افادات: حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد سرفراز خان صفدر رحمة اللہ علیہ
انتخاب: مولانا محمد حذیفہ خان سواتی
٭ اگر کوئی آدمی بھول چوک کر کھا پی لے تو اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے روزے پر کوئی زد نہیں پڑی۔ ایک شخص آنحضرتؐ کے پاس بڑا گھبرایا ہوا آیا، کہنے لگا حضرت! مجھے یاد نہیں تھا، میں نے روزے کے ساتھ کھا بھی لیا اور پی بھی لیا، آنحضرتؐ نے فرمایا ”اطعمک اللہ وسقاک“ تجھے اللہ تعالیٰ نے کھلایا اور پلایا ہے۔ تیرا روزہ برقرار ہے۔
٭ خطا کے مسئلے میں اختلاف ہے۔ خطا کی صورت یہ ہے کہ روزہ یاد ہے، وضو کر رہا ہے، کلی کرنے کیلئے منہ میں پانی ڈالا اور غیر اختیاری طور پر پانی حلق سے نیچے چلا گیا، اسے خطا کہتے ہیں۔ امام ابو حنیفہؒ فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کو روزہ قضا کرنا پڑے گا، فقط کفارہ نہیں آئے گا۔ امام شافعیؒ خطا کی صورت میں قضا کے بھی قائل نہیں ہیں۔ بہرحال دین کے سلسلے میں جتنی احتیاط کر سکتے ہو کرو، تو خطا کی صورت میں روزہ قضا کرنا پڑے گا۔
٭ اگر بادل تھا، گھڑی خراب تھی، اس نے سمجھا کہ افطار کا وقت ہو گیا ہے اور روزہ افطار کر لیا، بعد میں معلوم ہوا کہ ابھی سورج غروب نہیں ہوا تو اس صورت میں بھی روزے کی قضا دینی پڑے گی۔ آنحضرتؐ کے زمانے میں بھی ایسا واقعہ پیش آیا اور حضرت عمرؓ کے زمانے میں بھی ایسا واقعہ پیش آیا کہ بادل بڑا گہرا تھا، اس زمانے میں گھڑیاں نہیں ہوتی تھیں، سب کا خیال ہوا کہ سورج غروب ہو گیا ہے، روزہ افطار کر لیا، اللہ تعالیٰ کی قدرت کہ بادل پھٹا تو دیکھا کہ سورج کھڑا ہے، بڑے پریشان ہوئے، حضرت عمرؓ نے فرمایا ”قضاء یوماً علینا یقیناً“ یقینا ہمارے اوپر ایک دن کی قضا ہے۔
٭ اگر کسی نے غلط فہمی کی بنا پر سحری کے وقت کھانا دیر سے کھایا تو اس دن کے روزے کی قضا کرنا پڑے گی، مثال کے طور پر ہم گھڑیوں کا حتی الوسع خیال رکھتے ہیں کہ ٹھیک رہیں، اور وقت کا بھی خیال رکھتے ہیں تا کہ کسی روزے میں خلل نہ آئے، ہم احتیاطاً سحری کا ٹائم ختم ہونے سے ایک منٹ پہلے اعلان کر دیتے ہیں کہ کھانا پینا چھوڑ دو، جب اذان ہوتی ہے اس وقت سحری کا ٹائم نہیں ہوتا، مثلاً جب مؤذن نے کہا اللہ اکبر! اگر کسی نے اس وقت کھایا پیا تو روزہ نہیں ہوگا، کیونکہ اذان ہوتی ہے پوہ پھوٹنے کے بعد، چاہے ایک منٹ گزر جائے یا دو منٹ گزر جائیں۔ کچھ لوگ اذان کے ہوتے ہوئے کھاتے پیتے رہتے ہیں، ان کا روزہ قطعاً نہیں ہوتا، اس لئے کہ اذان وقت سے پہلے نہیں ہو سکتی، اذان پوہ پھوٹنے کے بعد ہوتی ہے اور کھانے کا وقت ہے پوہ پھوٹنے سے پہلے۔
ایک آدمی کے جواب میں فرمایا کہ دوسروں کے متعلق تو کچھ نہیں کہہ سکتے، ہم نے الحمد للہ پورا التزام کیا ہوا ہے کہ سحری کے وقت بھی اور افطاری کے وقت بھی اذان احتیاط کے ساتھ ہو تا کہ کسی کے روزے پر زد نہ پڑے، دوسروں کے ہم ذمہ دار نہیں ہیں، ویسے بھی آج کل تو بہت سہولت ہے، اوقات منضبط ہیں، کیلنڈر چھپے ہوئے ہیں، پانچ منٹ پہلے ہی کھانا پینا بند کر دینا چاہئے، اس میں کیا حرج ہے۔
٭ شام کو افطاری میں تاخیر کرنا بھی گناہ ہے، ابو داؤد، ترمذی اور ابن ماجہ میں حدیث ہے اور یہ کتابیں صحاح ستہ کی ہیں، آنحضرتؐ نے فرمایا کہ جب روزے کی افطاری کا وقت ہو جائے تو تاخیر نہ کرو ”فان الیھود والنصاریٰ یؤخرون“بے شک یہودی اور عیسائی روزہ افطار کرنے میں تاخیر کرتے ہیں۔ لیکن جلدی افطار کرنے میں یہ احتیاط ضروری ہے کہ یقیناً وقت ہو چکا ہے۔ دونوں باتوں کا لحاظ رکھنا ہے۔ نہ افراط ہو اور نہ تفریط ہو۔ حدیث پاک میں آتا ہے کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا ”لا تزال امتی بخیر ما عجل الفطر“میری امت اس وقت تک خیر پر رہے گی جب تک افطار میں جلدی کرے گی۔ تو یہ سنت ہے کہ وقت ہو جائے یقینا تو اس کے بعد تاخیر نہ کرے۔
٭ مستدرک حاکم اور موارد الظمآن حدیث کی کتابیں ہیں، ان میں روایت ہے کہ آنحضرتؐ نے فرمایا میرے پاس دو آدمی خواب میں آئے، میرے بازو کو پکڑا اورکہنے لگے ہمارے ساتھ چلیں، آگے گئے تو جبل وعر ایک پہاڑ تھا بڑا دشوار گزار، مجھے کہنے لگے پہاڑ پر چڑھنا ہے، میں نے کہا ”لا استطیع“ میں اس پہاڑ پر نہیں چڑھ سکتا۔ کہنے لگے ہم تعاون کریں گے، تم اللہ تعالیٰ کا نام لے کر چلو، فرمایا جب میں نصف پہاڑ تک پہنچا تو میں نے بڑی دردناک آوازیں سنیں کہ چیخیں مار رہے ہیں، میں نے پوچھا کہ کون لوگ ہیں؟ مجھے بتایا گیا کہ دوزخ میں جلنے والے واویلا کر رہے ہیں، آگے گئے تو میں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ٹخنوں میں رسیاں ڈال کر الٹے لٹکائے ہوئے ہیں، منہ نیچے اور پاؤں اوپر ”ویسیل دم فیہ“ اور ان کے مونہوں سے خون بہہ رہا ہے۔ میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں تو مجھے بتایا گیا کہ ”یفطرون قبل اوانہ“ یہ وہ لوگ ہیں جو روزہ وقت سے پہلے افطار کرتے تھے۔ غلطی سے نہیں، غلطی معاف ہے۔ قصداً وقت سے پہلے افطار کرتے تھے۔”العاقل تکفیہ الاشارۃ“ عقل مند کیلئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ عقل مند اشارے سے سمجھ جاتا ہے، تو روزہ افطار کرنا ہے وقت ہو جانے کے بعد۔
٭ بہت سارے پڑھے لکھے لوگ غلط فہمی کا شکار ہیں کہ توبہ کر لیں گے۔ توبہ کا مسئلہ اس طرح نہیں ہے جس طرح لوگوں نے سمجھ رکھا ہے۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ، حضرت امام شافعیؒ، حضرت امام احمد بن حنبلؒ وغیرہ سارے امام، محدثین، مفسرین اس مسئلے پر متفق ہیں اور حافظ ابن قیمؒ فرماتے ہیں کہ بالغ ہو جانے کے بعد اگر کسی کی نماز رہ گئی تو توبہ سے معاف نہیں ہو گی، روزہ رہ گیا بالغ ہو جانے کے بعد، جتنی نمازیں اور روزے رہ گئے ہیں قضا کرے گا اور ساتھ توبہ کرے گا تاخیر کرنے کی کہ اے پروردگار! میں وقت پر نہیں پڑھ سکا، مجھے معاف کر دے، محض توبہ سے کچھ نہیں ہوتا۔ ائمہ اربعہ وغیرہ متفق ہیں کہ محض توبہ سے نہ روزہ معاف ہو گا نہ نماز نہ زکوٰۃ نہ فطرانہ نہ قربانی۔ ان کی قضا دینی پڑے گی۔
٭ بعض حضرات پوچھتے ہیں کہ روزے میں شیشہ دیکھ سکتے ہیں؟ ہاں دیکھ سکتے ہیں، کوئی حرج نہیں ہے۔
٭ خوشبو سونگھ سکتے ہو، لیکن اگربتیاں رمضان المبارک میں مسجدوں میں نہیں لگا سکتے۔ فقہائے کرامؒ کا اس میں خاصا اختلاف ہے۔ علامہ شامیؒ ایک جم غفیر کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اگربتی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک ہے غیر اختیاری دھواں کہ آدمی جا رہا ہے، تندور کے پاس سے گزرا اور دھواں اندر چلا گیا، اس سے روزے پر زد نہیں پڑتی، لیکن اگر جان بوجھ کر دھواں اندر کھینچا تو روزہ ٹوٹ جائے گا، لہٰذا اگر بتی نہ گھر میں جلانا اور نہ مسجد میں جلانا۔ عطر وغیرہ کا کوئی حرج نہیں ہے۔
٭ سر اور جسم کی مالش سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
٭ مسواک سنت ہے، لیکن سک نہیں کرنا، سکْ ویسے بھی مردوں کیلئے مکروہ ہے، کیونکہ اس میں رنگت ہے اور فی الجملہ عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے اور مردوں کی عورتوں کے ساتھ مشابہت حرام ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے ان مردوں پر جو عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتے ہیں ”المترجلات من النساء“ اور ان عورتوں پر بھی لعنت ہے جو مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتی ہیں وضع قطع میں۔ مسواک پہلے پہر بھی کر سکتے ہیں، پچھلے پہر بھی کر سکتے ہیں، تازہ بھی کر سکتے ہیں اور خشک بھی کر سکتے ہیں۔
٭ سرمہ لگا سکتے ہیں اور آنکھ میں دوائی ڈال سکتے ہیں چاہے خشک ہو یا سیال۔ فتاویٰ عالمگیری میں تصریح ہے۔ لیکن کان میں دوائی نہیں ڈال سکتے۔ ناک میں نہیں ڈال سکتے۔ اسی لئے مسئلہ ہے کہ روزے کی حالت میں پانی ناک میں اوپر نہیں چڑھانا کہ دماغ کی طرف نہ چلا جائے۔
٭ ٹیکے کے متعلق مسئلہ سمجھ لیں۔ اگرٹیکہ رگ میں لگوائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ فتاویٰ امدادیہ، امداد الفتاویٰ، کفایت المفتی میں بزرگان نے تصریح فرمائی ہے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ، مفتی محمد شفیعؒ اور مفتی کفایت اللہؒ وغیرہ علماء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ رگ میں ٹیکہ لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر ٹیکہ بدن کے کسی دوسرے حصے میں لگوایا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
جتنی نمازیں اور روزے رہ گئے ہیں قضا کرے گا اور ساتھ توبہ کرے گا تاخیر کرنے کی کہ اے پروردگار! میں وقت پر نہیں پڑھ سکا، مجھے معاف کر دے، محض توبہ سے کچھ نہیں ہوتا۔ ائمہ اربعہ وغیرہ متفق ہیں کہ محض توبہ سے نہ روزہ معاف ہو گا نہ نماز نہ زکوٰۃ نہ فطرانہ نہ قربانی۔ ان کی قضا دینی پڑے گی۔
٭ بعض حضرات پوچھتے ہیں کہ روزے میں شیشہ دیکھ سکتے ہیں؟ ہاں دیکھ سکتے ہیں، کوئی حرج نہیں ہے۔
٭ خوشبو سونگھ سکتے ہو، لیکن اگربتیاں رمضان المبارک میں مسجدوں میں نہیں لگا سکتے۔ فقہائے کرامؒ کا اس میں خاصا اختلاف ہے۔ علامہ شامیؒ ایک جم غفیر کا یہ قول نقل کرتے ہیں کہ اگربتی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ ایک ہے غیر اختیاری دھواں کہ آدمی جا رہا ہے، تندور کے پاس سے گزرا اور دھواں اندر چلا گیا، اس سے روزے پر زد نہیں پڑتی، لیکن اگر جان بوجھ کر دھواں اندر کھینچا تو روزہ ٹوٹ جائے گا، لہٰذا اگر بتی نہ گھر میں جلانا اور نہ مسجد میں جلانا۔ عطر وغیرہ کا کوئی حرج نہیں ہے۔
٭ سر اور جسم کی مالش سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔
٭ مسواک سنت ہے، لیکن سک نہیں کرنا، سکْ ویسے بھی مردوں کیلئے مکروہ ہے، کیونکہ اس میں رنگت ہے اور فی الجملہ عورتوں کے ساتھ مشابہت ہے اور مردوں کی عورتوں کے ساتھ مشابہت حرام ہے۔ حدیث پاک میں آتا ہے اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے ان مردوں پر جو عورتوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتے ہیں ”المترجلات من النساء“ اور ان عورتوں پر بھی لعنت ہے جو مردوں کے ساتھ مشابہت اختیار کرتی ہیں وضع قطع میں۔ مسواک پہلے پہر بھی کر سکتے ہیں، پچھلے پہر بھی کر سکتے ہیں، تازہ بھی کر سکتے ہیں اور خشک بھی کر سکتے ہیں۔
٭ سرمہ لگا سکتے ہیں اور آنکھ میں دوائی ڈال سکتے ہیں چاہے خشک ہو یا سیال۔ فتاویٰ عالمگیری میں تصریح ہے۔ لیکن کان میں دوائی نہیں ڈال سکتے۔ ناک میں نہیں ڈال سکتے۔ اسی لئے مسئلہ ہے کہ روزے کی حالت میں پانی ناک میں اوپر نہیں چڑھانا کہ دماغ کی طرف نہ چلا جائے۔
٭ ٹیکے کے متعلق مسئلہ سمجھ لیں۔ اگرٹیکہ رگ میں لگوائے تو روزہ ٹوٹ جائے گا۔ فتاویٰ امدادیہ، امداد الفتاویٰ، کفایت المفتی میں بزرگان نے تصریح فرمائی ہے۔ مولانا اشرف علی تھانویؒ، مفتی محمد شفیعؒ اور مفتی کفایت اللہؒ وغیرہ علماء کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ رگ میں ٹیکہ لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر ٹیکہ بدن کے کسی دوسرے حصے میں لگوایا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
٭ دین کو جس طرح فقہاء سمجھتے ہیں ہم نہیں سمجھ سکتے۔ اللہ تعالیٰ تمام مومنوں کو روزہ رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آمین
(ماخوذ از ”پندرہ خطبات حضرت شیخ الحدیث کے“ جلد اول)