نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، جگر گوشۂ بتول حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ


 سنہ چار ھجری شعبان المعظم کی پانچویں تاریخ کو خانوادہِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  میں جگرِ گوشہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  حضرت فاطمہ الزھراء  رضی اللہ تعالی عنہا کی گود میں ایک  ایسے لَعل نے جنم لیاجو صبر واستقلال ، عزیمت وشجاعت ،ہمت وجوانمردی ، بصیر ت وفراست کااستعارہ بن گیا۔ جیسے دنیا نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے مبارک نام سے یاد کرتی ہے۔ولادت باسعادت کے بعدجب آپ کو اپنے نانارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں پیش کیا گیا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مسرور ہوئے۔ بے پنا ہ محبت کااظہار فرمایا،دہن مبارک سے کجھور چباکر تحنیک فرمائی اور برکت کے لیے اپنے لعابِ دہن کو نواسے کے منہ میں ڈالا۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے جسم مبارک میں نبی وعلی کا لہو پہلے سے گردش کر رہا تھا اب گٹھی بھی نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب مبارک کی مل گئی۔

نام مبارک ’’ حسین ‘‘بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاتجویزکردہ ہے ، آپ رضی اللہ عنہ کے کانوں میں توحید ورسالت ،فلاح وکامیابی،اطاعت وعبادت کا پہلا درس( یعنی اذان واقامت ) بھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ ساتویں دن سر کے بال بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اتر وائے ،بالوں کی تعداد کے برابر چاندی بھی آپ ہی نے خیرات کی ،عقیقہ بھی آپ نے ہی کیا اور آپ رضی اللہ عنہ کا ختنہ کیاگیا۔ اس موقعہ پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ دعا بھی منقول ھے 

*اے اللہ ! میں حسن وحسین سے محبت کرتاہو ں آپ بھی ان سے محبت فرمائیں اور اس شخص سے محبت فرمائیں جوان سے محبت کرتا ہے*(الحدیث)

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ::حضرت حسین رضی اللہ عنہ کا جسم مبارک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے بہت مشابہت رکھتا تھا بلکہ خود حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے:حضرت حسن رضی اللہ عنہ کاجسم مبارک اوپر والے نصف حصہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم مبارک سے ملتاجلتا تھا جبکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ نیچے والے نصف حصے کی ساخت پر داخت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم اقدس سے مشابہ تھی۔اس مشابہتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کااثر فقط جسم کے ظاہر ی اعضاء تک ہی محدود نہ تھابلکہ روحانی طور پر بھی اس کے گہرے اثرات تھے آپ کاچال چلن ، گفتار رفتار ، جلوت خلوت ، قول وعمل ،ایثاروہمدردی ، عادات واطوار ، خوش خلقی ،حسن سلوک ، مروت رواداری ،شجاعت وعزیمت ،دوراندیشی وفر است ،حکمت ودانائی ،علم وتقویٰ، زہدوورع ،خشیت وللٰہیت ، محبت ومعرفتِ خداوندی الغرض نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلیٰ وعمدہ اوصاف کا کامل مظہر تھے۔ان اوصاف کو دیکھتے ہوئے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ باذن الہٰی ایک فرشتہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دربارمیں عرض کرنے لگا :’’حسن وحسین جنت کے نوجوانوں کے سردار بنائے جائیں گے۔‘‘فرشتے کی یہ بات خدائے ذوالجلال کی محبت کی عکاس ہے اللہ کر یم اپنے ان دو اولیاء کو جنت کے نوجوانوں کے سرداربنائیں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کوبھی آپ سے بے پناہ محبت تھی جس کاآپ نے مختلف مقامات پر اظہاربھی فرمایا۔

1: صحیح مسلم میں ام المومنین زوجہ رسول سیدہ عائشہ صدیقہ بنت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک روز صبح تڑکے تڑکے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اونی منقش چادر اوڑھے ہوئے تشریف لائے۔ اتفاق سے حضرت حسن رضی اللہ عنہ بھی وہاں آ نکلے آپ نے ان کو اپنی چادر میں لے لیا پھر یکے بعد دیگرے حضرت حسین، حضرت فاطمہ اورحضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنھم بھی تشریف لائے۔ آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سب کو اپنی چادرمیں جمع فرمالیا اور قرآن کریم کی یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی۔

إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیراًO

بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہلبیتؑ کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

(سورہ الاحزاب)

یعنی اللہ تعالی کو یہ منظور ہے کہ اے نبی( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے گھر والو! تم کو معصیت ونافرمانی کی گندگی سے دور رکھے اور تم کو ظاہر اًوباطناًعقیدۃًوعملاًوخلقاً پاک صاف رکھے۔ حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانو ی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لفظ اہل بیت کے دو مفہوم ہیں ایک ازواج دوسرے عترت۔خصوصیت قرائن سے کسی مقام پر ایک مفہوم مراد ہوتا ہے کہیں دوسرا  اور  کہیں عام بھی ہو سکتا ہے۔

2: صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک عراقی نے ان سے پوچھاکہ کیا حالتِ احرام میں مکھی مارنا جائز ہے ؟تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا: عراقیوں نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو توشہید کر ڈالا اب مکھی مارنے کے احکام پو چھنے لگ گئے ہیں؟یاد رکھو! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حسن وحسین دنیا میں میرے مہکتے ہو ئے پھول ہیں۔حدیث مبارک میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے پھول قلب ونظر کو سرور اور دماغ کو فرحت بخشتاہے۔ایسے ہی ان پھولو ں سے نبی کے قلب و نظر کو سرور اور دماغ کو فرحت وتازگی ملتی ہے۔

3: جامع التر مذی میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لاڈلی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا سے اکثر فرمایاکرتے تھے :حسین کو میرے پاس بھیجو تاکہ میں ان کواپنے سینے سے لگاؤ ں اور پیار کروں۔

4: جامع الترمذی میں حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ علیہ السلام نے فرمایا: اے اللہ ! میں حسن وحسین سے محبت کرتاہو ں آپ بھی ان سے محبت فرمائیں اور اس شخص سے محبت فرمائیں جوان سے محبت کرتاہے۔

5: جامع الترمذی میں حضرت یعلیٰ بن مرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:حسین میری اولاد ہے اور میراحسین سے خصوصی تعلق ہے، اللہ تعالیٰ اس شخص سے محبت فرماتے ہیں جوحسین سے دعویٰ محبت میں عملاً سچاہو

۔ واقعہ کربلاکو آج کئی سو سال گزر گئے ہیں مگر یہ ایک ایسا المناک سانحہ تھا کہ پورے ملت اسلامیہ کے دل سے آج بھی محو نہ ہو سکا۔  یہ واقعہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت سے وابستہ ہے۔ اسلامی تاریخ میں یہ  واقعہ  ملتِ اسلامیہ کی دینی، سیاسی اور اجتماعی تاریخ پر سب سے زیادہ اثر انداز ہواہے

“خلفائے راشدین کے عہد کے بعدجس واقعہ نے اسلام کی دینی، سیاسی اور اجتماعی تاریخ پرسب سے زیادہ اثر ڈالا ہے، وہ ان کی شہادت کا عظیم واقعہ ہے۔ بغیرکسی مبالغہ کے کہا جا سکتا ہے کہ دنیا کے کسی المناک حادثہ پرنسلِ انسانی نے اس قدرآنسونہ بہائے ہوں گے جس قدراس حادثہ پربہائے ہیں۔ تیرہ سوبرس کے اندر تیرہ سومحرم گزر چکے اور ہر محرم اس حادثہ کی یاد تازہ کرتا رہا۔ امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جسم خونچکاں سے دشت کربلا میں جس قدر خون بہا تھا، اس کے ایک ایک قطرےکے بدلے دنیا اشک ہائے الم کا ایک  سیلاب بہا چکی ہے۔”

لیکن کیا یہ واقعہ صرف آنسو بہانے کے لئے تھا یا اس میں پیغام تھا کہ دنیا کے ہر جابر اور ظالم کے سامنے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ جیسا کردار ادا کیا جائے۔ کیوں کہ انہی حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نانا حضرت محمد ﷺ نے فرمایا تھا کہ :” جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے” یقینی طور پر حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی لیے اپنا پورا خاندان کٹوا دیا تھا۔ خاموشی بھی اختیار کی جا سکتی تھی۔ کنارہ کش بھی ہوا جا سکتا تھا ، لیکن جن کی تربیت کائنات کے سب سے بڑے  راہبر نےکی ہو، وہ ایسا کیوں کرتے۔ 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اس حال میں باہر تشریف لائے کہ آپ  ایک کندھے پر حضرت حسن کو اور دوسرے کندھے پر حضرت حسین کو اُٹھائے ہوئے تھے یہاں تک کہ ہمارے قریب تشریف لے آئے اور فرمایا  :”یہ دونوں میرے بیٹے اور میرے نواسے ہیں “۔

حضرت ام الفضل بنت حارث رضی اللہ عنہا یعنی حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ فرماتی ہیں کہ میں نے ایک روز حضورﷺ کی خدمت مبارکہ میں حاضر ہو کر حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو آپ ﷺ کی گود میں دیا پھر میں کیا دیکھتی ہوں کہ حضور ﷺ کی مبارک آنکھوں سے لگاتار آنسو بہہ رہے ہیں ۔  میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں یہ کیا حال ہے ؟  فرمایا میرے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے اور انہوں نے یہ خبر پہنچائی کہ” میری امت میرے اس فرزند کو شہید کرے گی “حضرت اُم الفضل فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ ! کیا اس فرزند کو شہید کرے گی! حضور ﷺ نے فرمایا “ہاں “ابن سعد اور طبرانی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا آپ ﷺ نے فرمایا میرا بیٹا میرے بعد قتل کیا جائے گا” ۔ آپ کی فضیلت کے لئے یہ ہی کافی ہے  کہ امام الانبیا حضور ﷺ نے انہیں اسی دنیا میں نہ صرف جنَّتی ہونے  کی بشارت دی بلکہ نوجوان جنَّتیوں کا سردار قرار دیا۔

امام حسین رضی اللہ عنہ کی نسبت سے معرکہ حق و باطل جو کربلا میں رونما ہوا اس نے ساری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے بعد   یزید خلیفہ مقرر ہوا  اس کے خلیفہ بنتے ھی خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو گئی۔حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ افضل الجہاد کی نظیر پیش کرتے ہوئے کہ ظالم و جابر کے سامنے کلمہ حق کہنا سب سے بڑا جہاد ہے اسکی عملی تصویر بن کر میدان میں آگئے  کہ دین حق دین اسلام اس طریقہ کا داعی نہیں یہ اسلامی روح کے خلاف ہے اور یہ پیغام دیا کہ مومن حکومت و سلطنت ظلم و جبر اور طاقت و قوت کے آگے ہتھیار نہیں ڈال سکتا ہے اور یزیدگی امارت و بیعت کا انکار کرتے ہوئے اس کی اطاعت قبول نہ فرمائی اس کی بیعت کو ٹھکرا دیا۔

آپ پر یزیدی لشکر کے خطرناک عزائم کا انکشاف ہوا تو حُرمت کعبہ کی خاطر وہاں سے نکلنے کا ارادہ کیا، اسی درمیان کوفیوں کے ہزاروں عقیدت بھرے خطوط ملے مگر آپ ان پر کیسے بھروسہ کرتے چونکہ ان ہی لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی شہید کیاتھا۔ اس لئے تحقیق کی خاطر اپنے چچا زاد بھائی مسلم بن عقیل کو وہاں بھیجا انکے ہاتھ پر اٹھارہ ہزار یا ستائیس ہزار لوگوں نے  بیعت کی ۔اس کو دیکھ کر حضرت مسلم نے حضرت امام حسین کو آنے کے لئے خط لکھ دیا۔ تو آپ کوفہ کے لئے عازمِ سفر ہوئے تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابہ و حضرت عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ ودیگر صحابہ  نے آپ کو کوفہ جانے سے منع فرمایا لیکن  آپ نے دین حق کی خاطر جان کی قربانی کیلئے بھی ذرا سی لرزش نہ دکھائی، یزید کے گورنر عبید اللہ بن زیاد نے حضرت مسلم بن عقیل کیلئے زمین تنگ کر دی اور انہیں بے دردی سے شہید کر دیا۔ یہ خبر امام حسین رضی اللہ عنہ کو راستہ میں ملی یہ ایک اندوہناک خبر تھی آپ کو زبردست صدمہ پہنچا واپسی پر نظر ثانی  بھی کی جاسکتی تھی۔ مگر حضرت مسلم ان کے عزیز و اقارب  جو وہاں موجود تھے انہیں یہ گوارا نہیں تھا۔ اس لئے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی واپسی کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔

یہاں یہ بات قابل ِذکر ہے کہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے خود ہی اپنے قافلے کے لوگوں کو یہ اجازت  دے دی تھی کہ جسے واپس جانا ہے وہ چلا جائے۔ یہ سن کر صرف دو حضرات چھوڑ کر چلے گئے۔ ابھی تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ حُربن یزید نے ایک لشکر جرار کے ساتھ آپ  کو محصور کر لیا  تاکہ والی عراق عبداللہ بن زیاد کے سامنے پیش کیا جائے۔  اسی دوران نماز ظہر کا وقت ہو گیا ۔ آپ نے نماز ادا فرمائی بعد نماز حضرت اما م حسین رضی اللہ عنہ نے ایک خطبہ کے ذریعہ حُر اور اس کے ساتھیوں کے سامنے پوری بات رکھی۔ خطوط اور قاصدوں کا حوالہ دیا۔ حُر حیران ضرور ہوا مگر اس نے خطوط کے متعلق لا علمی ظاہر کی بعد میں وہ بھی لشکر حسین میں شامل ھوگیا ۔  ۹ محرم الحرام رات کاوقت تھا ،آپ رات بھر عبادت میں مشغول رہے صبح دس محرم کی تاریخ آگئی دونوں اطراف میں صف آرائی ہو رہی تھی ۔ فجرکی نماز کے بعد عمرو بن سعد اپنی فوج لے کر نکلا، ادھر امام حسین رضی اللہ عنہ بھی اپنے احباب کے ساتھ تیار تھے۔  آپ کے ساتھ 72 نفوس قدسیہ جس میں بچے بوڑھے خواتین بھی شامل تھیں دوسری جانب ایک لشکر جرار تمام حرب و ہتھیار سے لیس تھے۔  آپ نے جس جوانمردی کے ساتھ مقابلہ کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔  امام حسین رضی اللہ عنہ جس طرف رخ کرتے یزیدی فوج بھیڑیوں کی مانند بھاگ کھڑی ہوتی۔ معاملہ بہت طویل ہوگیا۔ معصوم اورشیر خوار بچے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے لگے، خیمے جلا دیئے گئے، بھوکے پیاسے نواسہ رسول ﷺ میدان کربلا میں صبر کا پہاڑ بن کر جمے رہے، یزیدی دور سے تیر برساتے رہے اور پھر ایک مرحلہ آیا کہ بدبخت شمر ذی الجوشن جب قریب آیا ، ادھر امام حسین رضی اللہ عنہ سجدہ میں گئے اورشمر کی تلوار نے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی گردن مبارک کو تن سے جدا کر دیا وہ یومِ عاشورہ جمعہ کا دن تھا ماہِ محرم الحرام  61  ؁ ھ میں یہ واقعہ پیش آیا۔ اس وقت امام حسین کی عمر مبارک  ی55  سال کے قریب تھی۔

سید الشہدا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہمیں کئی پیغام دیتی ہے 

اول یہ کہ اہل ایمان اپنے خون کے آخری قطرے تک حق وصداقت پر جمے رہیں باطل کی قوت سے مرعوب نہ ہوں۔  

دوسری بات یہ کہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے یزید کی جن خرابیوں کے باعث مخالفت کی ویسے ہی لوگوں سےآج بھی اپنے آپ کو الگ کریں اور فسق و فجور والا کام نہ کریں اور نہ ویسے لوگوں کا ساتھ دیں نیز یہ بھی پیغام ملا کہ ظاہری قوت کے آگے بسا اوقات نیک لوگ ظاہری طور پر مات کھا جاتے ہیں مگر جو حق ہے وہ سچائی ہے وہ کبھی ماند نہیں پڑتی، مات نہیں کھاتی اور وہ ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لاتی ہے۔

Share: