عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


انڈیا کی اسٹیٹ کتیانہ جونا گڑھ میں ایک سنگ تراش رہتا تھا جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحابہ وسلم کا دیوانہ تھا درود شریف سے اسے محبت تھی کام کے دوران بھی وہ درود شریف پڑھتا رہتا تھا درود شریف کی مشہور کتاب دلائل الخیرات اسے زبانی یاد تھی اس کا ایک معمول تھا جب بھی کوئی پتھر تراشتا تو اس کا ایک باب پڑھتا ایک دفعہ حج کے موسم میں قافلے مکہ مکرمہ کی طرف رواں دواں تھے تو اس کی قسمت کا ستاره چمک اٹھا ایک رات جب سویا تو دل کی آنکھیں کھل گئیں کیا دیکھتا ہے کہ مدینہ منورہ میں حاضر ہے اور حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحابہ وسلم بھی جلوه فرما ہیں سبز گنبد کے انوار سے فضا منور ہو رہی ہے اور مسجد نبویؐ کے مینار بھی نور برسا رہے ہیں مگر ایک مینار کا کنگره شکستہ تھا اتنے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہِ واصحابہ وسلم کے لب مبارک کو جنبش ہوئی اور الفاظ یوں ترتیب پائے دیوانے وه دیکھو ہماری مسجد کے مینار کا ایک کنگره ٹوٹ گیا ہے تم ہمارے مدینہ منورہ میں آؤ اور اس کنگرے کو ازسر نو بنا دو جب اس سنگ تراش کی آنکھ کھلی تو کانوں میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کے ادا کئیے ہوئے کلمات گونج رہے تھے مدینے کا بلاوا آ چکا تھا مگر سنگ تراش کی آنکھوں میں یہ سوچ کر آنسو آئے میں تو بہت غریب ہوں میرے پاس مدینہ منورہ جانے کے وسائل کہاں ہیں لیکن عشق نے ہمت دی آرزو نے دلاسہ دیا کہ تمہیں تو خود حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحابہ وسلم نے بلایا ہے تم وسائل کی فکر کیوں کرتے ہو چنانچہ دیوانے نے رخت سفر باندھا اوزار کا تھیلا کندھے پر چڑھایا اور پور بندر کی بندرگاه کی طرف چل پڑا ادھر پوربندر کی بندرگاه پر سفینہ مدینہ تیار کھڑا تھا مسافر پورے ہو چکے تھے مگر عجیب تماشا تھا کہ کپتان کی کوشش کے باوجود سفینہ چلنے کا نام نہ لیتا تھا اتنے میں جہاز میں سے کسی کی نظر دور سے جھومتے ہوئے آتے دیوانے پر پڑی لوگ سمجھے کہ شاید ایک مسافر ره گیا تھا جہاز گہرے پانی میں کھڑا تھا دیوانے کو لینے کے لیے ایک کشتی آئی دیوانہ اس کشتی کے ذریعے جہاز میں سوار ھو گیا اس کے سوار ہوتے ہی جہاز جھومتا ہوا مدینے چل پڑا نہ اس سے کسی نے ٹکٹ مانگا نہ اس کے پاس تھا بالآخر دیوانه مدینہ منورہ پہنچ گیا اب دیوانہ جھومتا ہوا روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم کی طرف چلا جارھا تھا کچھ خدام حرم کی نظر دیوانے پر پڑی تو پکار اٹھے ارے یہ تو وہی ہے جس کا حلیہ ہمیں دکھایا گیا ہے  دیوانے نے اشکبار آنکھوں سے سنہری جالیوں پر حاضری دی پھر باھر آکر خواب میں جو جگہ دکھائی گئی تھی اس کو دیکھا تو واقعی ایک کنگره شکستہ تھا اپنی کمر میں رسی بندھوا کر خدام کی مدد سے دیوانہ گھٹنوں کے بل اوپر چڑھا اگر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ واصحابہ وسلم کا حکم نہ ہو تو عاشق گنبد و مینار پر جانے کی جرأت تو کجا ایسا کرنے کے لیے سوچ بھی نہیں سکتا اور حسب الارشاد کنگره ازسرنو بنایا واه رے دیوانے دیوانے کی خوش بختی جب دیوانے کی بے تاب روح نے سبز گنبد کا قرب پایا تو بے قراری اور اضطراب بے حد بڑھ گیا دیوانہ کام مکمل کر چکا تھا اور اب اسے نیچے آنا تھا لیکن اس کی روح مضطر نے لوٹنے سے انکار کر دیا جب دیوانے کا وجود نیچے آیا تو دیکھنے والوں کے کلیجے پھٹ گئے کیوں کہ دیوانے کی روح تو کبھی کی سبز گنبد کی رعنائیوں پر نثار ہو چکی تھی دیوانہ دم توڑ چکا تھا


جب تیری یاد میں دنیا سے گیا ہے کوئی

جان لینے کو دلہن بن کے قضا آئی ہے

Share: