تنگ دلی


تنگ دلی ہمارے ظرف کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ تنگ دل شخص چھوٹی چھوٹی باتوں جیسا کہ کسی کی معمولی مدد کرنے، مل بیٹھنے ، کھانے پینے، بانٹنے ، برتنے اور لین دین وغیرہ میں ناصرف دوسروں کے ساتھ معاملات میں بلکہ اپنی ذات کے حوالے سے بھی ایسے ہی تنگ دلی کا مظاہرہ کرتا ہے اور یوں اللہ کی دی ہوئی نعمتوں سے خود بھی بہترین طریقے سے لطف اندوز ہونے سے محروم رہ جاتا ہے۔

اپنی ذاتی چیز کو کسی دوسرے کے ساتھ شیئر کرنے میں عار محسوس کرنا تنگ دلی ہے۔ اگر جھجھک محسوس کرتے ہوئے بھی کچھ دوسرے کے ساتھ شیئر کر لیا تو بھی وہ تنگ دلی ہو گی۔ اللہ اور اسکی محبت کے احساس میں کمی تنگ دلی کا سبب بنتی ہے دل میں اللہ کا احساسِ آشنائی جتنا کم ہو گا اتنا ہی دل میں تنگی ہوگی۔ تنگ دلی کا شکار ہم تب ہوتے ہیں جب ہمار ا یقین اللہ پر کم ہوتا ہے کہ جس اللہ نے سب دیا ہے وہ بعد میں اور بھی دے سکتا ہے۔ تنگ دل شخص اپنے آپ کو محدود کر لیتا ہے ، دل کی راحت سے محروم ہو جاتا ہے کیونکہ جب ہم کسی کی جائز ضرورت یا خواہش پوری کرنے کےلئے اس کے ساتھ اپنی کوئی بھی چیز بانٹتے ہیں تو اس کا دل خوش ہو جاتا ہے اس کے دل سے پیار بھری دعائیں نکلتی ہیں جس سے ایک دوسرے کےلئے دلوں میں پیار بڑھتا ہے ۔ کسی کا دل خوش کرنے سے اللہ خوش ہوتا ہے۔ اللہ اپنے بندے سے راضی ہو کر اس کے دل کو راحت و تسکین بخشتا ہے ۔دل کواللہ کی قربت محسوس ہوتی ہے جبکہ تنگ دل شخص اس احساس سے خود کو محروم کر لیتا ہے۔

اگر ہم روزانہ کے معاملات اور معمولات کا جائزہ لیں تو کئی مقامات پر تنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔خاص طور پر جب ہمیں کہیں آرام سکون قربان کرنا پڑتا ہے ایسے میں کسی کو ایک گلاس پانی دینا بھی مشکل لگتا ہے ۔ کسی کو کھانا نہ دینا ، سلام کا جواب نہ دینا ، مسافر کو راستہ بتانے میں ، کوئی کھانے پینے کی چیز آپس میں بانٹنے میں، کسی کا کوئی کام کرنے میں بھی تنگ دلی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ تنگ دلی کےلئے کسی معاملے کا بڑا ہونا ضروری نہیں ہے۔ دیکھا جائے تو ہم روز مرہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی تنگ دلی کا مظاہرہ کر جاتے ہیں جیسے کہ اگر کوئی اچھا کام کرتا ہے تو بھی ہم کھلے دل سے اس کی تعریف نہیں کرتے، اگر کوئی استعمال کی چیز مانگے تو اگر چیز دے بھی رہے ہوں تو دل تنگ پڑتا ہے۔

تنگ دلی کے مرض میں جو شخص مبتلا ہو وہ اپنی زندگی کے ماحول میں دوسروں کے لیے کم ہی گنجائش چھوڑنا چاہتا ہے۔ وہ خود جتنا بھی پھیل جائے، اپنی جگہ اسے تنگ ہی نظر آتی ہے اور دوسرے جس قدر بھی اس کے لیے سکڑ جائیں، اسے محسوس ہوتا ہے کہ وہ بہت پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنے لیے وہ ہر رعایت چاہتا ہے ، مگر دوسروں کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کرنا چاہتا۔ اپنی خوبیاں اس کے نزدیک ایک صفت ہوتی ہیں اور دوسروں کی خوبیاں محض ایک اتفاقی حادثہ۔ اپنے عیوب اس کی نگاہ میں قابلِ معافی ہوتے ہیں، مگر دوسروں کا کوئی عیب وہ معاف نہیں کرتا۔ اپنی مشکلات کو تو وہ مشکلات سمجھتا ہے، مگر دوسروں کی مشکلات اس کی راے میں محض بہانہ ہوتی ہیں۔ اپنی کمزوریوں کے لیے جو الائونس وہ خود چاہتا ہے، دوسروں کو وہ الائونس دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ دوسروں کی مجبوریوں کی پروا کیے بغیر وہ اُن سے وہ انتہائی مطالبات کرتا ہے جو خود اپنی مجبوری کی صورت میں وہ کبھی پورے نہ کرے۔ اپنی پسند اور اپنا ذوق وہ دوسروں پر ٹھونسنے کی کوشش کرتا ہے، مگر دوسروں کی پسند اور ان کے ذوق کا لحاظ کرنا ضروری نہیں سمجھتا۔ یہ چیز ترقی کرتی رہے تو آگے چل کر خوردہ گیری و عیب چینی کی شکل اختیار کرتی ہے۔ دوسروں کی ذرا ذرا سی باتوں پر آدمی گرفت کرنے لگتا ہے ، اور پھر جوابی عیب چینی پر بلبلا اُٹھتا ہے۔


اس کو ایسے بھی چیک کیا جاسکتا ہے کہ کیا ہمارا رویہ سب کے ساتھ ایک جیسا ہے یا کچھ لوگوں کی تعریف تو کھلے دل سے کرتے ہیں اور کچھ لوگوں کی تعریف کرتے ہوئے گھبراتے ہیں ۔اس کے علاوہ اپنے ساتھ کسی دوسرے کی شراکت داری میں عار محسوس کرنا یا اس کا کسی معاملے میں ساتھ نہ دنیا بھی تنگ دلی کہلاتا ہے۔ ہم تنگ دلی کی وجہ سے کسی رشتے کو دل میں جگہ نہیں دے سکتے اور ہمارے اور اگلے کے درمیان نہ چاہتے ہوئے بھی دوری ہوگی۔

تنگ دلی کے نقصانات:

۔ تنگ دلی سے دل میں ایک منفی احساس آجاتا ہے جس سے اللہ کی قربت سے دور ہوتے ہیں ۔

تنگ دلی سے دل میں پیار اور محبت کے جذبے اور احساسات کی جگہ سختی آجاتی ہے۔ دل جب سخت ہوتو کچھ اندر جذب نہیں کرتا اس طرح حق کی راہ پر ہوتے ہوئے بھی رہنمائی نہیں لے پاتے اور نہ ہی آگے بڑھ پاتے ہیں۔

ہماری تنگ دلی کی وجہ سے ہمارے ساتھ رہنے میں آسانی محسوس نہیں کرتے ۔ہم اللہ کے بندوں کے لیئے آسانی نہیں کر پاتے اور نہ ہی ان کی بھلائی کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔

دل میں وسعت نہ ہونے سے دوسروں کو حق کا پیغام بھی نہیں دے پاتے جس سے اپنا نقصان کرتے ہیں ۔

ہماری تنگ دلی کی وجہ سے دوسرے ہم سے مدد طلب کرنے اس طرح دوسروں کی مدد نہیں کر سکتے اور یوں ہم کسی کی مدد نہ کر کے اللہ کی قربت پانے کا موقع ضائع کر دیتے ہیں۔

تنگ دلی سے دل میں سختی پیدا ہوتی ہے اور آپس میں پیار محبت کے احساس ختم ہونے لگتے ہیں ۔ دل میں اللہ کا احساس نہیں اتر پاتا جو اللہ سے دوری کا سبب بنتا ہے۔

تنگ دل اپنی ذات میں پھنسا ہوتا ہے اور اپنی ذات کی پوجا کر کے ذات اور نفس کا غلام بن جاتا ہے۔

تنگ دل ہر چیز کو اپنی ملکیت سمجھنے لگتا ہے جس سے اندر انا اور تکبر کے احساس پروان چڑھتے ہیں جو اللہ کی قربت میں بڑی رکاوٹ ہیں ۔


۔ تنگ دل انسان صرف لین دین میں ہی نہیں اور معاملات میں بھی تنگ دل ہونے کا مظاہرہ کرتا ہے کسی کی تعریف کرنے میں پیار دینے میں تنگ دلی دکھاتا ہے ۔ یوں اپنی ذات میں پھنس کر اللہ کے قرب سے محروم ہو جاتا ہے۔

تنگ دل انسان کا یقین کا لیول بھی اچھا نہیں ہوتا ۔ لوگوں کو کوئی چیز دینے میں اسے کمی کا خدشہ رہتا ہے اور اسے یقین نہیں ہوتا کہ سب عطا کرنے والا اللہ ہے اس طرح تنگ دل شخص اپنا ایمان کمزور کر لیتا ہے۔

تنگ دلی منفی سوچ ہے جو حق کے سفر میں بہت بڑی رکاوٹ ہے وسعتِ دل کے ساتھ اچھی سوچ، احساس کو دل میں جگہ ملتی ہے جو کہ تنگ دلی سے نصیب نہیں ہوتی۔

۔ تنگ دلی سے اندر حسد کا جذبہ پروان چڑھتا ہے کہ مجھ سے کوئی آگے نہ بڑھے ۔ تنگ دل شخص کسی کی خوشی اور کامیابی سے خوش نہیں ہوتا اور جلتا کڑھتا رہتا ہے۔


تنگ دلی سے انسان کے اندر خود غرضی بڑھتی ہے۔ اپنے علاوہ کسی کی فکر نہیں کرتا نہ احساس ہوتا ہے اس طرح تنگ دلی محبت کے جذبات پروان چڑھانے سے روکتی ہے۔

تنگ دل اللہ کی محبت کو زیادہ محسوس نہیں کر پاتا اور قربت کے سفر میں پیچھے رہ جاتا ہے کیونکہ اللہ کی ذات بہت عظیم اور بڑی ہے ۔جہاں دل میں نرمی اور وسعت ہوگی وہاں ہی وہ سماتا ہے 

تنگ دل انسان ذات کو چاہتا ہے اور ذات اللہ کے احکامات کے منافی کام کراتی ہے ۔ یوں تنگ دلی کا شکار ہوا شخص اللہ کے احکامات کو فراموش کر کے اپنا نقصان کرتا چلا جاتا ہے۔

تنگ دلی سے بچنے کے طریقے:

جس کےلئے دل میں تنگی آرہی ہو اس کے ساتھ اللہ سے مدد مانگ کر اچھا پیش آنا۔ اللہ سے مدد مانگ کر پاور محسوس ہوتی ہے اور دل میں وسعت آنے لگتی ہے۔

۔ یہ احساس کہ جس دل میں اللہ کے ایک بندے کےلئے اتنی تنگی ہے وہ دل کیسے اللہ کا گھر بن پائے گا، یہ احساس رکھ کر تنگ دلی سے بچا جاسکتا ہے۔

اس بات کا احساس کہ دل میں تنگی لانا اللہ کو بالکل پسند نہیں ہے ۔ اس طرح اللہ کی ناراضگی کے احساس سے اس سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں 

تنگ دلی سے بچنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جس کے لئے دل میں تنگی آرہی ہو اس کےلئے دعا کی جائے، اس کی بہتری اور کامیابی کےلئے دعا کرنے سے بھی اندر وسعت آتی ہے۔

اس بات کا احساس اور یقین کہ کوئی جو بھی کرے اگر ہم نے اسے کھلے دل سے پیار دیا یا اسکی مدد کی تو ہمارا ایسا کرنا اللہ کو پسند آئے گا اور وہ خوش ہو گا۔ یہ احساس بھی تنگ دلی سے بچاتا ہے۔

۔ راضی با رضا رہنے کی کوشش کرنا ، اللہ کی رضا پانے کےلئے اس کے بندوں کے کام آنا ، مدد کرنا ، خدمت کرنا دل میں وسعت لائے گا اور تنگ دلی سے بچے رہےں گے۔

کھلے دل سے ، بے لوث ہو کر اگلے کو پیار دینا اور کام آنا ، مدد کرنا اللہ کو پسند آئے گا اور اس کی قربت میں آگے بڑھیں گے اس احساس سے بھی دل کی تنگی سے بچ جاتے ۔

اللہ پر یقین کو بڑھا کر تنگ دلی سے بچا جاسکتا ہے کیونکہ ہمارے دل میں تنگی اس لیے آتی ہے کہ ہمیں ڈر ہوتا ہے کہ ہمیں عطا کی گئی نعمتوں میں کمی آجائے گی یہ یقین کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے۔

اس بات کا احساس پیدا کرنا کہ سب اللہ کی عطا کی گئی نعمتیں ہیں جس نے آج عطا کیا ہے ، وہ کل بھی عطا کرے گا پھر انہیںبانٹتے ہوئے کیوں تنگ دلی دکھائیں۔ اللہ کی عطا کی ہوئی نعمتوں کو اس کے بندوں کے ساتھ شیئر کریں تو وہ خوش ہو کر اور بھی عطا کرے گا۔


نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ کو سامنے رکھ کر ہم تنگ دلی سے بچ سکتے ہیں ۔ آپ ﷺ جیسا فراخ دل نہ کوئی تھا اور نہ ہی ہوگا آپ ہمارے لیے مثال ہیں ۔ اس لیے آپ ﷺ کی سنت کو مضبوطی سے تھام کر تنگ دلی سے بچا جاسکتا ہے۔

دل دنیا کی خواہشات سے آزاد کر کے تنگ دلی سے بچا جاسکتا ہے کیونکہ دنیا کی چاہتیں دل کو تنگ کردیتی ہیں جبکہ اللہ کی محبت دل میں بس کر اس میں وسعت پیدا کرتی ہے۔

عاجزی اور شکر گزاری کے احساس دل میں رکھ کر بھی تنگ دلی سے بچا جاسکتا ہے۔

تنگ دلی دوسروں کے ساتھ معاملات کے علاوہ ذات میں بھی آتی ہے جس سے ہم خود بہترین طریقے سے اللہ کی نعمتوں سے لطف نہیں اٹھا سکتے یہ احساس ہو کہ یہ سب جو مجھے عطا ہے وہ اللہ کی دین ہے میرا کچھ بھی نہیں ۔ اس لیے تمام نعمتوں کو اچھے طریقے اور خوشی سے استعمال کرنا دل کی تنگی دور کر کے وسعت لاتا ہے۔

معاملات میں مل بیٹھنا ، لین دین، کھانا پینا ان تمام کو وسعت دل سے استعمال کرنا ہے اور اللہ کا شکر گزار ہونا ہے۔ شکر گزاری میں رہنے سے دل کو وسعت ملتی ہے۔اور تنگ دلی دور ہوتی ہے۔

لہذا  تزکیہ نفس کے لیےتنگ دلی سے جان چھڑانا لازمی ہے۔

Share: