وَيَسـَٔلونَكَ عَن ذِى القَرنَينِ ۖ قُل سَأَتلوا عَلَيكُم مِنهُ ذِكرًا O
(سورة الكهف)
آپ سے یہ لوگ ذوالقرنین کا واقعہ دریافت کر رہے ہیں، آپ کہہ دیجئے کہ میں ان کا تھوڑا سا حال تمہیں پڑھ کر سناتا ہوں۔
قران پاک میں اللہ تعالی نے ان کا واقعہ مفصل بیان فرمایا ھے درآصل آیت کریمہ بالا میں قریشِ مکہ کے ایک سوال کا ذکر ہے جو انہوں نے نبی اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ سے ذوالقرنین کے بارے میں کیا تھا۔ حضرت ذوالقرنین کا قصہ اہل کتاب کے ہاں مشہور ومعروف تھا ۔ یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے عہد میں ایک نیک بادشاہ تھا۔ اور یہ بھی بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے آپ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف بھی کیا تھا۔ واللہ اعلم۔ (تفسیر طبری وابن کثیر )
اس نیک بادشاہ کو اللہ تعالیٰ نے زمین میں بڑی دسترس عطا فرمائی ھوئی تھی اور انہیں حکومت کے ایسے تمام اسباب عطا فرمائے تھے، جن کی وجہ سے وہ دشمنوں پر غلبہ و تسلط حاصل کرلیتے تھے، انہوں نے سفر کا ایک راستہ اختیار کیا، یعنی ایک ایسے راستہ کو اختیار کیا جو انہیں منزل مقصود تک پہنچا دے:چنانچہ قرآن پاک کی سورہ کہف میں ان کے سفر کی کیفیات بیان کی گئی ھیں
حَتّىٰ إِذا بَلَغَ مَغرِبَ الشَّمسِ وَجَدَها تَغرُبُ فى عَينٍ حَمِئَةٍ وَوَجَدَ عِندَها قَومًاO
یہاں تک کہ وہ سورج ڈوبنے کی جگہ پہنچ گیا اور اسے ایک دلدل کےچشمے میں غروب ہوتا ہوا پایا اور اس چشمے کے پاس ایک قوم کو بھی پایا ۔
انہوں نے اس قوم پر غلبہ و تسلط حاصل کرلیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے بارے میں اختیار دیتے ہوئے فرمایا:
قُلنا يـٰذَا القَرنَينِ إِمّا أَن تُعَذِّبَ وَإِمّا أَن تَتَّخِذَ فيهِم حُسنًا O
’ہم نے فرما دیا کہ اے ذوالقرنین! یا تو تو انہیں تکلیف پہنچائے یا ان کے بارے میں تو کوئی بہترین روش اختیار کرے۔
قالَ أَمّا مَن ظَلَمَ فَسَوفَ نُعَذِّبُهُ ثُمَّ يُرَدُّ إِلىٰ رَبِّهِ فَيُعَذِّبُهُ عَذابًا نُكرًا O
وَأَمّا مَن ءامَنَ وَعَمِلَ صـٰلِحًا فَلَهُ جَزاءً الحُسنىٰ ۖ وَسَنَقولُ لَهُ مِن أَمرِنا يُسرًا O
’’ اس نے کہا کہ جو ظلم کرے گا اسے تو ہم بھی اب سزا دیں گے، پھر وه اپنے پروردگار کی طرف لوٹایا جائے گا اور وه اسے سخت تر عذاب دے گا o
ہاں جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرے اس کے لئے تو بدلے میں بھلائی ہے اور ہم اسے اپنے کام میں بھی آسانی ہی کا حکم دیں گے o
پھر انہوں نے سورج کے طلوع ہونے کے مقام کی طرف رخ کیا:
حَتّىٰ إِذا بَلَغَ مَطلِعَ الشَّمسِ وَجَدَها تَطلُعُ عَلىٰ قَومٍ لَم نَجعَل لَهُم مِن دونِها سِترًا O
یہاں تک کہ جب سورج نکلنے کی جگہ تک پہنچا تو اسے ایک ایسی قوم پر نکلتا پایا کہ ان کے لئے ہم نے اس سے اور کوئی اوٹ نہیں بنائی۔
جن کے لیے ہم نے سورج کے اس طرف کوئی اوٹ نہیں بنائی تھی جو ان کے اور سورج کی گرمی کے مابین حائل ہوتی، یعنی وہاں نہ کوئی عمارت تھی اور نہ درخت، لہٰذا وہ لوگ دن کو غاروں اور کہووں میں رہتے اور رات کو باہر نکل کر رزق تلاش کرتے۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کے تمام احوال سے باخبر تھا، جو اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ علم و ہدایت کی روشنی میں چلتا تھا جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے
كَذٰلِكَ وَقَد أَحَطنا بِما لَدَيهِ خُبرًا O
’’ واقعہ ایسا ہی ہے اور ہم نے اس کے پاس کی کل خبروں کا احاطہ کر رکھا ہے۔‘‘
انہوں نے پھر ایک اور سفر اختیار کیا:
حَتّىٰ إِذا بَلَغَ بَينَ السَّدَّينِ وَجَدَ مِن دونِهِما قَومًا لا يَكادونَ يَفقَهونَ قَولًا O
یہاں تک کہ جب دو دیواروں کے درمیان پہنچا ان دونوں کے پرے اس نے ایک ایسی قوم پائی جو بات سمجھنے کے قریب بھی نہ تھی
اس لیے کہ وہ عجمی تھے، ان کی زبان ناقابل فہم تھی اور نہ وہ دوسروں کی زبان کو سمجھتے تھے لیکن انہوں نے اس نیک بادشاہ ذوالقرنین سے یہ شکایت کی کہ یاجوج اور ماجوج زمین میں فساد کرتے رہتے ہیں (اور یہ دونوں بنو آدم ہی میں سے دو امتیں ہیں، جیسا کہ صحیح حدیث سے ثابت ہے۔ )
(ابوداود الطیالسی ، والنھایہ فی الفتن والملاحم)
ان دونوں قوموں یعنی یاجوج اور ماجوج کے بارے میں کچھ اسرائیلی روایات بھی بیان کی جاتی ہیں جو کہ صحیح نہیں ہیں۔ صحیح بات یہی ہے کہ یاجوج اور ماجوج بنی آدم ہی میں سے ہیں اور بنی آدم (انسانوں) ہی کی شکل و صورت کے ہیں جیسا کہ صحیح حدیث میں ہے، رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا:
يَا آدَمُ فَيَقُولُ: لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ، قَالَ يَقُولُ: أَخْرِجْ بَعْثَ النَّارِ قَالَ: وَمَا بَعْثُ النَّارِ قَالَ: مِنْ كُلِّ أَلْفٍ تِسْعَمِائَةٍ وَتِسْعَةً وَتِسْعِينَ
(صحیح البخاری وصحيح مسلم )
اللہ تعالیٰ(قیامت کے دن ) فرمائے گا اے آدم ! حضرت آدم علیہ السلام عرض کریں گے کہ لبیک وسعدیک ‘اے اللہ! اور ہر قسم کی بھلائی تیرے ہاتھ میں ہے اللہ تعالیٰ فرمائے گا:’’(اپنی اولاد میں سے) جہنم کا حصہ نکالو۔‘‘ حضرت آدم علیہ السلام عرض کریں گے : اے اللہ ! جہنم کا حصہ کتنا ہے؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا:’’ ایک ہزار میں سے نو سو ننانوے جہنم کے لیے ہیں۔‘‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم پر یہ بات بہت گراں گزری تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ! ایک ہزار میں سے صرف ایک شخص جہنم رسید ہونے سے بچے گا؟ تو نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:
«لُوا وَأَبْشِرُوا، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ إِنَّكُمْ لَمَعَ خَلِيقَتَيْنِ مَا كَانَتَا مَعَ شَيْءٍ إِلَّا كَثَّرَتَاهُ: يَأْجُوجَ وَمَأْجُوجَ» (السنن الکبری للنسائی)
’’عمل کرو او رتمہیں بشارت ہو قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کی جان ہے کہ یقینا تمہارا مقابلہ دو ایسی جماعتوں سے ہوگا کہ وہ جس کسی کے ساتھ ہوں گی دوسروں کے مقابلے میں اس کی تعداد بڑھادیں گے۔ یعنی یاجوج اور ماجوج۔
یہ حدیث اس بات کی واضح اور صریح دلیل ہے کہ یاجوج اور ماجوج کا تعلق بنو آدم سے ہے۔ ان کی شکلیں اور صورتیں اور ان کے تمام حالات انسانوں جیسے ہیں، لیکن یہ ایسی قومیں ہیں کہ ان کی سرشت میں زمین میں فتنہ و فساد برپا کرنا، لوگوں کی مصلحت کے کاموں کو خراب کرنا اور انسانوں کو قتل کرنا ہے تو لوگوں نے ذوالقرنین سے کہا:
فَهَل نَجعَلُ لَكَ خَرجًا عَلىٰ أَن تَجعَلَ بَينَنا وَبَينَهُم سَدًّا O
اس شرط پر کہ آپ ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار بنادیں
تو انہوں نے انہیں بتایا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے انہیں ایسی بادشاہت اور دسترس عطا فرمائی ہے، جو اس مال سے بہتر ہے جو وہ اسے دینا چاہتے ہیں۔
قالَ ما مَكَّنّى فيهِ رَبّى خَيرٌ فَأَعينونى بِقُوَّةٍ أَجعَل بَينَكُم وَبَينَهُم رَدمًا O
’’ اس نے جواب دیا کہ میرے اختیار میں میرے پروردگار نے جو دے رکھا ہے وہی بہتر ہے، تم صرف قوت طاقت سے میری مدد کرو ۔‘‘
پھر ذوالقرنین نے ان سے لوہے کے تختے طلب کیے، انہیں ایک دوسرے کے اوپر رکھوا دیا حتیٰ کہ وہ دونوں پہاڑوں کی چوٹی تک پہنچ گئے۔
ءاتونى زُبَرَ الحَديدِ ۖ حَتّىٰ إِذا ساوىٰ بَينَ الصَّدَفَينِ قالَ انفُخوا
’’ میں تم میں اور ان میں مضبوط حجاب بنا دیتا ہوں۔ مجھے لوہے کی چادریں لا دو۔ یہاں تک کہ جب ان دونوں پہاڑوں کے درمیان دیوار برابر کر دی تو حکم دیا کہ آگ تیز جلاؤ تاوقتیکہ لوہے کی ان چادروں کو بالکل آگ کر دیا۔‘‘
یعنی جب لوہے کے ان تختوں پر آگ جلائی اور اسے دھونکا تو لوہے میں آگ بھڑک اٹھی تو پھر انہوں نے اس پر پگھلا ہوا تانبا ڈال دیا، جس کی وجہ سے لوہے کے یہ تختے آپس میں جڑ گئے اور اس طرح لوہے کی ایک مضبوط اور مستحکم دیوار بن گئی اور
فَمَا اسطـٰعوا أَن يَظهَروهُ وَمَا استَطـٰعوا لَهُ نَقبًا O
’’ پس نہ تو ان میں اس دیوار کے اوپر چڑھنے کی طاقت تھی اور نہ ھی ان میں کوئی سوراخ کر سکتے تھے۔‘‘
اس طرح ان لوگوں اور یاجوج اور ماجوج کے درمیان یہ دیوار حائل ہوگئی۔ جب ذوالقرنین دیوار کی تعمیر سے فارغ ہوئے، تو بولے’’ یہ میرے ربّ کی رحمت ہے( کہ اُس نے ایسی دیوار بنانے کی توفیق دی) پھر میرے ربّ نے جس وقت کا وعدہ کیا ہے، جب وہ وقت آئے گا، تو وہ اس( دیوار) کو ڈھا کر زمین کے برابر کردے گا اور میرے ربّ کا وعدہ بالکل سچّا ہے
قَالَ هٰذَا رَحْـمَةٌ مِّنْ رَّبِّىْ ۖ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ رَبِّىْ جَعَلَـهٝ دَكَّـآءَ ۖ وَكَانَ وَعْدُ رَبِّىْ حَقًّا (98)
کہا یہ میرے رب کی رحمت ہے، پھر جب میرے رب کا وعدہ آئے گا تو اسے ریزہ ریزہ کر دے گا، اور میرے رب کا وعدہ سچا ہے
ذوالقرنین کا یہ قصہ مشہور و معروف ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے سورۂ کہف میں ذکر فرمایا ہے۔ “یاجوج و ماجوج‘‘ دو قومیں ھیں یہ یافث بن نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔ ذوالقرنین بادشاہ نے ان کے راستے کو جو دو پہاڑوں کے درے میں تھا، ایک آہنی دیوار سے مستحکم بند کردیا تھا ، قربِ قیامت میں وہ دیوار ٹوٹ جائے گی اور یہ غارت گر قوم دنیا میں پھیل جائے گی، کوئی ان سے مقابلہ نہ کر سکے گا، آخر آسمانی وبا سے یاجوج و ماجوج خود بخود مرجائیں گے۔
یاجوج و ماجوج کا آخری زمانے میں نکلنا علمِ الٰہی میں طے شدہ ہے اور یہ کہ ان کا خروج قیامت کی نشانی کے طور پر قربِ قیامت میں ہوگا۔ اسی بنا پر حدیثِ نبوی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ میں ان کے خروج کو قیامت کی علاماتِ کبریٰ میں شمار کیا گیا ہے، اور بہت سی احادیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ان کا خروج سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد کے زمانے میں ہوگا۔
یاجوج و ماجوج حضرت ذوالقرنین کی بنائی گئی دیوار کے پیچھے قید ہیں جو قرب قیامت کے وقت ظاہر ہوں گے اور زمین پر خوب فتنہ پھیلائیں گے۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ یاجوج و ماجوج اس دیوار کو روزانہ گرانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ناکام ہوجاتے ہیں، جب اللہ کی رضا ہوگی تو دیوار کی کھدائی کرنے والوں میں سے ایک کہے گا کہ کل ہم ان شاء اللہ اس کو توڑ دیں گے، ان شاء اللہ کہنے سے اگلے روز بحکمِ رب تعالی یہ دیوار ٹوٹ جائے گی۔ یاجوج و ماجوج زمین پر پھیلتے چلے جائیں گے ۔جہاں سے گزریں گے تباہی پھیلائیں گے ۔مخلوق خدا کو اپنے شروفساد کا نشانہ بنائیں گے ۔ان کا ایک گروہ جب بھاگتا ہوا جھیل ” طبریہ ” سے گزرے گا تو صحیح مسلم کے مطابق وہ جھیل کا سارا پانی پی جائیں گے۔ جب ان کا آخری گروہ وہاں پہنچے گا تو کہے گا کبھی یہاں پانی ہوا کرتا ھو گا ۔ بحر طبریہ اسرائیل میں تازہ پانی کی سب سے بڑی جھیل ہے ۔ اس کا ذکر تورات وانجیل میں بھی آیا ہے۔