امیرشریعت - دنیائے خطابت کے مہرمنیر- شهنشاہ خطابت -حق گو عالم باعمل - تحفظ ختم نبوت کے عظیم مجاہد - امت مسلمہ کے عظیم مجاہد اور راہ ِطریقت کے عظیم رہنما حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمة الله عليه


امیرشریعت حضرت مولانا سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمة الله عليه  صوبہ بہار ،بھارت  كے شهر  پٹنہ میں حافظ ضیاء الدین رحمة الله عليه  کے گھر پیدا ہوئے، آپ کے دادا کا نام سیّد نورالدین احمد تھا،آپ کا سلسلہ نسب چھتیسویں پشت میں شہید کربلا حضرت حسین رضي الله تعالى سے جا ملتا ہے۔ آپ کو اپنے نانا سے جذبہ حق گوئی وبے باکی اورجوشِ خطابت وراثت میں ملا تھا،جس کا اندازہ حضرت شاہ جی کی زبانی اس واقعے سے کیا جا سکتا ہے،اپنے ابتدائی ایام کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:

” ایک مرتبہ گھر والوں نے مجھے ایک روپیہ دے کر بازار سے آٹا لانے کو کہا،میں بازار گیا،راستے میں ایک جگہ انگریز کے خلاف جلسہ ہو رہا تھا اور انگریز کے خلاف خوب خوب بیانات ہو رہے تھے ،مجھے بھی خوشی ہوئی، اسٹیج سیکرٹری سے وقت مانگا تواس نے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ تم بچے ہو۔جب میں نے مسلسل اصرار کیا تو اس نے میری معصومانہ ضد وپیہم اصرار کودیکھتے ہوئے صرف پانچ منٹ تقریر کرنے کی اجازت دی، چناںچہ میں نے انگریز کے خلاف خوب زوردار جذباتی تقریرکی۔ پانچ منٹ ختم ہونے پرجب میں اسٹیج سے اُترنے لگا تو لوگوں نے اصرارکیا کہ اس بچے کو مزید موقع دیا جائے، چناںچہ پوں گھنٹہ میری تقریر جاری رہی ،اس تقریر کا انگریز سرکار پر یہ اثر ہوا کہ اسٹیج سے اترتے ہی مجھے گرفتار کیا گیا۔ مجسٹریٹ بھی پولیس کے ساتھ  تھا،اس نے ایک ماہ کی سزا لکھ  دی اور یہ میری پہلی سزا تھی۔“


آپ نے ابتدائی اور حفظ ِقرآن مجید کی تعلیم اپنے نانا سے حاصل کی اور قرأت کی تعلیم عرب کے مشہور قاری سیّدعاصم عمر سے حاصل کی ،جب آپ پٹنہ سے پنجاب منتقل ہوئے تو راجووال میں قاضی عطاء محمد کے مدرسے میں کچھ عرصہ تک زیرتعلیم  رہے اور پھر 1914ء کو امرتسر تشریف لے گئے اوروہاں ممتازعالم دین ومفسرقرآن حضرت مولانا  نوراحمد امرتسری سے قرآن مجید کی تفسیر پڑھی اورفقہ واصول فقہ کی تعلیم دارالعلوم دیوبند کے چشم وچراغ حضرت مولانا غلام مصطفی قاسمی سے حاصل کی، جب کہ حدیث کی تعلیم برصغیر کے مشہورعالم دین اورملک کی عظیم دینی درس گاہ جامعہ اشرفیہ لاہور کے بانی حضرت مولانا مفتی محمد حسن امرتسری سے حاصل کی۔

دنیائے خطابت کے مہرمنیر،شہنشاہ خطابت ،امیرشریعت حضرت مولانا سیدعطاء اللہ شاہ بخاری کا شمار ان علمائے حق اور اولوالعزم انسانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے ساری زندگی تحفظ ختم نبوت ،اسلام کی نشرواشاعت، دعوت وتبلیغ،رد قادیانیت ،تردید باطل، احقاق حق اورانگریز و استعماری طاقتوں کے خلاف جدوجہد میں گزاری ،آپ برصغیر کے عظیم خطیب ،شعلہ بیان مقرر،تحریک تحفظ ختم نبوت کے عظیم مجاہد اور راہ نما تھے۔آپ کی شخصیت کے کئی عنوان اور بے شمارگوشے ہیں،جن  میں سے چند اہم گوشے روشناس کرنے کی کوشش كيجائيگي ۔


سیدعطاء اللہ شاہ بخاری ایک بہترین خطیب تھے ،آپ نے خطابت کے وہ جوہر دکھائے کہ آج تک کوئی اس کی نظیر پیش نہیں کرسکا، شاہ جی ایک عوامی خطیب تھے،ان کا طرزخطابت علمی وادبی چاشنی سے بھرپورہونے کے باوجود عوام میں اس قدرمقبول تھا کہ نمازِعشا کی ادائیگی کے بعد مجمع شاہ جی کی تقریر کے سحرمیں جوکھوجاتا تھا،تو اذان ِفجرتک مجمع یوں ہمہ تن گوش رہتا تھا کہ کسی چہرے پرتھکن کا احساس ہوتا تھااورنہ ہی کسی زبان پرکوئی شکوہ،بلکہ مجمع چاہتا تھا کہ شاہ جی یوں ہی بولتے ،بلکہ موتی رولتے رہیں اور وہ ان سے یوں ہی عشق رسالت صلی الله علیہ وآله وسلم حب ِصحابہ واہل ِبیت رضی اللہ عنہم کی دولت سے اپنا دامن بھرتا رہے۔غیرمنقسم ہندوستان اور پاکستان کا شاید ہی ایسا کوئی شہر یا قصبہ ہو،جہاں آپ نے اپنی سحرآفرین خطابت ،شیریں بیانی اورہنگامہ خیز انقلابی تقریروں سے لوگوں کے سوتے ہوئے جذبات اورغافل دلوں کونہ گرمایا ہو۔آپ نے ہندوستان وپاکستان کے کونے کونے میں اسلام کاعلم بلند کیا،انگریز سامراج کے خلاف آپ کی زبان سے الفاظ نہیں،بلکہ آگ کے شعلے نکلتے تھے ،جس نے انگریز سامراج کی نیندیں حرام کررکھی تھیں ،آپ کا لہجہ اورموقف انگریز سامراج کے خلاف بہت ہی سخت تھا اورآپ کا ہر ہر جملہ انگریز سامراج کے محلات کی درودیوار کو صاعقہ آسمانی بن کر لرزا دیتا تھا۔ آپ کا انداز خطابت نہایت نرالا اور دل نشین تھا،آپ کی زبان سے نکلنے والے الفاظ لوگوں کے دلوں پراس قدر اثر انداز ہوتے تھے کہ لاکھوں کا مجمع آپ کی ایک آواز پر دینِ اسلام اور تحفظ ِختم نبوت کے لیے جان کی بازی لگانے تک کے لیے تیارہو جاتا تھا۔ جس کی ایک واضح مثال غازی علم دین نامی گاڑی بان کا راج پال جیسے بااثر گستاخ رسول( صلی اللہ علیہ وآله وسلم )کو واصل ِجہنم کرنا بھی ہے۔ان کی خطابت بلا مبالغہ ”از دل خیزد بر دل ریزد“ کا مصداق اتم تھی اوریہ شعر ان کی خطابت پرمکمل صادق آتاتھا #

دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا

میں نے یہ سمجھا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا


شاہ جی کی شخصیت کا ایک حوالہ ان کی روحانی عظیم نسبت بھی تھی،وہ ایک سچے عاشق ِرسول صلی الله علیہ وآله  وسلم اورایک عالمِ ربانی تو تھے ہی،ساتھ ہی وہ ایک عارفِ ربانی بھی تھے،آپ حصول ِعلوم ِظاہری سے فارغ ہونے کے بعد تزکیہ باطن کی طرف متوجہ ہوئے،چناںچہ سب سے پہلے ولی کامل، حضرت مولانا پیرسیّد مہرعلی شاہ گولڑوی سے اصلاحی تعلق قائم کیا اورآپ کی خدمت اقدس میں تصوف وسلوک کی منازل طے کیں ۔ حضرت مولانا پیرسیّد مہرعلی شاہ گولڑوی انتہائی نیک ،عابد اور متقی و پرہیزگارانسان تھے،آپ جب حضرت مولانا پیرسیّد مہرعلی شاہ گولڑوی کے مرض الوفات میں حاضرخدمت ہوئے اورعرض کی :

” حضرت! کوئی نصیحت فرمائیے۔“

اس وقت پیر کامل حضرت مولانا سیّد مہرعلی شاہ گولڑوی عالم جذب میں تھے ،صرف اتنا فرمایا:

”اتباع شریعت رکھیے“ ۔پیرومرشد کی اس نصیحت پراس قدرعمل کیا کہ خود آپ کو”امیرشریعت “کا لقب دیا گیا اورآج تک دنیا آپ کو”امیرشریعت“ کے نام سے جانتی اور یاد کرتی ہے ۔حضرت مولانا پیر سیّد مہر علی شاہ گولڑوی کی وفات کے بعد آپ نے حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری سے تجدیدِ بیعت کی اورخلافت سے سرفرازہوئے، پیرکامل حضرت مولانا شاہ عبدالقادر رائے پوری آپ سے بہت ہی زیادہ محبت کرتے تھے۔

آپ تقسیم ہند کے حق میں نہیں تھے ،جس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی تھی کہ ان کا کہنا تھا جس انگریز کو ثالث مقررکیا جا رہا ہے ،وہ قابل ِاعتماد نہیں، اس لیے وہ ایسی ڈنڈی مارے گا کہ دونوں ملک مسلسل لڑتے بھی رہیں اوراندرونی وبیرونی عدم ِاستحکام کا شکار ہو کرنتیجتاً اسی انگریز سامراج کے دست نگر ہوجائیں۔ان کی اس رائے سے اختلاف بھی کیا گیا اور نتیجہ بھی اس کے خلاف نکلاا ور دو ملک بن گئے ،لیکن اب جوں جوں ماہ وسال گزرتے جا رہے ہیں مبصرین ان کی سیاسی بصیرت کا اعتراف کرتے ہوئے تسلیم کرتے ہیں کہ واقعی !شاہ جی سیاسی بصیرت میں اعلیٰ درجے پر فائز تھے،چناںچہ اس وقت آپ نے جن جن خدشات کا اظہار کیا تھا،قیام پاکستان کے بعد وہ تمام خدشات ایک ایک کرکے درست ثابت ہوئے۔اس مردِ قلندرنے اس وقت فرمایا تھا: انگریزتمہارے درمیان فساد برپا کرکے جائے گا۔آج ہم اگر اپنے اردگرد نظر ڈال کردیکھیں توہم باوجود ایک آزاد وخود مختاراورایٹمی طاقت کا حامل ملک ہونے کے گورے انگریز کے محتاج ہیں،اس کی ڈکٹیشن، قرض اور ایڈ ہماری ضرورت بن چکی ہے اور ہمارا بال بال قرضوں میں جکڑا ہوا ہے،جس کی ایک نقد قیمت ہم یہ بھی چکا رہے ہیں کہ ہمارے فیصلے اب بھی ان کے اشارہ آبرو پر ہوتے ہیں ،دوسری طرف شاطر ثالث نے تقسیم ہند کے وقت جو مسئلہ اورمعاملہ مسئلہ کشمیر کی صورت میں لاینحل چھوڑا ہے وہ آج تک حل نہیں ہوسکا،یہ ایک خونی لکیرہے جس کوعبورکرنے کی خاطرلاکھوں جانوں،عصمتوں کی قربانیاں دی جا چکی ہیں اور جانے اس شب ِتاریک کی سحرہم سے اور کتنی قربانیاں مانگتی ہے۔


آپ کی شخصیت کا ایک اورعنوان تبلیغی مساعی کا بھی ہے،آپ کی مساعی جمیلہ سے ہزاروں ہندو،بدھ مت کے پیروکار اورعیسائی حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔اس حوالے سے ہم آپ کی زندگی کے صرف ایک واقعے کے ذکر پراکتفا کرتے ہیں،جس سے آپ کواندازہ ہوگا کہ وہ حسنِ اخلاق اورعجزوانکساری کے کس اعلیٰ مقام پرفائزتھے:

یہ 1939ء کاواقعہ ہے ، آپ مجلس ”احراراسلام “لاہورکے دفترمیں تشریف لائے، جب آپ نیچے سے اوپرجانے لگے تواس وقت بھنگی گندگی لے کراوپردفترسے نیچے کی طرف آرہا تھا۔سیڑھیوں کے درمیان شاہ جی سے سامنا ہوا،سیڑھیاں تنگ تھیں اس لیے بھنگی سمٹ کردیوارکے ساتھ لگ گیا تاکہ آپ آسانی سے گزرسکیں۔جب اللہ کے ولی کی نظراس بھنگی پر پڑی تواس سے کہا: یہ ٹوکری نیچے رکھ لواوراوپر آجاؤ اورمیری ایک بات سن جاؤ۔

بھنگی ٹوکری نیچے رکھ کراُوپر چلا آیا اورآپ سے کہا کہ میرے لیے کیا حکم ہے؟

آپ نے کہا: یہ صابن لواورمنہ ہاتھ دھوکرمیرے پاس آجاؤ، چناںچہ اس نے ایسا ہی کیا، آپ نے اسے اپنے پاس بیٹھایا، کھانا منگوایا اورایک لقمہ توڑ کر سالن میں ڈبویا اوراس کے منہ میں ڈال دیا۔ پھراس سے کہا:میاں ایک لقمہ توڑ کر سالن لگاؤ اور میرے منہ میں ڈالو۔ بھنگی بڑی حیرانی سے آپ کی طرف دیکھنے لگا،آپ نے اس سے کہا: بھائی! انسان ہونے کے ناتے آپ میں اورمجھ میں کوئی فرق نہیں ، گندگی اُٹھانا تمھارا کام ہے،سو تم اس مکان کی گندگی صاف کررہے ہو،جب کہ میں پوری قوم کی گندگی صاف کررہا ہوں۔ یہ پیاربھرے جملے سنے تواس کی ہمت بڑھی اوراس نے لقمہ اُٹھایا اورآپ کے منہ میں ڈال دیا اورآپ سے کہا: شاہ جی !یہیں بیٹھے رہیں،میں تھوڑی دیربعد  حاضر ہوتا ہوں۔

اس کے بعد وہ اپنے گھرگیا اوربیوی بچوں کوساتھ لے کرشاہ جی کی خدمت ِاقدس میں آیا اور کہنے لگا: شاہ جی! اگر یہی اسلام ہے تو پھر ہم سب کومسلمان کردو،چناںچہ آپ نے ان کوکلمہ پڑھایا اورمسلمان کیا،جب وہ مرا تواس کا جنازہ بھی دفترسے اُٹھایا گیا۔  یہ تھے ہمارے اکابر جنھوں نے اپنے قول وفعل کے ذریعے نہ صرف مسلمانوں کی راہ نمائی کی، بلکہ ان کے اعلیٰ اخلاق کو دیکھ کرغیرمسلم خود بخود دائرہ اسلام میں داخل ہوجاتے تھے۔

کیا تھے آباء وہ تمھارے اور تم کیا ہو


افسوس ! اس جدید اور روشن خیال دور میں، جب کہ اکابر کا سایہ ہم سے اُٹھ چکا ہے،ایسے واقعات تو درکنار بلکہ ہمارے اقوال اوراخلاق وکردار کو دیکھ کر ہمارے اپنے مسلمان ہی ہم سے نہ صرف بدظن ہو رہے ہیں، بلکہ وہ ہم سے روز بروز دور ہوتے جا رہے ہیں۔ بقول شاعرہمارا تو یہ عالم ہے

وضع میں تم ہونصاریٰ تو تمدن میں ہنود

یہ مسلماں ہیں جنھیں دیکھ کرشرمائیں یہود

ہمیں چاہیے کہ ہم جن اکابر  کو اپنا امام پیشوا اورمقتدا تسلیم کرتے ہیں، ان کے نقش قدم پر چل کرنہ صرف مسلمانوں کی راہ نمائی کا حق ادا کریں، بلکہ اپنے اخلاق وکردارکے ذریعے غیرمسلموں کو بھی متاثر کریں، تاکہ وہ بھی آغوش اسلام میں داخل ہوجائیں ،اخلاق حقیقتاً بڑا ہتھیار ہے، جس سے دلوں کوفتح کیا جاسکتا ہے۔


آپ کی زندگی کا ایک اور درخشاں عنوان ردقادیانیت ومرزائیت اورتحفظ ختم نبوت ہے،اس سلسلے میں حضرت شاہ جی کی خدمات محتاج بیان نہیں، اب تک دشمن شاہ جی کی للکاراوران کی فکری یلغارسے لرزاں وترساں ہے،ان کی خدمات کواس ایک جملے میں سمويا جا سكتا هے :

"شاہ جی نے بلاشبہ قایانیت ومرزائیت کا ناطقہ بند کردیا تھا۔"

آپ نے ساری زندگی دین اسلام کی خدمت میں گزاری اور بالآخر آپ 21 اگست 1961ء بمطابق 9 ربیع الاول 1318ھ کواس دارفانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگئے اوریوں أمت مسلمه  دنیائے خطابت کے اس مہرمنیر،امت مسلمہ کے عظیم مجاہد اور راہ ِطریقت کے عظیم راہ نما سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے محروم ہوگئى ۔

الله تعالى أنكي قبر پر كروڑوں رحمتيں نازل فرمائے -  آمين ثم آمين

=====

Share: