فجر کی دو رکعت سنت کی اھمیت


ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ فرض نمازوں کے ساتھ سنن ونوافل کا بھی خاص اہتمام کرے تاکہ اللہ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوجائے جیسا کہ نبی اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بندہ نوافل کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے قریب ہوتا جاتا ہے۔ (بخاری) نیز اگر خدانخواستہ قیامت کے دن فرض نمازوں میں کچھ کمی نکلے تو سنن ونوافل سے اسکی تکمیل کردی جائے جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سے سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائیگا، اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ اور اگر کچھ نماز میں کمی پائی گئی تو ارشادِ خداوندی ہوگا کہ دیکھو اس بندے کے پاس کچھ نفلیں بھی ہیں جن سے فرضوں کو پورا کردیا جائے، اگر نکل آئیں تو ان سے فرضوں کی تکمیل کردی جائیگی۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، ابو داؤد، مسند احمد)

دن رات میں ۱۲ رکعت سنن مؤکدہ ہیں البتہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  کے ارشادات کی روشنی میں امت مسلمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ تمام نمازِ سنن میں سب سے زیادہ اہمیت فجر کی دو رکعت سنتوں کی ہے، جیسا کہ بعض احادیث  میں  وارد ھے

حضرت عائشہ ؓ روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : فجر کی دو رکعت (سنتیں) دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: یہ دو رکعتیں پوری دنیا سے زیادہ محبوب ہیں۔ (مسلم)

حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  فجر کی سنتوں سے زیادہ کسی نفل کی پابندی نہیں فرماتے تھے۔ (بخاری ،مسلم)

حضرت ابو ہریر ہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: فجر کی دو رکعت (سنت) نہ چھوڑو اگرچہ گھوڑوں سے تم کو روند دیا جائے۔ (ابو داؤد)

حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  ظہر سے پہلے چار رکعت اور فجر سے پہلے دو رکعت کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ (بخاری)

*فجر کی جماعت شروع ہونے کے بعد دو رکعت سنت*

علماء کرام کا اتفاق ہے کہ نمازِ فجر کے علاوہ اگر دیگر فرض نمازوں (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء) کی جماعت شروع ہوجائے تو اس وقت اور کوئی نماز حتی کہ اس نماز کی سنتیں بھی نہیں پڑھی جاسکتی ہیں۔ البتہ فجر کی سنتوں کے سلسلہ میں علماء کی دو رائے ہیں ، اور یہ دونوں رائے صحابہ کرام کے زمانے سے چلی آرہی ہیں ، جیسا کہ امام ترمذی ؒ نے اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا ہے۔ (ترمذی )

پہلی رائے کے مطابق فجر کی سنتوں کا حکم بھی دیگر سنتوں کی طرح ہے کہ جماعت شروع ہونے کے بعد سنت کی ادائیگی نہیں۔ اس رائے کے لئے بنیادی طور پر حضرت ابو ہریرہؓ کی حدیث کو دلیل میں پیش کیا جاتا ہے جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ جب جماعت شروع ہوجائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی اور نماز پڑھنا صحیح نہیں ہے۔ (ترمذی ۔ جلد ۲ صفحہ ۲۸۲) 

دوسری رائے کے مطابق فجر کی سنتوں کی اہمیت کے پیش نظر جماعت شروع ہونے کے بعد بھی حضرات صحابہ کرام یہ سنتیں پڑھ کر جماعت میں شریک ہوا کرتے تھے۔ لہذا اگر نماز کی دوسری رکعت مل جانے کی قوی امید ہو تو جہاں جماعت ہورہی ہے ا س سے حتی الامکان دور فجر کی دو رکعت سنت پڑھکر نماز میں شریک ہوں۔ جس کے لئے مندرجہ ذیل دلائل ہیں :

*حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا عمل*

حضرت عبد اللہ بن ابی موسی ٰ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ ہماری مسجد میں تشریف لائے تو امام فجر کی نماز پڑھا رہا تھا، آپ نے ایک ستون کے قریب فجر کی سنتیں ادا فرمائیں چونکہ وہ اس سے پہلے سنتیں نہیں پڑھ سکے تھے۔ ۔۔۔۔ اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے تمام راوی مضبوط ہیں۔ (مجمع الزوائد ج ۱ ص ۷۵)

*حضرت عبد اللّہ بن عباس ؓ کا عمل*

حضرت ابو عثمان انصاری فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ تشریف لائے جب کہ امام فجر کی نماز پڑھا رہا تھا اور آپ نے فجر کی دو رکعت سنتیں نہیں پڑھی تھیں، تو پہلے انہوں نے دو رکعتیں پڑھیں پھر جماعت میں شامل ہوکر فجرکی نماز پڑھی۔ (اثار السنن ج ۳ ص ۳۳، طحاوی، الرجل یدخل المسجد والامام )

*حضرت عبد اللّہ بن عمر ؓ کا عمل*

حضرت محمد بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ گھر سے نکلے تو فجر کی نماز کھڑی ہوگئی تھی، آپ نے مسجد میں داخل ہونے سے پہلے ہی دو رکعتیں پڑھیں پھر باجماعت نماز پڑھی۔ (طحاوی، الرجل یدخل المسجد والامام ، اسنادہ حسن)

*حضرت ابو الدرداء ؓ کا عمل*

حضرت ابو الدرداء ؓ مسجد میں تشریف لائے تو لوگ فجر کی نماز کے لئے صفوں میں کھڑے تھے، آپ نے مسجد میں ایک طرف دو رکعتیں پڑھیں پھر لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہوئے۔ (طحاوی، الرجل یدخل المسجد والامام)

*دور فاروقی میں صحابہ کرام کا عمل*

حضرت ابو عثمان مہدی فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمر بن الخطابؓ کے دور میں فجر سے پہلے کی دو رکعتیں پڑھے بغیر آیا کرتے تھے، جب کہ حضرت عمر فاروق ؓ نماز پڑھارہے ہوتے، ہم مسجد کے آخر میں دو رکعتیں پڑھ لیتے، پھر لوگوں کے ہمراہ نماز میں شریک ہوجاتے۔ (طحاوی، الرجل یدخل المسجد والامام)

ان جلیل القدر حضرات صحابہ کرام کے عمل سے معلوم ہوا کہ اگر نمازِفجرکی جماعت مل جانیکی توقع ہے تو مسجد میں ایک طرف سنتیں پڑھ کر جماعت میں شریک ہونا چاہئے۔


اللہ تعالیٰ ہم سب کو نماز فجر شروع ہونے سے قبل ہی دو رکعت سنتوں کی پابندی کرنے والا بنائے تاکہ شریعت میں جو اصل مطلوب ہے اس پر عمل ہوجائے۔ آمین یا رب العالمین

Share: