اسلامی تاریخ کا پہلا معرکہ - غزوۂ بدر

اسلامی تاریخ میں یومِ بدر جسے قرآن پاک نے “یوم الفرقان “ کا نام دیا ھے کو ھمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا رمضان المبارک کے مبارک اور مقدس مہینے میں 17رمضان المبارک، جمعۃ المبارک 2 ھجری کو بدر کے مقام پر حق و باطل میں فرق کرنے والا اسلامی تاریخ کا یہ پہلا معرکہ برپا ہوا یہ بلا شبہہ ایک ایسا معرکہ تھا جس نے نہ صرف اسلامی  تاریخ کو بلکہ دنیا کی تاریخ کے دھارے کو ھی بدل کر رکھ دیا۔ اگر کھبی بدر جانے کا اتفاق ہو تو اس میدان میں کھڑے ہو کر ذہن میں اس معرکہ کا نقشہ بنا کر دیکھیے تو چشمِ تصور میں ان نفوسِ قدسیہ کو مشرکین سے لڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ لڑائی کے مقام پر کھڑے ہو کر اگر یہ سوچا جائے کہ یہی وہ مقام ھے جہاں عتبہ، شیبہ اور ولید کھڑے ہوئے تھے  عتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہہ رہا تھا کہ ھمارے ہم پلہ، ہمارے رشتہ داروں کو ہمارے مقابلے کے لئے بھیجیں۔ ‘‘

    جب رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آتا ہے تو ایک مسلمان کا زھن خود بخود ان فتوحات اور کامیابیوں کی طرف مبذول ھو جاتا ہے جو اللہ تعالی کی مدد اور رحمت سے اس وقت رمضان المبارک میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی تھیں ۔

    بدر کا تاریخی قصبہ زمانۂ قدیم سے ھی اجناس کی منڈی چلا آ رہا تھا۔ قافلے شام کی طرف سے آتے اور واپس جاتے وقت یہاں رکتے اور  خرید و فروخت کیا کرتے تھے اس علاقے میں قبیلہ جہینہ اور غفار صدیوں سے آباد تھے قریشِ مکہ کی بنو غفار سے بڑی پرانی رشتہ داری چلی آ رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب قریش کے لشکر نے بدر کے میدان میں پڑاو  ڈالا تو بنو غفار نے ان کے لئے10 اونٹ بطور ہدیہ پیش کیے۔یہ گویا اس پورے لشکر کا ایک دن کا کھانا تھا۔ ابوجہل نے اس ہدیہ کو قبول کرتے ہوئے کہا:

    بنو غفار نے رشتہ داری کا حق ادا کر دیا ہے۔

  ادھر مسلمان کا حال یہ تھا کہ یہ مکہ مکرمہ سے لٹے پٹے آئے تھے۔ وہ اپنی دولت، کاروبار، زمینیں، مکانات، گھر کے تمام اثاثے سمیت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف اپنا دین بچا کر خالی ہاتھ مدینہ طیبہ آئے تھے۔ مہاجرین کو شروع شروع میں جس فقرو فاقہ سے واسطہ پڑا اس کی تفصیل حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ھے تو ایک طرف مسلمان فاقہ کشی کی زندگی گزار رہے تھے ، دوسری طرف قریش کا تجارتی قافلہ ابو سفیان کی قیادت میں شام سے مکہ واپس جا رہا تھا۔ ایک ہزار اونٹوں پر مشتمل قافلے پر جو سامان لدا ہوا تھا اس کی مالیت دو سو باسٹھ( 262 کیلو) سونے کی قیمت کے برابر بنتی تھی  اتنے قیمتی تجارتی اثاثے کی حفاظت کے لئے قافلے میں صرف40 افراد  موجود تھے۔

    اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم اپنے صحابہ کے ہمراہ اس قافلہ کو روکنے کے لئے نکلے۔ اگر یہ مال مسلمانوں کو مل جاتا تو جہاں مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہتر ہوتی وہیں یہ چیز اہل مکہ کے لئے بڑی زبردست فوجی، سیاسی اور اقتصادی چوٹ کی حیثیت رکھتی تھی مگر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ کفر کے بڑے بڑے سرغنوں کا قلع قمع کردیا جائے تاکہ اسلام کی دعوت پھیلانے میں مسلمانوں کو آسانی ہو۔

    اس غزوہ کے لئے تمام صحابہ کرام کی شرکت لازمی نہ تھی کیونکہ مقابلہ کسی بڑے دشمن کے ساتھ نہ تھا۔

    اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  نے  ارشاد فرمایا کہ :

      ’قریش کا یہ قافلہ ان کے اموال کے ساتھ آ رہا ہے، اس کی طرف نکلو۔‘‘

    313  جاں نثار آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  کے ساتھ بدر کی طرف روانہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  نے مدینہ منورہ پر اپنا قائم مقام سیدنا ابو لبابہ بن عبدالمنذرؓ کو مقرر فرمایااور بدر کی طرف روانہ ہوئے۔ بدر کا مقام مدینہ طیبہ سے کوئی بہت زیادہ دور نہیں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  سے روانہ ہونے لگے تو آپ کے آگے آگے کالے رنگ کے جھنڈوں کو پکڑے ہوئے 2شہسوار چل رہے تھےان میں سے ایک تو سیدنا علی بن ابی طالب ؓاور دوسرے سیدنا سعد بن معاذ ؓتھے جو انصار کے قبیلہ خزرج کے سردار تھے۔

   اس لشکر میں صرف2 مجاہد ایسے تھے جن کے پاس گھوڑے تھے۔ ان میں سے ایک تو آپکے پھوپھی زاد بھائی سیدنا زبیر بن عوامؓ اور دوسرے سیدنا مقداد بن اسود کندیؓ تھے یمن سے تعلق رکھنے والے مقدادؓ  کی شادی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  نے اپنی چچا زاد ضباعہ بنت زبیر بن عبد المطلب سے کی ہوئی تھی۔

    ابو سفیان عرب کا مانا ہوا ذہین اور دور اندیش شخص تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ جب لشکر مدینہ کے قرب و جوار سے گزرے گا تو اس پر حملہ ہو سکتا ہے اس لئے اس نے ساحل سمندر والا راستہ اختیار کیا اور خود بھی علاقے کے لوگوں سے تازہ ترین خبریں معلوم کرتا رہا کہ کہیں اس کے قافلہ پر حملہ نہ ہو جائے۔ابو سفیان کو علم ہو چکا تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  قافلے کا پیچھا کرنے کے لئے مدینہ شریف سے نکل پڑے ہیں تو اس نے فوراً بنو غفار کے ایک شخص کو سونے کا ایک ٹکڑا بطور معاوضہ دے کر اہل مکہ کی طرف بھیجا اورکہا: انہیں پیغام دو کہ قافلہ کو بچانے کے لئے فوراً پہنچ جائیں۔ مکہ میں یہ اطلاع ملتے ہی کہرام مچ گیا۔ ہر وہ شخص جو تلوار چلا سکتا تھا ،وہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو گیا ابولہب اور چند بیماروں یا بوڑھوں کے سوا سارے ہی لوگ بدر کی طرف روانہ ہوگئے امیہ بن خلف کا جنگ میں شرکت کا قطعاً ارادہ نہ تھا۔ بھاری بھرکم جسم کا مالک یہ کافر سیدنا بلال کا آقا تھا۔ یہ نہایت دولت مندمگر بہت ہی بزدل بھی تھا مگر ابوجہل نے چکنی چپڑی باتوں میں لگا کر اسے بھی تیار کر لیا۔

    قریش بدر کی طرف روانہ ہوئے تو ان کے ساتھ ناچنے گانے والی عورتیں اور موسیقی کے آلات بھی تھے وہ طبلے بجاتے‘ خوشی کے گیت گاتے بدر کی طرف جا رہے تھے لشکر کو کھانا کھلانے کے لئے مختلف سردار 10،10 اونٹ ذبح کر رہے تھے لشکر وادی عسفان اور قدیدسے گزر کر جحفہ پہنچا تو ابو سفیان کا نیا پیغام موصول ہوا:

    قافلہ بچ گیا ہے، آپ لوگ واپس جائیں۔

    ابوجہل بولا:

    اللہ کی قسم! ہم واپس نہیں جائیں گے۔ ہم بدر تک جائیں گے، وہاں اونٹ ذبح ہوں گے، لوگوں کو کھانا کھلائیں گے۔ رنڈیاں ناچیں گی اور گانے گائیں گی۔ اس طرح پورے عرب پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی۔

    یہ اطلاع ملنے کے بعد کہ قافلہ بچ گیا ہے، 300کی تعداد میں بنو زہرہ واپس چلے گئے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم    ننھیال تھے۔قریش کے لشکر کی تعداد اب ایک ہزار رہ گئی تھی قافلے والے بچ کرجا چکے تھے ادھر قریش بدر کی طرف آ رہے تھے وہ ہر حال میں لڑائی کرنا چاہتے تھے۔

    اللہ کے رسول

صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  

نے بدر کے مقام پر پہنچنے سے پہلے اعلیٰ کمان کا اجلاس طلب فرمایا سیدنا ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ، سیدنا مقداد بن اسودؓ، انصار کے سردار سعد بن معاذؓ  سبھی نے آپ  کا آخری حد تک ساتھ دینے کا عہد کیا۔مسلمانوں کی مالی حالت تو یہ تھی کہ

  ایک ایک اونٹ پر کئی کئی صحابی باری باری سوار ھوتے تھے۔ کتنے ہی پیدل تھے۔ مسلمانوں نے بدر کے میدان میں اپنا کیمپ لگایا تو ریت پر پائوں پھسل پھسل جاتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے رات کو بارش برسا دی ،یوں ریت جم گئی اور اس پر چلنا پھرنا آسان ہو گیا۔

    عتبہ بن ربیعہ ابو سفیان کا سسر اور ہندہ کا باپ تھا۔ یہ نہایت سمجھدار شخص تھااور بدر میں سرخ اونٹ پر سوار تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  نے اسے دیکھا تو ارشاد فرمایا:

     اگر اس قوم میں کسی کے پاس خیر ہے تو سرخ اونٹ والے کے پاس ہے۔ اس نے کوشش بھی کی کہ لشکر واپس چلا جائے اور لڑائی نہ ہو، مگر ابوجہل نے اسے بزدلی کا طعنہ دیا جس پر اسے مجبوراًخاموش ہونا پڑا۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ عتبہ کے بیٹے ابو حذیفہؓ  مسلمانوں کے کیمپ میں تھے۔ یہ صحابیٔ رسولؐ اور قدیم الاسلام تھے۔

    حضرت سعد بن معاذ ؓکے مشورہ پر ایک مرکزِ قیادت بنایا گیا میدان جنگ کے شمال مشرق میں اونچے ٹیلے پر ایک چھپر بنایا گیا جہاں سے پورا میدانِ جنگ نظر آتا تھا 

  یہاں اب ایک بڑی خوبصورت مسجد بنی ھوئی ھے۔

    اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  نے صف بندی فرمائی اور ارشاد فرمایا:

     ’’کل فلاں کافر کی قتل گاہ یہ ہوگی ،یہ فلاں کی قتل گاہ ہوگی۔ ‘‘

    صف بندی ہو رہی تھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  کے ہاتھ میں ایک تیر تھا جس سے آپ صفیں سیدھی کر رہے تھے سواد بن غزیہؓ کچھ آگے نکلے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  نے تیر ان کے پیٹ پر رکھ کرتھوڑا  سا دبایا اور فرمایا :

    ’’سواد برابر ہو جاؤ۔‘‘

     یہی وہ واقعہ تھا جس پر؟!سواد نے بدلہ طلب کیا تھا اور مہر نبوت کو بوسہ دیا تھا بدر کے میدان میں ایک چھوٹے سے مجاھد عمیر بن ابی وقاص کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا وہ ننھا سا مجاہد جو داد ِشجاعت دینے کے لئے مدینہ سے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاصؓ کے ساتھ آیا تھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  سے چھپتا پھر رہا تھا کہ کہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  اسے کمسن جان کر واپس نہ کر دیں۔

     میدان جنگ کے ایک طرف ان کے بڑے بھائی سعد بن ابی وقاصؓ نے اپنے پیارے بھائی کو اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ان کے گلے میں پٹا ڈالا، چھوٹی سی تلوار گلے میں لٹکائی اور یہ ننھا مجاہد بڑی سج دھج کے ساتھ کفر کا مقابلہ کرنے کیلئے نکلا اور داد شجاعت دی اور خلعت شہادت سے فیض یاب ہوا بدر کے میدان میں ایک یادگار بنی ہوئی ہے جس پر شہداء کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ سب سے اوپر جس شہید کا نام لکھا ہوا ہے وہ عمیر بن ابی وقاصؓہیں۔

    لڑائی شروع ہوئی ۔ کافروں نے یکبارگی حملہ کیا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم   اپنے ساتھیوں کو صبر کے ساتھ دشمن کا وار روکنے کا حکم دیا وہ ’’اَحَد، اَحَد‘‘ کا نعرہ لگا رہے تھے۔اُدھر مجاہد لڑ رہے تھے اِدھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  عریش میں تشریف لے جا کر اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوئے اور خوب گڑگڑا  کر دعائیں مانگیں 

:

     ’’اے اللہ! اگر آج یہ گروہ ہلاک ہو گیا تو (روئے زمین پر)تیری عبادت نہ کی جائے گی۔‘‘

     کائنات کے امام صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  اپنی امت کو درس اور سبق دے رہے ہیں کہ نہایت مشکل کے وقت صرف اکیلے رب کو پکارنا ہے، اسی سے مدد مانگنی ہے اس لئے کہ { وَمَنْ نَصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِاللّٰہِ}۔

     ’’مدد صرف اللہ کی طرف سے آتی ہے۔‘‘

     آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  دعائیں رو رو کر، خوب تضرع کے ساتھ کر رہے تھے چادرِ مبارک کندھے سے گر گئی تو حضرت ابوبکر صدیقؓ نے  بھی کمال محبت کا مظاہرہ کر کے چادر درست کر کے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  بس کر دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  نے نہایت الحاح و زاری کے ساتھ دعا مانگ لی ہے۔

    جنگ کی بھٹی گرم ہو چکی ہے۔ لڑائی اپنے عروج پر ہے۔ مسلمانوں کا پلہ بھاری جا رہا ہے۔ فرشتوں کی مدد آگئی ہے۔ میں نے دور پہاڑ کی وادی میں ان کو دیکھا ھے( وہ درہ سامنے تھا جہاں سے روایات کے مطابق فرشتے نازل ہوئے تھے) اللہ چاہتا تو ایک فرشتے کے ذریعے بھی کفر کو ختم کر سکتا تھامگر آج ان فرشتوں میں  سے ہر ایک کی طاقت ایک بہادر اور زور آور شخص کے برابر تھی۔

    اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  نے میدان جنگ میں سے مٹی کی ایک مٹھی اٹھالی اور’’چہرے بگڑ جائیں‘‘کہہ کراسے دشمن کی طرف پھینک دیا تھا معجزانہ طور پر یہ مٹی ہر مشرک کی آنکھوں میں پڑ گئی اور پھر اللہ کا ارشاد آگیا:

     ’’جب آپ نے مٹی پھینکی تو در حقیقت آپ نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھی۔‘‘

    یہ اللہ تعالیٰ اپنی قوت اور طاقت کابیان فرما رہے ہیں۔

    ڈھائی سے 3 گھنٹے کی جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا  مسلمان مشرکین کو دباتے ہوئے مکہ کی طرف دھکیل رہے تھے اس امت کا فرعون ابوجہل چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں واصلَِ جہنم ہوتا ہے۔ امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے کو سیدنا بلالؓ نے معرکہ سے کہیں دور اپنے انصاری ساتھیوں کے ساتھ مل کر قتل کر دیا تھا اسے سیدنا عبدالرحمن بن عوف کی مدد بھی کوئی فائدہ نہ پہنچا سکی، وہ تو اسے گرفتار کر چکے تھے، مگر کفر کا یہ سرغنہ اسی سزا کا حقدار تھا۔

    دشمن نے میدان چھوڑ کر بھاگنا شروع کر دیا مسلمان ان کو گرفتار کر رہے تھے یقینا وہ رسیاں ساتھ لے کر آئے تھے۔ 70 کفار قتل  ہوئے اور اتنی ہی تعداد کو گرفتار کیا گیا مسلمانوں کے 14شہداء میں 6 مہاجر اور8 انصاری صحابہ تھے۔

    شہداء میں ایک نام  ’’مہجع‘‘ بھی ہے۔ یہ سیدنا عمر فاروقؓ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ دنیا والے انہیں غلام سمجھتے تھے مگر مساوات کے حامی‘ عدل کے داعی اور اخوت کے بانی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں سید الشہداء کے لقب سے یاد کیا

Share: