سترہ رمضان المبارک - اسلامی تاریخ کا پہلا معرکہ - غزوۂ بدر

اسلامی تاریخ میں یومِ بدر جسے قرآن پاک نے “یوم الفرقان “ کا نام دیا ھے کو ھمیشہ سنہری حروف سے لکھا جائے گا رمضان المبارک کے مبارک اور مقدس مہینے میں 17رمضان المبارک، جمعۃ المبارک 2 ھجری کو بدر کے مقام پر حق و باطل میں فرق کرنے والا اسلامی تاریخ کا یہ پہلا معرکہ برپا ہوا یہ بلا شبہہ ایک ایسا معرکہ تھا جس نے نہ صرف اسلامی  تاریخ کو بلکہ دنیا کی تاریخ کے دھارے کو ھی بدل کر رکھ دیا۔

 اگر کھبی بدر جانے کا اتفاق ہو تو اس میدان میں کھڑے ہو کر ذہن میں اس معرکہ کا نقشہ بنا کر دیکھیے تو چشمِ تصور میں ان نفوسِ قدسیہ کو مشرکین سے لڑتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ لڑائی کے مقام پر کھڑے ہو کر اگر یہ سوچا جائے کہ یہی وہ مقام ھے جہاں عتبہ، شیبہ اور ولید کھڑے ہوئے تھے  عتبہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہہ رہا تھا کہ ھمارے ہم پلہ، ہمارے رشتہ داروں کو ہمارے مقابلے کے لئے بھیجیں۔ ‘‘    جب رمضان المبارک کا مقدس مہینہ آتا ہے تو ایک مسلمان کا  خیال خود بخود ان فتوحات اور کامیابیوں کی طرف مبذول ھو جاتا ہے جو اللہ تعالی کی مدد اور رحمت سے اس وقت رمضان المبارک میں مسلمانوں کو حاصل ہوئی تھیں ۔

    بدر کا تاریخی قصبہ زمانۂ قدیم سے ھی اجناس کی منڈی چلا آ رہا تھا۔ قافلے شام کی طرف سے آتے اور واپس جاتے وقت یہاں رکتے اور  خرید و فروخت کیا کرتے تھے اس علاقے میں قبیلہ جہینہ اور غفار صدیوں سے آباد تھے قریشِ مکہ کی بنو غفار سے بڑی پرانی رشتہ داری چلی آ رہی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب قریش کے لشکر نے بدر کے میدان میں پڑاو  ڈالا تو بنو غفار نے ان کے لئے10 اونٹ بطور ہدیہ پیش کیے۔یہ گویا اس پورے لشکر کا ایک دن کا کھانا تھا۔ ابوجہل نے اس ہدیہ کو قبول کرتے ہوئے کہا:    “ “ بنو غفار نے رشتہ داری کا حق ادا کر دیا ہے

  ادھر مسلمانوں  کا حال یہ تھا کہ یہ مکہ مکرمہ سے لٹے پٹے آئے تھے۔ وہ اپنی دولت، کاروبار، زمینیں، مکانات، گھر کے تمام اثاثے سمیت سب کچھ وہیں چھوڑ چھاڑ کر صرف اپنا دین بچا کر خالی ہاتھ مدینہ طیبہ آئے تھے۔ مہاجرین کو شروع شروع میں جس فقرو فاقہ سے واسطہ پڑا اس کی تفصیل آحادیث  اور تاریخ کی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ھے تو ایک طرف مسلمان فاقہ کشی کی زندگی گزار رہے تھے ، دوسری طرف قریش کا تجارتی قافلہ ابو سفیان( جو فتح مکہ کے موقعہ پر مسلمان ھوئے )کی قیادت میں شام سے مکہ واپس جا رہا تھا۔ ایک ہزار اونٹوں پر مشتمل قافلے پر جو سامان لدا ہوا تھا اس کی مالیت دو سو باسٹھ( 262 کیلو) سونے کی قیمت کے برابر بنتی تھی  اتنے قیمتی تجارتی اثاثے کی حفاظت کے لئے قافلے میں صرف چالیس افراد  موجود تھے۔

    اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم اپنے صحابہ کے ہمراہ اس قافلہ کو روکنے کے لئے نکلے۔ اگر یہ مال مسلمانوں کو مل جاتا تو جہاں مسلمانوں کی اقتصادی حالت بہتر ہوتی وہیں یہ چیز اہل مکہ کے لئے بڑی زبردست فوجی، سیاسی اور اقتصادی چوٹ کی حیثیت رکھتی تھی مگر اللہ تعالیٰ کو یہ منظور تھا کہ کفر کے بڑے بڑے سرغنوں کا قلع قمع کردیا جائے تاکہ اسلام کی دعوت پھیلانے میں مسلمانوں کو آسانی ہو۔    اس غزوہ کے لئے تمام صحابہ کرام کی شرکت لازمی نہ تھی کیونکہ مقابلہ کسی بڑے دشمن کے ساتھ نہ تھا۔    اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  نے  ارشاد فرمایا کہ :

      ’قریش کا یہ قافلہ ان کے اموال کے ساتھ آ رہا ہے، اس کی طرف نکلو۔‘‘

   تین سو تیرہ  جاں نثار  صحابہ کرام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  کے ساتھ بدر کی طرف روانہ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  نے مدینہ منورہ پر اپنا قائم مقام سیدنا ابو لبابہ بن عبدالمنذر رضی اللہ تعالی عنہ کو مقرر فرمایااور بدر کی طرف روانہ ہوئے۔ بدر کا مقام مدینہ طیبہ سے کوئی بہت زیادہ دور نہیں ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  سے روانہ ہونے لگے تو آپ کے آگے آگے کالے رنگ کے جھنڈوں کو پکڑے ہوئے دو شہسوار  چل رہے تھےان میں سے ایک تو سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ  اور دوسرے سیدنا سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ  تھے جو انصار کے قبیلہ خزرج کے سردار تھے۔

   اس لشکر میں صرف دو  مجاہد ایسے تھے جن کے پاس گھوڑے تھے۔ ان میں سے ایک تو آپکے پھوپھی زاد بھائی سیدنا زبیر بن عوام رضی اللہ تعالی عنہ اور دوسرے سیدنا مقداد بن اسود کندی رضی اللہ تعالی عنہ تھے  یمن سے تعلق رکھنے والے مقداد رضی اللہ تعالی عنہ کی شادی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  نے اپنی چچا زاد ضباعہ بنت زبیر رضی اللہ تعالی عنہا  سے کی ہوئی تھی۔

    ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ عرب کا مانا ہوا ذہین اور دور اندیش شخص تھا۔ اسے اندازہ تھا کہ جب لشکر مدینہ کے قرب و جوار سے گزرے گا تو اس پر حملہ ہو سکتا ہے اس لئے اس نے ساحل سمندر والا راستہ اختیار کیا اور خود بھی علاقے کے لوگوں سے تازہ ترین خبریں معلوم کرتا رہا کہ کہیں اس کے قافلہ پر حملہ نہ ہو جائے۔ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کو علم ہو چکا تھا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  قافلے کا پیچھا کرنے کے لئے مدینہ شریف سے نکل پڑے ہیں تو اس نے فوراً بنو غفار کے ایک شخص کو سونے کا ایک ٹکڑا بطور معاوضہ دے کر اہل مکہ کی طرف بھیجا اورکہا: انہیں پیغام دو کہ قافلہ کو بچانے کے لئے فوراً پہنچ جائیں۔ مکہ میں یہ اطلاع ملتے ہی کہرام مچ گیا۔ ہر وہ شخص جو تلوار چلا سکتا تھا ،وہ مسلمانوں کے خلاف لڑنے کیلئے تیار ہو گیا ابولہب اور چند بیماروں یا بوڑھوں کے سوا سارے ہی لوگ بدر کی طرف روانہ ہوگئے امیہ بن خلف کا جنگ میں شرکت کا قطعاً ارادہ نہ تھا۔ بھاری بھرکم جسم کا مالک یہ کافر سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ کا آقا تھا۔ یہ نہایت دولت مندمگر بہت ہی بزدل بھی تھا مگر ابوجہل نے چکنی چپڑی باتوں میں لگا کر اسے بھی تیار کر لیا۔

    قریش بدر کی طرف روانہ ہوئے تو ان کے ساتھ ناچنے گانے والی عورتیں اور موسیقی کے آلات بھی تھے وہ طبلے بجاتے‘ خوشی کے گیت گاتے بدر کی طرف جا رہے تھے لشکر کو کھانا کھلانے کے لئے مختلف سردار دس دس اونٹ ذبح کر رہے تھے لشکر وادی عسفان اور قدیدسے گزر کر جحفہ پہنچا تو ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کا نیا پیغام موصول ہوا:    قافلہ بچ گیا ہے، آپ لوگ واپس آ جائیں۔

“قریش اپنی قوت و جمعیت پر بہت مغرور تھے لیکن بنی کنانہ سے ان کی چھیڑ چھاڑ رہتی تھی۔ خطرہ یہ محسوس ہوا کہ کہیں بنی کنانہ کامیابی کے راستے میں آڑے نہ آ جائیں۔ فوراً ابلیس ان کی پیٹھ ٹھونکنے اور ہمت بڑھانے کے لیے کنانہ کے سردار سراقہ بن مالک کی صورت میں اپنی ذریت کی فوج لے کر نمودار ہوا اور ابوجہل وغیرہ کو اطمینان دلایا کہ ہم سب تمہاری امداد و حمایت پر ہیں۔ "کنانہ کی طرف سے بے فکر رہو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ جب بدر میں زور کارن پڑا اور شیطان کو جبرائیل وغیرہ فرشتے نظر آئے تو ابوجہل کے ہاتھ میں سے ہاتھ چھڑا کر الٹے پاؤں بھاگا۔ ابوجہل نے کہا، سراقہ! عین وقت پر دغا دے کر کہاں جاتے ہو، کہنے لگا میں تمہارے ساتھ نہیں رہ سکتا۔ مجھے وہ چیزیں دکھائی دے رہی ہیں۔ جو تم کو نظر نہیں آتیں (یعنی فرشتے) خدا کے (یعنی اس خدائی فوج کے) ڈر سے میرا دل بیٹھا جاتا ہے۔ اب ٹھہرنے کی ہمت نہیں۔ کہیں سخت عذابِ آفت میں نہ پکڑا جاؤں۔ قتادہ کہتے ہیں کہ ملعون نے جھوٹ بولا، اس کے دل میں خدا کا ڈر نہ تھا۔ ہاں وہ جانتا تھا کہ اب قریش کا لشکر ہلاکت میں گھر چکا ہے کوئی قوت بچا نہیں سکتی۔ یہ اس کی قدیم عادت ہے کہ اپنے متبعین کو دھوکہ دے کر اور ہلاکت میں پھنسا کر عین وقت پر کھسک جایا کرتا ھے “

بہرحال  ابوجہل بولا:    اللہ کی قسم! ہم واپس نہیں جائیں گے۔ ہم بدر تک جائیں گے، وہاں اونٹ ذبح ہوں گے، لوگوں کو کھانا کھلائیں گے۔ رنڈیاں ناچیں گی اور گانے گائیں گی۔ اس طرح پورے عرب پر ہماری دھاک بیٹھ جائے گی۔

    یہ اطلاع ملنے کے بعد کہ قافلہ بچ گیا ہے، تین سو کی  تعداد میں بنو زہرہ واپس چلے گئے۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم کے  ننھیال تھے۔قریش کے لشکر کی تعداد اب ایک ہزار رہ گئی تھی ۔ ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ  کے قافلے والے بچ کرجا چکے تھے ادھر قریش بدر کی طرف آ رہے تھے وہ ہر حال ھر صورت میں میں لڑائی کرنا چاہتے تھے۔

    اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم   نے بدر کے مقام پر پہنچنے سے پہلے اعلیٰ کمان کا اجلاس طلب فرمایا سیدنا ابوبکر صدیقؓ، عمر فاروقؓ، سیدنا مقداد بن اسودؓ، انصار کے سردار سعد بن معاذؓ  سبھی نے آپ  کا آخری حد تک ساتھ دینے کا عہد کیا۔مسلمانوں کی مالی حالت تو یہ تھی کہ  ایک ایک اونٹ پر کئی کئی صحابی باری باری سوار ھوتے تھے۔ کتنے ہی پیدل تھے۔ مسلمانوں نے بدر کے میدان میں اپنا کیمپ لگایا تو ریت پر پاؤں  پھسل پھسل جاتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے رات کو بارش برسا دی ،یوں ریت جم گئی اور اس پر چلنا پھرنا آسان ہو گیا۔

    عتبہ بن ربیعہ ابو سفیان رضی اللہ تعالی عنہ کا سسر اور ہندہ رضی اللہ تعالی عنہا کا باپ تھا۔ یہ نہایت سمجھدار شخص تھااور بدر میں سرخ اونٹ پر سوار تھا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  نے اسے دیکھا تو ارشاد فرمایا کہ  اگر اس قوم میں کسی کے پاس خیر ہے تو سرخ اونٹ والے کے پاس ہے۔ اس نے کوشش بھی کی کہ کفار کا لشکر واپس چلا جائے اور لڑائی نہ ہو، مگر ابوجہل نے اسے بزدلی کا طعنہ دیا جس پر اسے مجبوراًخاموش ہونا پڑا۔ یہ حسن اتفاق تھا کہ عتبہ کے بیٹے ابو حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ مسلمانوں کے کیمپ میں تھے۔ یہ صحابیٔ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور قدیم الاسلام تھے۔

    حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ تعالی عنہ کے مشورہ پر ایک مرکزِ قیادت بنایا گیا میدان جنگ کے شمال مشرق میں اونچے ٹیلے پر ایک چھپر بنایا گیا جہاں سے پورا میدانِ جنگ نظر آتا تھا  یہاں اب ایک بڑی خوبصورت مسجد بنی ھوئی ھے۔

    اللہ کے رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  نے صف بندی فرمائی اور ارشاد فرمایا:     ’’کل فلاں کافر کی قتل گاہ یہ ہوگی ،یہ فلاں کی قتل گاہ ہوگی۔ ‘‘

    صف بندی ہو رہی تھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  کے ہاتھ میں ایک تیر تھا جس سے آپ صفیں سیدھی کر رہے تھے سواد بن غزیہ رضی اللہ تعالی عنہ کچھ آگے نکلے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  نے تیر ان کے پیٹ پر رکھ کرتھوڑا  سا دبایا اور فرمایا :

    ’’سواد برابر ہو جاؤ۔‘‘

     یہی وہ واقعہ تھا جس پر سواد رضی اللہ تعالی عنہ نے بدلہ طلب کیا تھا اور مہر نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بوسہ دیا تھا بدر کے میدان میں ایک چھوٹے سے مجاھد عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا وہ ننھا سا مجاہد جو داد ِشجاعت دینے کے لئے مدینہ سے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ آیا تھا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  سے چھپتا پھر رہا تھا کہ کہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  اسے کمسن جان کر واپس نہ کر دیں۔

     میدان جنگ کے ایک طرف ان کے بڑے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے پیارے بھائی کو اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ان کے گلے میں پٹا ڈالا، چھوٹی سی تلوار گلے میں لٹکائی اور یہ ننھا مجاہد بڑی سج دھج کے ساتھ کفر کا مقابلہ کرنے کیلئے نکلا اور داد شجاعت دی اور خلعت شہادت سے فیض یاب ہوا بدر کے میدان میں ایک یادگار بنی ہوئی ہے جس پر شہداء کے نام لکھے ہوئے ہیں۔ سب سے اوپر جس شہید کا نام لکھا ہوا ہے وہ عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ ھیں  ۔

    لڑائی شروع ہوئی ۔ کافروں نے یکبارگی حملہ کیا ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم   اپنے ساتھیوں کو صبر کے ساتھ دشمن کا وار روکنے کا حکم دیا وہ ’’اَحَد، اَحَد‘‘ کا نعرہ لگا رہے تھے۔اُدھر مجاہد لڑ رہے تھے اِدھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  عریش میں تشریف لے جا کر اپنے رب کی بارگاہ میں سجدہ ریز ہوئے اور خوب گڑگڑا  کر دعائیں مانگیں 

:

     ’’اے اللہ! اگر آج یہ گروہ ہلاک ہو گیا تو (روئے زمین پر)تیری عبادت نہ کی جائے گی۔‘‘

     کائنات کے امام صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  اپنی امت کو درس اور سبق دے رہے ہیں کہ نہایت مشکل کے وقت صرف اکیلے رب کو پکارنا ہے، اسی سے مدد مانگنی ہے اس لئے کہ { وَمَنْ نَصْرُ إِلَّا مِنْ عِنْدِاللّٰہِ}۔

     ’’مدد صرف اللہ کی طرف سے آتی ہے۔‘‘

     آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  دعائیں رو رو کر، خوب تضرع کے ساتھ کر رہے تھے چادرِ مبارک کندھے سے گر گئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ  نے  بھی کمال محبت کا مظاہرہ کر کے چادر درست کر کے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  بس کر دیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  نے نہایت الحاح و زاری کے ساتھ دعا مانگ لی ہے۔

    جنگ کی بھٹی گرم ہو چکی ہے۔ لڑائی اپنے عروج پر ہے۔ مسلمانوں کا پلہ بھاری جا رہا ہے۔ فرشتوں کی مدد آگئی ہے۔ میں نے دور پہاڑ کی وادی میں ان کو دیکھا ھے( وہ درہ سامنے تھا جہاں سے روایات کے مطابق فرشتے نازل ہوئے تھے) اللہ چاہتا تو ایک فرشتے کے ذریعے بھی کفر کو ختم کر سکتا تھامگر آج ان فرشتوں میں  سے ہر ایک کی طاقت ایک بہادر اور زور آور شخص کے برابر تھی۔

    اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وصحبہ وسلم  نے میدان جنگ میں سے مٹی کی ایک مٹھی اٹھالی اور’’چہرے بگڑ جائیں‘‘کہہ کراسے دشمن کی طرف پھینک دیا تھا معجزانہ طور پر یہ مٹی ہر مشرک کی آنکھوں میں پڑ گئی اور پھر اللہ کا ارشاد آگیا:

     ’’جب آپ نے مٹی پھینکی تو در حقیقت آپ نے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی تھی۔‘‘

    یہ اللہ تعالیٰ اپنی قوت اور طاقت کابیان فرما رہے ہیں۔    ڈھائی سے تین  گھنٹے کی جنگ کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا  مسلمان مشرکین کو دباتے ہوئے مکہ کی طرف دھکیل رہے تھے اس امت کا فرعون ابوجہل چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھوں واصلَِ جہنم ہو گیا تھا  ۔ امیہ بن خلف اور اس کے بیٹے کو سیدنا بلال رضی اللہ تعالی عنہ نے معرکہ سے کہیں دور اپنے انصاری ساتھیوں کے ساتھ مل کر قتل کر دیا تھا اسے سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالی عنہ کی مدد بھی کوئی فائدہ نہ پہنچا سکی، وہ تو اسے گرفتار کر چکے تھے، مگر کفر کا یہ سرغنہ اسی سزا کا حقدار تھا۔

    دشمن نے میدان چھوڑ کر بھاگنا شروع کر دیا مسلمان ان کو گرفتار کر رہے تھے یقینا وہ رسیاں ساتھ لے کر آئے تھے۔ 70 کفار قتل  ہوئے اور اتنی ہی تعداد کو گرفتار کیا گیا مسلمانوں میں سے چودہ صحابہ کرام نے جامِ شہادت نوش فرمایا جن میں چھ  مہاجرین میں سے تھے اور آٹھ  انصاری صحابہ تھے۔

    شہداء میں ایک نام  ’’مہجع‘‘ رضی اللہ تعالی عنہ بھی ہے۔ یہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے آزاد کردہ غلام تھے۔ دنیا والے انہیں غلام سمجھتے تھے مگر مساوات کے حامی‘ عدل کے داعی اور اخوت کے بانی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں سید الشہداء کے لقب سے یاد فرمایا تھا ۔ 


غزوۂ بدر کے اسباب 

قریش مکہ اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و سلم کے سخت دشمن تھے مکے میں انہوں نے خدا کے سچے دین کو برباد کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی یہاں تک کہ مسلمانوں کو مجبوراً ہجرت کرکے مدینہ آنا پڑا ۔مدینہ میں اسلام تیزی سے پھیلنے لگا اور مسلمانوں کی چھوٹی سی باقاعدہ ریاست قائم ہو گی ۔یہ بات قریش کے لیے ناقابل برداشت تھی ۔وہ رات دن یہ منصوبے بنانے لگے کہ کسی طرح مدینہ کی اس نئی حکومت کا خاتمہ کردیا جائے مسلمانوں کو قریش کے ان ارادوں کا عالم تھا اس لئے انہوں نے یہود کے ساتھ دفاعی معاہدے بھی کر لیا تھے ۔مدینہ میں عبداللہ بن ابی نام کا ایک سردار تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے مدینہ کے لوگ اسے اپنا حکمران بنانے پر آمادہ تھے لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مدینہ کے بعد سب لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا حکمران مان لیا اس لئے مجبور عبداللہ بن ابی بظاہر مسلمان بن گیا لیکن دل میں مسلمانوں سے سخت بغض رکھتا تھا قریش مکہ نے اسے لکھا کہ : تم نے ہمارے آدمی کو اپنے یہاں پناہ دی ہے یا تو اسے قتل کردو یا اسے اپنے یہاں سے نکال دو ورنہ ہم مدینے پر حملہ کرکے تمہیں فنا کر دیں گے "

حضور آکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم ہو گیا تھا تو آپ نے عبداللہ بن ابی کو سمجھایا کہ اکثر اہل مدینہ مسلمان ہوچکے ہیں اس لئے تو اپنے بھائیوں بھتیجوں سے کیسے لڑو گے چنانچہ عبداللہ قریش کی خواہش پر عمل نہ کر سکا اس پر قریش مکہ کا غصہ اور بھی بڑھ گیا ۔ قریش مکہ کے تجارتی قافلے شام کو جاتے ہوئے مدینہ کے نواح سے گزرتے تھے مسلمان کو خدشہ تھا کہ کہیں یہ قافلے نقصان نہ پہنچائیں اس لئے مدینہ کے نواح میں رہنے والے قبائل سے معاہدے کیے تھے ۔

اسی اثناء میں مکہ کے ایک سردار کرز بن جابر فہری نے مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کیا اور مسلمانوں کے مویشی ہانگ کر لے گیا اسی دوران اطلاع مدینہ پہنچ گئی اور مسلمانوں نے تعاقب کرکے مویشی چھین لیے لیکن کرز بن جابر فہری بچ کر نکل گیا مسلمانوں نے قریش کے تجارتی قافلوں کی نقل و حرکت کا جائزہ لینا شروع کر دیا ۔رجب 2 ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن جحش کو 12 آدمیوں کی مختصر جماعت کے ساتھ قریش کے تجارتی قافلے کا سراغ لگانے بھیجا ۔اتفاق سے وہ قریش کی ایک چھوٹی سی جماعت سے دوچار ہوئے جو مال تجارت لا رہی تھی حضرت عبد اللہ بن جحش نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر اس پر حملہ کردیا اور مال و اسباب لوٹ لیا ۔اس حملے میں قریش کا ایک شخص عمرو بن حضرمی مارا گیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کی اطلاع ملی تو آپ عبداللہ بن جحش پر بہت ناراض ہوئے کہ میں نے تمہیں اس بات کی اجازت نہیں دی تھی ۔لیکن قریش کو بہانہ ہاتھ آ گیا اور عمر بن حضرمی کا بدلہ لینے کے نام پر جنگ کی تیاری شروع کر دی ۔


غزوۂ بدر کے فوری اسباب 

عمر بن حضرمی کے قتل کے بعد کا واقعہ ہے کہ قریش کا ایک تجارتی قافلہ جو ایک ہزار اونٹوں پر مشتمل تھا ابو سفیان کی قیادت میں شام سے آ رہا تھا ۔ابوسفیان کو مدینہ کے نواح میں کوئی خطرہ محسوس ہوا اور اس نے اہل مکہ سے مدد طلب کی اس پر مکہ کے سردار ابو جہل نے مسلمانوں کے خلاف لشکر جمع کیا اور مدینہ کو روانہ ہوا ۔

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو کفار کی تیاریوں کی اطلاع ملی تو آپ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہما سے مشورہ کیا مہاجرین نے جوشیلی تقریریں کی اس طرح انصار کی جانب سے حضرت سعد بن عبادہ نے اپنی وفاداری کا یقین دلایا ۔اب حضور صلی اللہ علیہ وسلم 313 جانثاروں کے ساتھ شہر سے باہر نکلے اور مدینہ سے تقریبا 30 میل کے فاصلے پر بدر کے میدان میں پہنچے ۔اسی اثنا میں قریش کی امدادی فوج مکہ سے روانہ ہوکر بدر کے نواح میں پہنچ گئی یہیں انہیں اطلاع ملی کہ ابو سفیان کا قافلہ بخیریت مکہ پہنچ گیا ۔اس لیے بعض سرداروں کا خیال تھا کہ اب جنگ کرنے کی بجائے مسلمانوں سے صلح کر لینی چاہیے اور عمر بن حضرمی کا خون بہا لینا چاہیے لیکن اس تجویز کی ابوجہل نے مخالفت کی دراصل مسلمانوں کی انتہائی کم تعداد کے مقابلے میں اسے اپنے ایک ہزار جنگجو جوانوں پر ناز تھا اس کے پاس اسلحہ بھی بہت سا تھا اس لیے اس نے لڑائی کی حمایت کی ۔


غزوۂ بدر کے واقعات 

قریش مکہ کی آمد کی خبر سن کر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعض صحابہ کرام کے پڑاو کو بدلا۔  پانی پر اپنی بہتر دسترس  خاص طور پر مد نظر تھی ۔اسی طرح یہ بھی خیال رکھا گیا کہ دن چڑھے تو سورج آنکھوں پر نہ آئے لڑائی 17 مضان مبارک 2 ہجری کو ہوئی اس سے پہلے رات بھر جضور اللہ تعالی سے فتح کی دعائیں مانگتے رہے ۔صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور اپنے واعظ سے مسلمانوں کو نیا جذبہ عطا فرمایا پھر مسلمانوں کی صف بندی فرمائی اسلامی فوج تین حصوں میں منقسم تھی ۔مہاجرین ،بنی اوس اور بنو خزرج کے ہر حصے کا علمبردار  الگ الگ تھا۔ حضور نے حکم دیا کہ مسلمان صف بندی کو نہ توڑیں اور جب تک حکم نہ ملے جنگ شروع نہ کریں ۔ یہ جنگ بڑی آزمائش کی جنگ تھی حق و باطل نوروظلمت یعنی اسلام اور کفر کی جنگ تھی اور مسلمانوں کو اپنے ہی کافررشتہ داروں کے خلاف تلوار اٹھانا پڑی ہیں ۔صف بندی کے انتظامات مکمل کرنے کے بعد حضور اپنے چند خاص مشیروں جن میں حضرت ابوبکر صدیق بھی شامل تھے کہ ساتھ ایک ٹیلے پر چلے گئے یہاں سے میدان جنگ صاف نظر آتا تھا ۔

سب سے پہلے عمر بن الحضرمی کا بھائی عامر خون کا بدلہ لینے کے لیے نکلا ایک مسلمان نے آگے بڑھ کر اپنی تلوار سے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا پھر دستور عرب کے مطابق قریش کی صفوں میں سے تین سردار عتبہ، ولید اور شیبہ نکلے ان کے مقابلے کے لیے حضرت حمزہ ،حضرت علی اور حضرت عبیدہ کو روانہ کیا گیا حضرت حمزہ اور حضرت علی نے عتبہ اور ولیدکو جہنم واصل کر دیا لیکن شیبہ نے حضرت عبیدہ کو زخمی کر دیا اس پر حضرت علی آگے بڑے اور تلوار کی ضرب سے شیبہ کے دو ٹکڑے کر دئیے اس کے بعد عام لڑائی شروع ہوئی ۔ مسلمان انتہائی بہادری سے لڑے۔  انصار کے دو نو عمر لڑکوں نے ابو جہل پر حملہ کرکے اسے قتل کردیا ابوجہل کی موت سے قریش مکہ کے پاؤں اکھڑ گئے اور وہ میدان جنگ چھوڑ کر بھاگ گئے 


غزوۂ بدر کے نتائج

اس جنگ میں مسلمانوں کے صرف 14 آدمی شہید ہوئے جبکہ کفار کے ستر آدمی مارے گئے جن میں گیارہ سردار وہ تھے جنہوں نے ہجرت سے پہلے حضور پاک صل وسلم کے قتل کے منصوبے میں حصہ لیا تھا ۔اس کے علاوہ مسلمانوں کو بہت سا جنگی سامان اور جنگی قیدی بھی ہاتھ آئے ۔ اس جنگ کے نتیجے میں اہل عرب کی نظر میں مسلمانوں کا کردار بہت بڑا اور محض ایک مذہبی جماعت نہ تھی بلکہ سیاسی قوت بن گئے تھے ۔چنانچہ قریش کی شکست اور ان کے بڑے بڑے سرداروں کی موت سے وقتی طور پر مدینہ کی حکومت محفوظ ہوگئی یوں یہود دب گئے اور مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوگئے انھوں نے اسلام کی وسعت میں زیادہ کھل کر کام کرنا شروع کر دیا ۔


غزوۂ بدر کی تاریخی اھمیت

جنگ بدر تاریخ عالم کا ایک حیرت انگیز واقعہ ہے اس میں 313 آدمیوں نے جو ظاہری سازو سامان سے محروم تھے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی قیادت میں عرب کی سب سے بڑی سیاسی اور مذہبی جماعت کے ایک ہزار نوجوانوں کو جو ساز و سامان سے پوری طرح لیس تھے ،شکست دی ۔اس جنگ نے ثابت کردیا کہ دنیا کی جدوجہد میں ظاہر سازوسامان کچھ اہمیت نہیں رکھتا دنیاوی جاہ و جلال اور فوجیوں کی کثرت فتح کا نشان نہیں ہے بلکہ دنیا میں غلبہ اہل ایمان کو حاصل ہوتا ہے جو خلوص دل سے اسلامی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں چنانچہ اسلامی تاریخ میں ایسے بے شمار واقعات ملتے ہیں جن میں تھوڑے سے مسلمانوں نے اپنے سے کئی گنا زیادہ مخالفین کو شکست دی ۔


ابو جہل کا انجام

اُمیہ بن خلف قریش کا ناموَر سردار تھا۔ اُس کے پاس بہت سے غلام تھے، جن میں حضرت بلالؓ بھی شامل تھے۔ یہ شخص قبولِ اسلام پر اُن پر انسانیت سوز مظالم ڈھایا کرتا تھا۔ اُمیہ اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑے جان بچانے کے لیے بھاگنے کا منتظر تھا کہ اُس کی نظر حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ پر پڑی، جو میدانِ جنگ سے مشرکین کی زرہیں جمع کر کے لے جا رہے تھے۔ اُمیہ نے اُن سے جان بچانے کی درخواست کی۔ عبدالرحمٰنؓ بن عوف نے اپنی زرہیں پھینکیں اور دونوں کو اپنی تحویل میں لے کر چل پڑے۔ اتفاق سے حضرت بلال ؓ کی اُمیہ پر نظر پڑ گئی۔ اُنہوں نے انصار کے چند نوجوانوں کو ساتھ لیا اور اُس پر حملہ کر دیا۔ پہلے اُمیہ کے بیٹے کو قتل کیا اور پھر اُمیہ کو۔

ابو جہل اپنے غلاموں کے جمگھٹے میں آگے بڑھا اور چیخ چیخ کر مشرکین کے حوصلے بڑھانے لگا۔ ایک ایک کو پکڑ کر کہتا’’ لات وعُزیٰ کی قسم! جیت ہماری ہوگی۔‘‘ لیکن کچھ ہی دیر گزری تھی کہ ابو جہل کا غرور خاک میں مل گیا اور وہ شدید زخمی ہو کر گھوڑے سے گر پڑا۔ حضرت عبدالرحمٰنؓ بن عوف فرماتے ہیں’’ مَیں میدانِ جنگ میں کھڑا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ میرے دائیں بائیں دو کم سِن بچّے کھڑے ہیں۔ اُن میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا’’ چچا جان! کیا آپؓ ابو جہل کو پہچانتے ہیں؟‘‘ مَیں نے کہا’’ ہاں! مگر تمہیں اُس سے کیا کام ہے؟‘‘ لڑکے نے کہا’’ مجھے پتا چلا ہے کہ وہ ہمارے پیارے نبیﷺ کو بُرا بھلا کہتا ہے۔

اُس ذات کی قسم، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر وہ مجھے مل گیا، تو میرا جسم اُس کے جسم سے اُس وقت تک جدا نہ ہو گا، جب تک کو ہم میں سے کسی ایک کی موت واقع نہ ہو جائے۔‘‘ دوسرے لڑکے نے بھی اِسی طرح کی بات کی۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ابوجہل کو لوگوں کے درمیان دیکھا، تو مَیں نے بچّوں سےکہا’’ دیکھو! وہ سامنے ابوجہل ہے۔‘‘ میرا یہ کہنا تھا کہ وہ دونوں تلواریں لہراتے اُس پر جھپٹ پڑے اور اُسے قتل کر دیا۔‘‘ مشرکین نے جب اپنے سالار کو زخمی ہو کر گرتے دیکھا، تو اُن پر دہشت طاری ہو گئی اور وہ بھاگ کھڑے ہوئے۔

میدانِ جنگ کفّار سے خالی ہو چُکا تھا۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا’’ کوئی جا کر ابوجہل کی خبر لائے۔‘‘ اس پر صحابہؓ اُس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ اتنے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی نظر لاشوں کے درمیان ابوجہل پر پڑی، جو قریب المرگ تھا۔اُنھوں نے اُس کی گردن پر پاؤں رکھا اورگویا ہوئے’’ اے اللہ کے دشمن! آخر کار تجھے اللہ نے رسوا کیا۔‘‘ ابو جہل کا تکبّر کم نہ ہوا تھا، بولا’’ مجھے کیوں رسوا کیا، تم لوگوں نے جسے قتل کیا ہے، کیا کوئی اور اس سے بھی زیادہ معزّز ہے؟‘‘ پھر بولا’’ اچھا یہ تو بتائو! آج فتح کس کی ہوئی؟‘‘ حضرت عبداللہؓ نےجواب دیا’’اللہ اور اُس کے رسول، حضرت محمدﷺ کی۔‘‘ اس جواب نے ابو جہل کی اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اُس کا سر کاٹا اور آنحضرتﷺ کی خدمت میں پیش کردیا۔ آپﷺ نے تین مرتبہ فرمایا’’ واقعی اُس اللہ کی قسم،جس کے سِوا کوئی معبود نہیں۔‘‘ اس کے بعد فرمایا ’’اللہ اکبر، تمام حمد اللہ کے لیے، جس نے اپنا وعدہ سچ کر دِکھایا۔ اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تنہا سارے گروہوں کو شکست دی۔‘‘ پھر فرمایا’’ چلو! مجھے اس کی لاش دکھاؤ۔‘‘ آپﷺ نے لاش دیکھ کر فرمایا’’ یہ اس قوم کا فرعون تھا‘‘ (سنن ابی دائود)۔


شہدائے بدر 

غزوہ ٔبدر میں چودہ صحابہ کرامؓ شہید ہوئے، جن میں چھ مہاجر اور آٹھ انصار تھے۔

 ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں:

(1) حضرت حارث بن سراقہؓ(2) حضرت عمیر بن ابی وقاصؓ(3)حضرت عبیدہ بن الحارثؓ(4) حضرت مہجعؓ (5)حضرت یزید بن الحارثؓ (6)حضرت عوف بن عفراءؓ(7)حضرت معوذ بن عفراءؓ (8)حضرت سعد بن خیثمہ انصاریؓ9))حضرت مبشر بن عبد المنذرؓ(10) حضرت رافع بن المعلیٰ ؓ(11)حضرت عاقل بن ابی البکیرؓ(12)حضرت عمیر بن حمامؓ (13)حضرت صفوان بن وہبؓ(14) حضرت عمیر بن عبد عمروؓ۔


 کفّار کے قیدی اور مقتولین

بدر کے میدان میں70 مشرکین مارے گئے اور اتنے ہی قیدی بنائے گئے۔ ناموَر مقتولین میں ابوجہل، عتبہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، ابو الخبتری، حنظلہ بن ابی سفیان، حارث بن عامر بن نوفل، طعیمہ بن عدی، زمعہ بن الا سود، نوفل بن خویلد ، اُمیہ بن خلف، منبہ بن حجاج ، معبدبن وہب شامل تھے۔ نصربن حارث، جو اسلام کے بدترین دشمنوں میں سے ایک تھا اور اُس دن مشرکین کا عَلم بردار تھا، وہ قیدیوں میں شامل تھا، لیکن اُس کے جرائم کی فہرست اتنی طویل تھی کہ آنحضرتﷺنے مدینہ روانگی کے دوران وادیٔ صفراء میں اُسے قتل کرنے کا حکم فرمایا۔

عقبہ بن معیط بھی قیدیوں میں شامل تھا، یہ وہ شخص تھا کہ جس نے ابوجہل کی ہدایت پر خانۂ کعبہ میں حضورﷺ کی گردنِ مبارک پر اونٹ کی اوجھڑی ڈالی تھی اور چادر سے گلا گھونٹ کر آپﷺ کو شہید کرنا چاہا تھا، اُسے بھی قتل کردیا گیا۔70گرفتار مشرکین میں سے چند نامور رؤسا کے نام یہ ہیں:عباس بن عبدالمطلب ، ابو العاص بن الربیع (رسول اللہؐ کی صاحب زادی، حضرت زینبؓ کے شوہر)، عقیل بن ابی طالب (حضرت علیؓ کے بھائی)، نوفل بن الحارث ، عدی بن الخیار، ابو عزیر بن عمیر، ولید بن الولید بن مغیرہ، عبداللہ بن ابی ، ابو عزہ عمر و بن عبداللہ شاعر، وہب بن عمیر، ابو وداعہ بن خبیرہ، سہیل بن عمرو ۔


مدینہ منورہ میں فتح کی خوش خبری

رسول اللہ ﷺ نے جنگ کے اختتام پر مالِ غنیمت ایک جگہ جمع کروایا، پھر شہداء کی نمازِ جنازہ پڑھ کر اُن کی تدفین فرمائی(بدر کے میدان میں ایک احاطے کے اندر ان کی قبور موجود ہیں)۔ آپﷺ نے اس عظیم الشّان فتح کی نوید اہلِ مدینہ تک پہنچانے کے لیے حضرت عبداللہؓ بن رواحہ کو بالائی اور حضرت زید بن حارثہؓ کو زیریں مدینے کی جانب روانہ کیا۔ اُدھر مدینے میں منافقین اور مشرکین یہ افواہ پھیلا چُکے تھے کہ مسلمانوں کو شکست ہو چُکی ہے اور نعوذ باللہ سرکارِ دو عالمﷺ شہید کر دیے گئے ہیں۔ زید بن حارثہؓ مسجدِ نبویؐ میں جا کر رُکے اور مسلمانوں کو فتح کی نوید سُنائی۔ یہ خبر پورے مدینہ منوّرہ میں پھیل گئی اور مسلمان مسجدِ نبویؐ میں جمع ہو گئے۔ پھر رسول اللہﷺ کو مبارک باد دینے کے لیے بدر کی جانب نکل کھڑے ہوئے۔ مدینے سے رخصت ہوتے وقت آپﷺ کی صاحب زادی، حضرت رقیّہؓ سخت علیل تھیں، آپؐ نے اُن کے شوہر، حضرت عثمانؓ کو مدینے ہی میں چھوڑ دیا تھا۔ حضرت اُسامہؓ بیان کرتے ہیں کہ’’ جب فتح کی خبر ملی، اُس وقت ہم حضرت رقیّہؓ کی تدفین کر کے مٹّی برابر کر رہے تھے۔‘‘ رسول اللہؐ نے چوبیس قریشی سرداروں کی لاشیں بدر کے ایک کنویں میں پھینکنے کا حکم دیا۔جب عتبہ کی لاش لائی گئی، تو آنحضرتﷺ نے حضرت ابو حذیفہ ؓکے چہرے کی جانب دیکھا، جہاں غم و افسردگی نمایاں تھی۔ آپؐ نے فرمایا’’ کیا والد کی وجہ سے غم زدہ ہو؟‘‘ اُنھوں نے عرض کیا’’ واللہ، ایسا نہیں ہے یا رسول اللہﷺ۔مَیں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ میرا باپ نہایت دُور اندیش، ذی عقل اور صاحب الرائے شخص تھا۔ مجھے اُمید تھی کہ یہ خوبیاں ایک نہ ایک دن اُنہیں اسلام کے آفاقی پیغام کو سمجھنے میں معاون ہوں گی اور یہ کلمہ پڑھ لیں گے، لیکن آج جب مَیں اُن کا یہ بدترین انجام دیکھ رہا ہوں، تو مجھے افسوس ہورہا ہے۔‘‘ بدر کے میدان میں تین دن تک قیام کے بعد، آپؐ کی اونٹنی پر کجاوہ کَس دیا گیا اور آپؐ نے اپنے صحابہؓ کے ساتھ وہاں سے کُوچ فرمایا۔ روانہ ہونے سے پہلے آپؐ کنویں پر تشریف لے گئے اور مقتولینِ کفّار کو نام بنام مع اس کی ولدیت اس طرح پکارنے لگے’’اے فلاں بن فلاں! کیا تم کو یہ آسان نہ تھا کہ تم اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرتے۔ ہم سے جس ثواب و اجر کا ہمارے مالک نے وعدہ کیا تھا، وہ ہم نے پالیا۔ پروردگار نے تم سے جس عذاب کا وعدہ کیا تھا، تم نے بھی وہ پالیا ہے یا نہیں؟‘‘ (صحیح بخاری)۔

Share: