جنازہ کے ساتھ جاتے ھوئے کلمہ طیبہ یا اور کوئی ذکر اونچی آواز سے پڑھنا


الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت یہ ہے کہ جب آپ جنازے کے ساتھ تشریف لے جاتے تو آپ سے نہ کلمہ طیبہ کا ورد سنا جاتا نہ قرآن مجید کی تلاوت اور نہ ہی کچھ اور۔ ہمارے علم کے مطابق تو یہ  ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے، جنازہ کے ساتھ اجتماعی طور پر کلمہ طیبہ پڑھنے کا حکم نہیں دیا بلکہ آپ سے تو یہ مروی ہے:


(لا تتبع الجنازه بصوت ولا نار) (سنن ابي داود‘ الجنائز‘ باب في اتباع الميت بالنار‘ ح: 3171)

"جنازہ کے ساتھ آواز بلند ہو نہ جنازہ کے ساتھ آگے کو لے جایا جائے۔"


قیس بن عباد فرماتے ہیں (جو اکابر تابعین اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اصحاب میں سے تھے) کہ "حضرت صحابہ کرام جنازے، ذکر اور جنگ کے وقت آواز پست رکھنا مستحب سمجھتے تھے۔"


شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جنازہ کے ساتھ آواز کو بلند کرنا خؤاہ وہ قراءت کی صورت میں ہو، ذکر کی صورت میں یا کسی اور صورت میں، مستحب نہیں ہے، ائمہ اربعہ کا بھی یہی مذہب ہے اور صحابہ و تابعین و سلف سے بھی یہی منقول ہے، کسی نے اس مسئلہ میں مخالفت بھی نہیں کی۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ حدیث و آثار کا علم جاننے والوں کو اس بات پر اتفاق ہے کہ خیر القرون میں اس کا کوئی رواج نہ تھا۔


اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ بلند آواز سے جنازوں کے ساتھ کلمہ طیبہ یا کلمہ شہادت پڑھنا ایک قبیح بدعت ہے، اسی طرح اس موقع پر لوگوں کا یہ کہنا کہ "بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھو یا اللہ کا ذکر کرو یا قصیدہ بردہ وغیرہ پڑھو، یہ سب بدعت ہے۔"

هذا ما عندي والله اعلم بالصواب


*On line Sawaal wa Jawaab

علمائے دیوبند

Share: