ماہ محرم کی چند بدعات ورسومات


محرم اور یوم عاشوراء بہت ہی بابرکت اور مقدس مہینہ ہے لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اس باعظمت مہینہ میں زیادہ سے زیادہ عبادات میں مشغول ہوکر اللہ تعالیٰ کی خاص الخاص رحمت کا اپنے کو مستحق بنائیں مگر ہم نے اس مبارک مہینہ کو خصوصاً یوم عاشوراء کو طرح طرح کی خود تراشیدہ رسومات وبدعات کا مجموعہ بناکر اس کے تقدس کو اس طرح پامال کیا کہ “الامان والحفیظ” اس ماہ میں ہم نے اپنے کو چنددر چند خرافات کا پابند بناکر بجائے ثواب حاصل کرنے کے الٹا معصیت اور گناہ میں مبتلا ہونے کا سامان کرلیا ہے۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جس طرح اس ماہ میں عبادت کا ثواب زیادہ ہوجاتا ہے، اسی طرح اس ماہ کے اندر معصیات کے وبال وعقاب کے بڑھ جانے کا بھی اندیشہ ہے اس لیے ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ اس محترم مہینہ میں ہر قسم کی بدعات وخرافات سے احتراز کرے۔ ذیل میں مختصراً اس ماہ کی چند بدعات ورسومات کی نشاندہی کی جاتی ہے:-


(۱) *ماتم کی مجلس اور تعزیہ کے جلوس میں شرکت*

                عشرۂ محرم میں مسلمانوں کی کثیر تعداد ماتم کی مجلسوں میں، اسی طرح دسویں تاریخ کو تعزیہ کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے جمع ہوجاتی ہے، اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے حالانکہ اس کے اندر کئی گناہ ہیں:

                ایک گناہ تو اس میں یہ ہے کہ ان مجالس اور جلوس میں شرکت کرنے سے دشمنانِ صحابہ کی رونق بڑھتی ہے جبکہ صحابہ کے دشمنوں کی رونق بڑھانا حرام ہے، نبی کریم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”مَنْ کَثَّرَ سَوَادَ قَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ“ (کنزالعمال )

یعنی جس نے کسی قوم کی رونق بڑھائی وہ انھیں میں سے ہے۔

                دوسرا گناہ اس میں یہ ہے کہ جس طرح عبادت کا کرنا اور دیکھنا اور اس سے خوش ہونا باعثِ اجر وثواب ہے، اسی طرح گناہوں کے کاموں کو بخوشی دیکھنا بھی گناہ ہے، ظاہر ہے کہ ماتم کی مجلس میں جانا اور تعزیہ نکالنا یہ سب گناہ کے کام ہیں


                تیسرا گناہ یہ ہے کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوتی ہے، وہاں اللہ کا غضب نازل ہوتا ہے اور ایسی غضب والی جگہ پر جانا بھی گناہ سے خالی نہیں، غرضکہ ان مجلسوں اور جلوسوں سے بھی احتراز کرنا لازم ہے۔ (مستفاد احسن الفتاویٰ -خیرالفتاویٰ )


(۲) *دسویں محرم کی چھٹی کرنا*

                یوم عاشوراء کی چھٹی کرنے میں کئی قباحتیں ہیں، مثلاً: پہلی قباحت تو یہ ہے کہ اس دن چھٹی کرنا روافض اور اہلِ تشیع کا شعار ہے اور غیروں کے شعار سے اجتناب لازم ہے؛ کیونکہ حدیث میں ہے ”مَنْ تَشَبَّہَ بِقَوْمٍ فَہُوَ مِنْہُمْ“ (مشکوٰة شریف )

جس شخص نے کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے۔

                دوسری قباحت یہ ہے کہ اس دن چھٹی کرکے ہم لوگ بیکاری اور بے ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہیں؛ جبکہ اہلِ تشیع اپنے مذہب کے لیے بے پناہ مشقت اور سخت محنت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

                تیسری خرابی یہ ہے کہ چھٹی کرنے کی وجہ سے اکثر مسلمان تعزیہ کے جلوس میں چلے جاتے ہیں اور تعزیہ کے جلوس میں شرکت کی خرابیاں بتائی جاچکی ہیں۔


(۳) *دسویں محرم کو کھچڑا پکانا*

                بعض لوگ محرم کی دسویں تاریخ کو کھچڑا پکاتے ہیں، یہ بالکل ناجائز اور سخت گناہ ہے، البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ سیّدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خوشی میں خوارج دسویں محرم کو مختلف اناج ملاکر پکاتے تھے۔ ”فَکَانُوْا الٰی یَوْم عَاشُوْرَاءَ یَطْبَخُوْنَ الْحُبُوبَ“ (البدایہ والنہایہ ۸/۲۰۲، ۵۹۹ بیروتی) معلوم ہوا کہ اس دن کھچڑا پکانا رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے دشمنی رکھنے والوں کی ایجاد کردہ رسم ہے، اہل بیت سے الفت ومحبت رکھنے والوں کو اس رسم بعد سے بچنا نہایت ضروری ہے۔ (فتاویٰ رشیدیہ ۱۳۸، خیرالفتاویٰ ۱/۵۵۸، بحوالہ جامع الفتاویٰ ۲۰/۵۸۸)


(۴) *ایصال ثواب کے لیے کھانا پکانا*

                محرم کے مہینے میں خصوصاً نویں، دسویں، گیارہویں تاریخ میں بعض لوگ کھانا پکاکر حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی روح کو ایصالِ ثواب کرتے ہیں، یہ طریقہ بھی بالکل غلط اور کئی قباحتوں کا مجموعہ ہے۔

                (۱) جن ارواح کو ایصال ثواب کیا جاتا ہے اگر ان کو نفع ونقصان کا مالک سمجھا گیا اوران اکابرِ سلف کے نام سے وہ کھانا پکایاگیا تو یہ شرک ہے اورایسا کھانا ”مَا اُہِلَّ بِہ لِغَیْرِ اللّٰہِ“ میں داخل ہونے کی وجہ سے حرام ہے۔

                (۲) عموماً یہ خیال کیاجاتا ہے کہ جو چیز صدقہ دی جاتی ہے، میت کو بعینہ وہی ملتی ہے؛ حالانکہ یہ خیال بالکل باطل ہے، میت کو وہ چیز نہیں پہنچتی؛ بلکہ اس کا ثواب پہنچتا ہے۔

                (۳) ایصالِ ثواب میں اپنی طرف سے قیود لگالی ہیں یعنی صدقہ کی متعین صورت یعنی کھانا، مہینہ متعین، دن متعین؛ حالانکہ شریعت نے ان چیزوں کی تعیین نہیں فرمائی، جو چیز چاہیں جب چاہیں صدقہ کرسکتے ہیں، شریعت کی دی ہوئی آزادی پر اپنی طرف سے پابندیاں لگانا گناہ اور بدعت بلکہ  شریعت میں مداخلت ہے۔


(۵) *پانی یا شربت کی سبیل لگانا*

                بعض لوگ محرم کی دسویں تاریخ کو پانی کی یا شربت کی سبیل لگاتے ہیں اور راستوں وچوراہوں پر بیٹھ کر گزرنے والے کو وہ پانی یا شربت پلاتے ہیں تو اگرچہ پانی پلانا باعثِ ثواب اور نیکی کا کام ہے؛ لیکن یہ عمل بھی مندرجہ بالا پابندیوں کی وجہ سے بدعت اور قابلِ ترک ہے۔ (مستفاد: فتاویٰ رشیدیہ ۱۳۹، خیرالفتاویٰ ۱/۵۶۹، بحوالہ جامع الفتاویٰ ۲/۵۸۸)


(۶) *مٹھائی تقسیم کرنا*

                بعض جگہوں پر یہ بھی رواج ہے کہ دس محرم کو مٹھائی وغیرہ مسجد میں لاکر یا گھر میں ہی تقسیم کردیتے ہیں، یہ امر بھی معصیت اور خلافِ شریعت ہے۔ (مستفاد: فتاویٰ محمودیہ )


۷) *عید کی طرح زینت کرنا*

                بعض حضرات یومِ عاشورہ میں عید کی طرح زینت اختیار کرتے ہیں، یہ بھی بدعت ہے، اور بعض حضرات جواز کے قائل ہیں، اور تائید میں حدیث پیش کرتے ہیں؛ مگر جواز پر دلالت کرنے والی تمام احادیث موضوع ہیں۔ (فتاویٰ عبدالحئی ۵۰۹ بحوالہ جامع الفتاویٰ ۲/۵۸۹)


(۸) *محرم میں نکاح کرنا*

                اس سلسلے میں اصل گفتگو یہ ہے کہ یہ مہینہ معظم ومحترم ہے یا منحوس ہے؟ شیعہ حضرات اس ماہ کو منحوس سمجھتے ہیں اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ان کے نزدیک شہادت بہت بری اور منحوس چیز ہے اور چونکہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت اس میں ہوئی ہے اس لیے وہ لوگ اس میں کوئی تقریب اور خوشی کا کام شادی ونکاح وغیرہ نہیں کرتے۔

                اس کے برخلاف سنیوں کے نزدیک یہ مہینہ معظم ومحترم اور فضیلت والا ہے، محرم کے معنی ہی پُرعظمت اور مقدس کے ہیں،

                جب یہ بات ثابت ہوگئی کہ یہ مہینہ اور دن افضل ہے تو اس میں نیک اعمال بہت زیادہ کرنے چاہئیں، نکاح وغیرہ خوشی کی تقریبات بھی اس میں زیادہ کرنی چاہئیں، اس میں شادی کرنے سے برکت ہوگی۔ ان شاء اللہ۔ اس مہینے میں شادی کو منحوس سمجھنا شیعی ذہنیت ہے، جس سے پرہیز لازم ہے۔

                اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کا صحیح فہم عطا فرمائے، اور ہر قسم کے گناہوں اور معصیتوں سے محفوظ فرمائے اور اپنی اور اپنے حبیبِ پاک  صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت واطاعت کی دولتِ عظمیٰ سے نوازے۔ 

آمین  ثم آمین یا رب العالمین

Share: