نیکی کر دریا میں ڈال

 

1 - *میرے دشمن/ حاسدین بہت ہیں

2 - *آج تک جس کے ساتھ بھی نیکی/بھلائی کی، بدلے میں اس نے دل ہی دکھایا


یہ وہ سوال ہیں جو ہم میں سے اکثر کو درپیش ہیں اور ہم سب ہی ان کا حل چاہتے ہیں. 


حضرت مفتی سید مختار الدین شاہ صاحب دامت برکاتھم العالیہ نے ان دو باتوں کے انتہائی قیمتی جواب ارشاد فرمائے


سب سے پہلے تو کہا "نیکی کر دریا میں ڈال"

ہم نکمے بے اختیار بول اٹھے کہ حضرت ہم تو دریا میں ہی ڈالتے ہیں، کبھی احسان نہیں جتلاتے... لیکن وقت آنے پر جب ہمیں اگلے سے مدد/خیرخواہی چاہیئے ہو تب مایوسی ہی ہوتی ہے 

حضرت نے انتہائی مشفقانہ انداز میں سمجھایا کہ دیکھو....

تمہارے پاس ایک مصیبت زدہ آیا اور دس ہزار قرض مانگا، تم نے دے دیا اور وہ خوشی خوشی چلا گیا، اور کچھ عرصے بعد اس نے اپنا قرض لوٹا دیا، دونوں کا معاملہ ختم ہو گیا

کافی وقت بیتنے کے بعد ایسے حالات ہوئے کہ تمہیں کچھ رقم درکار تھی، تم اسی شخص کے پاس گئے. اپنے حالات بیان کئے اور قرض مانگا. اس نے استطاعت ہونے کے باوجود مدد نہی کی.... اب تمہارے دل میں آیا کہ جب اس پر وقت آیا تھا تب میں نے تو اس کی مدد کی تھی. آج جب مجھے مدد کی ضرورت ہے یہ آنکھیں پھیر رہا ؟ بڑا ہی احسان فراموش ہے وغیرہ وغیرہ 

فرمایا سمجھو تم نے وہ جو عرصہ پہلے نیکی کی تھی برباد کر دی... 

تمہیں اس نیکی کا خیال آیا ہی کیوں؟ اس کا مطلب یہ کہ تم اس نیکی کا "بدلہ" چاہ رہے ہو !!!!

اور ہر وہ چیز جس کا بدلہ چاہا جائے وہ دنیا کی کوئی بھی چیز تو ہو سکتی ہے مگر "نیکی" ہر گز نہیں ہو سکتی !!!

نیکی تو یہ ہے کہ کرنے کے بعد بالکل بھول جاو. بس دل میں یہ خیال ہو کہ وہ اللہ نے مجھ سے اچھا کام کروا دیا تھا تو میں نے کر دیا.

پھر انتہائی قیمتی جملہ فرمایا کہ اصل کمال تو یہ ہے کہ جس نے نیکی کی وہ اپنی نیکی بالکل بھول جائے، بس صرف اللہ سے اس کی جزاء کی امید رکھے. اور جس کے ساتھ نیکی کی گئی اس کا کمال یہ کہ اپنے محسن کو یاد رکھے. اس کی قدردانی کرے. جو شخص دوسروں کی قدر نہیں کرتا اللہ رب العزت کے نزدیک اس شخص کی کوئی قدر نہیں رہتی !!!

=============

پھر فرمایا جہاں تک حسد کی بات ہے

تو یہ تو تمہاری کامیابی کی نشانی ہے... تمہارے پاس کچھ ہے جو دوسرے کے پاس نہیں، تب ہی تو وہ حسد کی آگ میں جل رہا. لہذا اول تو اس نعمت پر رب کا شکر ادا کرو جو تمہارے پاس ہے. شکر سے وہ نعمت بڑھتی چلی جائے گی

دوم یہ کہ (مسکراتے ہوئے پوچھا) بتاو... حسد کی آگ میں وہ جلتا ہے یا تم ؟ 

وہ جلتا ہے نا ؟ تو جلتے رہنے دو... تم تو اللہ کی نعمت میں ہو 

تو اسے جلتا رہنے دو اور خود نعمت کی شکر گزاری کرتے رہو... 

وہ خود ہی "موتو بغیضکم" کا مصداق بنتا جائے گا

==============

آخر میں دشمنی/جادو/ہر قسم کے شرور و آفات سے بچنے کے لئے انتہائی مجرب اور قیمتی عمل بتلایا.

فرمایا کہ اول تو صبح و شام کی مسنون تسبیحات، چاروں قل وغیرہ کا پابندی سے اہتمام کریں 

دوم یہ کہ 3 مرتبہ اول آخر درود شریف پڑھ کر آیت الکرسی پڑھو. اور جب "ولایؤدہ حفظھما (اور اللہ تعالی نہیں تھکتا زمین و آسمان کو چلانے سے) پر پہنچو تو یہ تصور کرو کہ خود کو اللہ رب العزت کی آغوش میں دے دیا ہے 

 بھلا جس اللہ کے لئے زمین و آسمان کا سنبھالنا کوئی مشکل نہیں، اس کے لئے تمہارے مسائل کو حل کرنا، تمہیں شرور و آفات سے بچانا مشکل ہو گا ؟ 

جو اللہ کی آغوش میں آگیا اسے کون نقصان  پہنچا سکتا ہے ؟ 

بس تم اس کی آغوش میں آکر تو دیکھو 

※※※※※※

Share: