رمضان المبارک میں روزے دار کی روزے میں کوتاھیاں

اس میں تو کسی قسم کے شک و شبہہ کی  کوئی  گنجائش نہیں ھے کہ روزہ تقوی حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ ھے آو آجر کے اعتبار سے اللہ تعالی کا یہ فرمان کہ “ روزہ کا آجر میں خود ھوں “ کے بعد بحث کی کوئی گنجائش باقی نہیں رھتی لیکن روزے کے ذریعہ سے تقوی آو آجرِ عظیم تب ھی حاصل ھو گا جب روزے میں اُن کوتاھیوں سے مکمل پرھیز برتا جائے جن کی وجہ سے یہ عظیم مقصد بُری طرح متاثر ھو سکتا ھے ۔ 

حضرت حکیم الاُمت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله عليه نے اپني كتاب “اصلاحِ انقلابِ اُمت” میں تفصیل سے ان کوتاہیوں کا بھی ذکر فرمایا ہے جو روزے کے بارے میں کی جاتی ہیں، اس کتاب کا مطالعہ کرکے ان تمام کوتاہیوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کرنی چاھیے، یہاں اس  کتاب کے چند اقتباس نقل کئے جاتے ہیں


بلا کسی قوی عذر کے روزہ نہ رکھنا

“بہت سے لوگ بلا کسی قوی عذر کے روزہ نہیں رکھتے، ان میں سے بعض تو محض کم ہمتی کی وجہ سے نہیں رکھتے، ایسے ہی ایک شخص کو، جس نے عمر بھر روزہ نہ رکھا تھا اور سمجھتا تھا کہ پورا نہ کرسکے گا، کہا گیا کہ تم بطور امتحان ہی رکھ کر دیکھ لو، چنانچہ رکھا اور پورا ہوگیا، پھر اس کی ہمت بندھ گئی اور رکھنے لگا۔ کیسے افسوس کی بات ہے کہ رکھ کر بھی نہ دیکھا تھا اور پختہ یقین کر بیٹھا تھا کہ کبھی رکھا ہی نہ جاوے گا۔ یہ لوگ سوچ کر دیکھیں کہ اگر طبیب کہہ دے کہ آج دن بھر نہ کچھ کھاوٴ نہ پیئو، ورنہ فلاں مہلک مرض ہوجائے گا، تو اس نے ایک ہی دن کے لئے کہا، یہ دو دن نہ کھاوے گا، کہ احتیاط اسی میں ہے۔ افسوس! خدا تعالیٰ صرف دن دن کا کھانا چھڑاویں اور کھانے پینے سے عذابِ مہلک کی وعید فرمائیں اور ان کے قول کی طبیب کے برابر بھی وقعت نہ ہو؟  اِنّا لِلّهِ وَاِنّا اِلَيْهِ رَاجِعُوْن.


روزہ کی ضرورت ہی کا طرح طرح سے انکار  کرنا اور روزہ کا تمسخر اُڑانا

“بعضوں کی یہ بے وقعتی اس بدعقیدگی تک پہنچ جاتی ہے کہ روزہ کی ضرورت ہی کا طرح طرح سے انکار کرنے لگتے ہیں، مثلاً: روزہ قوّتِ بہیمیہ کے توڑنے یا تہذیبِ نفس کے لئے ہے، اور ہم علم کی بدولت یہ تہذیب حاصل کرچکے ہیں ․․․․․․”

“اور بعضے تہذیب سے بھی گزر کر گستاخی اور تمسخر کے کلمات کہتے ہیں، مثلاً: “روزہ وہ شخص رکھے جس کے گھر کھانے کو نہ ہو” یا “بھائی ہم سے بھوکا نہیں مرا جاتا” سو یہ دونوں فریق بوجہ انکارِ فرضیتِ صوم، زُمرہٴ کفار میں داخل ہیں، اور پہلے فریق کا قول محض “ایمان شکن” ہے، اور دُوسرے کا “ایمان شکن” بھی اور “دِل شکن” بھی ․․․․․․”


ادنیٰ بہانے سے روزہ اِفطار کر دینا

“بعض  لوگ بلا عذر تو روزہ ترک نہیں کرتے، مگر اس کی تمیز نہیں کرتے کہ یہ عذر شرعاً معتبر ہے یا نہیں؟ ادنیٰ بہانے سے اِفطار کردیتے ہیں، مثلاً: خواہ ایک ہی منزل کا سفر ہو، روزہ اِفطار کردیا، کچھ محنت مزدوری کا کام ہوا، روزہ چھوڑ دیا۔ ایک طرح سے یہ بلا عذر روزہ توڑنے والوں سے بھی زیادہ قابلِ مذمت ہیں، کیونکہ یہ لوگ اپنے آپ کو معذور جان کر بے گناہ سمجھتے ہیں، حالانکہ وہ شرعاً معذور نہیں اس لئے گناہگار ہوں گے۔”


عذرِ شرعی کے رفع ہونے کے بعد باقی وقت میں کھانا پینا 

“بعضے لوگوں کا اِفطار تو عذرِ شرعی سے ہوتا ہے، مگر ان سے یہ کوتاہی ہوتی ہے کہ بعض اوقات اس عذر کے رفع ہونے کے وقت کسی قدر دن باقی ہوتا ہے، اور شرعاً بقیہ دن میں اِمساک، یعنی کھانے پینے سے بند رہنا واجب ہوتا ہے، مگر وہ اس کی پرواه نہیں کرتے، مثلاً: سفرِ شرعی سے ظہر کے وقت واپس آگیا، یا عورت حیض سے ظہر کے وقت پاک ہوگئی، تو ان کو شام تک کھانا پینا نہ چاہئے۔ علاج اس کا مسائل و اَحکام کی تعلیم و تعلّم ہے۔”


بچوں سے روزہ نہ رکھوانا

“بعض لوگ خود تو روزہ رکھتے ہیں، لیکن بچوں سے (باوجود ان کے روزہ رکھنے کے قابل ہونے کے) نہیں رکھواتے۔ خوب سمجھ لینا چاہئے کہ عدمِ بلوغ میں بچوں پر روزہ رکھنا تو واجب نہیں، لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ان کے اولیاء پر بھی رکھوانا واجب نہ ہو، جس طرح نماز کے لئے باوجود عدمِ بلوغ کے ان کو تاکید کرنا بلکہ مارنا ضروری ہے، اسی طرح روزے کے لئے بھی يه إهتمام ضروري هے اتنا فرق ہے کہ نماز میں عمر کی قید ہے اور روزہ میں تحمل پر مدار ہے (کہ بچہ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو)، اور راز اس میں یہ ہے کہ کسی کام کا دفعةً پابند ہونا دُشوار ہوتا ہے، تو اگر بالغ ہونے کے بعد ہی تمام اَحکام شروع ہوں تو ایک بارگی زیادہ بوجھ پڑ جائے گا، اس لئے شریعت کی رحمت ہے کہ پہلے ہی سے آہستہ آہستہ سب اَحکام کا خوگر بنانے کا قانون مقرّر کیا۔”


روزہ میں معصیت سے نہ بچنا

“بعض لوگ نفسِ روزہ میں تو اِفراط و تفریط نہیں کرتے، لیکن روزہ محض صورت کا نام سمجھ کر صبح سے شام تک صرف جوفین (پیٹ اور شرم گاہ) کو بند رکھنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ حالانکہ روزے کی نفسِ صورت کے مقصود ہونے کے ساتھ اور بھی حکمتیں ہیں، جن کی طرف قرآن مجید میں اشارہ بلکہ صراحت ہے کہ: “لعلکم تتقون” ان سب کو نظرانداز کرکے اپنے صوم کو “جسدِ بے رُوح” بنالیتے ہیں۔ خلاصہ ان حکمتوں کا معاصی و منہیات سے بچنا ہے، سو ظاہر ہے کہ اکثر لوگ روزہ میں بھی معاصی سے نہیں بچتے، اگر غیبت کی عادت تھی، تو وہ بدستور رہتی ہے، اگر بدنگاہی کے خوگر تھے، وہ نہیں چھوڑتے، اگر حقوق العباد کی کوتاہیوں میں مبتلا تھے، ان کی صفائی نہیں کرتے، بلکہ بعض کے معاصی تو غالباً بڑھ جاتے ہیں، کہیں دوستوں میں جا بیٹھے کہ روزہ بہلے گا، اور باتیں شروع کیں، جن میں زیادہ حصہ غیبت کا ہوگا، یا چوسر، گنجفہ، تاش، ہارمونیم، گراموفون لے بیٹھے اور دن پورا کردیا۔ بھلا اس روزے کا کوئی معتد بہ حاصل کیا؟ اتنی بات عقل سے سمجھ میں نہیں آتی کہ کھانا پینا، جو فی نفسہ مباح ہے، جب روزے میں وہ حرام ہوگیا، تو غیبت وغیرہ دُوسرے معاصی، جو فی نفسہ بھی حرام ہیں، وہ روزے میں کس قدر سخت حرام ہوں گے! حدیث میں ہے کہ: “جو شخص بدگفتاری و بدکرداری نہ چھوڑے، خدا تعالیٰ کو اس کی کچھ پرواه نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔” اس سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ بالکل روزہ ہی نہ ہوگا، لہٰذا رکھنے ہی سے کیا فائدہ؟ روزہ تو ہوجائے گا، لیکن ادنیٰ درجے کا۔ جیسے اندھا، لنگڑا، کانا، گنجا، اپاہج آدمی، آدمی تو ہوتا ہے، مگر ناقص۔ لہٰذا روزہ نہ رکھنا اس سے بھی اشد ہے، کیونکہ ذات کا سلب، صفات کے سلب سے سخت تر ہے۔”


روزے کو خراب کرنے والے گناہوں (غیبت وغیرہ) سے بچنے کی تدبیر

 حضرت مولانا أشرف علي تهانوي رحمة الله عليه نے روزے کو خراب کرنے والے گناہوں (غیبت وغیرہ) سے بچنے کی تدبیر بھی بتلائی  ھے جو صرف تین باتوں پر مشتمل ہے، اور ان پر عمل کرنا بہت ہی آسان ہے:

“خلق سے بلاضرورت تنہا اور یکسو رہنا

کسی اچھے شغل مثلاً: تلاوت وغیرہ میں لگے رہنا

 اور نفس کو سمجھانا

یعنی وقتاً فوقتاً یہ دھیان کرتے رہنا کہ ذرا سی لذّت کے لئے صبح سے شام تک کی مشقت کو کیوں ضائع کیا جائے؟ اور تجربہ ہے کہ نفس پھسلانے سے بہت کام کرتا ہے، سو نفس کو یوں پھسلاوے کہ ایک مہینے کے لئے تو ان باتوں کی پابندی کرلے، پھر دیکھا جائے گا۔ پھر یہ بھی تجربہ ہے کہ جس طرز پر آدمی ایک مدّت رہ چکا ہو، وہ آسان ہوجاتا ہے، بالخصوص اہلِ باطن کو رمضان میں یہ حالت زیادہ مدرک ہوتی ہے کہ اس مہینے میں جو اعمالِ صالحہ کئے ہوتے ہیں سال بھر ان کی توفیق رہتی ہے۔

اللہ پاک ھمیں روزے کے محرمات اور مکروھات سے بچنے کی توفیق بخشے

آمین یا رب العالمین 

-----

Share: