مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ الاقدس کی سوشل میڈیا کے بارے میں اہم تحریر ۔*

 سوشل میڈیا، فتنہ الحاد، اور ہماری زمہ داری


ایک طویل مگر نہایت اہم تحریر جسے خود بھی پڑھیں اور شئیر بھی کری


ایک مسلمان کیلئے اولاد صرف ایک دنیوی نعمت ہی نہیں بلکہ آخرت کا سرمایہ اور بہترین صدقہ جاریہ ہے۔


بشرطیکہ کہ وہ صاحبِ ایمان ہو۔


سوشل میڈیا کے اس دور میں ایمان کے ڈاکو کس طرح خاموشی سے ہماری آئندہ نسلوں کو الحاد یا Athiesm (خدا کے وجود سے انکار) کی طرف دھکیل رہے ہیں، اس کی تفصیل اس تحریر میں پیش کی جائیگی۔


بظاہر پڑھائی اور اینٹرٹینمنٹ کیلئے اپنی ناسمجھ اولادوں کو اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ تک غیر محدود رسائی دینے والے والدین بالخصوص اس تحریر کو پڑھیں


ممکن ہے کہ خدا ناخواستہ آپکی اولاد اس فتنے کی زد میں آکر ایمان سے ہاتھ دھونے کے قریب ہو اور آپ بالکل لاعلم ہوں۔


کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پاکستان کے دیگر شہروں میں اس وقت ملحدین (خدا کے وجود سے انکاری) کی تعداد سوشل میڈیا کے ذریعے تیزی سے بڑھ رہی ہے


اور اسکا شکار عام مسلمان گھرانوں کے 15-20 سال کے بچے بچیاں ہو رہے ہیں.


اسکی ایک دو نہیں سینکڑوں مثالیں ہیں اور علماء کرام دن رات اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں


معاملہ یہ ہے کہ۔۔۔۔۔


سوشل میڈیا، بالخصوص فیس بک، انسٹاگرام، اور ٹویٹر پر ایسے سینکڑوں اکاؤنٹس ہیں جنکا کام دن رات سائنسی بنیادوں پر خدا کے وجود سے انکار، دین اسلام کے مختلف احکام کا مذاق اڑانا، حضور اقدسﷺ کی حیات طیبہ کے مختلف پہلوؤں پر اعتراض، اور علماء کی تضحیک ہے۔


ان میں سے اکثر کا تعلق یورپ اور امریکہ میں قائم مختلف این جی اوز سے ہے جنکا مقصد ہی یہ ہے۔


عام طور سے انکے نام اس انداز کے ہوتے ہیں


Ex-Muslims Together

Atheist Muslims

Muslims Liberated

Muslim Awakening

Islam Exposed


ان کے کارکنان اور انکی تعلیمات سے اتفاق رکھنے والے سینکڑوں لڑکے اور لڑکیاں (جو انہی ممالک میں مقیم اور جن میں سے اکثر دین سے مکمل ناآشنا اور مغربی تعلیمی نظام کی پیداوار ہیں) پاکستان، بنگلہ دیش، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب اور دیگر مسلمان ممالک کے نوجوانوں راغب کرنے میں مصروف رہتے ہیں


یہ بظاہر مسلمانوں کے نام سے اکاؤنٹس رکھتے ہیں مگر فکری طور پر ملحدین ہوتے ہیں


طریقہ واردات کچھ یوں ہوتا ہے کہ۔۔۔۔


- ابتداء اسلام پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاتا بلکہ مختلف اسلامی احکام کو سائنس اور لاجک کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔ جان بوجھ کر ایسے دینی موضوعات پر بات کی جاتی ہے جو سائنس سے بھی ثابت شدہ ہیں.


اس طرح یہ ذہن سازی کی جاتی ہے کہ احکام دین سب کے سب سائنس سے مطابقت رکھتے ہیں اور جس چیز کی تصدیق سائنس کردے وہ یقیناً حق ہے


- اسکے بعد ایسے موضوعات کو کریدا جاتا ہے جو سائنس سے بالاتر ہیں، مثلآ وجود خدا، وحی کا علم، واقعہ معراج، وغیرہ جنکا تعلق خالصتاً ایمان بالغیب سے ہے، جو یقیناً حق ہیں مگر سائنس کی دسترس سے باہر ہیں


مگر چونکہ ذہن سازی یہ کی گئی ہے کہ معیار حق سائنس ہے، چنانچہ ان کلیدی عقائد کو مشکوک کیا جاتا ہے


- اسکے بعد معاملہ آگے بڑھتا ہے۔۔۔۔

 اور بات حضور اقدسﷺ کی ذاتی زندگی پر آتی ہے


ان معاملات کو غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے جنکی وضاحت عام ذہنی سطح سے نسبتاً بلند ہو


مثلاً، غلامی کا فلسفہ، مرد عورت میں مساوات، حضور اقدسﷺ کی شادیاں اور باندیاں، تعدد ازدواج، سیدہ عائشہ صدیقہ رض کی بوقت نکاح عمر وغیرہ


ایک راسخ العقیدہ مسلمان کیلئے یہ معاملات واضح ہیں لیکن کچے ذہن کے مسلمان بچے بچیاں جو دین سے لاعلم اور مغربی طرز زندگی سے مرعوب ہیں انکے لئے یہ باتیں نہایت پریشان کن اور ناقابل فہم ہیں


اور چونکہ دین اور علمائے دین سے تعلق ہے نہیں اسلئے قابل تشفی جواب کا کوئی راستہ نہیں


نتیجتاً وہ گوگل اور انٹرنیٹ سے رہنمائی حاصل کرتے ہیں جہاں انہی ملحدین کی مختلف ویب سائٹس انکے شکوک کو یقین میں بدل دیتی ہیں


اس کے بعد ایمان تیزی سے رخصت ہوتا ہے


حج اور قربانی سے لیکر نکاح اور وراثت کے احکام تک اسلام کے ہر ہر حکم کو مغرب کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے اور بالآخر اسے ایک من گھڑت مذہب قرار دیکر خاموشی سے ترک کردیا جاتا ہے (العیاذ باللہ)


- کھلم کھلا اسلام کا مذاق اڑانا، حضورِ اقدسﷺ کی شان میں گستاخی اور خدا کے وجود سے انکار کا مرحلہ اسکے بعد آتا ہے


پھر یہ بچے بچیاں بھی خاموشی سے ایسی تنظیموں کے آلائے کار بن جاتے ہیں اور اپنے دوست احباب کو دین سے متنفر کرتے ہیں


یہ سب کچھ خاموشی سے ہمارے گرد بیٹھے 15-25 سال کے نوجوان Twitter، فیس بک وغیرہ پر کررہے ہیں


لیکن ہم بے خبر ہیں


سوال یہ ہے کہ اپنی اولاد کو اس سے کیسے بچایا جائے


اس سلسلے میں مندرجہ زیل امور کا خیال رکھیں


- اللہ تعالیٰ سے اپنے اور اپنی اولاد کیلئے سلامتی ایمان اور استقامت کی دعا کا اہتمام کریں


- خود بھی اور اولاد کو بھی وقتاً فوقتاً علماء کرام کی مجالس اور بزرگانِ دین کی صحبت میں لے جاتے رہیں تاکہ وہ ان سے مانوس ہوں اور اپنے معاملات میں ان سے رہنمائی حاصل کریں


- اولاد کو خود سے قریب کریں ،پیار دیں، انکے مسائل کو سنیں، سمجھیں اور حل کریں۔ ان سے اپنے معاملات میں مشورہ کریں، انکو اپنا رازدار بنائیں


اگر آپ انہیں دور رکھیں گے تو گمراہکن گروہ ان کو آسانی سے اپنے قریب کرلیں گے


- اپنے دین کو آہستہ آہستہ سیکھیں اور گھر میں اسکا تذکرہ رکھیں


- اگر بچے چھوٹے ہیں تو دنیوی تعلیم کے ساتھ انکی دینی تعلیم و تربیت کی بھی فکر کریں 

بغیر ضرورت شدیدہ بچوں کو اسمارٹ فون نہ دیں اور نہ خود رکھیں


- اگر دینا پڑے، تو شرائط کے ساتھ دیں، بے وقت استعمال پر پابندی رکھیں، رات کو تمام گھر کے فون اپنے کمرے میں جمع کوائیں، انکو اسکے صحیح استعمال کا طریقہ بتائیں


- بے وجہ سوشل میڈیا پر وقت گزارنے خود بھی بچیں اور اولاد کو بھی بچائیں


- بچوں کے سامنے ہر وقت فون استعمال کرنے سے گریز کریں


- کسی بھی شک یا وضاحت طلب معاملے میں انٹرنیٹ کی بجائے مستند علماء دین سے رہنمائی حاصل کریں


ایمان کو سلامتی کے ساتھ قبر میں لے جانا ایک مسلمان کی سب سے بڑی کامیابی ہے 


اپنی اولاد کو ایمان کے ڈاکوؤں سے بچائیں تاکہ ہماری آئیندہ نسلوں میں بھی دین باقی رہے


اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے، آمین۔

Share: