مال فدک اور خاتون جنت حضرت فاطمہ الزھراء کے مطالبہ کی حقیقت


آج کل مال فدک کے بہانے سے اھل تشیع کی جانب سے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی کو نعوذ باللہ غاصب اور اس وجہ سے خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی سے تا مرگ ناراضگی کا بہت ڈھنڈورہ پیٹا جا رہا ھے اس میں حقیقت حال کیا ھے آئیے اس کا جائزہ لیتے ھیں 

شمالی حجاز میں خیبر کے قریب دو روز کے فاصلے پر فدک ایک قدیم قصبے کا نام تھا جس پر یہودیوں کا قبضہ تھا جس کی اکثریت یہودی آبادی کی تھی۔ فتح خیبر کے موقع پر یہودیوں سے مندرجہ ذیل شرائط پر صُلح ہو گئی تھی


1۔اہل فدک کے مال و اسباب اور زرعی زمینیں یہودیوں کے پاس رہیں گی، مسلمان ان کو تحفظ دیں گے، یہودی ہر سال اپنی کُل آمدنی جو ان زمینوں سے ہو گی اس کا نصف مسلمانوں کو دیں گے۔


2۔ سات ہجری میں فدک کی اراضی سے آنے والی آمدنی چوبیس ہزار دینار سالانہ تھی۔  سنن ابی داود کی روایت کے مطابق نناوے ہجری میں حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں فدک کی آمدن چالیس ہزار دینار تک پہنچ گئی تھی۔

(صحیح بخاری)


3۔ علماء کرام کے مطابق فدک کی حیثیت ”مالِ فے“ کی تھی یعنی جو مال دشمن سے بغیر جنگ کے حاصل ہو وہ مال فے کہلاتا ہے۔ اس کے بار ے میں اللہ کریم نے قرآن کریم کی سورہ حشر  میں یہ فرمایا ہے:


وَمَآ اَفَـآءَ اللّـٰهُ عَلٰٓى رَسُوْلِـهٖ مِنْـهُـمْ فَمَآ اَوْجَفْتُـمْ عَلَيْهِ مِنْ خَيْلٍ وَّّلَا رِكَابٍ وَّلٰكِنَّ اللّـٰهَ يُسَلِّطُ رُسُلَـهٝ عَلٰى مَنْ يَّشَآءُ ۚ وَاللّـٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىْءٍ قَدِيْرٌ (6)

اور جو کچھ اللہ نے اپنے رسول کو ان سے مفت دلا دیا سو تم نے اس پر گھوڑے نہیں دوڑائے اور نہ اونٹ لیکن اللہ اپنے رسولوں کو غالب کر دیتا ہے جس پر چاہے، اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔


مَّآ اَفَـآءَ اللّـٰهُ عَلٰى رَسُوْلِـهٖ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰى فَلِلّـٰـهِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِـذِى الْقُرْبٰى وَالْيَتَامٰى وَالْمَسَاكِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ ۙكَىْ لَا يَكُـوْنَ دُوْلَـةً بَيْنَ الْاَغْنِيَآءِ مِنْكُمْ ۚ وَمَآ اٰتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا ۚ وَاتَّقُوا اللّـٰهَ ۖ اِنَّ اللّـٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ (7)

جو مال اللہ نے اپنے رسول کو دیہات والوں سے مفت دلایا سو وہ اللہ اور رسول اور قرابت والوں اور یتمیموں اور مسکینوں اور مسافروں کے لیے ہے، تاکہ وہ تمہارے دولت مندوں میں نہ پھرتا رہے، اور جو کچھ تمہیں رسول دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے باز رہو، اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔


لِلْفُقَرَآءِ الْمُهَاجِرِيْنَ الَّـذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِـمْ وَاَمْوَالِـهِـمْ يَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّـٰهِ وَرِضْوَانًا وَّيَنْصُرُوْنَ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ ۚ اُولٰٓئِكَ هُـمُ الصَّادِقُوْنَ (8)

وہ مال وطن چھوڑنے والے مفلسوں کے لیے بھی ہے جو اپنے گھروں اور مالوں سے نکالے گئے (وہ) اللہ کا فضل اس کی رضامندی چاہتے ہیں اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی مدد کرتے ہیں، یہی سچے (مسلمان) ہیں۔


وَالَّـذِيْنَ تَبَوَّءُوا الـدَّارَ وَالْاِيْمَانَ مِنْ قَبْلِـهِـمْ يُحِبُّوْنَ مَنْ هَاجَرَ اِلَيْـهِـمْ وَلَا يَجِدُوْنَ فِىْ صُدُوْرِهِـمْ حَاجَةً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَيُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓى اَنْفُسِهِـمْ وَلَوْ كَانَ بِـهِـمْ خَصَاصَةٌ ۚ وَمَنْ يُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُفْلِحُوْنَ (9)

اور وہ (مال) ان کے لیے بھی ہے کہ جنہوں نے ان سے پہلے (مدینہ میں) گھر اور ایمان حاصل کر رکھا ہے، جو ان کے پاس وطن چھوڑ کر آتا ہے اس سے محبت کرتے ہیں، اور اپنے سینوں میں اس کی نسبت کوئی خلش نہیں پاتے جو مہاجرین کو دیا جائے، اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہو، اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچایا جائے پس وہی لوگ کامیاب ہیں۔


وَالَّـذِيْنَ جَآءُوْا مِنْ بَعْدِهِـمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّـذِيْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِيْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِىْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا رَبَّنَآ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِـيْـمٌ (10)

اور ان کے لیے بھی جو مہاجرین کے بعد آئے (اور) دعا مانگا کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارےان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں اور ہمارے دلوں میں ایمانداروں کی طرف سے کینہ قائم نہ ہونے پائے، اے ہمارے رب! بے شک تو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔


4۔ مال غنیمت کے بر عکس اموال فے کی ملکیت کسی کو منتقل نہیں کی گئی بلکہ یہ ریاست کی تھی۔  ان آیات کے مطابق مال کی تقسیم حضورﷺ ریاست کے سربراہ ہونے کی وجہ سےاپنے مبارک زمانے میں خود کرتے رھے


5۔ رسول اللہﷺ کے وصال کے بعد جب حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ ریاست کے خلیفہ بنے تو آپ نے فدک پر (management) تولیت قبضہ کیا نہ کسی سے قبضہ چھڑایا، اس کے مصارف بھی نہیں بدلے اور نہ ہی ذاتی استعمال میں لائے۔

*ازواج مطہرات کا مطالبہ:* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حیات طیبہ میں فدک کی آمدنی اہل بیت رضی اللہ عنہم مساکین اور محتاجوں پر خرچ ہوتی رہی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد امہات المومنین رضی اللہ عنہم نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس اپنا نمائندہ بنا کے بھیجا تا کہ وراثت کا حصول کیا جائے لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا نے انھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان یاد دلایا کہ

"ہم انبیاء کا ہمارے بعد کوئی وارث نہیں ہوتا میرے بعد بھی میرے متروکات صدقہ ہونگے۔"

یہ سن کر سب خاموش ہو گئیں اور اپنا مطالبہ وہیں ختم کر دیا۔

*خاتون جنت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کا مطالبہ: *

دوسری طرف خاتون جنت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا اور حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فدک کے انتظامات ان کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا۔

یہ مطالبہ ہبہ واپس لینے کا نہیں تھا بلکہ بنتِ رسول کی حیثیت سے فدک کی تولیت (management) کا تھا۔

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا

”اللہ کی قسم میں اپنی طرف سے کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا، تمام انتظامات اسی طرح رہیں گے جیسے حضورﷺ کے دور میں تھے اور وہیں پر یہ مال خرچ کیا جائے گا جن پر حضورﷺ خرچ کرتے تھے۔میں اپنے اقرباء سے زیادہ صلہ رحمی پسند کرتا ہوں کہ حضورﷺکے اقربا سے کروں“۔

(طبقات ابن سعد) 


6۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھانے بعد میں اس مسئلے پرمزید کوئی بات نہیں کی اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے نیابتِ رسول ﷺ کے سبب فدک کے انتظامات اپنے پاس رکھے مگر اس کی آمدن کی تقسیم بالکل وہی رہی جو رسول اللہﷺ کے دور میں تھی یعنی ازواج مطھرات و آل فاطمہ سمیت دیگر مصارف فے کی کفالت جاری رہی۔


7۔ حضرت عمر، حضرت عثمان، سیدنا علی اور حضرت حسن رضی اللہ عنھم کے دور میں بھی یہی معاملہ رہا جو حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے دور میں تھا۔ اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا فیصلہ غلط ہوتا توحضرت علی اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ اس کو بدل دیتے مگر ایسا نہیں ہوا۔

(البدایہ والنہائیہ حافظ ابن کثیر)


8۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فَدک کے مسئلے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بشری تقاضے کے مطابق ناراض ہوئی ہیں مگر مال و دولت کی وجہ سے ناراض ہونا ہمارے اہل بیت کی شان ہی نہیں ہے وہ تو جنت کے سردار تھے ان کو مال و دولت کی کوئی کمی نہیں تھی۔


9۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی بیماری میں ان کی اجازت سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے تیمارداری کی۔

امام بیہقی اس بابت رقمطراز ہیں: جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے گھر تشریف لائے اور عیادت کے لیے اجازت طلب کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ سے پوچھا: فاطمہ! ابوبکر تشریف لائے ہیں آپ کی عیادت کی اجازت چاہتے ہیں۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا آپ ان سے ملاقات کی اجازت دیں گے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں۔ پس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور ان کو راضی کیا۔

روایات میں اس عیادت کا احوال یوں بیان ہوا ہے کہ: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میں نے اپنا گھر بار، اپنی جان و مال قبیلہ اور اپنی اولاد سب اللہ‘ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلبیت کو راضی کرنے کے لیے قربان کر دی۔  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ الزھراء رضی اللہ عنہا کی رنجش دور کرنی چاہی تو وہ ان سے خوب راضی ہو گئیں اورفرمایا کہ پھر آپ نے رسول اللہ ﷺ سے جو کچھ سنا وہی عمل کریں اور اسی پر قائم رہیں

(بیهقی، السنن الکبری)

(مسند احمد بن حمبل)

(البدایہ والنہائیہ)

اجماع امت کے دور میں اسلئے اہلبیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے معاملات میں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا۔


*حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی  نماز جنازہ*  

سیدہ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہی آپ کی نمازِ جنازہ کی امامت کی اور سیدنا علی المرتضیٰ اور حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما سمیت کثیر صحابہ کرام جنازہ میں شریک ہوئے۔

(صحیح بخاری)

“کنزالعمل“ میں امام جعفر صادق اپنے والد محترم امام محمد باقر سے روایت کرتے ہیں کہ،

“سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جنازگاہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نماز جنازہ پڑھانے کے لیے آگے تشریف لانے کا کہا۔ جس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ،

“آپ خلیفتہ الرسول ہیں ، میں آپ سے کسی صورت پیش قدمی نہیں کر سکتا“

پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز جنازہ پڑھائی۔

(کنزالعمل)

اس کے علاوہ اور بہت سی صحیح روایات محدثین سے ثابت ہیں جن کی اسناد صحیح اور موضوع حسنہ ہیں کہ سیدہ رضی اللہ عنھا کی نماز جنازہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ہی پڑھائی تھی۔

(کنزالعمل)

(البدایہ والنہائیہ حافظ ابن کثیر)

(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

(بیهقی، السنن الکبری)

اس ساری تحقیق کے باوجود یہ کہنا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے آخر وقت تک نہ ملی اور ناراض تھی بالکل صحیح نہیں بلکہ  مغالطہ ہے منگھڑت ہے اور معاذ اللہ بغض صحابہ رضی اللہ عنھم ہے۔

عام عوام کے ذہن میں کوئی خلش ہو تو وہ نکل جانی چاہئے اور یہ اہلسنت علماء کرام کے نزدیک ایسا ہی معاملہ ہے، البتہ اہلتشیع روائی بغض اور زبان درازی کے مظاہرے سے پرہیز کریں تو بہتر ہے.

"ورنہ ہمارے ذمے تو پہنچا دینا ہے اور بس"

فی ام

8۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فَدک کے مسئلے میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے بشری تقاضے کے مطابق ناراض ہوئی ہیں مگر مال و دولت کی وجہ سے ناراض ہونا ہمارے اہل بیت کی شان ہی نہیں ہے وہ تو جنت کے سردار تھے ان کو مال و دولت کی کوئی کمی نہیں تھی۔

9۔ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کی بیماری میں ان کی اجازت سے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے تیمارداری کی۔

امام بیہقی اس بابت رقمطراز ہیں: جب فاطمہ رضی اللہ عنہا بیمار ہوئیں تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ان کے گھر تشریف لائے اور عیادت کے لیے اجازت طلب کی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ سے پوچھا: فاطمہ! ابوبکر تشریف لائے ہیں آپ کی عیادت کی اجازت چاہتے ہیں۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا آپ ان سے ملاقات کی اجازت دیں گے؟ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں۔ پس سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور ان کو راضی کیا۔

روایات میں اس عیادت کا احوال یوں بیان ہوا ہے کہ: ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: میں نے اپنا گھر بار، اپنی جان و مال قبیلہ اور اپنی اولاد سب اللہ‘ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہلبیت کو راضی کرنے کے لیے قربان کر دی۔  حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے سیدہ الزھراء رضی اللہ عنہا کی رنجش دور کرنی چاہی تو وہ ان سے خوب راضی ہو گئیں اورفرمایا کہ پھر آپ نے رسول اللہ ﷺ سے جو کچھ سنا وہی عمل کریں اور اسی پر قائم رہیں

(بیهقی، السنن الکبری)

(مسند احمد بن حمبل)

(البدایہ والنہائیہ)

قانون: اجماع امت کے دور میں اسلئے اہلبیت اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے معاملات میں خاموش رہنے کا حکم دیا گیا۔

نماز جنازہ: سیدہ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ہی آپ کی نمازِ جنازہ کی امامت کی اور سیدنا علی المرتضیٰ اور حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما سمیت کثیر صحابہ کرام جنازہ میں شریک ہوئے۔

(صحیح بخاری)

“کنزالعمل“ میں امام جعفر صادق اپنے والد محترم امام محمد باقر سے روایت کرتے ہیں کہ،

“سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کی وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ جنازگاہ تشریف لائے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو نماز جنازہ پڑھانے کے لیے آگے تشریف لانے کا کہا۔ جس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ،

“آپ خلیفتہ الرسول ہیں ، میں آپ سے کسی صورت پیش قدمی نہیں کر سکتا“

پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آگے بڑھ کر نماز جنازہ پڑھائی۔

(کنزالعمل)

اس کے علاوہ اور بہت سی صحیح روایات محدثین سے ثابت ہیں جن کی اسناد صحیح اور موضوع حسنہ ہیں کہ سیدہ رضی اللہ عنھا کی نماز جنازہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ہی پڑھائی تھی۔

(کنزالعمل)

(البدایہ والنہائیہ حفیظ ابن کثیر)

(صحیح بخاری و صحیح مسلم)

(بیهقی، السنن الکبری)

اس ساری تحقیق کے باوجود یہ کہنا کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے آخر وقت تک نہ ملی اور ناراض تھی بالکل صحیح نہی مغالطہ ہے منگھڑت ہے اور معاذ اللہ بغض صحابہ رضی اللہ عنھم ہے۔

Share: