔ان عبادات میں کسی کمی یا کوتاہی کاازالہ اس جیسی کسی عبادت کے بجا ئے فقراء اورمساکین کی خدمت سے کیا جا تا ہے۔

     بوڑھا شخص یا کوئی بیمار روزہ نہیں رکھ سکتا تو یہ بھی ہو سکتا تھا کہ ایک روزے کے بدلے میں کچھ نفل پڑھتا یا قرآن کی تلاو ت کرتا جو خالص اللہ ہی کی عبا دت ہے۔ اس کے کرنے کا حکم دیاجاتا لیکن ایسا نہیں ۔ اللہ تعا لیٰ فرماتا ہے: روزہ نہیں رکھ سکتے ہو تو ایک روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلاؤ

    روزے جیسی عظیم عبادت کے دوران اگر جماع کر لیا  تو اس کا ازالہ کسی غلام کی گردن چھڑاکر کرو یا60 مساکین کو کھانا کھلاؤ۔ بغیر احرام کے میقات سے گزرنے والے کو ایک اضافی طواف کا حکم بھی دیا جا سکتا تھا لیکن نہیں ! فرمایا :حدود اللہ کی خلاف ورزی کی ہے، اب اس کے عوض مکے کے فقراء اور مساکین کو بکرے یا دنبے کا گوشت کھلاؤ ۔ قسم کا کفارہ دس مساکین کو کپڑے پہنانا یا کھانا کھلانا یاایک غلام آزادکرانا ھے

    ضرورت مند اور مستحق کی مدد کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اسے مستقل روزگار فراہم کرنے میں مدد دی جائے ۔ بھیک مانگنے اور سوال کرنے کی اسلام میں سخت ممانعت ہے  اور  اس عمل کو نبی کریم   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناپسند کیا ہے ۔ بد قسمتی سے آج مسلمان معاشروں  میں  لوگوں نے بڑے پیمانے پر اس کو پیشے کے طور پر اختیار کر لیا ہے جس کی ہر سطح پر  حوصلہ شکنی ہونی چا ہئے  اور  حقیقی مستحقین کو ان کا حق بغیرطلب کئے ملنا چاہئے ۔

    یہ کام اصل میں تو مسلمان حکومتوں کے کرنے کا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کو اس طرف دھیان دینے کی فرصت ہی کہاں ہے۔ انفرادی طور پر بھی ہمیں اپنے پڑوسیوں اور رشتہ داروں میں بڑ ھ چڑ ھ کر ضرورت مندوں کی مدد کرنی چاہیے اور اجتماعی طور پر بھی بڑے پیمانے پر خد مت خلق کے ادارے اور تنظیمیں قائم کر کے مستحقین کی ضرورتوں کو پورا کرنے کا انتظام کرنا چاہیے ۔

     نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نبوت سے قبل معاہدہ حلف ا لفضول میں شریک ہوئے تھے ۔ ابن سعد اور ابن ھشام نے اس کا تذکرہ کیا ہے کہ مکہ میں کمزور وں پر ظلم ہوتا تھا اور ان کے حقوق غصب کئے جاتے تھے ۔ قریش کے کچھ زعما جمع ہوئے اور ایک معاہدہ طے پایا جس کے ذریعے ظلم اور انسانی حقوق کی حق تلفی کا ازالہ مقصود تھا۔

     نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس معاہدے میں شریک ہوئے اور فرمایا :مجھے اس کے عوض سرخ اونٹ بھی قبول نہیں اور اسلام کے بعد بھی کسی ایسے معاہدے کے لئے مجھے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )دعوت دی جائے تو میں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )خوشی سے اس میں شریک ہوں گا ۔

    خدمت خلق کا کام گناہوں کی بخشش اور رب کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ ایک شخص نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا میں ایک گناہ کر بیٹھا ہوں۔آپ نے پوچھا تمہاری والدہ زندہ ہیں ؟ اس نے عرض کیا نہیں ۔ فرمایا تمہاری خالہ زندہ ہے ؟اس نے کہا ہاں، تو آپ نے فرمایا :جاؤ خالہ کی خدمت کرو اللہ تمہارے گنا ہ بخش دے گا 

    والدین کی خدمت تو بدرجہ اولیٰ جنت کے حصول کا ذریعہ ہے ۔ اگر ہم والدین کی خدمت اوردیکھ بھال کریں گے تو جنت ملے گی اور اگر ان کے دل دکھائیں گے اور ایذا دیں گے تو پھر اللہ کی طرف سے  سزا ملے گی ۔

حضرت عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے کسی نے اپنی پریشانی کا ذکر کیا کہ سات سال سے ایک بیماری میں مبتلا ہوں ہر طرح کا علاج کرایا مگر کوئی فرق نہیں پڑا ۔ آپؒ نے فرمایا جاؤایسی جگہ تلاش کرو جہاں لوگ پانی کی تنگی میں مبتلا ہوں وہاں کنواں کھداؤ، مجھے اللہ کی رحمت سے پوری امید ہے وہاں چشمے سے پانی جاری ہو اور تمہاری بیماری ٹھیک ہو جائے ۔ اس نے ایسا ہی کیا اور صحت یاب ہو گیا۔

     ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

    صدقہ سے اپنے مریضوں کا علاج کرو ــ

    حضرت سعد ؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا :میری والدہ وفات پا چکی ہیں، ان کی طرف سے صدقہ کروں تو ان کو فائدہ پہنچے گا ؟

    آپ نے فرمایا ہاں اور تم پا نی کا بندوبست کرو (جہاں لوگوں کو پانی کی ضرورت ہو وہاں کنواں بنا دو ) 

    

    مسلم شریف کی روایت ہے کہ ایک شخص نے راستے سے اس درخت کو کاٹ دیا جولوگوں کو آنے جا نے میں تکلیف دیتاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بخشش فرمادی ۔

    بیمار کی عیادت اور اس کے علاج معالجے کا انتظام بڑے اجر وثواب کاباعث ہے ۔امام ترمذی ؒنے روایت بیان کی ہے کہ جو کوئی صبح کے وقت کسی بیمارکی عیادت کو جاتا ہے تو شام تک70ہزار فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں اورشام کے وقت جاتا ہے تو صبح تک   70ہزار فرشتے اس کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں اور اسے جنت کا ایک باغ عطا کیا جاتاہے

    صحیح مسلم کی روایت ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

    ’’جب کوئی مسلمان کسی مسلمان کی مزاج پرسی کے لئے جاتا ہے تو وہ جنت کے باغ میں ہوتا ہے ۔

    اما م ترمذیؒ نے روایت بیان کی ہے:

     ’’جوکسی مصیبت زدہ کی تعزیت کرے (اسے تسلی دے)اسے اتناہی ثواب ملے گا جتنا کہ مصیبت زدہ کو 

    نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پڑوس میں ایک یہودی لڑکا بیمار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔وہ عالم نزع میں تھا۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے کلمہ توحید پڑھنے کی تلقین کی اس نے قریب کھڑے باپ کو سوالیہ انداز میں دیکھا۔باپ نے کہا: ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات مان لو۔ اسنے کلمہ پڑھ لیا اور اسکی روح پروازکر گئی ۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:شکر ہے اس رب کا جس نے اسے جہنم کی آگ سے بچا لیا ۔

    خدمت انسانیت میں مسلم اور غیر مسلم میں فرق نہیں ۔ ہاں مسلمان سے ہمدردی زیادہ ثواب کا باعث ہے لیکن اگر کوئی غیر مسلم بھی ہمدردی اور مدد کا مستحق ہو تو اس کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ وہ بھی اللہ کابندہ ہے ۔

     بخاری اور مسلم  کی متفق علیہ روایت ہے :

    ’’جو کسی بیوہ یایتیم کے لئے سعی کرے وہ اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا اس شخص کی طرح ہے جو بغیر کسی وقفے کے مسلسل نماز میں کھڑا ہو یا اس روزہ دار کی طرح ہے جو کبھی روزہ نہ چھوڑتا ہو۔ ‘‘

    ابو داؤد کی روایت ہے:

    ’’ جو کسی انسان کی حاجت پوری کرنے میں لگا ہو، اللہ اس کی حاجت پوری کر دیتا ہے ـ اور جو کسی مسلمان کی تکلیف اور بے چینی کو دورکرنے میں مدد دیتا ہے اللہ اسے قیامت کے دن بے چینی اور تکلیف سے نجات دے گا۔ ‘‘

     ترمذی شریف کی روایت ہے :

    ’’تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پررحم فرمائے گا ۔‘‘

     بخاری اور مسلم کی روایت ہے:

     ’’ جو بندوں پر رحم نہیں کرتا اللہ بھی اسے اپنی رحمت سے محروم کر دیتا ہے۔‘‘

     امام احمد اور امام ترمذی نے روایت بیان کی ہے :

    ’’ رحم اور ہمدردی تو اس شخص کے دل سے نکال دی جاتی ہے جو بد بخت ہو ۔ 

ہمیں چاہئے کہ ضرورت مند انسانوں سے محبت اور ہمدردی کریں اور ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں مدد دیں تاکہ اللہ تعالی  کی رضا حاصل ہو ۔


ب - اصلاح بین الناس


 افراد یا جماعتوں کے درمیان بگڑے ہوئے اور خراب تعلقات کو شرعی تقاضوں اور اصولوں کے مطابق استوار کرنا ، متنفر دلوں کو قریب کرنا ، متصادم آراؤں میں ہم آہنگی پیدا کرنا ، خاص و عام کو زمین میں فتنہ و فساد پھیلانے سے روکنا اور سماج میں امن و امان کا قیام اور ایک صالح معاشرہ کی تشکیل کرنا  “اصلاح “ کہلاتا ھے ۔ 


قرآن کریم میں متعدد مقامات پر لوگوں کے درمیان اصلاح کا حکم دیا گیا ہے ۔:


 اِنَّما الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَۃٌ فَأَصْلِحُوا بَیْنَ أَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللَّہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ (۹)


’’(یاد رکھو )سارے مسلمان بھائی بھائی ہیں پس اپنے دوبھائیوں میں ملاپ کرادیا کرو ، اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے ۔‘‘


ایک جگہ اصلاح کے حکم کے ساتھ مفسدین کی راہ چلنے سے منع کیا گیا ہے

۔

ْ وَأَصْلِحْ وَلاَ تَتَّبِعْ سَبِیْلَ الْمُفْسِدِیْن۔ 

اور اصلاح کرتے رہنا اور بد نظم لوگوں کی رائے پر عمل مت کرنا ۔‘‘


سورہ حجرات میں مومنین کے آپسی جھگڑے کا تصفیہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے بغاوت کرنے والے کے خلاف طاقت کے استعمال کی بھی اجازت دی گئی ہے ۔:


وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا فَإِن بَغَتْ إِحْدَاہُمَا عَلَی الْأُخْرَی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتَّی تَفِیْء َ إِلَی أَمْرِ اللَّہِ فَإِن فَاء تْ فَأَصْلِحُوا بَیْنَہُمَا بِالْعَدْلِ وَأَقْسِطُوا إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْن۔ (۱۱)


’’اور اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑپڑیں تو ان میں میل ملاپ کرادیا کرو ۔ پھر اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک جماعت دوسری جماعت پر زیادتی کرے تو تم (سب) مل کر اس گروہ سے جو زیادتی کرتا ہے لڑو ۔ یہاں تک کہ وہ اللہ تعالی کے حکم کی طرف لوٹ آئے تو پھر انصاف کے ساتھ صلح کرادو اور عدل کرو بے شک اللہ تعالی انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ۔ ‘‘


کیوں کہ اس میں معاشرہ اور معاشرے کے ہر فرد کے لیے خیر مضمر ہے ۔ اسی کے ذریعہ پر امن اور بے خوف و خطر معاشرے کی تشکیل عمل میں آسکتی ہے ۔:

ایک حدیث پاک میں تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ ’’کیا میں تمہیں روزہ، نماز اور صدقہ سے افضل عمل نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرور بتائیے۔ ارشاد فرمایا: وہ عمل آپس میں روٹھنے والوں میں صلح کرا دینا ہے کیونکہ روٹھنے والوں میں ہونیوالا فساد خیر کو کاٹ دیتا ہے‘‘۔

حضرت سیدنا اَنس رضی اللہ تعالی عنھم فرماتے ہیں: ایک روز رسول کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبسم فرمایا۔ حضرت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! میرے ماں باپ آپ ؐ پر قربان، آپ ؐ نے کس لئے تبسم فرمایا۔ ارشاد فرمایا: میرے دو اُمتی اللہ عزوجل کی بارگاہ میں دوزانو گر پڑیں گے، ایک عرض کریگا یااللہ عزوجل! اس سے میرا انصاف دلا کہ اس نے مجھ پر ظلم کیا تھا۔ اللہ عزوجل مدعی (یعنی دعویٰ کرنیوالے) سے فرمائے گا: اب یہ بے چارہ (یعنی جس پر دعویٰ کیا گیا ہے وہ) کیا کرے، اسکے پاس تو کوئی نیکی باقی نہیں۔ مظلوم (مدعی) عرض کریگا:  میرے گناہ اسکے ذمے ڈال دے۔ اتنا ارشاد فرما کر سرور کائناتؐ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رو پڑے، فرمایا: وہ دِن بہت عظیم دِن ہو گا کیونکہ اس وقت (یعنی بروزِ قیامت) ہر ایک اس بات کا ضرورت مند ہو گا کہ اسکا بوجھ ہلکا ہو۔ اللہ عزوجل مظلوم (یعنی مدعی) سے فرمائے گا: دیکھ تیرے سامنے کیا ہے؟ وہ عرض کریگا: اے پروردگار عزوجل! میں اپنے سامنے سونے کے بڑے شہر اور بڑے بڑے محلات دیکھ رہا ہوں جو موتیوں سے آراستہ ہیں، یہ شہر اور عمدہ محلات کس نبی یا صدیق یا شہید کیلئے ہیں؟ اللہ عزوجل فرمائے گا: یہ اس کیلئے ہیں جو ان کی قیمت ادا کرے۔ بندہ عرض کریگا: ان کی قیمت کون ادا کر سکتا ہے؟ اللہ عزوجل فرمائے گا: تو بھی ادا کر سکتا ہے۔ وہ عرض کریگا: کس طرح؟ اللہ عزوجل فرمائے گا: اس طرح کہ تو اپنے بھائی کے حقوق معاف کر دے۔ بندہ عرض کریگا: یااللہ عزوجل! میں نے سب حقوق معاف کئے۔ اللہ عزوجل فرمائے گا: اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑو اور دونوں اکٹھے جنت میں چلے جاؤ پھر سرکارِ نامدار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل سے ڈرو اور مخلوق میں صلح کرواؤ کیونکہ اللہ عزوجل بھی بروزِ قیامت مسلمانوں میں صلح کروائے گا‘‘۔

ج ۔ بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا


دین اسلام اپنے قیام و بقا کے لیے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو اساس اولین قرار دیتا ہے ، یہ امت محمدیہ کا خاصہ اور دینی فریضہ ہے ،امت کے ہر فرد پر بحسب استطاعت یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے ۔ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :’’

 تم میں سے جو کوئی برائی دیکھے وہ اپنے ہاتھ سے روکنے کی کوشش کرے ،اگر ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکے اور زبان سے بھی روکنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو دل سے براجانے ،اور یہ ادنی ایمان ہے۔ 


معاشرے کے ہر فرد کو احساس ہونا چاہئے کہ افراد معاشرہ کے کس عمل میں معاشرے کی بھلائی مضمر ہے اور کون سا عمل معاشرے کے لیے تباہ کن ہے، کیوں کہ فرد  کی بداعمالی کا اثر صرف اس پر ہی نہیں ہوتا بلکہ پورا معاشرہ اس کے لپیٹ میں آجاتا ہے ، اسی وجہ سے دوسرے کی بداعمالی سے بےاعتنائی در حقیقت اپنے سے بے اعتنائی ہے ۔

حدیث مبارکہ کا مفھوم ھے

’’اللہ کے حدود پر قائم ہونے والے اور انہیں توڑنے والے کی مثال یوں ہے کہ جیسے کچھ لوگ قرعہ ڈال کر ایک کشتی میں سوار ہوئے، کچھ لوگ اس کے اوپری حصے میں اور کچھ اس کے نچلے حصہ میں ، نچلے حصے کے لوگو ں کو پانی لینے کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا ہوتا ھو ۔ اگر نچلے حصے میں رہنے والے یہ سوچیں کہ ہم اپنے حصے میں سوراخ کرکے پانی حاصل کرلیں گے تاکہ اوپر والوں کو تکلیف نہ ہو ، اب اگر اوپری حصے میں مقیم لوگوں نے ایسا کرنے دیا ،انہیں نہ روکا تو وہ تمام کے تمام ہلاک ہوجائیں گے ، اور اگر انہوں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا، کشتی میں سوراخ کرنے سے منع کر دیا تو کشتی میں سوار تمام لوگ نجات پاجائیں گے “۔ 


اللہ تعالی کا فرمان ہے۔ْ


وَاتَّقُواْ فِتْنَۃً لاَّ تُصِیْبَنَّ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ مِنکُمْ خَآصَّۃً وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ شَدِیْدُ الْعِقَاب۔ (۷)


’’اور تم ایسے وبال سے بچو ! کہ جو خاص کر صرف ان ہی لوگوں پر واقع نہ ہوگا جو تم میں سے ان گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ جان رکھو کہ اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے ۔‘‘ 


نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت مسلمہ کا یہ امتیاز ہے کہ وہ ایک دوسرے کے لیے خیر خواہ ہوتے ہیں ، بھلائی کا حکم دیتے ہیں ، اوربرائی سے روکتے ہیں:

چنانچہ قرآن پاک میں ھے 

کُنتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہِ ۔ (۸)


’’ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالی پر ایمان رکھتے ہو۔ 


معاشرے میں قیام امن ، اس کا فروغ اور صالح معاشرہ کی تشکیل اسی وقت ممکن ہے جب مسلم معاشرے کا ہر فرد اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے کمر بستہ ہوجائے ۔

نیكی كا حكم دینا اور برائی سے روكنا معاشرے کی اصلاح كا  اھم ذریعہ ہے اور یہی نجات کی كشتی ہے

اہم واجبات جن پر معاشرے کی اصلاح اور دنیا وآخرت میں اس کی نجات وسلامتی کی بنیاد ہے ان میں سے ایک اہم واجب بھلائی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے، اور یہی چیز انسان کی کشتیٔ نجات ہے، اور یہی فریضہ نجات کا راستہ اور معاشرے کی اصلاح کا ذریعہ ہے، اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی انجام دہی ہر مسلمان پر واجب ہے؛ کیونکہ ہلاکت کے اسباب سے نجات کا یہی ایک ذریعہ ہے۔

چنانچہ اللہ رب العالمین نے قرآن کریم میں کثرت سے اس فریضے کی تلقین کی ہے، اور یہ ذکر کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت اپنی صفات حمیدہ کی بناء پر خیر الامم ( سب سے بہتر امت ) کا درجہ رکھتی ہے ان میں سب سے اہم صفت یہی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری ہے،

اپنے دین اور معاشرے کی فکر کرنے والے مسلمان کو اس آیت میں غورکرنا چاہیے کہ جس میں اللہ رب العالمین نے کیسے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو ایمان سے پہلے ذکر کیا، جبکہ ایمان تمام عبادتوں کی قبولیت کے لئے اولین شرط ہے، یہیں سے فریضۂ دعوت کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے، اور یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ نے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا ذکر اس لئے پہلے کیا کہ اس کا اثر کسی خاص فرد پر نہیں، بلکہ پورے معاشرے پرہوتا ہے، لہذا یہ بہت ہی اہم فریضہ ہے۔

اور اسی طرح ایک دوسری آيت کریمہ میں اللہ تعالی نے نماز اورزکاة  سے پہلے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا تذکرہ کیا ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ اس کی اہمیت، منفعت اور معاشرہ میں اس کی افادیت اور تاثیر بے مثال ہے، اور اس آیت سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر مومنین اور مومنات کے ان مخصوص اوصاف میں سے ہے جن سے کسی مومن مرد یا مومنہ عورت کا خالی رہنا یا ان میں کوتاہی کرنا جائز نہیں ہے، اوراس مفہوم کی آیتیں بکثرت ہیں۔

اللہ تعالی نے بنو اسرائیل کے کافروں کی مذمت اس فریضہ کو ترک کرنے کی وجہ سے فرمائی، اور اس کی وجہ سے ان پر لعنت بھی کی ہے، جیساکہ سورہ مائدہ میں ارشاد الہی ہے: 

لُعِنَ الَّـذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ عَلٰى لِسَانِ دَاوُوْدَ وَعِيْسَى ابْنِ مَرْيَـمَ ۚ ذٰلِكَ بِمَا عَصَوْا وَّكَانُـوْا يَعْتَدُوْنَ o

بنی اسرائیل میں سے جو کافر ہوئے ان پر داؤد اور مریم کے بیٹے عیسیٰ کی زبان سے لعنت کی گئی، یہ اس لیے کہ وہ نافرمان تھے اور حد سے گزر گئے تھے۔

كَانُـوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَـعَلُوْهُ ۚ لَبِئْسَ مَا كَانُـوْا يَفْعَلُوْنَ o

آپس میں برے کام سے منع نہ کرتے تھے جو وہ کر رہے تھے، کیسا ہی برا کام ہے جو وہ کرتے تھے

یہاں اللہ رب العالمین امت محمدیہ صلى الله عليه وآلہ وسلم کو نصیحت کرتا ہے کہ دیکھو! بنی اسرائیل اپنی نافرمانی، ظلم اور نہی عن المنکر کے فریضہ سے روگردانی کے سبب اللہ تعالی کی نگاہ میں ملعون اور مذموم ہوگئے ، چنانچہ اگرتم نے بھی اس فریضہ سے روگردانی کی توتمہارے ساتھـ بھی وہی معاملہ ہوگا جو ان کے ساتھـ ہوا، اور تم بھی اس برے انجام سے دوچار ہوگے جس سے وہ دوچار ہوئے، کیونکہ رب اور بندے کے درمیان صرف عبادت اور اطاعت کا تعلق ہے، سو جواللہ کی عبادت پر جما رہے گا اور اس کے احکام کی بجا آوری کرے گا اور اس کی منع کردہ چیزوں سے اجتناب کرے گا وہ اللہ کی جانب سے عزت و تکریم کا حق دار ہوگا اور اس کا انجام بہتر ہوگا، اورجو اس کی راہ حق سے روگردانی کرے گا وہ لعنت اور مذمت کا مستحق ہوگا اور خائب و خاسر ہوگا۔

اور نبی كريم صلى الله عليه وآلہ وسلم سے صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:   تم میں سے جو برائی كو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھـ سے تبديل كرے، اگر اس کی استطاعت نہ ركهے تو اپنی زبان سے ، اور اگر اس کی بھی استطاعت نہ ركهے تو اسے دل میں براجان لے، اور یہ سب سے كمزور ایمان ہے 

اس حدیث کو امام مسلم نے اپنی صحيح ميں روایت کيا ہے۔

صحیح مسلم میں ہی ایک دوسری روایت حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے ہے وہ کہتے ہیں کہ جناب   نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :   اللہ نے مجھـ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )سے پہلے جس قوم میں بھی کوئی نبی بھیجا تو اس کی امت میں سے اس نبی کے حواری اور صحابہ ہوتے تھے، جو اس کی سنت پر عمل کرتے اور اس کی اقتداء کرتے تھے، پھر ان کے بعد ایسے اَخلاف [جانشین] آئے جو ایسی باتیں کہتے تھے جن پر خود عمل نہیں کرتے تھے، اور ایسے اعمال کرتے تھے جن کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا ، لہذا جو شخص اپنے ہاتھـ سے ان سے جہاد کرے تو وہ مومن ہے، اور جو اپنی زبان سے ان کے ساتھـ جہاد کرے تو وہ بھی مومن ہے، اور جو اپنے دل سے ان سے جہاد کرے تو وہ بھی مومن ہے، اور اس کے بعد رائی کے دانے برابر بھی ایمان نہیں رہتا ہے۔

مسلمانو! اپنی ذات کے سلسلے میں اللہ سے ڈرو، اوراللہ کے لئے اپنے نفس سے جہاد کرو، اس کے حکم پرقائم رہو، اور اپنے ماتحتوں یعنی اہل وعیال کو اس کے حکم کا پابند بناؤ، اور مذکورہ دلائل پر عمل کرتے ہوئے ہرجگہ اور ہمہ وقت اپنی طاقت بھر بھلائی کا حکم دو، اور برائی سے روکو، اور اپنے اندرمومنین کے اوصاف واخلاق پیدا کرو، اور کافروں اور مجرموں کے اخلاق واوصاف سے بچو اور دور رہو، ہمیشہ تمہارا مطمح نظر اپنی اور اپنے گھروالوں کی نجات نیز تمام مسلمان بھائیوں کی نجات اور کامیابی رہے،

قرآن پاک میں اصحاب السبت (یعنی ہفتے کے روز والے ) کا ذکر کیا گیا ھے بنی اسرائیل کی اس قوم پر  ہفتے کے دن مچھلیاں پکڑنا حرام کر دیا گیا تھا۔ اس وقت اس قبیلے کے لوگ تین گروہوں میں بٹ گئے۔ 

ایک وہ گروہ جو مختلف حیلوں سے مچھلیاں پکڑتا رھا اور اللہ پاک کے حکم کی نافرمانی کرتا رھا

دوسرا وہ گروہ جو مچھلی خود تو نہیں پکڑتا تھا لیکن پکڑنے والوں کو اس گناہ کے کام سے روکتا بھی نہیں تھا

 اور تیسرا وہ گروہ جو خود بھی مچھلیاں نہیں پکڑتا تھا اور پکڑنے والوں کو اس کام سے روکنے کی بھی حتی المقدور کوشش کرتا تھا۔ 

بالآخر اس قوم پہ خدا کا عذاب آ گیا اور پہلا اور دوسرا گروہ اس عذاب کے گرفت میں آگئے  اس عذاب سے وہ لوگ بندر اور خنزیر کی شکل اختیار کر گئےجیسا کہ قرآن میں ہے 

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّـذِيْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِى السَّبْتِ فَقُلْنَا لَـهُـمْ كُوْنُـوْا قِرَدَةً خَاسِئِيْنَ o

اور بے شک تمہیں وہ لوگ بھی معلوم ہیں جنہوں نے تم میں سے ہفتہ کے دن زیادتی کی تھی پھر ہم نے ان سے کہا تم ذلیل بندر ہو جاؤ۔

 لیکن تیسرا گروہ  چونکہ نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کر رھا تھا اس لئے وہ اس عذاب سے مامون ومحفوظ رھا۔چنانچہ قرآن پاک میں ھے

فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُکِّرُوْابِهِٓ اَنْجَيْنَا الَّذِيْنَ يَنْهَوْنَ عَنِ السُّوْٓءِ وَاَخَذْنَا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا بِعَذَابٍم بَئِيْسٍم بِمَاکَانُوْا يَفْسُقُوْنَo

پھر جب وہ ان (سب) باتوں کو فراموش کر بیٹھے جن کی انہیں نصیحت کی گئی تھی (تو) ہم نے ان لوگوں کو نجات دے دی جو برائی سے منع کرتے تھے اور ہم نے (بقیہ سب) لوگوں کو جو (عملاً یا سکوتاً) ظلم کرتے تھے نہایت برے عذاب میں پکڑلیا۔ اس وجہ سے کہ وہ نافرمانی کر رہے تھے۔

اور ایک روایت میں آتا ہے کہ  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک مرتبہ منبر پرکھڑے ہوئے اور اللہ کی حمد وثناء بیان کی اور فرمایا:   بے شک اللہ تعالی فرماتا ہے کہ بھلائی کا حکم دو اور برائی سے منع کرو، اس سے پہلے کہ تم مجھـ سے دعا کرو تو میں تمہاری دعا قبول نہ کروں، اور تم مجھـ سے سوال کرو تو میں تمہیں عطا نہ کروں، اور اس سے پہلے کہ تم مجھـ سے نصرت طلب کرو تو میں تمہاری نصرت نہ کروں۔ 

(ابن ماجہ- ابن حبان)

معروف کا اطلاق ہر اس چیز پر ہوتا ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے، اور منکر ہر اس چيز کو کہتے ہیں جس سے اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، تومعروف میں تمام قولی وفعلی طاعات داخل ہیں، اسی طرح منکر میں تمام قولی وفعلی معاصی داخل ہیں، یہ بھی یاد رہے کہ ہرمسلمان اپنے ماتحتوں کے لئے نگراں اور ذمہ دار ہے، اور وہ ان سے متعلق پوچھا جائے گا، جیساکہ صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا:   خبردار تم میں سے ہر شخص اپنی رعایا کا نگہبان ہے، اور ہر شخص اپنی رعایا کے بارے میں جواب دہ ہے، چنانچہ امام ( سربراہ مملکت وحکومت) اپنی رعایا کا نگہبان ہے، اور وہ ان کے بارے میں جواب دہ ہے، اور مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور اپنے گھر والو ں کے بارے میں جواب دہ ہے، اور عورت اپنے خاوند کے گھر اور اس کے بچوں کی ذمہ دار ہے اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے، اورغلام اپنے مالک کے مال کا نگہبان ہے اور اس کے مال کے بارے میں جواب دہ ہے، لہٰذا آگاہ رہو! تم میں سے ہر ایک شخص نگہبان ہے، اورتم میں سے ہرشخص اپنی رعایا سے متعلق جواب دہ ہے۔

دعوت وتبلیغ کرنا تو فرض ہے، قرآن سے بھی ثابت ہے، اور حدیث سے بھی ثابت ہے، تمام انبیائے کرام اور صحابہٴ کرام کے عمل سے بھی ثابت ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے لے کر آج تک یہ کام ہوتا رہا ہے۔ البتہ تبلیغ ودعوت کا طریقہ شریعت نے متعین نہیں کیا،، مدارس دینیہ میں تعلیم وتربیت جو ہورہی ہے، یہ بھی درست ہے، خانقاہوں میں بیٹھ کر بزرگان دین سے جو اصلاح نفس اور تربیت حاصل کرتے ہیں وہ بھی درست ہے۔ جو لوگ کتابیں، پمفلٹ یا نیٹ پر لکھ کر اور تقریر کرکے لوگوں کو دین کی باتیں بتاتے ہیں، یہ بھی

درست ہے،  تبلیغی جماعت جس طریقہ پر کام کررہی ہے یہ بھی درست ہے کسی علاقہ میں کوئی خیر اور ہدایت کی

باتیں بتاتا ہے یہ بھی دعوت وتبلیغ ھی ہے یہ سب خالص دین کے کام ہیں۔ البتہ عوام کی

اصلاح عموماً گھر پر رہ کر نہیں ہوپاتی، اس لیے اپنے تجربہ کی وجہ سے چلہ یا چار ماہ یا سال میں بھیجا جاتا ہے، جماعت والے اپنا مال اپنی جان اپنا وقت لگاکر دین سیکھنے اور سکھانے کے لیے جاتے ہیں۔ یہ تو بہت ھی اچھا طریقہ ہے۔ اس کا فائدہ بھی ساری دنیا میں ظاہر ہے۔ شرعی لحاظ سے یہ طریقہ بھی ٹھیک ہے، آپ اس میں زوق وشوق سے حصہ لیں۔ آپ کو خود دین کی

مٹھاس معلوم ہوجائے گی، اوراس کے نتائج بہت عمدہ دین داری کی شکل میں ظاہر ہوں گے۔

اللہ کے بندو! اللہ سے ڈرو، اوراس فریضہ کی ادائیگی کے لئے کمربستہ ہوجاؤ، قبل اس کے کہ تمہارے اوپر اللہ کی طرف سے کوئی ایسی مصیبت آجائے جس کا تم سامنا نہیں کرسکتے، دعا ہے کہ اللہ رب العالمین ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت دے، اور اپنے دین پرتادم وتاحیات ثابت قدم رکھے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کی ادائیگی کی توفیق دے اور اخلاص اور سچے دل سے حق بات کی وصیت کرنے اور اس پر صبر سے کام لینے کی توفیق عنایت فرمائے۔ 

آمین یا رب العالمین


د - مظلوم کی مدد

 

مظلوم کا مادہ (ظ ل م) ظلم ہے، جو عدل کا عکس ہے، اس کے معنی ’’کسی کے ساتھ برا کرنے کے ہیں‘‘۔ ظلم کو بیان کرنے کے لیے سانپ کی مثال دی جاتی ہے، جو گوہ کے بل میں گھس کر اس کے بچوں کو کھا جاتا ہے اور اس کے بل پر قبضہ کر لیتا ہے۔


مظلوم ، مفعول ہے، یعنی جس پر ظلم کیا جائے، ’’جو کسی انسان کے ظلم کا شکار ہوا وہ مظلوم ہے۔‘‘ ظلم، کسی چیز کو اس کی نامناسب جگہ پر رکھنے کو کہتے ہیں، ظلم کی ایک تعریف یہ بھی کی گئی ھے کہ جیسے کسی نے بھیڑیے کو بکریوں کی نگرانی سونپ دی، تو یہ ظلم ہے۔ (المعانی)

اسلام سوسائیٹی کے ہر فرد پر یہ ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ جہاں کہیں بھی ظلم ہورہا ہو ، ظلم کی جو بھی شکل ہو اس کو روکا جائے ، مظلوم کی دست گیری اور مدد کی جائے ، اسے بے یارو مددگار نہ چھوڑ ا جائے بلکہ اس کو ظلم کے پنجے سے چھڑایا جائے اور حسب استطاعت ظلم کو روکنے میں اپنی طاقت کا استعمال کیا جائے۔:


 وَمَا لَکُمْ لاَ تُقَاتِلُونَ فِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَالْمُسْتَضْعَفِیْنَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاء  وَالْوِلْدَانِ الَّذِیْنَ یَقُولُونَ رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ ہَـذِہِ الْقَرْیَۃِ الظَّالِمِ أَہْلُہَاوَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ وَلِیّاً وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنکَ نَصِیْرا۔o

بھلا کیا وجہ ہے کہ تم اللہ کی راہ میں اور ان ناتواں مردوں ، عورتوں اور ننھے ننھے بچوں کے چھٹکارے کے لیے جہاد نہ کرو ؟ جو یو ں دعائیں مانگ رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ! ان ظالموں کی بستی سے ہمیں نجات دے اور ہمارے لیے خود اپنے پاس سے حمایتی مقرر کردے اور ہمارے لیے خاص اپنے پاس سے مدد گار بنا ۔‘‘ 


 اگرچہ اس آیت کا اشارہ ان مظلوم بچوں ، عورتوں اور مردوں کی طرف ہے جو اسلام قبول کرنے کے بعد بھی مکہ مکرمہ میں رہ گئے تھے اور ھجرت پر قادر نہ تھے ۔ لیکن جہاں بھی غریبوں اور لاچاروں کو تختہ مشق ستم بنایا جارہا ہو ان کی دست گیری کرنے اور ظلم سے نجات دلانے کی ذمہ داری سوسائیٹی کے ہر فرد پر عائد ہوتی ہے ۔

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا : ’’یعنی مریض کی عیادت کرنا ، جنازے کے پیچھے چلنا ، چھینک کا جواب دینا ، سلام کا جواب دینا ، مظلوم کی مدد کرنا ، دعوت دینے والے کی دعوت قبول کرنا ، قسم پورا کرنا ۔

امام نووی اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں : ’’مظلوم کی مدد کرنا فرض کفایہ ہے اور یہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی ایک شکل ہے ۔ یہ اس پر واجب ہے جو قادر ہواور اسے کسی ضرر اور تکلیف کا خوف نہ ہو


ظلم، کتاب و سنت، اجماع، قیاس اور عقل سب کی رو سے حرام ہے۔ 

وَلَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِىْ حَرَّمَ اللّـٰهُ اِلَّا بِالْحَقِّ ۗ وَمَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِـوَلِـيِّـهٖ سُلْطَانًا فَلَا يُسْـرِفْ فِّى الْقَتْلِ ۖ اِنَّهٝ كَانَ مَنْصُوْرًا o

اور جس جان کو قتل کرنا اللہ نے حرام کر دیا ہے اسے ناحق قتل نہ کرنا، اور جو کوئی ظلم سے مارا جائے تو ہم نے اس کے ولی کے واسطے اختیار دے دیا ہے لہٰذا قصاص میں زیادتی نہ کرے، بے شک اس کی مدد کی گئی ہے۔

مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، اور یہ بھائی چارہ ایک دوسرے پر حقوق اور فرائض عائد کرتا ہے، اور انھیں حقوق میں سے ایک اپنے مظلوم بھائی کی حمایت ہے، اور اس پر ظلم ہو رہا ہو تو ظالم کو اس کے مقابلے میں ہر طرح کی مدد سے محروم کرنا ہے۔ جو ظالم کا ہاتھ نہیں روکتا، وہ اس کا خیرخواہ نہیں ہے۔ اسلامی ریاست میں جھوٹا الزام لگانا بھی ظلم کا ارتکاب شمار ہوگا، اور ریاست اس کے مرتکب کو سزا دیکر مظلوم کی داد رسی کرے گی اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’’

وَالَّـذِيْنَ يُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْـرِ مَا اكْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَّاِثْمًا مُّبِيْنًا o

اور جو ایمان دار مردوں اور عورتوں کو ناکردہ گناہوں پر ستاتے ہیں سو وہ اپنے سر بہتان اور صریح گناہ لیتے ہیں

کسی کی حق تلفی کرنے والا خواہ وہ خود ہو یا کوئی انسان، اس کے والدین ہوں یا اس کا اپنا نفس، یہ گناہ کا کام ہے، اور ہر گناہ ظلم ہے، تو خواہ زیادتی حرمات کے معاملے میں ہو، یا حرمت ِ نکاح کا پاس نہ کیا ہو، یا دوسروں کے مال ظلم سے حاصل کیے ہوں، خواہ وہ غصب ہو، یا قمار بازی یا سود اور اس جیسے دوسرے حرام ذرائع، یا ناحق کسی کا خون کیا ہو، ان سب کی سزا آگ کا عذاب ہے۔

اللہ تعالی ظلم ہی کی ایک صورت بیان کرتے ہیں: ’’

اِنَّ الَّـذِيْنَ يَاْكُلُوْنَ اَمْوَالَ الْيَتَامٰى ظُلْمًا اِنَّمَا يَاْكُلُوْنَ فِىْ بُطُوْنِـهِـمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيْـرًا o

بے شک جو لوگ یتیموں کا مال ناحق کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ آگ سے بھرتے ہیں، اور عنقریب آگ میں داخل ہوں گے

اسی طرح اللہ تعالی ظلم ہی کی ایک اور صورت بیان کرتے ہیں کہ جو لوگ وراثت کے حقداروں کا حق دبا کر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتے ھیں اور اللہ کی حدود کو توڑتے ھیں 

وَمَنْ يَّعْصِ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهٝ يُدْخِلْـهُ نَارًا خَالِـدًا فِيْـهَا وَلَـهٝ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ o

اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے نکل جائے (اللہ) اسے آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہے

گھروں کے مظلوم

اپنے گھروں کے اندر بھی ہر صاحب ِ بصیرت کو اپنی آنکھیں کھلی رکھنی چاہئیں، تاکہ افراد کنبہ ایک دوسرے پر ظلم نہ کریں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کا گھر، خاندان کے دوسرے گھروں پر ظلم کر رہا ہو، یا ان کے ظلم کا شکار ہو رہا ہو، اگر وہاں خاموش رہے تو ظالم کے ساتھی بنیں گے۔ اگر آپ کے گھر میں والدہ بہو پر ظلم ڈھاتی ہیں، تو آپ کس کی حمایت کریں گے؟ والدہ کی یا مظلوم بہو کی؟ اگر آ پ اس ظلم کو دیکھتے ہوئے بھی خاموش رہے تو آپ ظالم کے ساتھی قرار پائیں گے۔ اگر بڑے بیٹے /بھائی کے چھوٹے بہن بھائیوں پر ظلم کو دیکھ کر نگاہیں پھیر لیں گے تو یہ بھی مظلوم کی حمایت سے انکار اور ظالم کی مدد میں آئے گا۔اگر آپ کے گھر سے پڑوسیوں سے بد سلوکی ہو رہی ہے تو بھی آپ کو ظالم کا ہاتھ پکڑنا ہو گا۔ہر کنبے کو صاحب ِ اخلاق بننا ہوگا، تب ہی معاشرے سے ظلم کا خاتمہ ممکن ہے، اور ظالم کا ہاتھ ظلم سے روک لینا بھی اصلاً اس کی مدد ہی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: 

اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، ایک شخص نے سوال کیا: یا رسول اللہ ﷺ، میں اس کی مدد کروں جب وہ مظلوم ہو، لیکن اگر وہ ظالم ہو تو اس کی مدد کیسے کروں؟ فرمایا : اسے ظلم سے۔ روک دو یا منع کر دو۔ تو یہی اس کی مدد ہے۔

( البخاری)

یعنی ظلم سے روکنے میں مدد ہی ظالم کی بہترین خیرخواہی ہے، اگر ظلم کرنے میں مدد کی تو وہ بھی ظالم کا ساتھی قرار پائے گا۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے:۔

وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ فَاُولٰٓئِكَ مَا عَلَيْـهِـمْ مِّنْ سَبِيْلٍ o

اور جو کوئی ظلم اٹھانے کے بعد بدلہ لے تو ان پر کوئی الزام نہیں۔

جہاں بھی ظلم ہو رہا ہو، یہ اہل ِایمان کی صفت ہے کہ وہ اسے روکنے کے لئے کھڑے ہوتے ہیں، اور ظالموں اور جابروں کے لئے نرم چارہ نہیں ہوتے، جب کوئی طاقت ور اپنی طاقت کے زعم میں ان پر دست درازی کرے تو ڈٹ کر کھڑے ہو جاتے ہیں اور دشمن کے دانت کھٹے کر دیتے ہیں۔ مؤمن کبھی ظالم سے نہیں دبتا اور متکبر کے آگے نہیں جھکتا۔ اس قسم کے لوگوں کے لئے وہ لوہے کا چنا ہوتا ہے، جسے چبانے کی کوشش کرنے والا اپنا ہی جبڑا توڑ لیتا ہے۔ 


مسلمانوں کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ زیادتی کرنے والے کو زیادتی کرنے دیں، اور مظلوم کو اس کے حال پر چھوڑ دیں، یا الٹا ظالم کے ساتھی بن جائیں، بلکہ ان کا یہ فرض ہے کہ وہ ظلم کے خاتمے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں، حتی کہ اگر طاقت کا استعمال کرنا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہ کریں، تاکہ اس کے ظلم کا ازالہ ہو۔ اور اس حکم کےمخاطب وہ لوگ ہیں جو طاقت کے استعمال پر قادر ہوں۔

عہد ِ جاہلیت میں جب عرب میں ظلم و جور بہت بڑھ گیا، تو قریش کے چند قبائل عبداللہ بن جدعان التیمی کے مکان پر جمع ہوئے اور آپس میں عہد کیا کہ مکہ میں جو بھی مظلوم نظر آئے گا، خواہ مکہ میں رہنے والا ہو یا کہیں اور کا، یہ سب اس کی مدد اور حمایت میں اٹھ کھڑے ہوں گے، اور اسے اس کا حق دلوا کر رہیں گے۔ اس اجتماع میں رسول کریم ﷺ بھی شریک تھے اور بعد میں شرف ِ رسالت سے مشرف ہونے کے بعد فرمایا کرتے تھے کہ ’’میں عبد اللہ بن جدعان کے مکان پر ایک ایسے معاہدے میں شریک تھا، کہ مجھے اس کے عوض سرخ اونٹ بھی پسند نہیں، اور اگر (دورِ) اسلام میں مجھے اس عہد و پیمان کے لئے بلایا جاتا تو میں لبیک کہتا۔‘‘ (ابنِ ہشام)


اس معاہدے کا پس منظر بھی ایک مظلوم کی حمایت اور مدد تھی، جیسا کہ تاریخ میں ذکر ہے کہ ایک آدمی سامان لیکر مکہ آیا، عاص بن وائل نے اس سے سامان خریدا۔ لیکن اس کا حق روک لیا، اس نے حلیف قبائل عبد الدار مخزوم اور جمح ، سہم اور عدی سے مدد کی درخواست کی، لیکن کوئی مدد کو نہ آیا، اس کے بعد اس نے جبل ِ ابی قبیس پر کھڑے ہو کر چند اشعار پڑھے جن میں اپنی مظلومیت بیان کی اس پر زبیر بن عبد المطلب نے دوڑ دھوپ کی اور کہا کہ یہ شخص بے یار و مدد گار کیوں ہے، ان کی کوشش سے بنی ہاشم، بنی مطلب، بنی اسد، بنی زہرہ اور بنی تیم اکٹھے ہوئے، پہلے معاہدہ کیا اور پھر اس شخص کو عاص بن وائل سے اس کا حق دلوایا(الرحیق المختوم) 

مظلوم کی حمایت کا ارادہ اور اس کی پشت پر کھڑا ہو جانا بھی ظالم کے قدم لرزا دیتا ہے۔ (اابن الاثیر) لیکن آج کتنی ہی مجلسیں اور پلیٹ فارم ہیں جن میں مظلوموں کی آواز اٹھانے کے بجائے ظالموں سے خیر سگالی کا اظہار کیا جاتا ہے، اور مظلوموں اور ان کے خیرخواہوں پر نکتے اٹھائے جاتے ہیں یا انھیں مطعون کیا جاتا ہے، ایسی سب محفلیں ظالم کی جانب جھکاؤ اور ظلم پر اس کی اعانت کے زمرے میں آتی ہیں، جو اسے اللہ اور اس کے رسول کے ذمہ سے نکال دیتی ہیں۔

حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ظلم سے بچو، کیونکہ ظلم قیامت کی تاریکیوں میں سے ہے۔ (رواہ مسلم)

حضرت ابو ہریرۃؓ سے روایت ہے، کہ رسول اللہ ﷺ نے ان امور کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا، (جن میں آدمی ظلم کا ارتکاب کرتا ہے): ’’بے شک تمہارے خون، تمہارے اموال، تمہاری عزتیں اور کھالیں تم پر اسی طرح حرام ہیں جس طرح آج کا دن، یہ مہینہ، اور تمہارا یہ شہر حرام (حرمت والا) ہے۔ (رواہ مسلم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: ’جس نے ظالم کی مدد کی ، تاکہ اس کے باطل کو حق ثابت کرے، تو اس سے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذمہ ختم ہو گیا۔‘‘

اخرجہ الحاکم)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو خبردار کر دیا ہے تاکہ کوئی بھی مظلوم کے خلاف ظالم کی مدد نہ کرے، اور اگر اس نے ایسا کیا تو اسے اس ظالم کا شریک کار سمجھا جائے گا۔قرآن کریم میں اللہ تعالی نے ظالموں کی جانب جھکاؤ رکھنے پر متنبہ فرمایا ہے: 

وَلَا تَـرْكَنُـوٓا اِلَى الَّـذِيْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُۙ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّـٰهِ مِنْ اَوْلِيَآءَ ثُـمَّ لَا تُنْصَرُوْنَo

اور ان کی طرف مت جھکو جو ظالم ہیں پھر تمہیں بھی آگ چھوئے گی، اور اللہ کے سوا تمہارا کوئی مددگار نہیں ہے پھر کہیں سے مدد نہ پاؤ گے۔

درآصل یہی جھکاؤ دنیا بھر کے ظالموں کو ظلم بڑھانے پر مائل کرتا ہے، اور وہ بلا خوف وتردد انسانوں پر ظلم کے نت نئے طریقے اپناتے ہیں۔اور اس جھکاؤ کی بدترین صورت یہ ہے کہ ظالم کا ظلم دنیا کے لیے خوشنما بن جاتا ہے، اور مظلوم کی چیخیں اور آہیں کسی کو سنائی نہیں دیتیں، یا ان پر کوئی کان نہیں دھرتا، کیونکہ ظالم کی جانب دنیا کا میلان اور جھکاؤ ہوتا ہے اور مظلوم انہیں دکھائی نہیں دیتا،

حضرت عبد اللہ بن عمرو ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ارحموا، ترحموا، واغفروا یغفر لکم (اخرجہ احمدؒ) ’’

رحم کرو تم پر رحم کیا جائے گا، دوسروں کو بخش دو، تمہاری بخشش ہوگی

ابو کبشہ الانماریؓ سے روایت ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے سنا: تین لوگوں پر میں قسم کھاتا ہوں اور تمہیں انکے بارے میں بتاتا ہوں، اسے یاد رکھو، فرمایا: صدقہ دینے سے آدمی کے مال میں کمی نہیں ہوتی، اور جس مظلوم نے ظلم پر صبر کر لیا ، اللہ تعالی اس کی عزت بڑھا دیتا ہے، اور جو مانگنے (سوال کرنے) کا دروازہ کھولتا ہے، اللہ اس کے لئے فقر کا دروازہ کھول دیتا ہے، (فقر یا اس جیسا کوئی لفظ کہا)‘‘


مظلوم کی پکار

مظلوم کی پکار ایک کمزور کی طاقتور پکار ہے، اوراسے کہیں سے بھی مدد مل سکتی ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’مظلوم کی آہ سے بچو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی روک ٹوک نہیں ہے‘‘۔ (رواہ البخاری)


حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’مظلوم کی آہ سے بچو، اگرچہ وہ کافر ہو، اس کے درمیان میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے‘‘۔ (البانی نے کہا، یہ صحیح ہے۔)

حضرت اوس بن شرجیل سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص کسی ظالم کو تقویت دینے کے لئے اس کے ساتھ چلا، یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ ظالم ہے، تو وہ اسلام سے نکل گیا‘‘۔ (بیھقی، طبرانی کبیر)

واثلہ بن اسقع سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا: عصبیت کسے کہتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمؐ نے فرمایا: تیرا اپنی قوم کی اس کے ظلم پر ہونے کے باوجود مدد کرنا۔ (ابوداؤد)


ظلم بھری دنیا

آج دنیا ظلم اور فساد سے بھر گئی ہے، مشرق و مغرب میں مظلوموں کے مال لوٹے جا رہے ہیں، ان کی عزتیں پامال کی جا رہی ہیں، ان کا خون بہہ رہا ہے، ان پر انکے ممالک کی سرزمین تنگ کر دی گئی ہے،، شام، یمن، تیونس، میں مسلمان اپنے ہی ممالک میں ظلم کا شکار ہیں، ایسا لگتا ہے: ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں

دنیا ظلم سے بھر گئی ہے، کہیں مسلمان کافرفوجوں کے ظلم کا شکار ہیں تو کہیںاپنوں ہی کے ہاتھوں ان کے اموال، عزتیں اور جانیں خطرے میں ہیں، اور کہیں اپنی زبانوں سے دوسروں کا گوشت بھنبوڑ رہے ہیں، چند روپوں یا ایک موبائل کی قیمت پر گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ڈاکو دندناتے ہوئے گھروں میں داخل ہوتے ہیں، اور مزاحمت کی ہر کوشش کا نتیجہ گولی کی صورت میں نکلتا ہے، اسی طرح غیبت، چغلی اور دوسروں پر ظلم کی ترغیب کے ذریعے اپنے ہی ہم جنسوں کو بے موت مار دیتے ہیں، اس حوالے سے میڈیا کا کردار بھی بہت اہم ہے، اور ہر ایسے جتھے کا بھی، جو مظلوم کی پکار پر کان نہیں دھرتا، جو ظالموں کی پشت پناہی کرتا اور مظلوموں کی پکار کے لئے اپنے کان بند اور آنکھیں اندھی کر لیتا ہے، جو ظالم کے خلاف بات کرنے سے ہچکچاتا اور مظلوم کو ظالم بھی بنا دیتا ہے، جس کی سب و شتم کا نشانہ مظلوم بنتے ہیں، جو ان پر تہمتیں لگاتاہے اور ان کے بارے میں جھوٹ پھیلانے سے نہیں چوکتا۔


مظلوم کی حمایت کیسے ہو؟

ظالم کا ہاتھ پکڑ لیجیے، اور اسے نصیحت کریں، ظالم اور مظلوم دونوں حیثیتوں سے مدد کا یہی طریقہ ہوگا۔ مظلوم کی مدد فرض ِ کفایہ ہے، اس کی فرضیت سلطان پر عائد ہوتی ہے۔ مؤمن مؤمن کا بھائی ہے ، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اور اسے اکیلا نہیں چھوڑتا، اور ظالم ظلم سے باز آ جائے تو اللہ اس کی سچی قبول فرما لیتا ہے۔ مظلوم کی حمایت و مدد بجائے خود انسان کو تقویت دیتی ہے، اس کی راہ واضح کرتی ہے، اور اسے مستقل رویے کی جانب آمادہ کرتی ہے۔ ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کے لیے ہر وقت تیاری دشمن پر رعب طاری کرتی ہے۔ بہرحال ظالم کے خلاف مظلوم کی مدد کے لئے اللہ اور اس کے رسول کے آحکام کثیر تعداد میں موجود ھیں اللہ پاک ھمیں عمل کی توفیق عنایت فرمائے 

اللھم انصر من نصر دین محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔

آمین یا رب العالمین


ھ- ظالم کو ظلم سے روکنا

اللہ تعالی نے اس عالم کو تخلیق کیا اور اس میں انسان کو اپنا خلیفہ بنایا۔ اس نے مرد و عورت بنائے، اور نسل ِانسانی کی بقا کا طریقہ بتایا، اس نے خاندان اور قبیلے بنائے، جو باہم الفت اور پہچان کا ذریعہ ہیں۔ انسانوں کے باہمی تعلقات میں خیر اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد اور خیر کی جانب رہنمائی وہ بنیادی عنصر ہے، جو ان روابط کو مضبوط بناتا ہے۔ اسی طرح جو شخص یا گروہ گناہ اور زیادتی کے کاموں پر آمادہ ہو، اسے شر سے روکنا بھی ضروری ہے، اور اسے برائی اور زیادتی کے کاموں سے رکنے کی تلقین کرنا بھی! یعنی انسانوں کے درمیان تعلقات کا عالمگیر ضابطہ یہ ہے کہ نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کیا جائے، لیکن شر اور زیادتی کے کاموں میں کسی انسان یا گروہ سے تعاون ہرگزنہ کیا جائے، تاکہ کوئی بھی کسی پر نہ تو تکبر کا وار کرے اور نہ کسی پر جبرکرے۔

اسلام ظالم کو ہم دردی اور خیر خواہی کا مستحق سمجھتے ہوئے سماج کے افراد پر جہاں مظلوم کی دادرسی اور دست گیر ی کو ضروری قرار دیتا ہے وہیں ظالم کو ظلم سے باز رکھنے کی تلقین کرتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ مظلوم کی طرح ظالم کے ساتھ ہمدردی اور اسے تباہی سے بچانے کی فکر ہونی چاہیے ، کیوں کہ مظلوم کی تو صرف دنیا خراب ہوتی ہے جب کہ ظالم کی دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوتی ہیں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :  ’’ اپنے بھائی کی مدد کرو چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے کہا مظلوم کی مدد کرنا یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے لیکن ظالم کی مدد کیسے کریں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس کا ہاتھ پکڑلو (یعنی اسے ظلم نہ کرنے دو۔ )


دوسری حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں ۔  ’’آدمی کو چاہئے کہ اپنے بھائی کی مدد کرے چاہے وہ ظالم ہو یا مظلوم ، اگر وہ ظالم ہے تو اسے ظلم کرنے سے روکو کیوں کہ یہ اس کے لیے مدد ہے اور اگر مظلوم ہو تو اس کی مدد کرو ۔

ظالم کو ظلم سے نہ روکا جائے اور اسے معاشرے میں فتنہ وفساد پھیلانے کے لیے بے مہار چھوڑ دیا جائے تو معاشرے کا امن و سکون جاتارہے گا ، لوگ خوف وہراس میں مبتلا ہوجائیں گے ، ظلم کایہ پنجہ کسی پر بھی پڑنے کا خدشہ لگا رہے گا اور کبھی اپنے حدود کو پار کرتے ہوئے نتیجہ عذاب اِلٰہی کا پیش خیمہ بھی ہوسکتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :

وَکَذَلِکَ أَخْذُ رَبِّکَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَی وَہِیَ ظَالِمَۃٌ إِنَّ أَخْذَہُ أَلِیْمٌ شَدِیْد۔ o

تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے جب کہ وہ بستیوں کے رہنے والے ظالموں کو پکڑتا ہے بے شک اس کی پکڑ دکھ دینے والی اور نہایت سخت ہے۔


 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں : اے لوگو! تم لوگ اس آیت کو پڑھتے ھو 


 یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ عَلَیْکُمْ أَنفُسَکُمْ لاَ یَضُرُّکُم مَّن ضَلَّ إِذَا اہْتَدَیْتُم  

اے ایمان والو! اپنی فکر کرو ، جب تم راہ راست پر چل رہے ہو تو جو شخص گمراہ رہے اس سے تمہارا کوئی نقصان نہیں ۔(المائدۃ)

لیکن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : ’’کہ جب لوگ ظالم کو ظلم کرتا ہوا دیکھیں  اور اس کا ہاتھ نہ پکڑیں ( اسے ظلم کرنے سے نہ روکیں ) تو قریب ہے کہ اللہ سب پر اپنا عذاب نازل کردے


ظالم کی سزا

اللہ تعالی نے قرآن پاک میں ظالموں کے لئے کئی سزاؤں کا ذکر کیا ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ھے 

وَاَنْذِرْهُـمْ يَوْمَ الْاٰزِفَـةِ اِذِ الْقُلُوْبُ لَـدَى الْحَنَاجِرِ كَاظِمِيْنَ ۚ مَا لِلظَّالِمِيْنَ مِنْ حَـمِيْـمٍ وَّلَا شَفِيْـعٍ يُّطَاعُ o

اور ( اے نبی   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) انہیں قریب آنے والی (مصیبت) کے دن سے ڈرا جب کہ غم کے مارے کلیجے منہ کو آ رہے ہوں گے، ظالموں کا کوئی حمایتی نہیں ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی بات مانی جائے۔

دوسری جگہ ارشاد ھے 

وَقِيْلَ لِلظَّالِمِيْنَ ذُوْقُوْا مَا كُنْتُـمْ تَكْسِبُوْنَ o

اور ایسے ظالموں کو حکم ہوگا جو کچھ تم کیا کرتے تھے اس کا مزہ چکھو۔


تو یہ سمجھنا بہت ضروری ھے کہ اس دنیا کا قیام قطعی عارضی ھے اور موت کے بعد کی زندگی ھمیشہ ھمیشہ کی ھے وھاں پہنچ کر ظلم کے ایک ایک ذرے کا حساب دینا ھو گا اللہ پاک مظلوم کو اس حق دلائیں گے یہاں  تک اگر کسی سینگ والی بکری نے بغیر سینگ والی بکری کو سینگ مارا ھو گا اس کا بدلہ بھی دلوایا جائے گا

ھمیں چاھیے کہ نہ صرف یہ کہ ھم خود کو کسی پر ظلم کرنے سے بچائیں بلکہ اگر کہیں ظلم ھو رھا ھو تو ھر طریقہ سے ظالم کی مزاھمت کریں اور مظلوم کی پوری پوری مدد کریں اور اسے ھرطرح کی حتی المقدور حمایت واعانت  فراھم کریں بصورت دیگر بروز قیامت عنداللہ جوابدہ ھونا پڑے گا

اللہ پاک ھمیں  عمل کی توفیق عنایت فرمائیں

آمین یا رب العالمین

و -  حاجت مندوں کی         حاجت روائی کرنا


باھمی تعاون کا ایک اھم جز  

حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کی کوشش کرنا اور دوسروں کو اس کی ترغیب دینا ھے اسلام معاشرے میں جسمانی ، مادی ، معاشی اور سماجی لحاظ سے کمزور افراد و طبقات مثلاً  بیماروں ، معذوروں ، ضعیفوں ، بیواؤں ، یتیموں ، غریبوں ، مسکینوں، مصیبت زدوں ،اور آفت کے مارے حاجت مندوں کے ساتھ ہمدردی کا رویہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے تاکہ معاشرے کا ہر فرد باعزت ، پرسکون اور پر لطف زندگی گزارسکے۔

چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ھے

فَأَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْہَرْ ،وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْہَر۔ 

پس یتیم پر سختی نہ کیا کر ، اور نہ سوال کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ کر


  اللہ تعالی مصارف زکاۃ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:


إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاء وَالْمَسَاکِیْنِ وَالْعَامِلِیْنَ عَلَیْہَا وَالْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوبُہُمْ وَفِیْ الرِّقَابِ وَالْغَارِمِیْنَ وَفِیْ سَبِیْلِ اللّہِ وَابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّہِ وَاللّہُ عَلِیْمٌ حَکِیْم o

صدقے صرف فقیروں کے لیے ہیں اور مسکینوں کے لیے اور ان کے وصول کرنے والوں کے لیے اور گردن چھڑانے میں اور قرض داروں کے لیے اور اللہ کی راہ میں اور مسافروں کے لیے فرض ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم وحکمت والا ہے ۔


قرآن مجید نے بار بار مسکینوں اور محتاجوں کی مدد پر ابھارا ہے اور ان سے بے توجہی اور ان کے ساتھ و زیادتی سے منع کیا ہے۔


فَلاَ اقْتَحَمَ الْعَقَبَۃَ ،وَمَا أَدْرَاکَ مَا الْعَقَبَۃُ ، فَکُّ رَقَبَۃٍ ،أَوْ إِطْعَامٌ فِیْ یَوْمٍ ذِیْ مَسْغَبَۃٍ ،یَتِیْماً ذَا مَقْرَبَۃٍ ،أَوْ مِسْکِیْناً ذَا مَتْرَبَۃ o

سو اس سے نہ ہو سکا کہ گھاٹی میں داخل ہوتا ۔ اور کیا سمجھا کہ گھاٹی ہے کیا ۔ کسی گردن ( غلام ،لونڈی ) کو آزاد کرانا یا بھوک والے دن کھانا کھلانا، کسی رشتہ دار یتیم کو یا خاکسار مسکین کو ۔


متعدد جگہوں میں مسکینوں اور محتاجوں کا خیال نہ رکھنے والوں اور ان کے ساتھ ہمدردی نہ کرنے والوں کی مذمت کی گئی اور انہیں وعید سنائی گئی ہے ۔ 

وَلَا تَحَاضُّونَ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِیْنo

اور مسکینوں کے کھلانے کی ایک دوسرے کو ترغیب نہیں دیتے 


وَلَا یَحُضُّ عَلَی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ o

اور مسکین کو کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا ۔


احادیث میں مختلف پہلوؤں سے محتاجوں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دی گئی ہے ۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

 ’’ایک مرتبہ ایک شخص نے جنگل میں بادل سے ایک آواز سنی کہ فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کرو۔ وہ بادل چل پڑا اور اس نے بجری والی زمین پر پانی برسایا۔ وہاں کے نالوں میں سے ایک نالہ بھر گیا۔ وہ نالے کا پانی، جب آگے کی طرف بڑھا، تو وہ شخص اس پانی کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔ پانی جہاں پہنچا، وہاں ایک شخص باغ میں کھڑا اپنے پھائوڑے سے پانی کو اِدھر ادھر کررہا تھا۔ اس شخص نے باغ والے سے پوچھا، ’’اے اللہ کے بندے!تمہارا نام کیا ہے؟‘‘اس نے اپنا وہی نام بتایا، جو اس نے بادل سے سنا تھا۔ اس شخص نے پوچھا ’’اے اللہ کے بندے!تم نے میرا نام کیوں پوچھا تھا؟‘‘اس نے کہا، ’’بات یہ ہے کہ جس بادل نے اس باغ میں پانی برسایا ہے، میں نے اس بادل سے یہ آواز سنی تھی کہ فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کرو، اس آواز نے تمہارا نام لیا تھا۔ تم اس باغ میں کیا کرتے ہو؟‘‘اس نے کہا کہ’’ اب جب تم نے یہ پوچھا ہے، تو سنو۔ میں اس باغ کی پیداوار پر نظر رکھتا ہوں اور اس کی پیداوار کے ایک تہائی سے میں اور میرے اہل و عیال کھاتے ہیں اور ایک تہائی غریب، مساکین، سائلوں اور مسافروں پر خرچ کردیتا ہوں اور ایک تہائی اس باغ پر خرچ کرتا ہوں۔‘‘ (صحیح مسلم)

*ز - مقروض کے ساتھ ہمدردی کرنا *


باہمی تعاون کی بہت ھی ایک اہم شکل ضرورت مندوں کو قرض حسنہ فراھم کرنا ہے ، اس قرض کے ذریعہ معاشرے کے کمزور ، مساکین اور حاجت مندوں کی ضروریات  پوری کی جاتی ہیں لیکن اگر قرض کی وصولی میں سختی کا معاملہ کیا جائے اور مقروض کو مہلت نہ دی جائے تو یہ اس کے لیے پہلے سے زیادہ پریشان کن  صورت حال بن جاتی ہے ، وہ تنگی اور بے چارگی کا شکار ہوجاتا ہے، اسلام مقروض کے ساتھ ہمدردی اور فراخ دلی کے ساتھ پیش آنے کی تلقین کرتا ہے اور اسے اجر عظیم قرار دیتا ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشادہے :


 وَإِن کَانَ ذُو عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ إِلَی مَیْسَرَۃٍ وَأَن تَصَدَّقُواْ خَیْرٌ لَّکُمْ إِن کُنتُمْ تَعْلَمُونَ o

اور اگر کوئی تنگی والا ہو تو اسے آسانی تک مہلت دینی چاہئے اور اگر صدقہ کرو تو تمہارے لیے بہت ہی بہتر ہے ،اگر تم میں علم ہو۔


حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو کسی مومن کی دنیا کی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت دور کرے گا اللہ اس کو قیامت کی مصیبتوں سے بچائے گا ،جو کسی مسلمان محتاج پر آسانی کرے گا اللہ تعالی اس پر دنیا اور آخرت میں آسانی کرے گا ،جو کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا اللہ تعالی اس کی پردہ پوشی کرے گا ،اور جب بندہ اپنے مسلمان بھائی کی مدد میں لگا رہے گا اللہ تعالی اس کی مدد میں لگا رہے گا


مقروض کے ساتھ جب فراخدلی کا معاملہ کیا جائے تو اس کے اندر اپنے محسن کے تئیں الفت و محبت پیدا ہوگی ، باہمی تعاون کا جذبہ پیدا ہوگا ۔اوریہ بات بھی ہے کہ مقروض کو مہلت دینا اس کے ساتھ تعاون کا بہترین معاملہ ہے ۔


نبیِّ کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کاارشاد ہے: 

تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص تھا جس کے پاس اس کی روح قَبْض کرنے کے لئے موت کا فِرِشْتہ آیا تو اُس سے کہا گیاکہ کیا تو نے کوئی نیکی کی ہے؟ وہ بولا: میں نہیں جانتا۔ اس سے کہا گیا:غور تو کرو اس نے کہا: اس کے سِوا اور کچھ نہیں جانتا کہ میں دنیا میں لوگوں سے تجارت کرتا تھا اور ان پر تقاضا کرتا تھا تو امیر کو مہلت دے دیتا اور غریب کو مُعافی۔پس اللہ تعالیٰ نے اسے جنّت میں داخل فرما دیا۔

 (بخاری)


مَقْرُوض سے ہمیشہ نرمی اور حُسْنِ سُلوک سے پیش آناچاہئے۔ضَرورت مندوں کو قَرْض دینا ایک بہترین نیکی ھے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام قَرْض کی بہترین ادائیگی کی ترغیب دیتا ہے لیکن اس کے  ساتھ ساتھ تنگدَسْت مقروض سے شفقت و مہربانی اور نرمی  سے پیش آنا بھی اسلامی تعلیمات کا ایک روشن باب ہے۔قرض دینے کا بنیادی مقصد بھی یہ ہوتا ہے کہ ضَرورت مند کی مَعاشی اور گھریلو  الجھنیں اور پریشانیاں خَتْم ہوجائیں، اچّھی نیت کے ساتھ دیا جانے والاقرض ثواب کا ذریعہ بھی بنے گا۔ 

مقروض پر نہایت آسان اور نَرْم شرائط رکھی جائیں۔ ایسی کڑی شرائط رکھ دینا کہ مقروض پِس کے رہ جائے باہَمی اُلْفت کو ختم کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔۔اگر قُدْرت ہو تو مکمل یا کچھ مُعاف کر دیجئے۔ آج کل ہمارے یہاں مقروض سے نرمی کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے حالانکہ اس کے بہت سے فضائل ہیں۔ ذیل میں دو آحادیث مبارکہ کا زکر کیا جاتا ھے :

(1) رسول کریم  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جو کسی تنگدست (مقروض) پر آسانی کرے گا اللہ  تعالیٰ دنیا و آخِرت میں اس پر آسانی فرمائے گا۔ (ابن ماجہ)

(2) رسول کریم  صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جو  کسی تنگدست کو مہلت دے یا اس کاقرض مُعاف کر دے تو اللہ تعالیٰ اسے اس دن عَرْش کے سائے میں جگہ عطا فرمائے گا کہ جس دن عرش کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔ (ترمذی)

اللہ تعالی ہمارے اندر باہمی تعاون کا جذبہ پیدا فرمائے اور ایک دوسرے کا بہی خواہ بنائے ۔(آمین یا رب العالمین)'

ح - امانت کی ادائیگی

باھمی تعاون کے لئے معاشرے کے افراد کا امانت دار ھونا بھی ایک بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتا ھے یہ بات تو بالکل عیاں ھے کہ جو شخص امانت دار ھو گا اسی سے تعاون کی بھی امید کی جاسکتی ھے اس کے برعکس جو شخص دوسروں کی آمانتوں کا خیال نہیں رکھتا اس سے کسی بھی قسم کے تعاون کی امید کرنا محض خام خیالی ھو گی

امانت داری اسلامی احکام میں سے ایک اھم حکم ہے ۔ سماجی اور معاشرتی زندگی میں امانت داری بڑی اہمیت کی حامل ہے بلکہ مضبوط معاشرے کی تشکیل کے لیے یہ ایک بنیادی ضرورت ہے ، جس معاشرے میں امانت داری ختم ہوجائے اس سے امن و سکون جاتا رہتاہے ۔ دن بدن معاشرہ  زوال پذیر  ہونے لگتا ہے ۔ اسی وجہ سے قرآن وحدیث میں امانت داری کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :


 یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَخُونُواْ اللّہَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُواْ أَمَانَاتِکُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونo

اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (کے حقوق) میں جانتے ہوئے خیانت مت کرو اور اپنی قابل حفاظت چیزوں میں خیانت مت کرو ۔‘‘


امانت کی ادائیگی کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا :


إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا o

اللہ تعالی تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچاؤ ۔


فَلْیُؤَدِّ الَّذِیْ اؤْتُمِنَ أَمَانَتَہُ وَلْیَتَّقِ اللّہَ رَبَّہ o

ترجمہ: ”تو جو امین بنایا گیا اس کو چاہیے کہ اپنی امانت ادا کرے اورچاہیے کہ اپنے رب  اللہ سے ڈرے “


اللہ تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں امانت داری کو تقویٰ سے جوڑ دیا ہے یعنی جس کو موت کے بعد کی زندگی حساب وکتاب اورعدالت الٰہی پر یقین ہو جس کے دل میں خوف خدا اوراس کی گرفت کا احساس ہو اسے چاہیے کہ امانت میں خیانت نہ کرے جس کا جو حق ہے پورا پورا ادا کردے؛ اس لیے کہ اس دنیا میں خیانت کر نے والا قیامت کے دن چین وسکون سے نہیں رہ سکتا، وہاں ایک ایک کا حق ادا کر نا ہوگا اوربڑی دشواریوں کا سامنا ہوگا؛ لیکن جس کو آخرت پر یقین نہیں وہ جوچاہے کرے دنیا میں چند روزہ زندگی کے بعد آخراپنے کیے ہوئے پر افسوس ہوگا اوربڑے خسارے میں ہوگا۔ 



نبی کریم صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے اس پر زور دیتے ہوئے فرمایا :  

جو تمہارے پاس امانت رکھے اسے لوٹادو اور اس کی بھی امانت لوٹادو جو تمہاری امانت میں خیانت کرے ۔ 


معاشرے سے امانت داری کا ختم ہوجانا قرب قیامت کی علامت ہے : چنانچہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم ھے 

’’ جب امانت ضائع ہونے لگے تو قیامت کا انتظار کرو ،صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے سوال کیا ، امانت کیسے ضائع ہوگی ۔آپ نے فرمایا :جب معاملہ اس کے نااہل کو سونپا جائے تو قیامت کا انتظار کرو ۔

امانت کے وسیع مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے معاشرے کے ہر فرد کے لیے اپنی  امانتوں کے تئیں محتاط رہنا اور اس کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ۔

دیانتداری ایمان کا حصہ ہے‘ حقیقت یہ ھے کہ جو شخص اللہ اورآخرت پر یقین رکھتا ہے وہ کسی کی امانت میں خیانت نہیں کر سکتا۔ اسے اس بات کا احساس ہو تا ہے کہ اگر میں نے کسی کا حق دبالیا یا اس کی ادائیگی میں کمی اورکوتاہی کی تو میرا رب مجھے دیکھ رہا ہے، وہ یقینا اس کا حساب لے گا اوراس دن جب کہ ہر شخص ایک ایک نیکی کا محتاج ہوگا حق تلفی کے عوض میری نیکیاں دوسروں کو تقسیم کردی جائیں گی، پھر میری مفلسی پر وہاں کون رحم کرے گا؟ اس طرح کے تصورات سے اہل ایمان کا دل کانپ اٹھتا ہے اورپھر خیانت یا حق تلفی کرنے سے باز آجاتا ہے؛ لیکن جس کے دل میں ایمان ہی نہ ہو یا ماحول اورحالات نے ایمان کی روشنی سلب کر لی ہو تو خیانت کرنے میں ایسے شخص کو کوئی تردد نہیں ہوتا؛ اسی لئے  رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے امانت داری کو ایمان کی علامت اورپہچان قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا

”لَا اِیمانَ لِمَنْ لا أ مانةَ لَہ، وَلَا دِینَ لِمَنْ لَا عَہْدَ لَہ“

(سنن بیہقی)

جس میں امانت داری نہیں اس میں ایمان نہیں اور جس شخص میں وعدہ کی پابندی نہیں اس میں دین نہیں

اللہ تعالیٰ نے بھی قرآن کریم کے متعدد مقامات پر امانت داری کی تاکید فرمائی ہے،


رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی ہے کہ زمانہ قیامت سے جیسے جیسے قریب ہوگا ایمانی قوت کم ہوتی چلی جائے گی اس کے نتیجہ میں امانت داری بھی اٹھ جائے گی اورحال یہ ہوگا کہ مسلمانوں کی بڑی بڑی آبادی ہوگی مگر امانت دار پوری آبادی میں ایک آدھ بڑی مشکل سے دستیاب ہوگا اوروہ بھی حقیقت میں امین نہ ہوگا۔ لوگ مثال کے طور پر کہیں گے کہ فلاں قوم میں ایک امانت دار شخص ہے ، آدمی کی تعریف ہوگی کہ کیسا عقلمند ، کیسا خوش مزاج اورکیسا بہادر ہے ؛ حالانکہ اس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمانداری نہ ہوگی 

(صحیح بخاری‘ کتاب الفتن)

امانت داری کی اس قدر اہمیت کے باوجود آج کے معاشرہ میں اسے کوئی وزن نہیں دیا جاتا ، اچھے اچھے لوگ بھی جو عرف میں دین دار سمجھے جاتے ہیں وہ بھی امانت اور حق کی ادائیگی کا لحاظ نہیں رکھتے ، انھیں اس بات کا احساس تک نہیں ہوتاکہ امانت کی حفاظت اور اس کا مکمل طور پر اداکرنا دینی وشرعی فریضہ ہے،

بعض لوگوں میں امانت داری کا جذبہ ہوتابھی ہے تو وہ صرف مال کی حدتک محدود رہتا ہے کہ اگرکسی شخص کے پاس کسی کا مال رکھا ہو تو وہ اسے ادا کردیتا ہے، عام طور پر لوگوں کا ذہن اسی مالی امانت کی طرف جاتا ہے ؛ حالانکہ امانت کی اوربھی مختلف قسمیں ہیں، جن کی اہمیت بعض صورتوں میں مالی امانت سے بھی بڑھی ہوئی ہوتی ہے، ان کی حفاظت بھی ایک مسلمان کے لیے اتنی ہی ضروری ہے جتنی مالی امانت کی ہوتی ہے اسی لیے فتح مکہ کے موقع پر خانہٴ کعبہ کی کنجی جب عثمان بن طلحہ بن عبد الدار شیبی کو دینے اوران کی امانت ان کو واپس کرنے کی تاکید کی گئی تو امانت کو جمع کے صیغے کے ساتھ استعمال کیاگیا، ارشاد باری ہے: 

إِنَّ اللّہَ یَأْمُرُکُمْ أَن تُؤدُّواْ الأَمَانَاتِ إِلَی أَہْلِہَا(النساء )

اللہ تعالیٰ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے مستحقین کو پہنچا دیا کرو

قابل غور بات یہ ہے کہ کنجی کو ئی اہم مال نہیں ؛ بلکہ یہ خانہٴ کعبہ کی خدمت کی نشانی ہے جس کا تعلق مال سے نہیں عہدے سے ہے، پھر بھی اس کو امانت سے تعبیر کیا گیا اورپھر جمع کا صیغہ استعمال کر کے اس بات کی طرف اشارہ کیاگیا کہ امانت کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں جن کی ادائیگی تمام مسلمانوں پرلازم ہے، ذیل میں امانت کی چند ایسی صورتیں بیان کی جاتی ہیں جن کی طرف عام طور پر لوگوں کا ذہن نہیں جاتا ؛ چنانچہ وہ ان امانتوں میں خیانت کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں اورانھیں کسی معصیت کا خیال بھی پیدا نہیں ہوتا؛ حالانکہ شریعت کی نظر میں ان چیزوں میں بھی خیانت قبیح اورموجب گناہ عمل ہے جس سے ہر مسلمان کا بچنا نہایت ضروری ہے مثلاً:


غلط مشورہ دینا

مشورہ بھی ایک آمانت ھے اس کی آدائیگی بھی دیگر آمانتوں کی طرح بہت ضروری ھے

جب کسی سے مشورہ لیاجاتا ہے تو مشورہ دینے والا ایک  امین کی حیثیت میں ہوتا ہے اسے چاہیے کہ وہ وہی مشورہ دے جس میں اس کے علم کے مطابق مشورہ لینے والے کی خیروفلاح مضمر ہو۔ دل میں جو بات آئے کسی ذہنی تحفظ کے بغیر صاف صاف کہہ دے ، رسول اکر م  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک صحابی کے مشورہ لینے پر ارشاد فرمایا: المستشار موٴتمن (ترمذی) جس سے مشورہ چاہا جائے وہ امانت دار کی طرح ہے“ ۔

مشورہ لینے والا اپنا خیر خواہ سمجھ کر کسی سے مشورہ طلب کرتا ہے، اب اگر وہ ذاتی حسد اورعناد کی بنیاد پر ایسا مشورہ دے جس میں اس کے لیے نقصان ہو تو گویا اس نے مشورہ طلب کر نے والے کو دھوکہ دیا اوراس کے ساتھ خیانت کا معاملہ کیا کیونکہ اس نے اپنے علم ودانست کے خلاف مشورہ دیا ہے، لیکن یہاں یہ نکتہ بھی زھن میں رھے کہ اگر مشورہ دینے والے نے اپنی دانست کے مطابق صحیح مشورہ دیا  لیکن پھر بھی نقصان یا پریشانی کا پہلو سامنے آگیا تو مشورہ دینے والے کو کوئی گناہ نہیں ھو گا بلکہ وہ عنداللہ ماجور ھوگا کسی کو اگر کسی سے کسی بھی بنیاد پرآپس میں رنجش ہو اوراتفاق سے  اس نے کسی بابت مشورہ طلب کر لیا، تو اسے اخلاص دل سے محبت کے ساتھ صحیح صحیح مشورہ دینا چاہیے اس لیے کہ مشورہ لینے کا مطلب یہ ھوا کہ طالب مشورہ  نے اسے اپنا ہمدرد اورخیر خواہ تسلیم کر لیا ہے اورجب ایک شخص دوستی کا ہاتھ بڑھائے تو اخلاق وانسانیت کا تقاضا یہی ہے کہ دوسرا بھی تواضع کی پلکیں بچھا دے اورمحبت کا بدلہ محبت سے دینے کا فیصلہ کرے اوراگر دل میں نفرت اس قدر ہو کہ بھلائی اس کے حق میں سوچ ہی نہیں سکتا تو پھر مشورہ دینے سے صاف انکار کردے لیکن اگر کدورت اورعداوت کے سبب غلط مشورہ دیا تاکہ اسے پر یشانیوں کا سامنا کر نا پڑے تو یہ سراسر معصیت کاارتکاب ہوگا قیامت کے دن اس کا حساب دینا ہوگا۔

کسی کاراز ظاہر کرنا

 

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

اذاحدث الرجل الحدیث ثم التفت فہی امانة (ترمذی)

جب ایک شخص کوئی بات کہے اورچلا جائے تو یہ بھی امانت ہے

 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی شخص نے آپ سے کوئی ایسی بات کہی جس کو وہ دوسروں سے چھپانا چاہتا ہے، آپ پر اعتمادکرتے ہوئے اس نے اپنے دل کے خیالات کا اظہار کیا تاکہ آپ کوئی مشورہ دے سکیں یا اس کے دکھ دردمیں کام آئیں توآپ کے لیے اس کی یہ بات امانت کے درجے میں ہے، اپنی ذات تک اسے محدود رکھیں، دوسروں کو بتانا جائز نہیں اس سے اس کے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی اورتکلیف کا احساس ہوگا، بسا اوقات انسان دوستی اورتعلقات کی بنیاد پر کسی سے کچھ کہہ دیتا ہے اوراسے یقین ہوتا ہے کہ میرا یہ راز اس کے سینے میں محفوظ رہے گا مگر دوسرا شخص اس کا خیال نہیں کرتا بالخصوص جب دونوں میں کسی وجہ سے دوستی رنجش میں تبدیل ہو جاتی ہے، تو اس کے سارے راز دوسروں کے سامنے اگل دیتا ہے تاکہ اس کی تحقیر ہو اورلوگ اسے برا بھلا کہیں یہ نہایت براعمل اورنچلی حرکت ہے، اس سے خدا ناراض ہوتا ہے اور نہیں معلوم اللہ تعالی کی کون سی ناراضگی ہلاکت کا سبب بن جائے۔

اسی طرح میاں بیوی کے درمیان جو بات ہوتی ہے وہ بھی امانت ہے‘ ان میں سے ہر ایک دوسرے کے لیے لباس ہے، لباس بدن کے عیوب اورراز کی چیزوں کو چھپاتا ہے  چنانچہ قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ھے:

هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُـمْ لِبَاسٌ لَّـهُنَّ وہ تمہارے لیے لباس  ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو،

اسی طرح زوجین کو چاہیے کہ وہ باہمی گفتگو اورقابل اخفاء چیزوں کو پردے میں رکھیں اورکسی بھی حال میں دوسروں کے سامنے ظاہر نہ کریں؛ چنانچہ حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت ہے کہ رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: 

ان من اعظم الأمانة عند اللہ یوم القیامة الرجل یفضی الی امرأتہ وتفضی الیہ ثم ینشر سرھا(صحیح مسلم)

قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بڑی امانت قابل موٴاخذہ یہ ہے کہ انسان اپنی بیوی کے پاس جائے اوربیوی اس سے لطف اندوز ہو اورپھر شوہر عورت کے راز کو دوسروں کے سامنے ظاہر کردے

راز تو بہرحال راز ہی ہوتا ہے وہ خواہ میاں بیوی کے درمیان ہو یا دودوستوں اوردوساتھیوں کے درمیان، شریعت طیبہ نے اسے چھپانے کی تاکید کی ہے۔ شریعت کا مزاج یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے لوگوں کے عیوب کی پردہ پوشی کی جائے، کسی کی عزت سے کھلواڑ نہ کیا جائے اورنہ کسی کو ایذادی جائے اورراز کے اظہار میں ان میں سے کسی کا ارتکاب ضرور ہوتاہے اس لیے یہ ممنوع اور ناپسندیدہ فعل ہے لہذا اس میں بہت ھی احتیاط کی ضرورت ھے

حق تلفی کرنا


ایک شخص فوت ھو جاتا ھے اس کی وراثت کو قرآن پاک کے بتائے ھوئے طریقہ سے تقسیم کرنا ازحد ضروری ھے لیکن اگر کسی غیر وارث یا وارث نے کسی بھی طریقہ سے دوسرے ورثاء کا حق دبا لیا مثلا تمام ورثاء کو مرنے والے کی وراثت کا صحیح علم نہیں تھا اور جس وارث کو اس کا علم تھا اس نے دوسرے ورثاء کے علم میں لائے بغیر دو نمبر طریقہ سے کاروائی کرکے اسے خود ھڑپ کر لیا یا پھر وراثت کا علم تو سب کو تھا لیکن کچھ ورثاء سے دھوکہ سے سائن اور آنگوٹھے لگوا کر یا ان کی جگہ کسی اور کے سائں اور آنگوٹھے لگوا کر یا اخلاقی دباؤ یا زبردستی سے دوسرے حقداروں کا حق لے لیا تو یہ شدید قسم کی حق تلفی ھوگی اور قیامت والے دن اس شخص کو اس کا حساب دینا ھوگا ھمارے معاشرہ میں بہنوں اور بیٹیوں کو ان کے شرعی حق سے محروم کرنے کے لئے اس طرح کے مکروہ بلکہ حرام ھتکنڈوں سے کام لیا جاتا ھے  اور پھر یہ لوگ ایک اور دھوکہ کرتے ھیں بلکہ آصل میں اپنے آپ کو دھوکہ دیتے ھیں کہ بہنوں اور بیٹیوں کو کہتے ھیں کہ تم ھمیں معاف کردو حالانکہ شرعاً یہ ان کے معاف کرنے سے بھی معاف نہیں ھوگا بلکہ یہ حق انہیں ھر صورت ان کے حوالے کرنا ھوگا اس کے بعد اگر وہ کسی کو اپنی خوشی اور رضامندی سے ھدیہ کرنا چاھیے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ھوگا بہرحال جو لوگ وراثت کے حقداروں کا حق دبا کر اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتے ھیں اور اللہ کی حدود کو توڑتے ھیں ان کے لئے اللہ تعالی کی طرف سے شدید وعید قرآن  پاک میں موجود ھے چنانچہ ارشاد باری تعالی ھے:-

وَمَنْ يَّعْصِ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهٝ يُدْخِلْـهُ نَارًا خَالِـدًا فِيْـهَا وَلَـهٝ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ o

اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے نکل جائے (اللہ پاک) اسے آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہے

اسی طرح ایک شخص کسی کو بطور امانت کوئی چیز دے اوروہ بھول جائے یا اسے یاد تو ہومگر اس کے پاس کوئی شہادت نہیں ہے، یہ نازک گھڑی ہوتی ہے ‘اس میں امانت کامال لینے والے کے ایمان کا امتحان ہے، وہ اللہ کی گرفت پر یقین رکھتے ہوئے مال واپس کردیتا ہے یا اس کا حق دبا کر اپنی آخرت کو تباہ کر لیتا ہے، اگراس نے مال واپس نہ کیا تو یہ حق تلفی ہے اوراس پر سخت وعید آئی ہے، روز محشر اس کا حساب دیناہوگا ۔

جس طرح مادی حق کی ادائیگی سے پہلو تہی حق تلفی ہے‘ اسی طرح بعض حقوق ایسے ہوتے ہیں جو مادی تو نہیں ہیں؛ لیکن شریعت نے انہیں حق اورامانت سے تعبیر کیا ہے ان کی ادائیگی ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے جیسے میاں بیوی کے باہمی حقوق۔ ایک شخص جب کسی عورت کو اپنے نکاح میں لیتا ہے تو اس پر عورت کے کچھ حقوق عائد ہوتے ہیں اسی طرح زوجیت میں آنے کے بعد عورت سے بھی شوہر کے کچھ حقوق وابستہ ہو جاتے ہیں‘ یہ حقوق امانت کے درجے میں ہیں، ان کی ادائیگی میں ٹال مٹول یاکمی وکوتاہی کر نا حق تلفی اورخیانت ہے جو ان کے لیے جائز نہیں، والدین اوراولاد کے باہمی حقوق بھی امانت ہے اس میں کمی وکوتاہی خیانت ہے اورموجب گناہ ہے ، اسی طرح استاذ اورشاگرد کے درمیان کے حقوق بھی امانت کے درجے میں ہیں، شاگرد کو چاہیے کہ اپنے استاذ کی خدمت‘ عزت واحترام اوران کا ادب کریں تو استاذ کو بھی چاہیے کہ وہ پوری امانت داری کے ساتھ اپنے شاگرد کو علمی غذا فراہم کریں، خود کتاب کا مطالعہ کریں اورپوری محنت سے علمی صلاحیت ان میں منتقل کرنے کی کوشش کریں، اس میں کچھ خامی خیانت کے دائرے میں داخل ہے ۔

حاکموں اوررعایا کے درمیان باہمی حقوق کا بھی یہی حکم ہے جس طرح عوام پر حکومت کے اصول وقوانین کی پاسداری ضروری ہے اسی طرح وقت کے حکمرانوں کے ذمہ بھی یہ بات لازم ہے کہ ممکنہ حدتک عوام کو سہولت فراہم کریں، ان کی ضروریات کا خاص خیال رکھیں اقتدار کے ذمہ دارنے وسعت کے باوجود اگر رعایا کے حقوق ادا نہ کیے تو گویا اس نے خیانت کی جس کا اسے ضرور حساب دینا ہوگا ‘اس طرح کی بہت سی مثالیں ہیں جن کا تعلق ایسے حقوق سے ہے جو مادی نہیں ہیں لیکن وہ بھی حق تلفی اورخیانت کے دائرے میں آتے ہیں اوراوراس کا بھی وہی حکم ہے جو مال میں خیانت کرنے کا ہے۔


عدل وانصاف نہ کرنا


 معاشرے میں ہر طبقے اور ہر فرد کو جو حقوق حاصل ہیں اور جس کسی کا جتنا حق بنتا ہو، اس کو اس کا حق دے دینااور اس میں رنگ ونسل، علاقائیت، صوبائیت، لسانیت اور ذات پات کی بنیاد پر کوئی فرق روا نہ رکھنا عدل و انصاف کہلاتا ہے ۔ عدل کی ضد ’’ظلم و زیادتی‘‘ ہے۔

    اسلامی معاشرے میں عدل وانصاف کی بہت بڑی اہمیت ہے۔فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَاِذَا حَكَمْتُـمْ بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوْا بِالْعَدْلِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ نِعِمَّا يَعِظُكُمْ بِهٖ ۗ اِنَّ اللّـٰهَ كَانَ سَـمِيْعًا بَصِيْـرًا o

اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے فیصلہ کرو، بے شک اللہ تمہیں نہایت اچھی نصیحت کرتا ہے، بے شک اللہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔(النساء)

ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالی ھے 

وَاِنْ حَكَمْتَ فَاحْكُمْ بَيْنَـهُـمْ بِالْقِسْطِ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِيْنَ o

اور اگر تو فیصلہ کرے تو ان میں انصاف سے فیصلہ کر، بے شک اللہ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے (المائدہ)


عدل و انصاف ہی وہ پیمانہ ہے جس کی بدولت انسانیت زندہ ہے۔اگر معاشرہ عدل و انصاف سے عاری ہو تو وہ صالح معاشرہ نہیں ہو سکتا بلکہ ظلم و جبر اور دہشت و درندگی کی آماجگاہ بن جاتا ہے۔

   

    چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓى اَلَّا تَعْدِلُوْا ۚ اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى ۖ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ خَبِيْـرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ o

اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہرگز نہ چھوڑو، انصاف کرو کہ یہی بات تقویٰ کے زیادہ نزدیک ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ اس سے خبردار ہے جو کچھ تم کرتے ہو

(المائدہ)

اللہ تعالیٰ کے فرمان کا مقصود یہ ہے کہ: زندگی کے ہر شعبے میں انصاف ہو، امیر و غریب، شاہ و گدا، اعلیٰ و ادنیٰ، آقا و غلام اور حاکم و محکوم میں کوئی فرق نہ رکھا جائے۔    رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے قول اور فعل سے مساوات کی بہترین مثالیں قائم فرمائیں اور اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دی کہ عدل و انصاف کا ترازو اس قدر مضبوط اور برابر ہو کہ سخت ترین نفرت اور شدید ترین محبت بھی اس ترازو کے کسی پلڑے کو جھکا نہ سکے۔

    عدل و مساوات کا جو پیمانہ اسلام نے دیا ہے، دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔حقیقت میں عدل و انصاف ایسا عالی وصف ہے جو کسی بھی قوم یا معاشرے کو استحکام عطا کرتا اور بقا کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔یہ وہ وصف ہے جسے اپنانے والی اقوام سربلندی و سرفرازی سے ہم کنار ہوتی ہیں اور جب یہ کسی قوم کا مجموعی مزاج بن جائے تو پھر انہیں دنیاوی لحاظ سے بھی عروج حاصل ہوتا اور آخرت کی کامیابی و کامرانی بھی ان کا مقدر بن سکتی ہے۔

    اس کے برعکس اگر خدانخواستہ کسی قوم میں ایسی صورت پیدا ھو جائے کہ اگر عام آدمی جرم کرے تو سزا مختلف ہو اور کوئی بڑا آدمی جرم کرے تو سزا مختلف ہو تواس قوم کو تباہی سے کوئی نہیں روک سکتا جن معاشروں میں عدل وانصاف جیسے گوہرِگراں مایہ سے محرومی پائی جاتی ہے، اللہ کے بندوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوتا۔ وہ قومیں روبۂ زوال ہو کر تباہی و بربادی سے دوچار ہوجاتی ہیں

قاضی‘ حاکم اورتمام فیصلہ کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاملہ کے حقائق تک پہنچنے کی کوشش کریں اورپوری دیانت داری کے ساتھ فریقین کے دلائل کی سماعت کریں پھر قوت دلائل کی بنیاد پر فیصلہ کریں، اس میں قرابت‘خاندان‘ قوم، علاقہ اورمذہب ومسلک وغیرہ کو ہرگز دخل نہ دیں، اگر فیصلہ کرنے والوں نے کسی ذہنی تحفظ کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا تو گویا اس نے خیانت کی اوربڑے گناہ کا ارتکاب کیا؛ اس لیے کہ قاضی حاکم وغیرہ اپنے ماتحتوں کے حق میں امین ہوتا ہے امانت داری کا انھیں پورا پورا پاس ولحاظ رکھنا چاہیے۔ گاؤں دیہات وغیرہ کے سرپنچ کا بھی یہ حکم ہے یہاں تک کہ اگر کوئی شخص دو لوگوں کے درمیان بھی کسی بارے میں فیصل بنایا جائے تو وہ بھی امین ہوتا ہے ‘اللہ تعالی کو حاضر و ناظر رکھ کر اور اپنی گرفت کا احساس کرتے ہوئے اسے صحیح صحیح فیصلہ کرنا چاہیے ‘کسی کی جانب داری اس کے لیے باعث ہلاکت ہے ۔

ان ساری تفصیلات سے معلوم ہوتا ہے کہ امانت کا دائرہ صرف روپے پیسے‘ جائداد اورمال و منال تک محدود نہیں ؛ بلکہ ہر مالی، قانونی، سیاسی اور اخلاقی امانت تک وسیع ہے، عام طور پر امانت کالفظ بولنے سے لوگوں کا ذہن مالی امانت کی طرف جاتا ہے، اوراسی امانت کی ادائیگی کو کافی سمجھا جاتا ہے، جب کہ امانت داری کے مفہوم میں کافی وسعت ہے، اسی وسیع تر مفہوم میں مسلمانوں کا عمل ہو نا چاہیے ۔ 

اسلام نے باہمی تعلقات اور لین دین میں دیانت داری، عدالتی معاملات میں سچی گواہی اور عدل وانصاف کے ساتھ فیصلہ کرنے کی بار بار تاکید کی ہے تاکہ حقوق العباد متاثر نہ ہوں۔ اس لیے حق دار کو حق دلانے اور مظلوم کو ظالم کے ظلم سے نجات دلانے کے لیے عدالتوں کا نظام قائم کیا جاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ’’جو قوم عدل وانصاف کو ہاتھ سے جانے دیتی ہے تباہی اور بربادی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔”

آج بہت سے فسادات‘لڑائی جھگڑے اسی امانت داری کے نہ ہو نے کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔ اگر مالی‘ قانونی‘ اخلاقی اورتمام طرح کی دیانت کو ملحوظ رکھا جائے تو معاشرہ میں امن چین اورسکون ہوگا‘ بہتر سماج کی تشکیل عمل میں آئے گی اورلوگ خیانت کے گناہ اورآخرت کی گرفت سے بچ سکیں گے


* عہدے اورمناصب نااھلوں کے سپرد کر دینا*


عھدے اور مناصب ان کے اہل لوگوں کے سپرد کرنا بھی ایک بڑی آمانت کی آدئیگی ھے ارباب اختیار کی یہ ذمہ داری ہے کہ جس عہدہ اورمنصب کا جواہل ہو اسی کو وہ عہدہ سپرد کیا جائے اس کے لیے سب سے پہلے غور کرنا چاہیے کہ اس کے عملے میں کون ایسا شخص ہے، جس میں پیش نظر ملازمت یاعہدے کی مکمل شرطیں پائی جارہی ہیں، ایسا کوئی شخص مل جائے تو وہی اس کا سب سے زیادہ مستحق ہے لہٰذا کسی پس وپیش کے بغیر وہ عہدہ اورملازمت اس کو سپرد کریا جائے اوراگر مطلوبہ صلاحیت کا حامل کوئی شخص دستیاب نہ ہو تو موجود لوگوں میں جو سب سے زیادہ لائق وفائق ہو اس کو منتخب کیا جائے، غرض یہ کہ حکومت کے ماتحت جتنے بھی عہدے اورمناصب ہوتے ہیں وہ امانت ہیں اورارباب حکومت اس کے امین ہیں، اگر حکومت نے اپنے ماتحت کسی شخص کو اس کا مجاز بنایا ہے تو وہ بھی امین ہے ان سب کو چاہیے کہ عہدے اورمنصب پوری دیانت داری سے تقسیم کریں‘ صلاحیت اورشرائط کو اس کے لیے معیار بنایا جائے نہ کہ قرابت اورتعلق کو۔ اگر کسی شخص کو ذاتی تعلق یا سفارش کی بنیاد پر یارشوت لے کر کوئی عہدہ اورمنصب سپرد کیا جاتا ہے تو یہ خیانت ہے اورتمام ذمہ دار اس خیانت کے مرتکب ہوں گے 

ھمارے ھاں چونکہ نام نہاد جمہوری نظام ھے اس لئے ووٹ کے ذریعہ عوامی نمائندوں کا انتخاب کیا جاتاھے اس صورت میں ووٹ بھی ایک آمانت ھے اور یہ صرف دیندار اھل لوگوں کو ھی دینا چاھیے نااھل کو ووٹ دینے سے آمانت میں خیانت کا گناہ ضرور ھو گا

ایک موقع پر رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کو عام مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سپرد کی گئی ہو پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی وتعلق کے پیش نظر دے دیا ، اس پر اللہ کی لعنت ہے نہ اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو جا ئے۔ (جمع الفوائد )

نااہلوں کو عہدے سپر د کر نے سے گناہ تو ہوتا ہی ہے خود دنیوی اعتبار سے بھی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے، اس سے مستحقین اورباصلاحیت افراد کی بجائے ناکارہ اورنااہل لوگ عہدوں پر فائز ہو جاتے ہیں ان میں کام کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لیے پورا شعبہ بگڑ جاتا ہے اورپھر عوام کے لیے یہ اذیت رسانی کا باعث ہوتا ہے ، آج کل حالات کا جائز ہ لیں تو معلوم ہو گا کہ نیچے سے لے کر اوپر تک تمام شعبوں میں کہیں رشوت اورسفارش اورکہیں تعلق اورقرابت کی بنیاد پر عہدے اورملازمتیں تقسیم کی جارہی ہیں؛ یہاں تک کہ عصری درسگاہوں میں اساتذہ کی تقرری میں رشوت کالین دین عام ہوگیا ہے، اس کے نتیجہ میں یہ تعلیمی آدارے بھی باصلاحیت افراد سے محروم ہیں تقریباً تمام شعبوں کا یہی حال ہے، اس لیے حکومت کا نظام فساد کا شکار ہوگیا ہے اورآج ہر شخص اپنی جگہ بے چین ومضطرب نظر آرہا ہے ۔

 رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: 

اِذَا وُسِّدَ الأَمْرُ الٰی غَیْرِ أَہْلِہ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ (بخاری)

جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کو سپرد کردی گئی ھے جو ان کے اہل اورقابل نہیں تو قیامت کا انتظار کرو“

یعنی جب نااہل افراد کو کوئی ذمہ داری یا عہدہ اورمنصب سپرد کیا جائے تو فساد یقینی ہے اوراب دنیوی نظام کو فساد سے کوئی بچا نہیں سکتا اس لیے اب قیامت کا انتظار ھی کرو، اس میں خلافت سے لے کر ایک ادنیٰ ملازمت بھی شامل ہے۔

اس خیانت کا تعلق صرف حکومت اورسرکاری عہدوں سے ہی نہیں بلکہ نجی کمپنی انجمن اورعوامی اداروں سے بھی ہے جو ان اداروں اور کمپنیوں کو مفید اوربافیض بنانا چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ جس کام کے جو لائق اوراہل ہے، اسے وہیں رکھا جائے ،کسی بھی وجہ سے اگر کم تر صلاحیت والے افراد کو فوقیت دی جائے تو ادارہ کبھی ترقی نہیں پاسکتا ، 

دینی مدارس میں بھی اساتذہ کی تقرریاں اور پھر تقسیم اسباق اوردیگر امور میں اس اصول کو پیش نظر رکھنا چاہیے بصورت دیگر اس سے تعلیمی نظام متاثر ہوگا ،اس طرح طلباء کی بھی حق تلفی ھو گی اور ذمہ داران خیانت کے مرتکب ہوں گے۔

مزدور اورملازمین کاکام چوری کرنا

جو شخص کسی کا مزدور یاملازم ہو اسے چاہیے کہ مالک اورذمہ دار سامنے ہو یا نہ ہومکمل دیانت داری کے ساتھ کام کر ے، نہ تو وقت میں کمی کرے اورنہ کام میں سستی اورنہ ہی اپنی صلاحیت کو استعمال کر نے سے گریز کرے، ان تینوں میں سے کچھ پایاگیا توخیانت شمار ہوگی اس لیے کہ ایک ملازم کی صلاحیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے تنخواہ طے ہوتی ہے اگر اس نے کام کرنے میں پوری صلاحیت صرف نہ کی اورکسی بھی وجہ سے دلچسپی لیے بغیر محض ظاہری طور پر کام کر دیا تو کام میں وہ معنویت پیدا نہیں ہوگی جو ذمہ دار کو مطلوب تھی؛ اس لیے وہ تنخواہ بھی مشکوک ہو جا ئے گی اور خیانت کا بھی گناہ ہوگا ۔اسی طرح اگر مزدور وملازم سے پانچ چھ گھنٹے کام کرنے کا وقت طے ہوجائے اورپھر کام کر نے والا وقت میں چوری کرے ، وقت کے بعد آئے یا متعین وقت سے پہلے چلا جائے تو یہ بھی خیانت ہے، ایک مسلمان ملازم جو کائنات کے مالک کو سمیع وبصیر سمجھتا ہے اوراس پر پورا یقین رکھتا ہے اسے احساس ہو نا چاہیے کہ اگر چہ میرا مجازی مالک اورذمہ دار مجھے نہیں دیکھ رہا ہے لیکن میرا رب تو مجھے دیکھ رہا ہے، اس کی گرفت سے جوبچ گیا وہی کامیاب اورفلاح پانے والا ہے اسی طرح کام میں سستی اورٹال مٹول کر نا بھی خیانت ہے، وہ کام جو پانچ گھنٹے میں ہوسکتا تھا اس کو دس گھنٹے میں تکمیل کر نا  تاکہ مزید پیسے ملتے رہیں اوراس کے معاش کا مسئلہ حل ہوتا رہے ، یہ غلط سوچ اورناپسندیدہ عمل ہے، امانت داری کا تقاضا ہے کہ مکمل تندہی سے کام کو انجام دیا جائے پورا وقت اورپوری طاقت اس کے لیے صرف کی جائے، ورنہ وہ مالک کے ساتھ خیانت کر نے کا مرتکب ہوگا اوراس کا بھی حساب روزمحشر میں دینا ہوگا۔

 حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مدین کے سفر میں دولڑکیوں کی بکریوں کے پینے کے لیے پانی بھر دیا تو ان دونوں نے واپس جا کر اپنے بزرگ باپ سے ان کی تعریف کی اورکہا کہ یہ بڑے امانت دار اورطاقت ور ہیں ان کو اپنے گھر میں ملاز م رکھ لیجیے۔ قرآن نے اس کوان الفاظ میں بیان کیا ہے۔

 یَا أَبَتِ اسْتَأْجِرْہُ إِنَّ خَیْْرَ مَنِ اسْتَأْجَرْتَ الْقَوِیُّ الْأَمِیْنُ o (القصص)

”اے میرے ابا! ان کو مزدور رکھ لیجیے اچھا مزدور وہ ہے جوطاقت ور اورامانت دار ہو“

اس آیت میں جہاں ملازم اورمزدور کے اوصاف کی طرف رہنمائی کی گئی ہے وہیں اس بات کی طرف بھی اشارہ موجود ہے کہ مزدور امین ہو تا ہے اسے کام کر تے ہوئے اپنی امانت داری کا مکمل ثبوت دینا چاہیے، اس سے خود اس کی زندگی خوشگوار ہوگی اورغیب سے اس کے رزق کے لیے بہتر انتظام کیا جائے گا۔


خاص مجالس کی بات کو عام کرنا

چند لوگ کسی جگہ بیٹھ کر باتیں کریں اورپھر علیحدہ ہو جائیں تو اس مجلس کی تمام باتیں ہر ایک کے لیے امانت ہیں، کسی کے لیے جائز نہیں کہ اجازت اوررضا مندی کے بغیر ان باتوں کو دوسروں کے سامنے نقل کر ے اوراسے پھیلانے کی کوشش کرے اس لیے کہ مجلس میں بہت سی راز کی باتیں ہوتی ہیں ،بولنے والا بسااوقات یہ چاہتا ہے کہ اس کے ان منصوبوں اورخیالات سے موجود افراد کے علاوہ دوسرے واقف نہ ہوں‘ اسے وہ راز میں رکھنا چاہتا ہے، ممکن ہے کہ اس کی باتوں کو پھیلا دیا جائے تو اس کو ذاتی نقصان ہو یاملامت اورشرمندگی کا سامنا کر نا پڑے، شریعت نے بھی اس کا لحاظ رکھاہے اورمسلمانوں کو ہدایت دی ہے کہ کسی بھی راز کو راز میں رکھیں اس کو پھیلا نے کی سعی نہ کریں ‘ہاں البتہ کوئی راز ایسا معلوم ہو جائے جس کا تعلق فتنہ اورفساد سے ہو جس سے دوسروں کا نقصان ہو سکتا ہے تو اس کو بتادینا چاہیے ، پھر ایسی مجلسوں کی باتوں کو محفوظ رکھنا جائز نہیں بلکہ واجب اورضروری ہے کہ دوسرے شرکاء اس کو عام کردیں۔

 چنانچہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے: 

المجالس بالأمانة الاثلٰثة مجالس سفک دم حرام اوفرج حرام اواقتطاع مال بغیرحق (سنن ابوداؤد)

یعنی مجلسیں امانت ہیں مگر تین موقعوں پر ،کسی کے ناحق قتل کی، یا آبرو ریزی کی یاکسی کامال ناجائز طور پر لے لینے کی ساز ش ہو تو متعلقہ لوگوں کو اس سے آگاہ کر دیا جائے، 

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مجلسی بات کا تعلق جب تک کسی کی ایذا رسانی حق تلفی یا نقصان پہنچا نے سے نہ ہو، اس کی حفاظت مجلس کے شرکاء پر ضروری ہے، اسے امانت سمجھ کر اپنے دل میں دفن کر دینا چاہیے بالخصوص وہ باتیں جن کے بارے میں محسوس ہو کہ متکلم اسے مجلس تک ہی محدود رکھنا چاہتا ہے لیکن اگر مجلس میں ہو نے والی باتوں کا تعلق راز سے نہ ہو ؛ بلکہ عام باتیں ہوں جیسے دینی وشرعی مسائل ‘قرآن وحدیث کی باتیں‘ تاریخ وسیرت کی گفتگو وغیرہ تو ان باتوں کو عام کر نا اورلوگوں تک پہنچانا مستحب ہے اس لیے کہ ان باتوں کو کوئی بھی چھپانا نہیں چاہتا اورنہ اس کے عام کرنے سے کسی کو تکلیف ہوتی ہے۔

*تجارت میں دھوکہ دہی 

یا غلط بیانی کرنا*

یہ مسلمانوں کی خوش قسمتی ھے کہ مذھب اسلام  اپنے پیروکاروں کو زندگی کے ہر شعبے میں کام کرنے کے لیے رہنمائی فراھم کرتا ہے..اس دنیا میں امن,سلامتی اور سکون کے ساتھ رہنے کے لیے اور آخرت میں اللّٰہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کے لیے اللّٰہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنا ضروری ہے.

دنیا میں زندہ رہنے کے لیے انسان مختلف ذرائع سے رزق تلاش کرتا ہے.اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ پالنے کے لیے کبھی کبھی زیادہ کمانے کے لالچ میں حرام اور ناجائز طریقے سے کمانے سے بھی گریز نہیں کرتا  نتیجتاً مختصر سی زندگی گذارنے کے بعد ہمیشہ ہمیشہ کی اخروی زندگی میں ناکام ھو کر جہنم میں چلا جاتا ہے.لیکن اگر انسان اللّٰہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتے ہوئے خیال رکھے کہ کہیں میرا کمایا ہوا رزق حرام اور ناجائز ذریعے سے تو نہیں ملا,کہیں جھوٹی قسم کھا کر تو مال حاصل نہیں کیا, ان باتوں کا خیال رکھ کر حلال رزق کمانے کے لیے کوشش کرے تو ایسا مال و دولت کمانے پر بھی اللّٰہ تعالیٰ اجر عطا فرماتا ہے اور ایسا شخص اللّٰہ تعالیٰ کی رحمت سے جنت میں جائےگا.

کوئی شخص کسی مسلمان کو تجارت میں دھوکہ دے یا غلط بیانی سے کام لے  اس کی لاعلمی سے فائدہ اٹھائے یہ  بدترین خیانت  ہے،حدیث میں آتا ہے:

من غشنافلیس منا…

جس نے ہمیں (مسلمانوں کو) دھوکہ دیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔

دوسری حدیث میں آیا ہے: 

کسی نے اگر کوئی عیب دار چیز فروخت کی اور اس کی خریدار کو اس کا عیب نہ بتلایا تو وہ ہمیشہ اللہ کی غضب میں رہے گا یا اس پر فرشتے ہمیشہ لعنت کرتے رہیں گے۔

کسی چیز میں ملاوٹ کر کے بیچنا,کوئی چیز چوری کرنا, چوری کا مال جانتے ہوئے بھی کم قیمت کی وجہ سے خرید کرنا, کام ٹھیک نہ کرنے کے باوجود معاوضہ پورا وصول کرنا, جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنا اور لوگوں کی ضروریات کو دیکھ کر کسی چیز کا بہت زیادہ منافع وصول کرنا وغیرہ ذرائع سے ملنے والی آمدنی حرام ہے.اسلام حرام کمانے سے بہت سختی سے منع کرتا ہے. اللّٰہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے:

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَکُمۡ بَیۡنَکُمۡ بِالۡبَاطِلِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَ تِجَارَۃً عَنۡ تَرَاضٍ مِّنۡکُمۡ ۟

 اے ایمان والو! اپنے آپس کے مال ناجائز طریقہ سے مت کھاؤ   ، مگر یہ کہ تمہاری آپس کی رضامندی سے ہو خرید وفروخت   (النساء)

اللّٰہ تعالیٰ تمام ناجائز طریقوں سے مال کمانے سے منع کرتا ہے. ایک دوسرے کا مال صرف ایک دوسرے کی رضامندی اور اجازت سے ہی لیا جا سکتا ہے اور تجارت کے ذریعے حاصل ہونے والا مال حلال اور جائز کیا گیا ہے.

اسی طرح اسلام میں جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنا اور جھوٹ بول کر تجارت کرنا حرام ہے. تجارت کے مال میں موجود خامی اور نُقص کو چھپا  کر بیچنا بھی حرام ہے. صحیح بخاری میں ایک روایت ہے:

بازار میں ایک شخص نے ایک سامان دکھا کر قسم کھائی کہ اس کی اتنی قیمت لگ چکی ہے۔ حالانکہ اس کی اتنی قیمت نہیں لگی تھی اس قسم سے اس کا مقصد ایک مسلمان کو دھوکہ دینا تھا۔ اس پر یہ آیت اتری

إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا o

سورة آل عمران

جو لوگ اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت کے بدلہ میں بیچتے ہیں۔


تجارت میں دھوکہ دے کر منافع کمانے سے تمام آمدن حرام ہو جاتی ہے.خراب مال کو اچھے معیار کے مال میں چھپا کر بیچنا یا زیادہ خصوصیات بتا کر بیچنے سے ہونے والی آمدن بھی ناجائز اور حرام ہے. جامع الترمذی میں ایک روایت ہے

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ایک غلہ کے ڈھیر سے گزرے، تو آپ نے اس کے اندر اپنا ہاتھ داخل کر دیا، آپ کی انگلیاں تر ہو گئیں تو آپ نے فرمایا: ”غلہ والے! یہ کیا معاملہ ہے؟“ اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بارش سے بھیگ گیا ہے، آپ نے فرمایا: ”اسے اوپر کیوں نہیں کر دیا تاکہ لوگ دیکھ سکیں“، پھر آپ نے فرمایا: ”جو دھوکہ دے، ہم میں سے نہیں ہے

دھوکہ دینے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بہت سخت الفاظ استعمال فرمائے اور فرمایا: جو دھوکہ دے,وہ ہم میں سے نہیں.

اسی طرح ایک شخص گاڑی فروخت کرتا ھے اسے معلوم ھے کہ گاڑی میں کیا کیا نقائص ھیں اس کے باوجود وہ خریدار سے ان نقائص کو چھپاتا ھے تو یہ اس نے خیانت کی اسی طرح ھر چیز کا معاملہ ھے اس کی کمیوں اور خامیوں کو خریدار کے علم میں لانا ضروری ھے پراپرٹی کے معاملے میں  تو ھمارے ھاں دھوکہ دینا ایجنٹ حضرات اپنی ھوشیاری سمجھتے ھیں جو پلاٹ آپ کو فروخت کرنا ھو اس کی تعریف میں زمین وآسمان کے قلابے ملا دیتے ھیں اور آپ وھی پلاٹ ان کو بیچنا چاھیں تو اسے بالکل ردی کرکے پیش کرتے ھیں تاکہ قیمت کم کی جائے یہ ایجنٹ حضرات بعض اوقات لالچ میں اندھے ھو کر ایسے پلاٹ بھی اپنے تعلق والوں کو فروخت کر دیتے ھیں جن کے مطلوبہ  کاغذات بھی ان کے پاس نھیں ھوتے لیکن یہ اعتماد کرنے والے شخص کو یہ کہہ کر پھنسا لیتے ھیں کہ آپ مجھ پر بھروسہ کریں جلدی پیمنٹ کردیں اور فکر نہ کریں یہ پلاٹ اگلے پندرہ دنوں تک آپ کے نام ٹرانسفر ھو جائے گا اور پھر یہ پلاٹ پندرہ پندرہ بیس بیس سالوں تک بھی ٹرانسفر نہیں ھوتا پھر  یہ خریدار کو مختلف طریقوں سے بلیک میل کرتے رھتے ھیں اور پلاٹ کی آمدنی کو بھی خود ھی ھڑپ  کرتے رھتے ھیں اس طرح یہ ایک نہیں بلکہ خیانتوں کے ایک بہت بڑے مجموعے کے مرتکب ھوتے ھیں جس کا جواب انھیں لازمی قیامت والے دینا ھوگا اور اس کی سزا بھی بھگتنا ھوگی

اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو رزقِ حلال کمانے کی توفیق عطا فرمائے. "آمین یا رب العالمین”


ح-سودی لین دین کرنا


باھمی تعاون کے لئے سودی لین دین انتہائی مضرت کا سبب ھے سود معاشرہ کے لیے سم قاتل ہے اس سے معاشرے میں بغض و حسد اور نفرت و عداوت پھیلتی ہے ، یہ جہاں سودخور کو خود غرض بنا دیتا ہے وہیں سود دینے والے کے دل میں اس کے خلاف نفرت و عداوت کے شعلے بھڑکنے لگتے ہیں ، لوگوں کے دل سے باہمی تعاون کا جذبہ محو ہوجاتا ہے ۔ اسلام نے اس کے خاتمے پر بہت زور دیا ہے اور باطل طریقے سے مال کھانے کو ممنوع قرار دیاہے چنانچہ اللہ پاک کے چند ارشادات ملاحظہ ھوں؛-

وَلاَ تَأْکُلُواْ أَمْوَالَکُم بَیْنَکُم بِالْبَاطِل 

اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھایا کرو۔‘‘


یأَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَأْکُلُواْ الرِّبَا أَضْعَافاً مُّضَاعَفَۃً وَاتَّقُواْ اللّہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونo

اے ایمان والو! بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ اور اللہ تعالی سے ڈر و تاکہ تمہیں نجات ملے ۔ 


یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَذَرُواْ مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبَا إِن کُنتُم مُّؤْمِنِیْنo

اے ایمان والو!  اللہ تعالی سے ڈرو اور جو سود باقی رہ

گیا ہے وہ چھوڑ دو ، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔


ہمارے معاشرہ میں جو بڑے بڑے گناہ عام ہوتے جارہے ہیں، ان میں سے ایک بڑا خطرناک اور انسان کو ہلاک کرنے والا گناہ سود ہے۔

سود کی حرمت قرآن وحدیث سے واضح طور پر ثابت ہے، اللہ تبارک وتعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَاَحَلَّ اللّٰہ ُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا(البقرہ)

اللہ تعالیٰ نے خریدوفروخت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبَا وَیُرْبِی الصَّدَقَاتِ ( البقرہ )

اللہ تعالیٰ سود کو مٹاتا ہے اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔

سود لینے اور دینے والوں کے لیے اللہ اور اس کے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم )کا اعلانِ جنگ ھے یعنی سود کو قرآنِ کریم میں اتنا بڑا گناہ قرار دیا گیا ہے کہ شراب نوشی، خنزیر کھانے اور زنا کاری کے لیے قرآن کریم میں وہ لفظ استعمال نہیں کیے گئے جو سود کے لیے اللہ تبارک وتعالیٰ نے استعمال کیے ہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 

یَا اَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُوٴمِنِیْنَ۔ فَاِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَاْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ (البقرہ) 

اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے وہ چھوڑدو، اگر تم سچ مچ ایمان والے ہو۔ اور اگر ایسا نہیں کرتے تو تم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول(صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم )سے لڑنے کے لیے تیار ہوجاوٴ! 

سود کھانے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول  ( صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم )کی طرف سے اعلانِ جنگ ہے اور یہ ایسی سخت وعید ہے جو کسی اور بڑے گناہ، مثلاً زنا کرنے، شراب پینے کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔ 

مشہور صحابیِ رسول حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفۂ وقت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑادے۔ (تفسیر ابن کثیر)


          اللہ تبارک وتعالیٰ نے سود کھانے والوں کے لیے کل قیامت کے دن جو رسوائی وذلت رکھی ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک کلام میں کچھ اس طرح فرمایا: 

اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُونَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُونَ اِلَّا کَمَا یَقُومُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ( البقرہ) جولوگ سود کھاتے ہیں وہ (قیامت میں) اٹھیں گے تو اس شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگل بنادیا ہو۔ 

سود کی بعض شکلوں کو جائز قرار دینے والوں کے لیے فرمانِ الٰہی ہے: 

ذَلِکَ بِاَنَّہُمْ قَالُوا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا  وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ( البقرہ )

یہ ذلت آمیز عذاب اس لیے ہوگا کہ انھوں نے کہا تھا کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہوتی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے بیع (یعنی خرید وفروخت) کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔

سودکھانے سے توبہ نہ کرنے والے لوگ جہنم میں جائیں گے

          فَمَنْ جَآئَہُ مَوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّہِ فَانْتَہیٰ فَلَہ مَاسَلَفَ، وَاَمْرُہٓ اِلَی اللّٰہِ، وَمَنْ عَادَ فَاُولٓئِکَ اَصْحَابُ النَّارِ، ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ (البقرہ) 

لہٰذا جس شخص کے پاس اس کے رب کی طرف سے نصیحت آگئی اور وہ (سودی معاملات سے) باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ہوا وہ اسی کا ہے اور اس کی (باطنی کیفیت) کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے حوالہ ہے۔ اور جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیاتو ایسے لوگ دوزخی ہیں، وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔

          غرضیکہ سورہٴ البقرہ کی ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو ہلاک کرنے والے گناہ سے سخت الفاظ کے ساتھ بچنے کی تعلیم دی ہے اور فرمایاکہ سود لینے اور دینے والے اگر توبہ نہیں کرتے ہیں تو وہ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم )سے لڑنے کے لیے تیار ہوجائیں، نیز فرمایا کہ سود لینے اور دینے والوں کو کل قیامت کے دن ذلیل ورسوا کیا جائے گا اور وہ جہنم میں ڈالے جائیں گے۔۔


نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے بھی سود سے بچنے کی بہت تاکید فرمائی ہے اور سود لینے اور دینے والوں کے لیے سخت وعیدیں سنائی ہیں

سود کی اسی قباحت کی وجہ سے اس میں ملوث تمام لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملعون قرار دیا ہے 


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سود کھانے والے ، سود دینے والے ،اس کا لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت بھیجی ہے ۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے حجة الوداع کے موقع پر سود کی حرمت کا اعلان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: (آج کے دن) جاہلیت کا سود چھوڑ دیا گیا، اور سب سے پہلا سود جو میں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) چھوڑتا ہوں وہ ہمارے چچا حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سود ہے۔ وہ سب کا سب ختم کردیا گیا ہے چونکہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ سود کی حرمت سے قبل لوگوں کو سود پر قرض دیا کرتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ آج کے دن میں اُن کا سودجو دوسرے لوگوں کے ذمہ ہے وہ ختم کرتا ہوں۔ (صحیح مسلم )

          حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: سات ہلاک کرنے والے گناہوں سے بچو۔ صحابہٴ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! وہ سات بڑے گناہ کونسے ہیں (جو انسانوں کو ہلاک کرنے والے ہیں)؟ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : (۱)شرک کرنا، (۲) جادو کرنا، (۳)کسی شخص کو ناحق قتل کرنا، (۴)سود کھانا، (۵)یتیم کے مال کو ہڑپنا، (۶)(کفار کے ساتھ جنگ کی صورت میں) میدان سے بھاگنا، (۷)پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا۔ (بخاری ومسلم)

          حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے سود لینے اور دینے والے، سودی حساب لکھنے والے اور سودی شہادت دینے والے سب پر لعنت فرمائی ہے۔ سود لینے اور دینے والے پر حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی لعنت کے الفاظ حدیث کی ہر مشہور ومعروف کتاب میں موجود ہیں۔ (مسلم، ترمذی، ابوداود، نسائی)

          حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم  نے ارشاد فرمایا: چار شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے لازم کرلیا ہے کہ ان کو جنت میں داخل نہیں کریں گے اور نہ ان کو جنت کی نعمتوں کا ذائقہ چکھائیں گے۔ پہلا شراب کا عادی، دوسرا سود کھانے والا، تیسرا ناحق یتیم کا مال اڑانے والا، چوتھا ماں باپ کی نافرمانی کرنے والا (کتاب الکبائر للذہبی)

          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سود کے ۷۰ سے زیادہ درجے ہیں اور ادنی درجہ ایسا ہے جیسے اپنی ماں سے زناکرے۔(رواہ حاکم، البیہقی، طبرانی، مالک)

          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک درہم سود کا کھانا چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ ہے۔ (رواہ احمد والطبرانی فی الکبیر)

بینک سے قرض لینا بھی عین سود ہے تمام مکاتبِ فکر کے علماء اس بات پر متفق ہیں کہ عصر حاضر میں بینک سے قرض لینے کا رائج طریقہ اور جمع شدہ رقم پر منافع کی رقم حاصل کرنا سب وہی سود ہے جس کو قرآن کریم میں سورہٴ بقرہ کی آیات میں منع کیا گیا ہے، جس کے ترک نہ کرنے والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعلانِ جنگ ہے اور توبہ نہ کرنے والوں کے لیے قیامت کے دن رسوائی وذلت ہے اور جہنم ان کا ٹھکانا ہے

ط - ذخیرہ اندوزی کرنا


ذخیرہ اندوزی ایسا قبیح گناہ ھے جس سے  باھمی تعاون ختم ھو کر رہ جاتا ھے اور معاشرے کے افراد تکلیف میں آجاتے ہیں ریٹ مصنوعی طور پر بڑھادئیے جاتے ہیں یا ریٹ بڑھنے کی صورت میں ان اشیاء کی فروخت بند کردی جاتی ہیں ۔حالانکہ لوگ طلب میں لگے ہوئے ہوتے ہیں جیسا کہ آجکل ، چینی ،آٹا، پیٹرول وغیرہ کا  حال ھوتا رھتا ھے، اسلام میں ایسی ذخیرہ اندوزی ناجائز ہے ،احادیث میں اس پر بہت سخت وعیدیں آئی ہیں

 حضرت معمرؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ذخیرہ کرنے والا خطا کار ہے 

حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔ 

حضرت عمر ؓ سے روایت ہے کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص نے مسلمانوں کے خلاف غذائی اجناس کا ذخیرہ اندوزی کیا اللہ تعالیٰ اس پر ،غربت افلاس اور جذام کی بیماری مسلط کردینگے ۔(مشکوٰۃ - باب الاحتکار )

ذخیرہ اندوزی سے معیشت کی شفافیت ختم ہوجاتی ہے ، امیروں کی اجارہ داری ہونے لگتی ہے ، عام لوگ معاشی بحران کے شکار ہوجاتے ہیں ۔

  معیشت کے عمل کو صاف وشفاف رکھنے اوراجارہ داریوں سے حفاظت کے پیش نظراسلام نے ذخیرہ اندوزی کواس کی تمام انواع واقسام کے ساتھ ممنوع قرار دیا ہے، اور اسلامی حکومت کواس بات کی اجازت دی ہے کہ وہ ا س ملعون عمل کوروکنے کے لیے دخل اندازی کرے۔

   جو تاجر ذخیرہ اندوزی کرکے مصنوعی قلت پیداکرے اور پھر مارکیٹ  میں اپنامال اپنی مرضی کی قیمت پرفروخت کرے، اسے خطاکاراورملعون قراردیاگیاہے،ارشادِنبوی  صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم ہے:

          ”مَنِ احْتَکَرَ یُرِیْدُ أنْ یَتَعَالٰی بِہَا عَلی الْمُسْلِمِیْنَ فَہُوَ خَاطِیٴ

 جس نے ذخیرہ اندوزی اس ارادہ سے کی کہ وہ اس طرح مسلمانوں پراس چیزکی قیمت چڑھائے وہ خطاکارہے“۔

          دوسری روایت میں ہے:

  اَلْجَالِبُ مَرْزُوْقٌ وَالْمُحْتَکِرُ مَلْعُوْن

  تاجرکو(اللہ تعالی کی طرف سے)رزق دیاجاتاہے اورذخیرہ اندوزی کرنے والا لعنتی ہے

   اسلام کے قانونِ تجارت نے ذخیرہ اندوزی کی تمام ممکنہ صورتوں کوبھی مردود قرار دیا ہے، دورِحاضرمیں سرمایہ دار بسااوقات کسی جنس کوممکن طورپرمارکیٹ سے خریدتے ہیں،یاپھروہ جنس صرف ان کے کارخانے اورمل میں بنتی ہے،اسے ذخیرہ کرلیتے ہیں ،پھربعدازاں اپنی مرضی سے رسدوطلب میں عدمِ توازن قائم کرکے من مانی قیمتیں وصول کرتے ہیں، پاکستان میں آٹے اورچینی کابحران اس کی واضح مثالیں ہیں کہ حکمرانوں اورچند سرمایہ داروں کی ملی بھگت سے غریب ایک ایک لقمے کوترس گئے تھے۔بہرحال 

ھمیں ھر صورت میں اس کی حوصلہ شکنی کرنی چاھیے اور ذخیرہ اندوزوں کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون سے قطعی گریز کرنا چاھیے

اللہ پاک ھمیں اس لعنت سے محفوظ فرمائے

آمین یا رب العالمین


ی - ناپ تول میں کمی کرنا


ناپ تول میں کمی ایک بہت بڑی سماجی برائی ہے جس سے پورا معاشرہ متاثر ہوتا ہے یہ باھمی تعاون کے لئے ایک زہر قاتل ھے جس معاشرے میں ناپ تول میں کمی اور نفع خوری عام ہوجائے اللہ اس سے خیر کو اٹھالیتا ہے اور تباہی اس کی مقدر ہوتی ہے اللہ تعالی نے قوم شعیب علیہ السلام کو اس برائی کی وجہ سے قیامت تک کے لیے نشان عبرت بنادیا ، اللہ رب العالمین نے اس برائی میں ملوث لوگوں پرلعنت بھیجی ہے:


وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ ،الَّذِیْنَ إِذَا اکْتَالُواْ عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُونَ ،وَإِذَا کَالُوہُمْ أَو وَّزَنُوہُمْ یُخْسِرُونَ O

بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی ، کہ جب لوگوں سےناپ کر لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب انہیں ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو کم دیتے ہیں ۔ 


آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تجارت میں دھوکہ سے منع فرمایا اور اسے بے ایمانوں کا کام قرار دیا : ’’جو دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ 


ایک جگہ اللہ تعالی نے وزن پورا کرنے کا حکم دیتے ہوئے اور اس میں کمی کرنے سے منع کرتے ہوئے فرمایا : 


وَاَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ط ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّاَحْسَنُ تَاْوِیْلًا

(سورۃ الاسراء)

ناپ پورا رکھا کرو جب ﴿بھی﴾ تم ﴿کوئی چیز﴾ ناپو اور ﴿جب تولنے لگو تو﴾ سیدھے ترازو سے تولا کرو، یہ بہتر ہے اور انجام کے اعتبار سے ﴿بھی﴾ خوب تر ہے    -


اللہ تعالیٰ نے فر مایا کہ جب پیمانہ بھرو، جب ناپ تول کرنے لگو تو پورا پورا ناپ تول کرو، ناپ تول میں کمی نہ کرو اور اس کی تشریح میں متعدد مفسرین نے فرمایا کہ ناپ تول میں کمی کرنا یا چیزوں میں ملاوٹ کرنا یہ سخت ترین گنا ہ ہے یہ ایک ہی طرح کی دو چیزیں ہیں 

بہرحال اور بھی ھزاروں قسم کے نیکی اور گناہ کے کام ھیں جن کا احاطہ کرنا یہاں ممکن نہیں لیکن ھمیں خود بھی نیکی کے کام کرنے چاھیں اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دینی چاھیے اور نیکی اور پرھیزگاری کے کاموں میں حتی المقدور دوسروں سے تعاون کرنا چاھیے 

اور ھمیں خود بھی گناہ کے کام نہیں کرنے چاھیں اور دوسروں کو بھی اس سے منع کرنا  چاھیے اور گناہ اور ظلم کے کاموں میں کسی سے بھی کسی بھی قسم کا  تعاون بالکل نہیں کرنا چاھیے بلکہ حتی المقدور ان کو ختم کرنے کی ھر ممکن کوشش کرنی چاھیے   ھمیں اپنے رشتہ یا تعلق کو سامنے نہیں رکھنا چاھیں بلکہ ظالم کی ھر ممکن حوصلہ شکنی اور مظلوم کی ھر ممکن حمایت و اعانت کرنی چاھیے  ھمیں قرآن پاک کا یہ آصول ھمیشہ پیش نظر رکھنا چاھیے


وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ (المآئدۃ)

اور نیکی اور پرہیزگاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ دو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے۔

اللہ پاک کہنے سننے اور لکھنے پڑھنے سے زیادہ عمل کرنے کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

( تمت بالخیر)


 

Share: