قربانی کے فضائل و احکام



قربانی کی اہمیت:


قربانی ایک عظیم الشان عبادت ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے شروع ہوئی اور اُمتِ محمدیہ علی صاحبہا السلام تک مشروع چلی آرہی ہے، ہرمذہب وملت کا اس پرعمل رہا ہے۔ قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد ہے:

’’وَلِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکاً لِیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہ عَلٰی مَا رَزَقَہُمْ مِنْ بَہِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ‘‘

ترجمہ: ہم نےہر امت کےلئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ چوپائیوں کےمخصوص جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اللہ تعالیٰ نےعطاء فرمائے۔ (حج:34)

قربانی کاعمل اگرچہ ہرامت میں جاری رہا ہے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں خصوصی اہمیت اختیار کر گیا، اسی وجہ سے اسے’’سنتِ ابراہیمی‘‘کہاگیاہے۔ کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے محض خدا کی رضامندی کے لیے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربانی کیلئے پیش کیا تھا۔ اسی عمل کی یاد میں ہر سال مسلمان قربانیاں کرتے ہیں۔ اس قربانی سے ایک اطاعت شعار مسلمان کو یہ سبق ملتا ہے کہ وہ رب کی فرمانبرداری اور اطاعت میں ہرقسم کی قربانی کے لئے تیار رہے اورمال ومتاع کی محبت کو چھوڑ کرخالص اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا کرے۔نیز قربانی کرتے وقت یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہئے کہ قربانی کی طرح دیگر تمام عبادات میں مقصود رضا ء الٰہی رہے،غیر کےلیے عبادت کاشائبہ تک دل میں نہ رہے۔ 

گویا مسلما ن کی زندگی اس آیت کی عملی تفسیر بن جا ئے:

’’اِنَّ صَلاَ تِی وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَا تِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ‘‘

تر جمہ :میری نماز، میری قربانی، میرا جینا ،میرامرنا،سب اللہ کی رضا مندی کے لئے ہے جو تمام جہانوں کاپالنے والا ہے (انعام:162)

قربانی کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر مداومت فرمائی ہے۔ 

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’اَقَامَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم بِالْمَدِیْنَۃِ عَشَرَسِنِیْنَ یُضَحِّیْ‘‘۔ترجمہ:رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ میں دس سال قیام فرمایا(اس قیام کے دوران) آپ قربانی کرتے رہے۔

(جامع الترمذی:ج 1، ص:409: ابو اب الاضاحی)


قربانی کے فضائل:

کئی احادیث میں قربانی کے فضائل وارد ہیں۔ چند یہ ہیں۔

(1): عَنْ زَیْدِ ابْنِ اَرْقَمَ رضی اللّٰہ عنہ قَالَ قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا ھٰذِہِ الاَضَاحِیُّ قَالَ سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ علیہ السلام قَالُوْا فَمَا لَنَا فِیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ قَالُوْا فَالصُّوْفُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِنَ الصُّوْفِ حَسَنَۃٌ۔

ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا:یارسول اللہ!یہ قربانی کیا ہے؟(یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت (اور طریقہ) ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نےعرض کیا کہ ہمیں اس قربانی کے کرنے میں کیا ملے گا؟ فرمایا ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے (پھر سوال کیا) یا رسول اللہ !اون (کے بدلے میں کیا ملے گا) فرمایا:اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔

(سنن ابن ماجہ ص 226 باب ثواب الاضحیہ)


(2) ’’عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللّٰہ عنہا اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم قَالَ: مَاعَمِلَ آدَمِیٌ مِنْ عَمَلٍ یَوْ مَ النَّحْرِ اَحَبَّ اِلَی اللّٰہِ مِنْ اِھْرَاقِ الدَّمِ اَنَّہْ لَیَتَأ تِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِقُرُوْنِھَا وَاَشْعَارِھَا وَاَظْلاَفِھَا وَاِنَّ الدَّمَّ یَقَعُ مِنَ اللّٰہِ بِمَکَانٍ قَبْلَ اَنْ یَّقَعَ مِنَ الْاَرْضِ فَطِیْبُوْا بِھَا نَفْساً‘‘

ترجمہ :عید الاضحی کے دن کوئی نیک عمل اللہ تعالیٰ کے نز دیک قربانی کا خون بہانے سے محبوب اور پسندیدہ نہیں اور قیامت کے دن قربانی کا جانور اپنے بالوں،سینگوں اور کھروں سمیت آئے گا اور قربانی کا خون زمین پر گرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کےہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیتا ہے، لہذا تم خوش دلی سے قربانی کیا کرو۔ (جامع ترمذی ج1ص275 با ب ما جاء فی فضل الاضحیہ)


(3) ’’عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم مَا اُنْفِقَتِ الْوَرَقُ فِیْ شَئْیٍ اَفْضَلُ مِنْ نَحِیْرَۃٍ فِیْ یَوْ مِ الْعِیْدِ‘‘

تر جمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا:کسی خرچ کی فضیلت اللہ تعا لیٰ کے نزدیک بہ نسبت اس خرچ کے جو بقرہ عید والے دن قربانی پر کیا جا ئے ہرگز نہیں۔ (سنن الدارقطنی ص774با ب الذبا ئح ،سنن الکبریٰ للبیہقی ج9 ص 261)


قربانی کے مسائل:


(1)قربانی واجب ہے:

ہر صاحبِ نصاب پر قربانی کرنا واجب ہے۔ اس بارے میں قر آن وسنت میں کئی دلائل موجود ہیں۔ چند یہ ہیں:

1)’’فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ‘‘

ترجمہ: آپ اپنے رب کی نماز پڑھیں اور قربانی کریں۔ (الکوثر:2)

مشہورمفسر علامہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت لکھتے ہیں :

’’قَالَ عِکْرَمَۃُ وَعَطَا ئُ وَقَتَا دَۃُ فَصَلِّ لِرَ بِّکَ صَلوٰۃُ الْعِیْدِ یَوْمَ النَّحْرِ وَنَحْرُ نُسُکِکَ فَعَلیٰ ھٰذَا یَثْبُتُ بِہِ وُجُوْبُ صَلوٰۃِ الْعِیْدِ وَ الْاُضْحِیَّۃِ ‘‘ترجمہ: حضرت عکرمہ،حضرت عطاء اورحضرت قتادۃ رحمہم اللہ فرماتےہیں کہ’’فَصَلِّ لِرَ بِّکَ‘‘ میں’’فصل‘‘سے مراد’’عید کی نماز‘‘ اور ’’وانحر‘‘سے مراد ’’ قربانی ‘‘ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ نماز عید اور قربانی واجب ہے۔ (تفسیرمظہری :ج:10:ص:353)

علامہ ابو بکر جصاص رحمہ اللہ اپنی تفسیر’’احکام القرآن‘‘ میں فرماتے ہیں :

’’قَالَ الْحَسَنُ صَلوٰۃُ یَوْمِ النَّحْرِ وَنَحْرُ الْبَدَنِ …قَالَ اَبُوْ بَکْرٍ ھٰذَاالتَّاوِیلُ یَتَضَمَّنُ مَعْنَیَیْنِ؛اَحَدُھُمَا اِیْجَابُ صَلوٰۃِ الْاَضْحیٰ وَالثَّانِیْ وُجُوْبُ الْاُضْحِیَّۃِ‘‘

ترجمہ: حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نے فر مایاکہ اس آیت ’’فَصَلِّ لِرَ بِّکَ‘‘ میں جو نماز کا ذکر ہے اس سے عید کی نماز مراد ہے اور ’’وانحر‘‘سے قربانی مراد ہے۔ حضرت ابو بکر جصا ص رحمہ اللہ فر ماتے ہیں کہ اس سے دو با تیں ثا بت ہو تی ہیں :۔

1: عید کی نماز واجب ہے۔ 2: قربانی واجب ہے۔

(احکا م القر آن للجصا ص ج3ص 419 تحت سورۃ الکوثر)


3: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :

’’اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم قَالَ: مَنْ کَانَ لَہُ سَعَۃٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَلاَ یَقْرَبَنَّ مُصَلَّا نَا‘‘۔

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس شخص کو قربانی کی وسعت حاصل ہو اور وہ قربانی نہ کر ے تو وہ ہما ری عید گاہ کے قر یب نہ بھٹکے۔

(سنن ابن ماجہ ص226باب الاضاحی ھی واجبۃ ام لا،مسنداحمد ج2ص321 رقم8254، السنن الکبریٰ ج9ص260کتاب الضحایا،کنز العمال رقم 12261)


وسعت کے با وجود قربانی نہ کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سخت وعید ارشاد فرمائی اور وعید ترک واجب پر ہو تی ہے۔ تومعلوم ہوا قربانی واجب ہے۔


(3) حضرت مخنف بن سلیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’کُنَّاوُ قُوْفاً عِنْدَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ و سلم بِعَرَفَۃَ فَقَالَ یَااَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ عَلٰی کُلِّ اَہْلِ بَیْتٍ فِیْ کُلِّ عَامٍ اُضْحِیَۃً وَعَتِیْرَۃً‘‘

تر جمہ :ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے ہوئے تھے،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:اے لوگو ! ہرگھروالوں پر ہر سال قربانی اور عتیرہ واجب ہے۔

(سنن ابن ما جہ ص226باب الاضاحی ھی واجبۃ ام لا،سنن نسا ئی ج2ص 188 کتا ب الفرع والعتیرۃ)


اس حدیث سے دوقسم کی قربانیو ں کا حکم معلوم ہوا ایک عید الاضحی کی قربانی اور دوسرا عتیرہ۔

فا ئدہ: ’’عتیرہ ‘‘اس قربانی کو کہا جاتا ہے جو زمانہ جاہلیت میں رجب کے مہینے میں بتوں کے نام پر ہوتی تھی پھراسلام آنے کے بعد اللہ تعالی کے نام پر ہونے لگی، لیکن بعد میں اسے منسوخ فرمادیاگیا۔ 


چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’نَھیٰ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم عَنِ الْفَرْعِ وَالْعَتِیْرَۃِ‘‘

ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرع اور عتیرہ سے منع فرما دیا۔ (سنن النسائی ج2 ص188 کتا ب الفرع والعتیرہ)

فائدہ: ’’فرع‘‘ اس بچہ کو کہا جاتا تھا جو اونٹنی پہلی مرتبہ جنتی تھی اور اس کو بتوں کے نام پر قربان کیا جاتا تھا، ابتدا اسلام میں یہ اللہ تعالیٰ کے نام پر ذبح ہوتی رہی لیکن بعداسے میں منسوخ کر دیا گیا۔

(زھر الربیٰ علی النسائی للسیوطی ج2 ص188)


(4) حضرت جندب بن سفیا ن البجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،فرماتے ہیں:

’’شَھِدْتُّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ و سلم یَوْ مَ النَّحْرِ فَقَالَ : مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلوٰۃِ فَلْیُعِدْ مَکَانَھَا اُخْریٰ وَمَنْ لَّمْ یَذْ بَحْ فَلْیَذْبَحْ‘‘

تر جمہ: میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں عید الاضحی کےدن حاضر ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جس نے عید کی نماز سے پہلے (قربانی کا جانور) ذبح کر دیا تو اسے چاہیے کہ اس جگہ دوسری قربانی کرے اور جس نے (عید کی نماز سے پہلے ) ذبح نہیں کیا تو اسے چا ہئے کہ (عید کی نماز کے) بعد ذبح کر ے۔

(صحیح البخاری ج2ص843 باب من ذبح قبل الصلوٰۃ اعاد)


اس میں آپ علیہ السلام نے عید سے پہلے قربانی کرنے کی صورت میں دوبارہ لوٹانے کا حکم دیا جو اس بات کی دلیل ہے کہ قربانی واجب ہے۔


(2)قربانی کس پر واجب ہے؟

جس مرد وعورت میں قربانی کے ایام میں درج ذیل باتیں پائی جاتی ہوں اس پر قربانی واجب ہے:


(1)مسلمان ہو۔


دلیل:


’’ لِاَنَّھَا قُرْ بَۃٌ وَالْکَافِرُ لَیْسَ مِنْ اَہْلِ الْقُرَبِ‘‘

(بدائع الصنائع:ج4،ص195)


قربانی عبادت و قربت کا نام ہے اور کافر عبادت اور قربت کا اہل نہیں۔


(2) آزاد ہو۔


دلیل:

’’لِاَنَّ الْعَبْدَ لَا یَمْلِکُ‘‘ (البحر الرائق:ج2 ،ص:271)

تر جمہ:قربانی غلام پر واجب نہیں کیو ں کہ وہ کسی چیز کا مالک نہیں ہوتا۔


(3)صاحب نصاب ہو۔


دلیل:

’’عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم قَالَ مَنْ کَانَ لَہُ سَعَۃٌ وَلَمْ یُضَحِّ فَلَا یَقْرَبَنَّ مُصَلاَّنَا ‘‘

(سنن ابن ماجہ:ص226،باب الاضاحی ھی واجبۃ ام لا)

ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:جس شخص کو وسعت ہو اس کے باوجود قربانی نہ کرے تو وہ ہماری عیدگاہ میں نہ آئے۔


اس سے معلوم ہوا کہ قربانی کےلیے صاحب ِوسعت ہونا ضروری ہےجسے ’’صاحب نصاب‘‘ سےتعبیر کیاجاتا ہے۔ 

(اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے) 


(4)مقیم ہو،مسافر پر قربانی واجب نہیں۔

دلیل:

’’عَنْ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ لَیْسَ عَلَی الْمُسَافِرِ اُضْحِیَّۃٌ‘‘

(المحلیٰ بالآثار لابن حزم:ج6،ص37،مسئلہ نمبر979)

ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں مسافر پر قربانی واجب نہیں۔


(3)قربانی کا نصا ب:

قربانی واجب ہونے کا نصاب وہی ہے جو نصاب صدقۃ الفطر کے واجب ہونے کا ہے۔

(الفتاویٰ الہندیہ:ج5ص360، کتاب الاضحیہ)


پس جس مرد یا عورت کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سونایا ساڑھے باون تولہ چاندی یا نقدی مال یا تجارت کا سامان یا ضرورت سے زائد سامان میں سے کوئی ایک چیز یا ان پانچوں چیزوں یا بعض کامجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو تو ایسے مردو عورت پر قربانی کرنا واجب ہے۔

(الجوہرۃ النیرۃ:ج1ص160،باب من یجوز دفع الصدقۃ الیہ ومن لایجوز)


یاد رہے کہ وہ اشیاء جو ضرورت و حاجت کی نہ ہوں بلکہ محض نمود ونمائش کی ہوں یا گھروں میں رکھی ہوئی ہوں اور سارا سال استعمال میں نہ آتی ہوں تو وہ بھی نصاب میں شامل ہوں گی۔( بدائع الصنائع: ج2ص،158،159،ردالمحتار ج3ص346باب مصرف الزکوٰۃ والعشر)


(4)قربانی کے جانور:


جوجانور قربانی کے لیے ذبح کئے جا سکتے ہیں :بھیڑ،بکری،گائے، بھینس،اونٹ(نر،مادہ) ہیں۔


دلیل :

قال اللہ تعالیٰ: ’’ثَمَانِیَۃَ اَزْوَاجٍ مِّنَ الضَاْ نِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْمَعْزِ اثْنَیْنِ … وَمِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَمِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ‘‘ (انعام: 143، 144)

ترجمہ: آٹھ جانور ہیں دو بھیڑوں میں سے اور دو بکریوں میں سے ، دو اونٹوں میں سے اور دو گائیوں میں سے۔


فائدہ: قربانی کے جانوروں میں بھینس بھی داخل ہے کیونکہ یہ بھی گائے کی ایک قسم ہے ،لہذا بھینس کی قربانی بھی جائز ہے۔


دلیل(1):اجماع امت:

’وَاَجْمَعُوْا عَلیٰ اَنَّ حُکْمَ الْجَوَامِیْسِ حُکْمُ الْبَقَرِ‘‘

(کتاب الاجماع لابن المنذر:ص37)

ترجمہ: ائمہ حضرات کا اس بات پر اجماع ہے کہ بھینس کا حکم گائے والا ہے۔


2)لغت:

’’اَلْجَامُوْسُ ضَرْبٌ مِّنْ کِبَا رِ الْبَقَرِ‘‘ (المنجد:ص101)

ترجمہ:بھینس گائے کی ایک قسم ہے۔


(3) حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے:

’’اَلْجَا مُوْسُ بِمَنْزِلَۃِ الْبَقَرِ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ:ج7،ص65 رقم:10848)

تر جمہ:بھینس گائے کے درجہ میں ہے۔


4)امام مالک بن انس مدنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’اِنَّمَا ھِیَ بَقَرٌ کُلُّہَا‘‘

(مؤطا امام مالک:ص294 ،باب ما جا ء فی صدقۃ البقر)

ترجمہ:یہ بھینس گائے ہی ہے(یعنی گائے کے حکم میں ہے)


ایک مقام پرفرماتے ہیں:

’’اَلْجَوَامِیْسُ وَالْبَقَرُ سَوَائٌ‘‘ (کتاب الاموال لابن عبید:ج2،ص385،رقم:812)

ترجمہ: گائے اور بھینس برابر ہیں (یعنی ایک قسم کی ہیں)


(5) امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’تُحْسَبُ الْجَوَا مِیْسُ مَعَ الْبَقَرِ‘‘ (مصنف عبدالرزاق:ج4ص23،رقم الحدیث:6881)

ترجمہ:بھینسوں کو گائے کے ساتھ شمار کیا جائے گا۔


فائدہ: حلال جانور کے سات اعضاء کھانا مکروہ ہیں۔


دلیل:

عَنْ مُجَاھِدٍقَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم یَکْرَہُ مِنَ الشَّاۃِ سَبْعًا،اَلدَّمَ وَالْحَیَائَ وَالْاُنْثَیَیْنِ وَالْغُدَّ وَالذَّکَرَ وَالْمَثَانَۃَ وَالْمَرَارَۃَ

(مصنف عبدالرزاق:ج4،ص409،السنن الکبری للبیہقی:ج10،ص7،باب مایکرہ من الشاۃ)

ترجمہ:حضرت مجاہد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم بکری کے سات اعضاء کھانے کوپسند نہیں کرتے تھے۔


(۱)خون (۲)مادہ جانور کی شرمگاہ

(۳)خصیتین (۴)غدود

(۵)نرجانورکی پیشاب گاہ (۶)مثانہ (۷)پتہ


(5)جانورکی عمر:

قربانی کے جانوروں میں بھیڑ،بکری ایک سال،گائے،بھینس دو سال اور اونٹ پانچ سال کا ہونا ضروری ہے،البتہ وہ بھیڑ اور دنبہ جو دیکھنے میں ایک سال کا لگتا ہو اس کی قربانی بھی جائز ہے۔


دلیل:

’’عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّۃً اِلَّا اَنْ یُّعْسَرَ عَلَیْکُمْ فَتَذْ بَحُوْا جَذْ عَۃً مِّنَ الضَأنِ‘‘ (صحیح مسلم:ج2،ص155باب سن الاضحیہ)

تر جمہ:حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ پاک صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: قربانی کے لیے عمر والا جانور ذبح کرو ،ہاں اگر ایسا جانور میسر نہ ہو تو پھر چھ ما ہ کا دنبہ ذبح کرو جو سال کا لگتا ہو۔


اس حدیث میں دو باتیں قابل غور ہیں:

نمبر1: اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے قربانی کے جانور کے لیے لفظ ’’مسنہ‘‘ استعمال فرمایا ہے،بقول امام ترمذی رحمہ اللہ فقہاء کرام احادیث کے معانی ومطالب زیادہ جانتے ہیں۔

(جامع الترمذی:ج1،ص193 باب غسل المیت)


چنانچہ جمہور فقہاء کرام رحمہم اللہ نے ’’مسنہ ‘‘ کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ اس سے مراد ’’الثنی‘‘ یعنی وہ جانور ہے جس میں عمر کا لحاظ رکھا گیاہو،چنانچہ بھیڑ،بکری ایک سال کی ہو،گائے اوربھینس دو سال کی اور اونٹ پانچ سال کا ہو۔ چند تصریحات ملاحظہ ہوں:


(1)مشہور محدث وفقیہ علامہ ابوالحسین القدوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’اِنَّ الْفُقَہَائَ قَالُوْا…وَالثَّنی[مِنَ الْغَنَمِ اِبْنُ سَنَۃٍ] وَالثَّنی مِنْہُ [مِنَ الْبَقَرِ ]اِبْنُ سَنَتَیْنِ وَالثَّنی[مِنَ الْاِبِلِ ] اِبْنُ خَمْسٍ‘‘ (الفتاویٰ عالمگیریہ:ج5،ص367)

ترجمہ:حضرات فقہاء کرام یہ فرماتے ہیں کہ بھیڑ،بکری ایک سال کی،گائے دوسال اور اونٹ پانچ سال کا ہو۔


(2)محدث وفقیہ علامہ زین الدین ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’وَالثَّنی مِنَ الضَّأ نِ وَالْمَعْزِ اِبْنُ سَنَۃٍ وَمِنَ الْبَقَرِ اِبْنُ سَنَتَیْنِ وَمِنَ الْاِبِلِ اِبْنُ خَمْسِ سِنِیْنَ‘‘

(البحر الرائق:ج8ص201 کتاب الاضحیہ)

ترجمہ:بھیڑاوربکری ایک سال کی،اور گائے دو سال کی ، اور اونٹ پانچ سال کا ہو۔


اور یہی تعریف ان کتب میں بھی موجود ہے:

(۱) بذل المجہود شرح سنن ابی داؤد:ج4ص71

(۲) تکملہ فتح الملہم شرح صحیح مسلم:ج3ص558


نمبر2: مذکورہ حدیث میں’’مسنہ‘‘ نہ ملنے کی صورت میں’’جَذْعَۃٌ مِّنَ الضَّأنِ‘‘کا حکم فرمایا اس سے مراد وہ دنبہ ہے جو چھ ماہ کا ہو۔مگر دیکھنے میں ایک سال کا لگتا ہو۔چنانچہ علامہ زین الدین ابن نجیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’وَقَالُوْا ھٰذَا اِذَاکَانَ الْجَذَعُ عَظِیْماً بِحَیْثُ لَوْخَلَطَ بِالثَّنِیَّاتِ یَشْتَبِہُ عَلَی النَّا ظِرِیْنَ وَالْجَذَعُ مِنَ الضَّأ نِ مَا تَمَّتْ لَہُ سِتَّۃُ اَشْھُرٍ عِنْدَ الْفُقَہَائِ‘‘

(البحر الرائق:ج8ص202 کتاب الاضحیہ)

ترجمہ:حضرات فقہاء فرماتے ہیں کہ اس سے مراد وہ دنبہ ہے جو اتنا بڑا ہو اگر اس کوسال والے دنبوں میں ملا دیا جائے تو دیکھنے میں سال والوں کے مشابہ ہو اور حضرات فقہاء کے نزدیک جذع (دنبہ) وہ ہے جو چھ ماہ مکمل کر چکا ہو۔


(6)شرکاء اوران کی تعداد:

قربانی کا جانور اگر اونٹ گائے یا بھینس ہو تو اس میں سات آدمی شریک ہو سکتے ہیں:


دلیل(1):

’’عَنْ جَا بِرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ خَرَ جْنَا مَعَ رَسُولِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم مُھِلِّیْنَ بِا لْحَجِّ فَاَمَرَنَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم اَنْ نَّشْتَرِکَ فِی الْاِبِلِ وَالْبَقَرِ کُلُّ سَبْعَۃٍ مِّنَّا فِیْ بَدَنَۃٍ‘‘

(صحیح مسلم:ج1،ص424 باب جواز الاشتراک الخ)

ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ حج کا احرام باندھ کر نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا کہ ہم اونٹ اور گائے میں سات سات ( آدمی)شریک ہوجائیں۔


دلیل(2):

’’عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ نَحَرْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ و سلم عَا مَ الْحُدَ یْبِیَۃِ اَلْبَدَنَۃَ عَنْ سَبْعَۃٍ وَالْبَقَرَ عَنْ سَبْعَۃٍ‘‘

(صحیح مسلم ج1ص424 باب جوا ز الاشتراک الخ)

ترجمہ:حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے حدیبیہ والے سال آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ قربانی کی۔چنانچہ اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے اور گائے بھی سات آ دمیوں کی طرف سے قربان کی۔

اگر قربانی کا جانور بکری یا بھیڑ ہو تو وہ صرف ایک آدمی کی طرف سے کفایت کرتی ہے:


دلیل(1): حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

’’اَنَّ النَّبِیَ صلی اللہ علیہ و سلم اَتَا ہُ رَجُلٌ فَقَالَ اِنَّ عَلَیَّ بَدَ نَۃً وَاَنَا مُوْ سِرٌ بِھَا وَلاَ اَجِدُ ھَا فَاَشْتَرِ یْھَا فَاَ مَرَ ہُ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ و سلم اَنْ یَّبْتَاعَ سَبْعَ شِیَاۃٍ فَیَذْبَحُھُنَّ‘‘

(سنن ابن ماجہ:ص 226،کتا ب الاضاحی باب کم یجزی من الغنم عن البدنۃ)

ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں آیا اور عرض کی کہ مجھ پر ایک بڑا جانور (اونٹ یا گا ئے) واجب ہو چکا ہے اور میں ما لدار ہوں اورمجھے بڑا جانور نہیں مل رہا کہ میں اسے خر ید لوں (لہٰذا اب کیا کروں؟) توآپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ سات بکریاں خریدلو اور انہیں ذبح کرلو۔


اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بڑے جانور کو سات بکریوں کے برابر شمارکیا اور بڑے جانور میں قربانی کے سات حصے ہوسکتے ہیں اس سے زیا دہ نہیں۔معلوم ہوا کہ ایک بکری یا ایک دنبہ کی قربانی ایک سے زیادہ افراد کی طرف سے جا ئز نہیں۔


دلیل(2):حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ارشادہے:

’’اَلشَّا ۃُ عَنْ وَاحِدٍ‘‘ (اعلاء السنن:ج 17،ص210،باب ان البدنۃ عن سبعۃ)

ترجمہ:بکری ایک آدمی کی طرف سے ہوتی ہے۔


(7)قربانی کےدن:

قربانی کے تین دن ہیں: 12.11.10ذوالحجہ۔


دلیل(1):

قال اللہ تعالیٰ:’’لِیَشْھَدُوْا مَنَا فِعَ لَہُمْ وَیَذْکُرُوْااسْمَ اللّٰہِ فِیْ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمَاتٍ‘‘ (الحج:28)

ترجمہ: تاکہ اپنے فوائد کیلئے آموجود ہوں اور ایام مقررہ میں ان مخصوص چوپائیوں پر اللہ کا نام لیں۔


حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’فَا لْمَعْلُوْمَاتُ یَوْ مُ النَّحْرِ وَیَوْ مَانِ بَعْدَہُ ‘‘ (تفسیرابن ابی حاتم الرازی:ج6،ص261)

ترجمہ:ایام معلومات سےمرادیوم نحر(10ذوالحجہ)اوراس کے بعد دو دن ہیں۔


دلیل(2):

’عَنْ سَلْمَۃَ بْنِ الْاَکْوَعِ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ و سلم مَنْ ضَحیّٰ مِنْکُمْ فَلاَ یُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَۃٍ وَبَقِیَ فِیْ بَیْتِہِ مِنْہُ شَئْیٌ‘‘

(صحیح بخاری: ج2،ص835،باب ما یؤکل من لحوم الاضاحی)

ترجمہ:حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:تم میں جو شخص قربانی کرے تو تیسرے دن کے بعد اس کے گھر میں قربانی کے گوشت میں سے کچھ نہ رہناچاہئے۔



اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قربانی کے دن تین ہی ہیں، اس لئے کہ جب چوتھے دن قربانی کا بچا ہوا گو شت رکھنے کی اجازت نہیں تو پورا جانورذبح کرنے کی اجازت کہاں سے ہوگی؟

فائدہ:تین دن کے بعد قربانی کا گوشت رکھنے کی ممانعت ابتدائے اسلام میں تھی،بعد میں اجازت دی گئی کہ اسے تین دن کے بعد بھی رکھا جاسکتا ہے۔ (مستدرک حا کم ج4ص259)



اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ’’جب تین کے بعد گوشت رکھنے کی اجازت مل گئی تو تین دن کے بعد بھی قربانی کی جاسکتی ہے‘‘ اس لیے کہ گوشت تو سارا سال بھی رکھا جا سکتا ہے تو کیا قربانی کی اجازت سا را سال ہو گی، ہر گز نہیں۔ تین دن کے بعد قربانی کی اجازت نہ پہلے تھی اور نہ اب ہے۔


دلیل(3): 

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی یہی منقول ہے کہ قربانی کے دن تین ہی ہیں۔ (مؤطا امام ما لک ص497، کتاب الضحایا)


دلیل(4):

’’عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَبِّا سٍ :النَّحْرُیَوْمَانِ بَعْدَیَوْمِ النَّحْرِوَاَفْضَلُہَا یَوْمُ النَّحْرِ‘‘ (احکام القرآن للطحاوی:ج2ص205)

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قربانی کے دن (دس ذوالحجہ) اور اس کے بعد کے دو دن ہیں،البتہ یوم النحر(دس ذوالحجہ) کو قربانی کرنا افضل ہے۔


(8)قربانی کا وقت:

قربانی کا وقت شہروالوں کے لیے نماز عید ادا کر نے کے بعد اور دیہات والوں کے لیے جن پر نماز جمعہ فرض نہیں ،صبح صادق سے شروع ہوجاتاہےلیکن سورج طلوع ہونے کے بعد ذبح کرنابہتر ہے۔ (فتاویٰ قاضیخان، فتاویٰ شامی)

چنانچہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:’

’سَمِعْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ و سلم یَخْطُبُ فَقَالَ:اِنَّ اَوَّلَ مَا نَبْدَأُ بِہِ مِنْ یَوْ مِنَا ھٰذَااَنْ نُّصَلِیَّ ثُمَّ نَرْ جِعَ وَنَنْحَرَ فَمَنْ فَعَلَ فَقَدْ اَصَابَ سُنَّتَنَا وَمَنْ نَحَرَفَاِنَّمَا ھُوَ لَحْمٌ یُقَدِّمُہُ لِاِھْلِہِ لَیْسَ مِنَ النُّسِکِ فِیْ شَئْیٍ‘‘۔

(صحیح البخاری:ج 2،ص834 کتا ب الاضاحی باب الذبح بعد الصلوٰۃ)

ترجمہ:میں نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا آپ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ ہمارےاس عید کے دن میں سب سے پہلا کام یہ ہے ہم نماز پڑھیں پھر واپس آکر قربانی کریں جس نے ہمارے اس طریقہ پر عمل کیا یعنی عید کے بعد قربانی کی تو اس نے ہما رے طریقے کے مطابق درست کام کیا اور جس نے نماز سے پہلے قربانی کر دی تو وہ ایک گوشت ہے جو اس نے اپنے گھروالو ں کے لیے تیار کیاہے اس کا قربانی سے کوئی تعلق نہیں۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نماز عید سے پہلے قربانی کرنے سے منع فرمایا ہے، دیہات میں چونکہ نماز عیدکا حکم نہیں ہے،اس لئے وہاں اس شرط کا وجود ہی نہیں تو ان کے لیے یہ حکم نہ ہوگا۔ وہاں قربانی کے وقت کا شروع ہونا ہی کافی ہوگا اور اس کا آغاز طلوع فجر سے ہو جاتا ہے۔

(9)عمومی مسائل:

(1) خصی جانور کی قربانی کرنا جائز بلکہ افضل ہے۔

(سنن ابی داؤد ج2ص386 باب ما یستحب من الضحایا)

(2) اگر کوئی آ دمی عقیقہ کی نیت سے قربانی کے جانور میں اپنا حصہ رکھ لے تو یہ جائز ہے۔ (فتاویٰ عالمگیریہ ج5ص375)

(3) ایسا لنگڑا جانور جو چلتے وقت پاؤں زمین پر بالکل نہ رکھ سکتا ہو اس کی قربانی جائز نہیں البتہ اگر وہ چلنے میں اس پاؤں سے کچھ سہارا لیتا ہوتو اس کی قربانی جائز ہے۔

(سنن ابی داؤد:ج2،ص387،ردالمحتار:ج9:ص 536 کتا ب الاضحیہ)

(4) اگر جانور کے اکثر دانت ٹوٹے ہوئے ہوں کہ چارہ بھی نہ کھا سکتا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں، ہا ں اگر چارہ کھا سکتا ہو تو قربانی جائز ہے۔ (ردالمحتار ج9 ص 537 کتا ب الاضحیہ)

(5) جس جانور کی پیدائشی طور پر ایک یا دونوں کان نہ ہوں یا کان کا تیسرا یا اس سے زیادہ حصہ کٹا یا چرا ہوا ہو تو اس کی قربانی جائز نہیں۔ ہاں اگر تیسرے سے کم حصہ کٹا ہوا ہو تو اس کی قربانی جائز ہے۔ (جامع الترمذی:ج1،ص275،باب الاضاحی، ردالمحتار:ج9،ص537،کتاب الاضحیہ)

(6) اگر جانور کا سینگ ٹوٹا ہوا ہے لیکن جڑ سے نہیں اکھڑا تو اسکی قربانی جائزہےاوراگر جڑ سے اکھڑ چکا ہو تو اس کی قربانی جا ئز نہیں۔ (سنن الطحاوی:ج2،ص271باب العیوب التی لایجوزالھدایاوالضحایا،ردالمحتار:ج9 ص535 کتاب الاضحیہ)

(7) جانور کی دم اگر تہائی سے کم کٹی ہوئی ہو تو قربانی جائز ہے اگر تہائی یا اس سے زائد کٹی ہوئی ہو تو قربانی جا ئز نہیں ہے۔ (اعلاءالسنن:ج17ص237، فتاویٰ عالمگیریہ:ج5ص368)


(8)گائے یا بھینس وغیرہ کا ایک تھن خراب اور باقی تین ٹھیک ہوں تو قربانی جائز ہے اور اگر دو تھن خراب ہوں تو قربانی جائز نہیں۔ 


(9)اسی طرح بکری وغیرہ کا ایک تھن خراب ہو تو قربانی جائز نہیں۔


(10)جانور اگر اندھا ہو یا کانا ہو یا ایک آنکھ کی تہائی یا اس سے زائد روشنی نہ ہو تو اسکی قربانی جا ئز نہیں ہاں اگر روشنی تہائی سے کم جاتی رہے تو قربانی جائز ہے۔


(11) ذبح کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمان ہو، لہذا مشرک ،مجو سی، بت پرست، اور مرتد کا ذبیحہ حرام ہے۔ (بدائع الصنائع ج4ص164)

(12) گوشت کا حکم:افضل یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کئے جائیں ایک حصہ اپنے گھر کے لیے،ایک حصہ رشتے داروں اور دوست واحباب کے لیے اور ایک حصہ فقرا ء ومساکین میں تقسیم کیا جائے، ہاں اگر عیال زیادہ ہوں تو سارا گوشت خودبھی رکھ سکتے ہیں۔ (فتاویٰ عالمگیریہ ج5ص371۔370)

13)اگر قربانی کے جانور میں کئی حضرات شریک ہوں تو گوشت وزن کر کے تقسیم کیا جا ئے اندازے سے تقسیم کر نا جائز نہیں (البحرالرائق:ج8ص198)

14)قربانی کا گو شت فروخت کرنا یا اجرت میں دینا جائز نہیں۔(بدائع الصنائع ج4ص225)

(15) قربانی کی کھال اپنے ذاتی استعمال میں لا سکتے ہیں مثلاً مصلیٰ، مشکیزہ وغیرہ بنا سکتے ہیں البتہ اس کو فروخت کرکے قیمت استعمال میں لانا جائز نہیں بلکہ فقراء کو دینا واجب ہے۔(عالمگیری ج3 ص 372)

نیزکھال کی قیمت مسجد کی تعمیر میں نہیں لگائی جا سکتی اسی طرح کسی فلاحی ادارہ میں بھی اس کا خرچ کرنا درست نہیں کیو ں کہ اس میں ضروری ہے کہ اس کا فقرا ء ومساکین کو مالک بنا دیا جا ئے ،لہذا بہتر یہ ہے کہ قربانی کی کھال کسی دینی مدرسہ اور جامعہ کے طلبا ء کو دی جائے کیوں کہ اس میں ان کی امداد کر نے کا ثواب بھی ہے اور علم دین کے احیاء کا سبب بھی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔

Share: