لِّلرِّجَالِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَـرَكَ الْوَالِـدَانِ وَالْاَقْرَبُوْنَۖ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيْبٌ مِّمَّا تَـرَكَ الْوَالِـدَانِ وَالْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ اَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيْبًا مَّفْرُوْضًا O
مردوں کا اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کا بھی اس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ دارو ں نے چھوڑا ہو اگرچہ تھوڑا ہو یا زیادہ، یہ حصہ مقرر ہے۔
دس بیٹوں کی پرورش کرکے ان کی شادی کردو تو اس پر بلاشبہہ اجر تو ہے لیکن جنت کا وعدہ ھرگز نہیں ہے , مگر بیٹی ایک ہو , دو ہوں یا تین ہوں اگر اُن کی پرورش میں کوئی کمی باقی نہ رکھی جائے , اُس کی وراثت کا پورا پورا خیال رکھا جائے , اور اِسلامی شریعت کے مُطابق اُس کو راضی کر کے اُس کی گھر سے ڈولی اُٹھا دی جائے تو میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ شخص جنت میں داخل ہوگیا اور وہ جنت میں میرے ساتھ یوں جُڑ جائے گا. ( آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو انگلیوں کو ایک ساتھ جوڑ کر دکھایا )
ہمارے ھاں آج کل ملک میں , معاشرے میں , خاندانوں / قبیلوں میں اکثر دیکھنے میں آتا ھے کہ بیٹیوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے وراثت سے محروم کرنے کی سو فیصد حرام کاروائیاں کی جاتی ھیں ان کے لئے کوئی وراثت نہیں , کوئی حصہ نہیں , کوئی جگہ نہیں , سب کچھ بھائی کھا اور ہڑپ کر جاتے ہیں , اور گاؤں وغیرہ میں تو یہ ظُلم اپنے عروج پر چلتا ہے , بہنوں اور بیٹیوں کے زبردستی یا دھوکہ سے دستخط /انگوٹھے لگواکر یا جعلی طریقوں سے زمینیں , ان کے حصے کے اموال سب کچھ نِگل جاتے ہے اگر وہ اپنا حق کا مطالبہ کرتی ھیں تو لڑائی جھگڑا کیا جاتا ھے انھیں مختلف طریقوں سے بلیک میل اور مطعون کرنے کی کوشش کی جاتی ھے اور صبر تو اُن بیچاریوں کا کہ وہ کچھ بولتی تک نہیں اور صبر و تحمل کا مُظاہرہ کرلیتی ہیں اور وہ معصوم کڑوا گھونٹ پی کر چلی جاتی ہیں.لیکن حقیقت یہ ھے کہ غصب کرنے والے بد قسمتوں کے لئے جھنم کی سٹیمپ لگا جاتی ھیں
بیٹیوں اور بہنوں کا حق ادا نہ کرنے والوں کے لئے قرآن پاک میں شدید وعید موجود ھے بیٹیوں اور بہنوں کا پورا پورا حق ادا کرو , نہیں تو اللہ کے ہاں سخت سزا کے حقدار بن جاؤ گے اگر دنیا میں اس کی سزا نہ بھی ملی تو آخرت میں تو یہ سزا ھر صورت مل کر رھے گی قرآن پاک میں اللہ پاک نے ان غاصبوں کے لئے جو جھنم کی سزا کی وعید سنائی ھوئی ھے وہ اس دن حرف بحرف پوری ھو کر رھے گی ایک ایک انچ زمین اور ایک ایک پیسے کا قیامت والے دن حساب دینا ھوگا کیونکہ میرے اللہ اور اُس کے محبوب پاک صلی اللہ علیہ آلہ وسلم نے بیٹیوں و بہنوں کے لیے وراثت رکھی ہے , ان کا حق رکھا ہے , وہ اپنا حق لینے کی حقدار ہیں. اس حق کی آدائیگی ھر صورت ضروری ھے معاف کروانے سے یہ حق قطعاً معاف نہیں ھوتا کیونکہ اسلام وراثت کی تقسیم کا حکم دیتا ھے نہ کہ معاف کروانے کا خود بہنوں/ بیٹیوں کو بھی معاف کرنے کا یہ اختیار نہیں بلکہ یہ جو مکاری کی جاتی ھے کی ماں یا باپ سب کچھ یا پھر وراثت کا کچھ حصہ بیٹوں کو دے گئے ھیں یہ بھی شریعت کے مطابق قابل قبول نہیں بلکہ ماں باپ کو بھی یہ اختیار نہیں ھے کہ وہ بیٹیوں کو ان کے حق سے محروم کریں اگر بالفرض انھوں نے اس طرح کیا بھی ھے تو بالکل غلط کیا ھے شریعت کے خلاف کیا ھے وہ اس کے لئے عنداللہ جواب دہ ھیں لیکن ایسا کرنے سے بھی بیٹیوں کا حصہ ساقط نہیں ھوا بلکہ وہ اپنے حصہ لینے کا پورا پورا حق رکھتی ھیں درآصل اس طرح کے مسائل ان لوگوں نے خود ھی گھڑ لیے ھوئے ھیں پیٹ کی پجاری مولوی بھی اس کی تائید کرکے اپنا انعام حاصل کرکے اس آگ کا کچھ حصہ اپنے پیٹوں میں ڈال لیتے ھیں بہرحال شرعاً نہ تو والدیں کو بیٹیوں کا حصہ ختم کرنے یا کم کرنے کا اختیار ھے نہ ھی بھائیوں کو معاف کروانے کا کوئی اختیار شریعت میں ھے اور نہ ھی بہنوں کو یہ اختیار شریعت دیتی ھے کہ وہ تقسیم سے پہلے اپنا حصہ معاف کریں بلکہ اسلامی آصول یہ ھے کہ پہلے شریعت کے مطابق تقسیم کے عمل سے گزریں ھر وارث کو ان کا حق پورا پورا ادا کر دیا جائے پھر ان کی مرضی کہ وہ اگر اپنی خوشی سے اپنا حق کسی کو بھی دینا چاھیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں سو جاننا چاھیے کہ یہ اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدیں ھیں جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ جنت کے باغوں میں داخل ھوگا اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرنانی کرے گا وہ دوزخ میں جائے گا اور اسے ذلت امیز عذاب ھوگا جیسا کہ قرآن مجید میں فرمانِ الہی ھے
تِلْكَ حُدُوْدُ اللّـٰهِ ۚ وَمَنْ يُّطِــعِ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ يُدْخِلْـهُ جَنَّاتٍ تَجْرِىْ مِنْ تَحْتِـهَا الْاَنْـهَارُ خَالِـدِيْنَ فِيْـهَا ۚ وَذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْـمُ O
یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلے (اللہ) اسے بہشتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں ہمیشہ رہیں گے، اور یہی بڑی کامیابی ہے۔
وَمَنْ يَّعْصِ اللّـٰهَ وَرَسُوْلَـهٝ وَيَتَعَدَّ حُدُوْدَهٝ يُدْخِلْـهُ نَارًا خَالِـدًا فِيْـهَا وَلَـهٝ عَذَابٌ مُّهِيْنٌ O
اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی حدوں سے نکل جائے (اللہ) اسے آگ میں ڈالے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلت کا عذاب ہے
اگر دیکھا جائے تو بہنوں/ بیٹیوں کو معاف کرنے کے لئے کہنا ھی سراسر ایک مردہ ضمیر ھونے کی علامت ھے درآصل معاف کروانے والا ایک طرح سے صریحاَّ بھیک ھی مانگ رھا ھے تو اس مردہ ضمیری سے تو بہتر یہ ھو گا کہ معاف کرنے کا کہنے والے یہ اخلاقی طور پر لولے اور لنگڑے مردہ ضمیر لوگ چادر بچھا کر کسی مسجد یا قبرستان کے سامنے بیٹھ جائیں تاکہ وھاں ان کی مدد ھو جائے
بہرحال قرآن و حدیث میں بہنوں/ بیٹیوں کے حصے صراحت کے ساتھ بیان کردیے گئے ھیں اس کے مطابق وراثت کی تقسیم ھر صورت ھونا ضروری ھے باقی سب خود ساختہ دلیلیں اور حیلے بہانے صرف اور صرف طرق باطلہ ھی ھیں
اللہ پاک ھر مسلمان کی حفاظت فرمائے
آمین یا رب العالمین