رمضان المبارک کی اھمیت وفضیلت


بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ​

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ 

(البقرہ، آیت 183)

"اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔"


عربی زبان میں روزے کے لئے صوم کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی رک جانا کے ہیں یعنی انسانی خواہشات اور کھانے پینے سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک رک جاتا ہے اور اپنے جسم کے تمام اعضاءکو برائیوں سے روکے رکھتا ہے۔

رمضان کا لفظ ”رمضا“ سے نکلا ہے اور رمضا اس بارش کو کہتے ہیں جو کہ موسم خریف سے پہلے برس کر زمین کو گردوغبار سے پاک کر دیتی ہے۔ مسلمانوں کے لئے یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کی بارش کا ہے جس کے برسنے سے مومنوں کے گناہ دھل جاتے ہیں۔


رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت اور فیوض و برکات کے باب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں :


حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالى عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِيْنُ.(بخاری)

’’جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔‘‘


رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارک سے لگایا جا سکتا ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّإِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّم مِنْ ذَنْبِهِ. (بخاری) 

’’جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘

رمضان المبارک کی ایک ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہے کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس کی برابری و ہم سری نہیں کر سکتے۔


ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:


(الصوم جنۃ یسجن بھا العبد من النار) (صحیح الجامع)

’’روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعے سے بندہ جہنم کی آگ سے بچتا ہے۔‘‘


ایک دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:

(الصوم جنة من عذاب الله ) (صحیح الجامع)

’’روزہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے (بچاؤ کی ) ڈھال ہے۔‘‘


ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ آله وسلم نے فرمایا:

من صام يوما في سبيل الله، بعد الله وجهه عن النار سبعين خريف 

(صحیح البخاری وصحیح مسلم) 

’’جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا، تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال (کی مسافت کے قریب) دور کر دیتا ہے۔‘‘


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:

إِنَّ فِي الْجَنَّةِ بَابًا يُقَالُ لَهُ الرَّيَّانُ يَدْخُلُ مِنْهُ الصَّائِمُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ يُقَالُ أَيْنَ الصَّائِمُونَ فَيَقُومُونَ لَا يَدْخُلُ مِنْهُ أَحَدٌ غَيْرُهُمْ فَإِذَا دَخَلُوا أُغْلِقَ فَلَمْ .

(صحیح البخاری وصحیح مسلم)

’’جنت (کے آٹھ دروازوں میں سے) ایک دروازے کا نام ’’ رَیّان‘‘ ہے، جس سے قیامت کے دن صرف روزے دار داخل ہوں گے، ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی داخل نہیں ہوگا، کہا جائے گا روزے دار کہاں ہیں؟ تو وہ کھڑے ہو جائیں گے اور (جنت میں داخل ہوں گے) ان کے علاوہ کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے، تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا اور کوئی اس سے داخل نہیں ہوگا۔‘‘


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:

الصِّيَامُ وَالْقُرْآنُ يَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُولُ الصِّيَامُ أَيْ رَبِّ مَنَعْتُهُ الطَّعَامَ وَالشَّهَوَاتِ بِالنَّهَارِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ وَيَقُولُ الْقُرْآنُ مَنَعْتُهُ النَّوْمَ بِاللَّيْلِ فَشَفِّعْنِي فِيهِ قَالَ فَيُشَفَّعَانِ هل يصح هذا ... (صحیح الجامع، مسند احمد، طبرانی کبیر، مستدرک حاکم وشعب الایمان)

’’روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا : اے میرے رب! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے (پینے) سے اور جنسی خواہش پوری کرنے سے روک دیا تھا، پس تو اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔ قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے روک دیا تھا، پس تو اس کے بارے میں سفارش قبول فرما۔ چنانچہ ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔‘‘


رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:

(فتنة الرجل فی اھلہ ومالہ۔۔۔۔۔۔والصدقة) (صحیح البخاری وصحیح مسلم)

’’آدمی کی آزمائش ہوتی ہے اس کے بال بچوں کے بارے میں، اس کے مال میں اور اس کے پڑوسی کے سلسلے میں۔ ان آزمائشوں کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ﴾ (ھود:۱۱۴)’’نیکیاں برائيوں کو دور کر دیتی ہیں۔‘‘ اس حدیث و آیت سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کو نماز، روزہ اور صدقہ و خیرات اور دیگر نیکیوں کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے، تاکہ یہ نیکیاں اس کی کوتاہیوں اور گناہوں کا کفارہ بنتی رہیں۔


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:

لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا؛ إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ, وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ

(صحیح البخاری وصحیح مسلم)

’’روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ ایک جب وہ روزہ کھولتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسری خوشی) جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے سے خوش ہوگا۔‘‘


نبی کریم صلی اللہ علیہ وآله وسلم نے فرمایا:

(لِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ يَفْرَحُهُمَا؛ إِذَا أَفْطَرَ فَرِحَ, وَإِذَا لَقِيَ رَبَّهُ فَرِحَ بِصَوْمِهِ

(صحیح البخاری وصحیح مسلم) 

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، روزے دار کے منہ کی بدلی ہوئی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔‘‘


اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ (صحیح البخاری وصحیح مسلم) 

’’روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا۔‘‘




















یعنی دیگر نیکیوں کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے یہ ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ ﴿الحسنة بعشر امثالھا﴾(حوالہ ہائے مذکورہ) نیکی کم از کم دس گنا اور زیادہ سے زیادہ سات سو گناہ تک ملے گا۔ لیکن روزے کو اللہ تعالیٰ نے اس عام ضابطے اور کلیے سے مستثنیٰ فرما دیا اور یہ فرمایا کہ قیامت والے دن اس کی وہ ایسی خصوصی جزاء عطا فرمائے گا، جس کا علم صرف اسی کو ہے اور وہ عام ضابطوں سے ہٹ کر خصوصی نوعیت کی ہوگی۔

خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جن کی زندگی میں یہ مہینہ آئے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں حاصل کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر ديں۔

Share: