پندراں شعبان کی فضیلت

 👇

پندرہ شعبان کی فضیلت

شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب


شب ِ برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماءنے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاءکا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، اور جیساکہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے۔


شب برات میں عبادت :۔

امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور ، تابعین کا دور، تبع تابعین کادور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے،لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث ِ اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے۔


عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں :۔

البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے ، جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شب ِ برات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے ، مثلاََ پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ، اسکا کوئی ثبوت نہیں، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں انجام دی جائے، نفل نماز پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، ذکرکریں ، تسبیح پڑھیں ، دعائیں کریں ، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں۔


شبِ برات میں قبرستان جانا:۔

اس رات میں ایک اور عمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم جنت البقیع میں تشریف لے گئے، اب چونکہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شبِ برات میں قبرستان جائیں ، لیکن میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے، جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، فرماتے تھے کہ جو چیز رسول کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے، لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسول کریمﷺ سے ایک مرتبہ جانا مروی ہے، کہ آپ شبِ برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے ، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاو تو ٹھیک ہے ، لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا،التزام کرنا، اور اسکو ضروری سمجھنا اور اسکو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اسکو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اسکے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی ، یہ اسکو اسکے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔


15 شعبان کا روزہ:۔

ایک مسئلہ شب برات کے بعد والے دن یعنی پندرہ شعبان کے روزے کاہے، اسکو بھی سمجھ لینا چاہئے، وہ یہ کہ سارے ذخیرہ حدیث میں اس روزہ کے بارے میں صرف ایک روایت میں ہے کہ شب برات کے بعد والے دن روزہ رکھولیکن یہ روایت ضعیف ہے لہٰذا اس روایت کی وجہ سے خاص پندرہ شعبان کے روزے کو سنت یا مستحب قرار دینا بعض علماءکے نزدیک درست نہیں البتہ پورے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے لیکن 28اور29 شعبان کو حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، کہ رمضان سے ایک دو روز پہلے روزہ مت رکھو، تاکہ رمضان کے روزوں کےلئے انسان نشاط کے ساتھ تیا ر رہے۔


﴿التخریج﴾


سنن الترمذي (3 / 107): عن عائشة قالت: فقدت رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة فخرجت، فإذا هو بالبقيع، فقال: «أكنت تخافين أن يحيف الله عليك ورسوله» ، قلت: يا رسول الله، إني ظننت أنك أتيت بعض نسائك، فقال: «إن الله عز وجل ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا، فيغفر لأكثر من عدد شعر غنم كلب» وفي الباب عن أبي بكر الصديق.


*سنن ابن ماجه (1 / 444): عن علي بن أبي طالب، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا كانت ليلة النصف من شعبان، فقوموا ليلها وصوموا نهارها، فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا، فيقول: ألا من مستغفر لي فأغفر له ألا مسترزق فأرزقه ألا مبتلى فأعافيه ألا كذا ألا كذا، حتى يطلع الفجر ".


* سنن ابن ماجه (1 / 445): عن أبي موسى الأشعري، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «إن الله ليطلع في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك أو مشاحن».


*مصنف عبد الرزاق الصنعاني (4 / 317): عن ابن عمر قال: " خمس ليال لا ترد فيهن الدعاء: ليلة الجمعة، وأول ليلة من رجب، وليلة النصف من شعبان، وليلتي العيدين " .


*مشکوۃ المصابیح: رقم الحدیث1305:عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : هل تدرين ما هذه الليل ؟ يعني ليلة النصف من شعبان قالت : ما فيها يا رسول الله فقال : فيها أن يكتب كل مولود من بني آدم في هذه السنة وفيها أن يكتب كل هالك من بني آدم في هذه السنة وفيها ترفع أعمالهم وفيها تنزل أرزاقهم۔


شعب الایمان للبیہقی: رقم الحدیث3556:أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَقَالَ: هَذِهِ اللَّيْلَةُ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَلِلَّهِ فِيهَا عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ بِعَدَدِ شُعُورِ غَنَمِ كَلْبٍ، لَا يَنْظُرُ اللهُ فِيهَا إِلَى مُشْرِكٍ، وَلَا إِلَى مُشَاحِنٍ ، وَلَا إِلَى قَاطِعِ رَحِمٍ، وَلَا إِلَى مُسْبِلٍ ، وَلَا إِلَى عَاقٍّ لِوَ الِدَيْهِ، وَلَا إِلَى مُدْمِنِ خَمْرٍ 


*شعب الایمان للبیہقی: رقم الحدیث3546، مجمع الزوائد للہیثمی: رقم 12957:عَنِ أَبِي بَكْرٍالصِّدِّیْقِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَنْزِلُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِكُلِّ شَيْءٍ إِلَّا رَجُلٍ مُشْرِكٍ أَوْ فِي قَلْبِهِ شَحْنَاءُ


*مسند أحمد (11 / 216): عن عبد الله بن عمرو، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " يطلع الله عز وجل إلى خلقه ليلة النصف من شعبان فيغفر لعباده إلا لاثنين: مشاحن، وقاتل نفس.


*السنة لابن أبي عاصم (1 / 223): عن أبي ثعلبة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا كان ليلة النصف من شعبان، يطلع الله عز وجل إلى خلقه، فيغفرللمؤمنين، ويترك أهل الضغائن، وأهل الحقد بحقدهم».


*السنة لابن أبي عاصم (1 / 216):  عن أبي سلمة بن عبد الرحمن وأبي عبد الله الأغر صاحب أبي هريرة أنهما سمعا أبا هريرة يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ينزل الله تبارك وتعالى حين يبقى ثلث الليل الآخر كل ليلة إلى السماء الدنيا فيقول من يسألني فأعطيه من يدعوني فأستجيب له من يستغفرني فأغفر له". إسناده صحيح على شرط الشيخين وقد أخرجاه كما يأتي.


*مسند البزار (7 / 186): عن عوف رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يطلع الله تبارك وتعالى على خلقه ليلة النصف من شعبان، فيغفر لهم كلهم إلا لمشرك أو مشاحن».


*صحيح ابن حبان (12 / 481): عن معاذ بن جبل، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «يطلع الله إلى خلقه في ليلة النصف من شعبان فيغفر لجميع خلقه إلا لمشرك أو مشاحن».


*كنز العمال (3 / 467):  يطلع الله تعالى على خلقه ليلة النصف من شعبان، فيغفر لعباده إلا اثنين: مشاحنا، أو قاتل نفس. "حم ت" عن ابن عمرو.


*كنز العمال (5 / 364):  لا يحجب قول لا إله إلا الله عن الله إلا ما خرج من فم صاحب الشاربين ليلة النصف من شعبان. "الديلمي عن ابن مسعود".


*كنز العمال (12 / 212): "إن الله تعالى يلحظ إلى الكعبة في كل عام لحظة وذلك في ليلة النصف من شعبان، فعند ذلك تحن إليها قلوب المؤمنين." الديلمي - عن عائشة وابن عباس".


(۲)درر الحكام شرح غرر الأحكام (1 / 117): ومن المندوبات إحياء ليال العشر الأخير من رمضان وليلتي العيدين وليالي عشر ذي الحجة وليلة النصف من شعبان والمراد بإحياء الليل قيامه وظاهره الاستيعاب ويجوز أن يراد غالبه ويكره الاجتماع على إحياء ليلة من هذه الليالي في المساجد.


*البحر الرائق (2 / 56): وما روي من الصلوات في الأوقات الشريفة كليلة القدر وليلة النصف من شعبان وليلتي العيد وعرفة والجمعة وغيرها تصلى فرادى انتهى.

*الدر المختار (2 / 25): وإحياء ليلة العيدين، والنصف من شعبان.


ترتیب : محمد عاصم ، فاضل و متخصص دارالعلوم کراچی


وہ  بد قسمت لوگ جن کی شب برات میں بھی مغفرت نھیں ھوتی


۱-شرک کرنے والا


۲- بغیر کسی شرعی عذر کے کینہ وبغض رکھنے والا


۳-متکبرانہ انداز میں شلوار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والا


۴-ماں باپ کا نافرمان


۵-شراب کا عادی


۶-ناحق قتل کرنے والا


۷-ناحق بھتہ وصول کرنے والا


۸-جادو کرنے اور کروانے والا


۹-فال نکال کر قسمت کا حال بتانے والا


۱۰-ھاتھوں کی لکیریں دیکھ کر قسمت کا حال بتانے والا


۱۱-موسیقی کی آلات کے ساتھ دل لبھانے والا


۱۲-حکمرانوں کو ناحق ٹیکس لگانے کی راھیں بتانے والا


۱۳-اھل حق کی جماعت سے الگ ھونے والا


۱۴- بغیر کسی شرعی جواز کے قطع تعلقی کرنے والا

“”””””””””””””

Share: