اسلام آباد میں مندر کے لئے اجازت اور سرکاری زمین دینے کی شرعی حیثیت*


خبروں کے مطابق پاکستانی حکومت نےاسلام آباد میں ھندؤں کو نہ صرف مندر بنانے کی اجازت دے دی ھے بلکہ اس کے لئے سرکاری آراضی بھی فراھم کردی ھے اس پر  بہت سے لوگوں کا  اس قسم کا رد عمل  سامنے آ رھا ہے کہ کیا اسلام میں اقلیتیوں کے حقوق نہیں ہیں ؟ کیا اقلیتوں کو اپنی عبادت گاھیں بنانے کا حق نہیں ھے؟ وغیرہ


جامعہ بنوری ٹاؤن کراچی کا فتوی  جو نیچے موجود ہے جس میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ایسا شہر جہاں پرانے زمانہ کے مندر موجود ہوں یا ایسا شہر جو ہندووں کا تھا لیکن مسلمانوں نے اس پر قبضہ کیا ھو اور اب وہاں ہندو کافی تعداد میں موجود ہیں وہاں مندر بنائے جا سکتے ہیں اور پرانے مندروں کو بھی قائم رکھا جا سکتا ہے


جبکہ ایسا شہر جس کو بنایا اور آباد مسلمانوں نے ہی کیا ہو وہاں مندر نہیں بنایا جا سکتا اور اسلام آباد تو 1962 یا 64 میں پاکستانی حکومت نے خود بنایا اور آباد کیا ہے جبکہ پہلے یہاں پر جنگل تھا ۔ ظاھر ھے یہاں پر مندر کی تعمیر اسلامی اصولوں کے بالکل خلاف ہو گی۔


جبکہ دوسرا اسلامی اصول یہ ہے کہ اسلامی حکومت کبھی بھی کسی مندر ، گردوارہ یا کنیسہ کی زمین یا تعمیر کے لیے مدد نہیں کر سکتی کیونکہ ملک میں اکثریت مسلمانوں کی ہے اور ٹیکس کا پیسہ مسلمانوں کا ہے  جو  کہ  حکومت کے پاس ایک آمانت ھے اور  اسے مندر وں وغیرہ کی تعمیر پر خرچ نہیں کیا جا سکتا  کیونکہ جہاں پر بھی کسی عبادت گاہ کی تعمیر ہوگی تو اس مذہب کے ماننے والے اس کی زمین اور تعمیر کا خرچہ خود اٹھائیں گے ۔البتہ عمران خان  اگر اپنی ذاتی زمین دینا چاھیں اور اپنی جیب سے مندر بنوانا چاہیں  تو وہ اور بات ھے اس کے لئے علماء سے آجازت لے کر خوشی سے ایسا کرلیں کسی کو کوئی اعتراض نہیں ھوگا لیکن یہ اختیار عمران خان  اور اس کے ساتھیوں کو بالکل نہیں ھے کہ وہ قوم کی  زمین مندر کے لئے وقف کریں اور قوم کی آمانت کے پیسوں سے کافروں کی عبادت گاھیں بنوائیں


*دارالاسلام میں مندر اور کنیسہ کی تعمیر کا فتوی* 


*سوال*

*کیا دار الاسلام میں مندر و کنیسہ بنانا درست ہے؟  مدلل جواب عنایت فرمادیں!*


*جواب*

صورتِ  مسئولہ میں مندر و کنیسہ کی تعمیر کے سلسلہ میں فقہاء کی تحریرات کا خلاصہ یہ ہے کہ دار الاسلام میں تین قسم کے علاقے ہوتے ہیں:


1- ایک وہ شہر جسے مسلمانوں  ہی نےآباد کیا ہو، اس لیے وہاں مسلمان ہی قیام پذیر ہوئےہیں، وہاں غیرمسلموں کوعبادت گاہیں تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔


2- دوسرے جو علاقے مسلمانوں نے بزورِ طاقت فتح کیے ہوں اور وہ مسلمانوں میں تقسیم ہوگئے ہوں، اب وہ مسلمانوں ہی کا شہر بن گیا ہو، وہاں بھی غیر مسلموں کو نئی عبادت گاہیں تعمیر کرنا ممنوع ہوگا، لیکن اگر وہاں غیر مسلموں کی کافی آبادی ہوجائے اور ان کو وہاں کی شہریت (ذمہ)حاصل ہوجائے، تو پھر انہیں نئی عبادت گاہ بنانے سے روکا نہیں جائے گا۔


3- تیسرے وہ علاقے جو صلح کے ذریعے حاصل ہوئے ہوں،اور معاہدے کے تحت وہاں کی اراضی کو  قدیم آبادی کی ملکیت تسلیم  کیا گیا ہو۔ وہاں انہیں نئی عبادت گاہیں بنانے کا حق حاصل ہوگا۔نیز جو عبادت گاہیں پہلے سے موجود ہوں وہ نہ صرف باقی رہیں گی، بلکہ اگر وہ گرجائیں یا مرمت طلب ہوجائیں تو ان کے لیے دوبارہ ان کی تعمیر بھی جائز ہوگی۔


فتاوی شامی میں ہے :


"في الفتح: قيل: الأمصار ثلاثة: ما مصره المسلمون، كالكوفة والبصرة وبغداد وواسط، ولايجوز فيه إحداث ذلك إجماعاً، وما فتحه المسلمون عنوةً فهو كذلك، وما فتحوه صلحاً، فإن وقع على أن الأرض لهم جاز الإحداث، وإلا فلا إلا إذا شرطوا الإحداث اهـ ملخصاً". (4/203)


وفیہ ایضاً:


"فقد صرح في السیر  بأنه لو ظهر علی أرضهم وجعلهم ذمةً لایمنعون من إحداث کنیسةٍ؛ لأن المنع مختص بأمصار المسلمین  التي تقام فیها الجمع والحدود، فلو صارت مصراً للمسلمین منعوا من الإحداث". (ج:۴،ص:۲۰۳) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200381


دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی


*براہ مہربانی سوشل میڈیا پر یہ پوسٹ زیادہ سے زیادہ شئیر کریں*

Share: