نمازِ تہجد اور صلہ رحمی


سردی کے موسم میں دو خاص عبادتیں کر کے ہم اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرسکتے ہیں، ایک عبادت وہ ہے جس کا تعلق صرف اور صرف اللہ کی ذات سے ہے اور وہ رات کے آخری حصہ میں نماز تہجد کی ادائیگی ہے، جیسا کہ سردی کے موسم کے متعلق حدیث میں آتا ہے کہ سردی کا موسم مؤمن کے لئے موسم بہار  ہے، رات لمبی ہوتی ہے اس لئے وہ تہجد کی نماز پڑھتا ہے، دن چھوٹا ہونے کی وجہ سے روزہ رکھتا ہے، یقیناً سردی میں رات لمبی ہونے کی وجہ سے تہجد کی چند رکعات نماز پڑھنا ہمارے لئے آسان ہے، قرآن کریم میں فرض نماز کے بعد جس نماز کا ذکر تاکید کے ساتھ بار بار کیا گیا ہے وہ تہجد کی نماز ہی ہے جو تمام نوافل میں سب سے افضل نماز ہے، 

اللہ سبحان تعالیٰ کا فرمان ہے وہ لوگ راتوں کو اپنے بستروں سے اٹھ کر اپنے رب کو عذاب کے ڈر اور ثواب کی امید سے پکارتے رہتے ہیں (یعنی نماز ، ذکر اور دعا میں لگے رہتے ہیں) (سورہ السجدہ آیت نمبر 16)

اللہ سبحان تعالیٰ کا فرمان ہے یہ ان کی صفت اور عمل ہے لیکن جزا اور بدلہ عمل سے بہت زیادہ بڑا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کا جو سامان خزانہ غیب میں موجود ہے اس کی کسی شخص کو بھی خبر نہیں، یہ ان کو ان اعمال کا بدلہ ملے گا جو وہ کیا کرتے تھے، (سورہ السجدہ آیت نمبر 17)

اللہ سبحان تعالیٰ کا فرمان ہے (رحمن کے سچے بندے وہ ہیں) جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزار دیتے ہیں، (سورہ الفرقان 64)

اس کے بعد سورہ کے اختتام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہی لوگ ہیں جنہیں ان کے صبر کے بدلے جنت میں بالا خانے دئے جائیں گے، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز رات کی ہے یعنی تہجد (جو رات کے آخری حصہ میں ادا کی جاتی ہے) (مسلم شریف)

نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اے لوگو ! سلام کو پھیلاؤ ، لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور راتوں میں ایسے وقت نمازیں پڑھو جبکہ لوگ سورہے ہوں، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤ گے، (ترمذی شریف ؛ ابن ماجہ) 

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ رات کو قیام فرماتے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا، میں نے آپ ﷺ سے عرض کیا اے اللہ کے رسول ﷺ ! آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کردئے گئے ہیں (اگر ہوتے بھی)، پھر آپ ﷺ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کیا میں اپنے پروردگار کا شکر گزار بندہ نہ بنوں، (بخاری شریف)

سردی کے موسم میں دوسرا اہم کام جو ہمیں کرنا چاہئے وہ اللہ کے بندوں کی خدمت ہے اور اس کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ ہم غرباء و مساکین و یتیم و بیواؤں و ضرورت مندوں کو سردی سے بچنے کے لئے لحاف ، کمبل اور گرم کپڑے تقسیم کریں، رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا دونوں جنت میں اس طرح ہوں گے جیسے دو انگلیاں آپس میں ملی ہوئی ہوتی ہیں، (بخاری شریف)

رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا مسکین اور بیوہ عورت کی مدد کرنے والا اللہ تعالیٰ کے راستے میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے، (بخاری شریف ؛ مسلم شریف)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی مسلمان کو ضرورت کے وقت کپڑا پہنائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے سبز لباس پہنائے گا، جو شخص کسی مسلمان کو بھوک کی حالت میں کچھ کھلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کے پھل کھلائے گا، جو شخص کسی مسلمان کو پیاس کی حالت میں پانی پلائے گا، اللہ تعالیٰ اس کو جنت کی ایسی شراب پلائے گا، جس پر مہر لگی ہوئی ہوگی، (ابوداؤد شریف ؛ ترمذی شریف)

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا تمہیں اپنے کمزوروں کے طفیل سے رزق دیا جاتا ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے، (بخاری شریف)

غرضیکہ اس طرح ہم اپنے مال و دولت کی ایک خاص مقدار محتاج ، غریب ، مساکین اور یتیم و بیواؤں پر خرچ کرسکتے ہیں جو یقیناً ایک بڑا عمل ہے،

موت یقینی شے ہے موت کے فرشتہ کے آنے پر ہمارے گھر والے ، خاندان والے بلکہ پوری کائنات مل کر بھی ہمیں نہیں بچا سکتی،لہٰذا عقلمندی اور نیک بختی اسی میں ہے کہ ہم اس فانی دنیاوی زندگی کو اخروی و ابدی زندگی کو سامنے رکھ کر گزاریں جیسا کہ محسن انسانیت حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا دنیا میں اس طرح رہو جیسے مسافر ہو یا راستہ چلنے والا ہو، (بخاری شریف)

سردی کے موسم میں دیگر اعمال صالحہ کے ساتھ ان دو اعمال کا خاص اہتمام کریں، ایک حسب توفیق نماز تہجد کی ادائیگی اور دوسرے ضرورت مندوں کی مدد کرنا تاکہ غرباء و مساکین و یتیم و بیوائیں و ضرورت مند حضرات رات کے ان لمحات میں چین و سکون کی نیند سو سکیں جب پوری دنیا خرافات میں اربوں و کھربوں روپئے بلاوجہ خرچ کر رہی ہو تو پوری انسانیت کو یہ پیغام دیا جائے کہ غرباء و مساکین و یتیم و بیوائیں و ضرورت مند کا جتنا خیال اسلام میں رکھا گیا ہے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی، 

اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے ہی دنیا میں غربت کو ختم کیا جاسکتا ہے جو ہمیشہ فضول خرچی کی مذمت اور انسانوں کی مدد کی ترغیب دیتا ہے، یاد رکھیں کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے ہی دنیا سے سرمایہ داروں کی اجارہ داری ختم کی جاسکتی ہے،

Share: