حفظِ قرآن پاک کے لئے ایک مسنون عمل


جب کوئی شخص قرآن کریم کو حفظ کرنا شروع کرتا ھے تو عموماً یہ شکایت سامنے اتی ھے کہ سبق یاد کرنے میں میں دشواری کا سامنا ھے اور پھر بغیر کسی وجہ کے اسے حافظہ کی کمزوری سے تعبیر کر دیا جاتا ھے اور بعض اوقات یہ احساس اتنا شدید ھوتا ھے کہ یہ شخص اپنے دل میں یہ فرض کر لیتا ھے کہ وہ قرآن پاک حفظ کر ھی نہیں سکتا حالانکہ حقیقت یہ نہیں ھوتی  ۔ یہاں پر شیطان لعین  بھی اپنا پورا زور لگا رھا ھوتا ھے کہ کسی نہ کسی طرح یہ شخص قرآن  پاک حفظ کرنا ترک کر دے اور بعض اوقات شیطان اپنے مقصد میں کامیاب بھی ھو جاتا ھے لیکن یہ بھی بالکل حقیقت ھے کہ جو کوئی بھی قرآن پاک کو حفظ کرنے کا سلسلہ جاری رکھتا ھے وہ ایک  نہ ایک دن ضرور حافظِ قرآن کا مقام حاصل کر لیتا ھے چاھیے اس کی یاد کرنے کی صلاحیت کتنی ھی کمزور کیوں نہ ھو ۔ حافظہ کی تیزی کے لئے بزرگوں کے بہت سے مجربات ھیں جن سے اس موقعہ پر فائدہ اُٹھایا جا سکتا ھے 

درآصل  حقیقت یہ ھے کہ حافظہ کی کمزوری کی ایک بڑی وجہ بلکہ سب سے بڑی وجہ گناھوں سے بچنے کی کوشش نہ کرنا ھے لھذا حافظہ میں تیزی  کا  زیادہ کردار اوراد و وظائف کی بجائے گناھوں سے اجتناب کا ھوتا ہے کیونکہ گناھوں سے حافظہ یقیناً کمزور ہوتا چلا جاتا ہے، خصوصاً قران کریم کاحافظ اگر گناھوں سے نہ بچتا ہو تو اُسے قرآن پاک بھی بھول جاتا ہے، اس لئے حفظ کرنے والے کو  اور حفظ کرنے کے بعد حافظِ قرآن کو ہر طرح کے گناہوں  سے بچنے کا اہتمام کرنا نہایت ضروری ہے۔ ایسا کرنے سے ان شاء اللہ اس کی قوتِ حافظہ برقرار رھے گی بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید مضبوط ھوتی رھے گی 

حفظ قران کے لئے رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا بتایا ھوا ایک مسنون عمل بھی حدیث کی کتابوں میں ملتا ہے جو حفظ کرنے اور حافظہ کی تیزی کے لئے انتہائی مؤثّر و مجرب ھے 

حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت میں حاضر تھا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم میرے ماں باپ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پرقربان ہوجائیں‘ قرآن پاک میرے سینے سے نکل جاتا ہے جو یاد کرتا ہوں وہ محفوظ نہیں رہتا۔ حضور اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ میں تجھے ایسی ترکیب بتلاؤں کہ جو تجھے نفع دے اور جس کو تو بتلادے اُس کیلئے بھی نافع ہو اور جو کچھ تو سیکھے وہ محفوظ رہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے دریافت کرنے پر حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ جب جمعہ کی شب آئے تو اگر یہ ہوسکتا ہو کہ رات کے آخر تہائی حصہ میں اُٹھے تو یہ بہت ہی اچھا ہے کہ یہ وقت ملائکہ کے نازل ہونے کا ہے اور دعا اس وقت میں خاص طور سے قبول ہوتی ہے۔ اسی وقت کے انتظارمیں حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا 

قَالَ سَوْفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّىْ ۖ اِنَّهٝ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْـمُ (98) 

کہا عنقریب اپنے رب سے تمہارے لیے معافی مانگوں گا، بے شک وہ غفور رحیم ہے۔

 ( یعنی جمعہ کی رات کے آخری حصہ میں) پس اگر اس وقت میں جاگنا دشوار ہو تو آدھی رات کے وقت اور یہ بھی نہ ہوسکے تو پھر شروع ہی رات میں کھڑا ہو اور چار رکعت نفل اس طرح پڑھے کہ 

پہلی رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ یٰسین شریف پڑھے 

دوسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ دخان

 اور تیسری رکعت میں سورۂ فاتحہ کے بعد سورۂ الم سجدہ کی تلاوت کرے

 (ترتیب قرآنی میں یہ سورت پہلی دونوں سورتوں سے مقدم ہے مگر اول تو نوافل میں فقہاء نے اس قسم کی گنجائش فرمائی ہے دوسرے نوافل کا ہر شفعہ مستقل نماز کا حکم رکھتا ہے اور اس شفعہ کی دونوں سورتیں آپس میں مرتب ہیں اس لیے کوئی کراہت نہیں۔ ) 

اور چوتھی رکعت میں سورہ فاتحہ کے بعد سورۂ ملک پڑھے

 اور جب التحیات سے فارغ ہوجائے تو اول حق تعالیٰ شانہٗ کی خوب حمدو ثناء کر اس کے بعد مجھ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پر درود سلام بھیج‘ اس کے بعد تمام انبیاء علیہم السلام پر درود بھیج اس کے بعد تمام مومنین کیلئے اور ان تمام مسلمان بھائیوں کیلئے جو تجھ سے پہلے مرچکے ہیں استغفار کر۔

حمد و ثناء، درود شریف اور تمام مومنین کیلئے دعا:

اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ عَدَدَ خَلْقِہٖ وَرِضَا نَفْسِہٖ وَزِنَۃَ عَرْشِہٖ وَمِدَادَ کَلِمٰتِہٖ اَللّٰھُمَّ لَا اُحْصِیْ ثَنَآئً عَلَیْکَ اَنْتَ کَمَا اَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَبَارِکْ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدِ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الْھَاشِمِیِّ وَعَلٰی اٰلِہٖ وَاَصْحَابِہِ الْبَرَرَۃِ الْکِرَامِ وَعَلٰی سَائِرِ الْاَنْبِیَآئِ وَالْمُرْسَلِیْنَ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ الْمُقَرَّبِیْنَ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَؤُوْفٌ رَّحِیْمٌ اَللّٰھُمَّ اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِجَمِیْعِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُسْلِمِیْنَ وَالْمُسْلِمَاتِ اِنَّکَ سَمِیْعٌ مُّجِیْبُ الدَّعَوَاتِ۔

حدیث مبارکہ کی دعا یہ ہے:

اَللّٰھُمَّ ارْحَمْنِیْ بِتَرْکِ الْمَعَاصِیْ اَبَدًا مَّا اَبْقَیْتَنِیْ وَارْحَمْنِیْ اَنْ اَتَکَلَّفَ مَالاَ یَعْنِیْنِیْ وَارْزُقْنِیْ حُسْنَ النَّظَرِ فِیْمَا یُرْضِیْکَ عَنِّیْ اَللّٰھُمَّ بَدِیْعَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ وَالْعِزَّۃِ الَّتِیْ لَاتُرَامُ اَسْئَلُکَ یَااَللہُ یَارَحْمٰنُ بِجَلَالِکَ وَنُوْرِ وَجْھِکَ اَنْ تُلْزِمَ قَلْبِیْ حِفْظَ کِتَابِکَ کَمَا عَلَّمْتَنِیْ وَارْزُقْنِیْ اَنْ اَقْرَاَہٗ عَلَی النَّحْوِ الَّذِیْ یُرْضِیْکَ عَنِّیْ اَللّٰھُمَّ بَدِیْعَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ وَالْعِزَّۃِ الَّتِیْ لَاتُرَامُ اَسْئَلُکَ یَااَللہُ یَارَحْمٰنُ بِجَلَالِکَ وَنُوْرِ وَجْھِکَ اَنْ تُنَوِّرَ بِکِتَابِکَ بَصَرِیْ وَاَنْ تُطْلِقَ بِہٖ لِسَانِیْ وَاَنْ تُفَرِّجَ بِہٖ عَنْ قَلْبِیْ وَاَنْ تَشْرَحَ بِہٖ صَدْرِیْ وَاَنْ تَغْسِلَ بِہٖ بَدَنِیْ فَاِنَّہٗ لَایُعِیْنُنِیْ عَلَی الْحَقِّ غَیْرُکَ وَلَایُؤْتِیْہِ اِلَّآ اَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَاقُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ الْعَلِیِّ الْعَظِیْمِ۔

پھر حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشادفرمایا کہ اے علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ) اس عمل کو تین جمعہ یا پانچ جمعہ یا سات جمعہ کر‘ انشاء اللہ دعا ضرور قبول کی جائے گی۔ 

قسم ہے اس ذات پاک کی جس نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے کسی مومن سے بھی قبولیتِ دعا نہ چوکے گی۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ علی کرم اللہ وجہہ کو پانچ یا سات ہی جمعہ گزرے ہوں گے کہ وہ حضور آکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مجلس میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یارسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم پہلے میں تقریباً چار آیتیں پڑھتا تھا اور وہ بھی مجھے یاد نہ ہوتی تھیں اور اب تقریباً چالیس آیتیں پڑھتاہوں اور ایسی ازبر ہوجاتی ہیں کہ گویا قرآن شریف میرے سامنے کھلا ہوا رکھا ہے اور پہلے میں حدیث سنتا تھا اور جب اس کو دوبارہ کہتا تھا تو ذہن میں نہیں رہتی تھی اور اب احادیث سنتا ہوں اور جب دوسروں سے نقل کرتا ہوں تو ایک لفظ بھی نہیں چھوٹتا۔

اس پر نبیٔ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: اے ابو الحسن! ربِ کعبہ کی قسم تم مومن ہو ۔

(ترمذی‘مستدرک حاکم)

جو حضرات اس عمل سے فائدہ اُٹھانا چاھتے ھوں اُنہیں چاھیے کہ سب سے پہلے درج بالا چاروں  سورتوں کو آچھی طرح یاد کر لیں پھر کسی بھی شبِ جمعہ (یعنی جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات کو ) یہ عمل شروع کر لیں ان شاء اللہ بہت مفید پائیں گے

Share: