مولانا فضل الرحمن


مولانا فضل الرحمن کے معاملے میں حکومت شدید غلط فہمی کا شکار ہے ۔وہ کوئی ایسا آسان " شکار " نہیں کہ جو آسانی سے مات ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔


یاد دلاتا چلوں کہ جن دنوں عمران خان صاحب محض کرکٹ اور رنگینی طبع میں مصروف ہوا کرتے تھے ان دنوں بھی مولانا ، آمر ضیاء الحق کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑے تھے ۔ پھر  پچھلی ایک دہائی میں آپ نے جس طرح دیوبندیت کو ٹی ٹی پی کے نرغے سے اور ایک شدید ترین بحران سے نکالا اس کی مثال قوموں کی تاریخ میں کم ہوتی ہے ۔باسی طرح پاکستان کے مقتدر ادارے بھی انکے دہشت گردی کے خلاف اس کردار کو خوب سراہتے ہیں کہ مولانا نے پاکستان کی بھی اس وقت خوب مدد کی اور دیوبندی نوجوانوں کو آگ اور خون کے اس آلاو میں کودنے سے بچا کر انہے جمہوریت اور ووٹ کے ذریعہ تبدیلی کا راستہ دکھایا بلا شک و شبہ مولانا پاکستان میں دیوبندیت کے سب سے بڑے محسن ہیں اور دیگر مسالک کے مدارس کیلئے بھی بالعموم انکا رویہ ایک سرپرست اور دفاعی لیڈر کا ضرور ہے


اس لئے اسمبلی میں چوکوں میں چوراہوں میں حتی کے غیر ملکی دوروں میں وزیر اعظم کا ڈیزل ڈیزل کے آوازے لگانا محض پستی فکر کا اظہار تو ہو سکتا ہے ، مولانا کی یلغار کے مقابلے میں کوئی جرات مندانہ قدم یا حوصلے کی پکار نہیں ۔۔۔ایک اور بات خان صاحب مدنظر رکھتے تو سیاسی اختلاف کے باوجود کم از کم احترام کا دامن ہاتھ سے نا چھوڑتے کہ مولانا ایک مسلک کے نمائندہ راہنماء بھی ہیں اور ملک کے بڑے دینی راہنماء بھی ضروری تھا کہ عمران خان مقابلے میں اسی سطح کی سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرتے نہ کہ سفلے پن کا ۔


 مولانا کسی طور پر بھی کوئی غیر جمہوری اور غیر سیاسی سرگرمی نہیں کر رہے خان صاحب کا اپنا دھرنا پوری قوم کو ابھی یاد ہے اس لیے ان سے نمٹنا سیاسی بصیرت کا تقاضا کرتا ہے اورحیرت کی بات نہیں کہ مولانا پہلے ساری اپوزیشن کے پیچھے پھرتے رہے کہ استعفی دو احتجاج کرو لیکن جب انہے اندازہ ہوا کہ اپوزیشن کمزوری کا مظاہرہ کر رہی چاہے نیب کی وجہ سے چاہے اداروں کی گڈ بکس میں آنے کے تو مولانا نے بالآخر ملک بھر میں ملین مارچز کئے جن میں سے ہر مارچ پہلے سے بڑھ کر کامیاب ہوتا گیا تو مولانا نے اکیلے ہی قدم بڑھا دیا ۔ ۔ نون  لیگ و پیپلز پارٹی منافقانہ طور پر پیچھے رہ جانے کے باوجود آج ان کے ساتھ آنے پر مجبور دکھائی دے رہی ہیں ۔۔۔


مجھے یاد ہے کئی برس پہلے میں نے لکھا تھا کہ مولانا دیوبندیت کی تاریخ کے سب سے بڑے لیڈر ہیں ، تو بہت سے اہل حدیث اور دیوبندی دوستوں نے کچھ استعجاب اور کچھ استہزا کے ساتھ اختلاف کیا تھا ۔۔۔لیکن وقت میری بات ثابت کر رہا ہے اور آنے والے دنوں میں مولانا دیوبندیت سے نکل کے وسیع تر کینوس میں جانے کو ہیں ۔۔


علامہ ابتسام الہی ظہیر

Share: