اسلامی نقطۂ نظر سے نومولود بچوں کے نام کیسے تجویز کریں؟


اسلام دین فطرت ہے جو انسانی زندگی کے تمام افعال واعمال اوراقوال واحوال پرمحیط ہے اورانسانی عظمت کا نقیب ہے اور زندگی کے ہر شعبہ میں اس کی صالحانہ رہنمائی موجود ہے

   دین اسلام میں اچھے دلکش اور با معنی ناموں کی حوصلہ افزائی کی گئی ھے اور ایسے ناموں سے منع کیاگیا ہے جو بھدے اور معنی ومفہوم کے اعتبار سے ناگوار ہوں۔نومولود بچوں کے اچھے  اور بامعنیٰ نام تجویزکرنے مہمل اور بے معنیٰ ناموں سے احتراز کرنے کے سلسلہ میں سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی متعدد احادیث میں سے چند حدیثیں ذیل میں درج کی جاتی ھیں:-

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

    ’’ باپ پر بچہ کا یہ بھی حق ہے کہ اس کا نام اچھا رکھے اوراس کو حسنِ ادب سے آراستہ کرے۔‘‘( البیہقی فی شعب الایمان)


      حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول نے ارشاد فرمایا :

    ’’ قیامت کے دن تم اپنے اوراپنے باپ کے ناموں سے پکارے جاؤگے لہٰذا اچھے نام رکھاکرو ۔‘‘( احمد، ابوداؤد) 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا :

    ’’  آدمی سب سے پہلے تحفہ اپنے بچہ کو نام کا دیتا ہے اس لئے چاہئے کہ اس کا نام اچھا رکھے۔‘‘(رواہ ابو الشیخ)۔

      

حضرت ابوہب جشمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

    ’’  انبیاء کے ناموں پراپنے نام رکھو اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہترین نام عبداللہ و عبدالرحمن ہیں اور سب ناموں سے سچے نام حارث وہمام ہیں اور سب سے بُرے نام حرب اورمُرہ ہیں۔‘‘(ابوداؤدومشکاۃ)۔

      

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اچھے نام سے محبت رکھتے تھے(زاد المعاد)۔

      

حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

    ’’  جب کسی کے یہاں بچہ پیدا ہوتو اس کا نام اچھا رکھے اور تعلیم وتربیت دے ،بالغ ہوجائے تو اس کی شادی کردے 

(مشکوة)

     

رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ان پاکیزہ تعلیمات وہدایات سے جس طرح بچوں کوحسن ادب سکھانے اور اچھی تربیت دینے کا سبق ملتا ہے اس کے ساتھ ہی بچوں کے اچھے نام تجویزکرنے کی اہمیت و نافعیت بھی بخوبی واضح ہوجاتی ہے۔نام تجویز کرنے کا مقصد محض تعین اورپہچان نہیںبلکہ مذہب کی شناخت اس سے وابستہ ہے۔دین کے لئے علامت اور شعار ہے فکر وعقیدہ کے اظہار کا ایک ذریعہ ہے اس لئے احادیث میں اس سلسلہ میں خصوصی ہدایات دی گئیں، اچھے دلکش اور با معنی ناموں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے اورایسے ناموں سے منع کیاگیا ہے جو بھدے اور معنی ومفہوم کے اعتبار سے ناگوار ہوں جن سے شرک کی بو آتی ہو۔

     اس وقت مسلم معاشرہ کی صورت حال زبوں تر ہے۔جدت پسندی کادور ہے۔ لوگ ایسے نئے نئے نام تجویز کرتے ہیں جو بے معنی اورمہمل ہوتے ہیں بلکہ ایسے نام نکلوانے کی فکر ہوتی ہے جومحلہ پڑوس اورآس پاس کے گاؤں دیہات اوراہل قرابت میں کسی کا نہ ہو بلکہ کئی مرتبہ ایسا ہوتا ہے کہ بعض لوگ ایسے ناموں کے معانی پوچھتے ہیں کہ لغتہً جن کا نہ کوئی مادہ ہوتا ہے اور نہ ماخذ اشتقاق۔ظاہر ہے کہ ایسے مہمل الفاظ کے معانی لغت میں کیسے مل پائیں گے۔

     بعض ناخواندہ لوگوں میں یہ رجحان بھی دیکھا گیا ہے کہ وہ نام قرآن سے تجویز کرنے کو خیروبرکت کا ذریعہ سمجھتے ہیں قطع نظر اس کے کہ معنی کیسے ہیں، چنانچہ ایک صاحب نے اپنی بچی کا نام رکھا ’’لِمَنْ تَشَآء‘‘ ۔دوسرے صاحب کے بارے میں پتہ چلا کہ انھوں نے اپنی بیٹی کو ’’وَرِیْشا‘‘ سے موسوم کیا۔

     ایک عورت جو ذرا قرآن کریم پڑھنا جانتی تھی ،اس کے یہاں یکے بعد دیگرے3 بیٹیاں پیداہوئیں۔ اس نے اپنے کو خواندہ سمجھتے ہوئے بچیوں کے نام تجویز کرنے کیلئے قرآن کریم سے ’’سورہ کوثر‘‘ کا انتخاب کیا چنانچہ بڑی بچی کا نام ’’کوثر‘‘ رکھا دوسری کا نام ’’وانحر‘‘ تجویز کیا، اور تیسری کا نام ’’ابتر‘‘ مقرر کیا۔ کوثر اور وانحر کے معنی تو بحیثیت نام کسی حد تک درست بھی ہیں لیکن آخری لفظ’’ ابتر‘‘ کے معنیٰ بہت بدتر کے ہیں جو کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ ایسے لوگوں کو بطور اصلاح کچھ کہاجائے تو کہتے ہیں کہ قرآن کریم سے رکھے ہوئے ناموں کو  کیوں تبدیل کریں  حالانکہ  قرآن کریم سے نام تجویز کرنے کی بات علی الاطلاق درست نہیں ہوسکتی اس لئے کہ قرآن کریم میں ’’حمار‘‘، ’’کلب‘‘، ’’خنزیر‘‘، ’’بقرہ‘‘، ’’فرعون‘‘، ’’ہامان‘‘، ’’قارون‘‘ وغیرہ کے الفاظ بھی آئے ہیں، تو ان کے طریق استدلال کے مطابق ان الفاظ کے ذریعہ بھی نام رکھنا صحیح ہونا چاہئے؟

   

     ’’سیدالانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اچھا نام تجویزکرنے کی ترغیب دی ہے۔ اسم کے اثرات مسمّیٰ میں منتقل ہونا بھی مسلم ہے، پھر عمدہ نام وہ ہے جس میں بندہ کے لئے بندہ ہونا ظاہر ہو۔اس کے بعد وہ نام جو انبیاء اور پیغمبروں کے ناموں پر ہوں، اس کے بعد ان ناموں کی اجازت ہے جس کے معنیٰ میں کوئی برائی اور شر نہ ہو۔ اس وقت جدت پسندی کا ایک مزاج اورایک روہے جس کے اثر سے چیدہ چیدہ افراد ہی محفوظ ہیں۔ قرآن کریم میں ’’منہم من قصصنا علیک‘‘ کے تحت بعض پیغمبروں کے اسماء ذکر کئے گئے ہیں۔ ان میں بھی بعض نام تو امت مسلمہ میں رائج ہیں اور بعض قلیل الاستعمال ہیں۔

     مثلاً آدم، ذوالکفل اور نوح،اور بعض بالکل متروک ہیں۔ مثلاً ہود، لوط، الیسع حالانکہ ان کے بابرکت ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔زبان پر ثقیل بھی نہیں، بہت ہلکے پھلکے ہیں، بس التفات نہیں۔

لوگ نئے نئے نام دریافت کرتے ہیں اوراس قسم کی باقاعدہ کتابیں بھی مرتب ہوتی رہتی ہیں جو مبارک نام اتنے قدیم ہوگئے ہوں، جن کی طرف سے التفات ہٹ چکا ہو توانہیں اگر دہرانا شروع کردیاجائے تو وہی رائج ہوجائیں گے‘‘۔

     بے معنی اور غیر اسلامی ناموں کو بدلنے انبیائے کرام اور صحابۂ عظام کے ناموں پر نام تجویز کرنے میں بہرحال حضرات اہل علم اور خدام ِ دین پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ مسلم معاشرہ میں جو غیراسلامی ناموں کا رواج ہوتا جارہا ہے اور دینی وعلمی مزاج ومذاق کے رسالہ سے نام رکھنے کے بجائے ناول اور افسانوں کی کتابوں سے نام رکھنے کارجحان بڑھ رہا ہے، اس پرہرصاحب علم اپنی حیثیت و صلاحیت کے موافق توجہ دے اور اسی پر زور دیا جائے کہ مسلمانوں میں انبیائے کرام علیہم السلام، صحابۂ عظام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین اورحضراتِ تابعین رحمہ اللہ، اہل علم وفضل کے ناموں کا سلسلہ بڑھے اورایک متروک سنت کا احیاء ہواوراحادیث میں جو اچھے دلکش اوربامعنی نام کی حوصلہ افزائی کی گئی اوراس کے متعلق جو خصوصی ہدایات دی گئی ہیں ان پر عمل کرنے کا جذبہ عوام الناس میں بیدار ہو جیساکہ ارشاد نبویؐ ہے : تم قیامت میں اپنے نام اوراپنے باپ کے نام سے پکارے جاؤگے لہٰذا تم بہتر نام رکھا کرو (ابوداؤد) ۔

    ظاہر ہے کہ میدانِ آخرت میں کوئی برے نام سے پکاراگیا تو اس بھرے مجمع میں بڑی رسوائی اور خفت ہوگی اس لئے وہ دن آنے سے پہلے ہی توجہ دی جائے اور نام کے انتخاب میں معنی ومفہوم کی ضرور رعایت رکھی جائے۔

     سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اچھا نام سن کر بہت خوش ہوتے اور خوشی سے چہرہ انور دمکنے لگتا تھا اور ناپسند نام سے چہرہ مبارک پر ناگواری کے آثار ظاہر ہوجاتے تھے، اگرچہ وہ کسی قبیلے، بستی یا شہرکا نام ہی کیوں نہ ہو، اسی لئے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ میں رونق افروز ہونے کے بعداس کا قدیم نام ’’یثرب‘‘ تبدیل کردیا اور ’’مدینہ‘‘ تجویز فرمایا۔

     حضرت بریدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جب کسی صحابی کو گورنربناکر کسی جگہ بھیجتے تو اس کا نام پوچھتے۔

     اگر پسندیدہ نام ہوتا تو خوش ہوتے اور ناپسندیدہ نام ہوتا تو ناگواری فرماتے اور اس کا اثر بھی چہرہ سے ظاہر ہوجاتا۔ ایسے ہی کسی بستی میں داخل ہوتے تواس بستی کا نام پوچھتے ۔اگر بہتر ہوتا تو خوش ہوتے اور خوشی کی کیفیت چہرۂ انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم  پرنمایاں ہوجاتی اوراگراچھا نہ ہوتا توناپسندیدگی کا اثر بھی چہرہ مبارک سے ظاھر ہوجاتا۔

     حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک صاحبزادی کا نام عاصیہ (نافرمان) تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کو بدل کر جمیلہ (خوبصورت) رکھ دیا (مسلم )

     اور بھی اس قسم کی بہت سی مثالیں اور واقعات احادیث میں آئے ہیں جن کی تفصیلات سے اہل علم واقف ہیں اور کتابوں میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔ اس تحریر کا مقصد دیندار اور علماء کے طبقہ کو خصوصاً اور عوام المسلمین کو عموماً اس جانب توجہ دلانا ہے کہ وہ اچھے اور صالح ناموں کا انتخاب کریںاور اپنے وابستہ حضرات کو بھی اس کی تلقین و ہدایت فرماتے رہیں۔

    اللہ تعالیٰ ہم سبکو اپنی مرضیات کی توفیق بخشے ۔آمین یا رب العالمین

Share: