سترہ رمضان المبارک - حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کا یومِ وفات


سترہ رمضان المبارک ام المومنین حضرت  عائشہ  صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا کا یوم وفات ہے۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا نے 17 رمضان المبارک  58 ہجری، بروز منگل 66 سال کی عمر میں اس دار فانی سے پردہ فرمایا تھا۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کی صغیر سن زوجہ تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے انہیں شرف زوجیت  اپنے دوست اور صحابی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے احترام میں عطا کیا تھا۔


ولادت

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی تاریخِ ولادت کے متعلق تاریخ و سیرت کی تمام کتابیں خاموش ہیں۔ ان کی ولادت کی صحیح تاریخ نبوت کے پانچویں سال کا آخری حصہ ہے۔

ان کا لقب صدیقہ تھا، ام المومنین ان کا خطاب تھا جبکہ نبی مکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنت الصدیق سے بھی خطاب فرمایا ہے اور کبھی کبھار حمیرا کے لقب سے بھی پکارتے تھے۔


کنیت

عرب میں کنیت شرافت کا نشان سمجھا جاتا تھا  چونکہ حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاں کوئی اولاد نہ تھی اس لیے کوئی کنیت بھی نہ تھی۔ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے حسرت کےساتھ عرض کیا کہ دوسری ازواج مطہرات  نے تو اپنی سابق اولادوں کے نام پر کنیت رکھ لی ہے، میں اپنی کنیت کس کے نام پر رکھوں؟ حضور  اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا کہ اپنے بھانجے عبد اللہ کے نام پر رکھ لو، چنانچہ اسی دن سے ام عبد اللہ کنیت قرار پائی۔


نکاح

ایک روایت کے مطابق حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ہجرت سے 3 برس قبل حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں اور 9 برس کی عمرمیں رخصتی ہوئی۔ ان کا مہر بہت زیادہ نہ تھا صرف 500 درہم تھا۔

صحیح احادیث کے مطابق ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح چھ سال کی عمر میں ان کے والد حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ  کردیا تھا، اور نو سال کی عمر میں آپ رضی اللہ عنہا کی رخصتی عمل میں آئی۔


واقعۂ افک اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا 

واقعہ افک یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ پر منافقین نے جو تہمت لگائی تھی وہ  لڑائی سے واپسی پر پیش آیا تھا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہ جیسی بے گناہ ، معصوم اور پاکیزہ خاتون پر منافقین نے بدکاری کا الزام لگایا اور اپنی چرب زبانی سے کئی مسلمانوں کو بھی اس میں شامل کر لیا۔ ایک ماہ تک وہ اس من گھڑت واقعہ کا چرچا کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالی نے سورۃ نور میں ان کی برات کا اعلان فرمایا اور ساتھ ہی اس فتنے میں پڑھنے والوں کے لیے سزا مقرر کی جو بعد میں بھی کسی ایسے واقعے پر دی جا سکتی ہے یعنی بغیر دیکھے بھالے محض سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے آگے پھیلانا کس قدر خطرناک بات ہو سکتی ہے اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے ہو جاتا ہے۔


سیدہ عائشہ طاہرہ رضی  اللہ عنہا کے سبب چند قرآنی آیات کا نزول

سب سے مشہور تو وہ آیاتِ کریمہ ہیں جن میں معاملہ افک سے متعلق اﷲ تعالیٰ کی طرف سے آپ رضی اﷲ عنہا کی براء ت کی گواہی دی گئی ہے،آپ کی صداقت اور عفت و پاکیزگی کی ترجمان یہ آیتیں سورت نور میں آیت نمبر 11سے آیت نمبر 26تک ہیں۔ آغاز یہاں سے ہوتا ہے۔

اِِنَّ الَّذِیْنَ جَآءُ وا بِالْاِِفْکِ عُصْبَۃٌ مِّنْکُمْ لاَ تَحْسَبُوْہُ شَرًّا لَّکُمْ بَلْ ہُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ لِکُلِّ امْرِیٍٔ مِّنْہُمْ مَا اکْتَسَبَ مِنَ الْاِِثْمِ وَالَّذِیْ تَوَلّٰی کِبْرَہُ مِنْہُمْ لَہٗ عَذَاب ٌعَظِیْم ۔(النور:11)

ترجمہ: ’’بے شک وہ لوگ جو بہتان لے کر آئے ہیں، وہ تم ہی سے ایک گروہ ہیں، اسے اپنے لیے برا مت سمجھو، بلکہ یہ تمھارے لیے بہتر ہے۔ ان میں سے ہر آدمی کے لیے گناہ میں سے وہ ہے جو اس نے گناہ کمایا اور ان میں سے جو اس کے بڑے حصے کا ذمہ دار بنا، اس کے لیے بہت بڑا عذاب ہے‘‘۔

اور انتہا یہاں ہوتی ہے:

 اَلْخَبِیْثٰتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثٰتِ وَالطَّیِّبٰتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبٰتِ اُوْلٰٓئِکَ مُبَرَّءُ وْنَ مِمَّا یَقُوْلُوْنَ لَہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیمٌ۔(النور: 26)

ترجمہ: ’’گندی عورتیں گندے مردوں کے لیے ہیں اور گندے مرد گندی عورتوں کے لیے ہیں اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لیے ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لیے ہیں۔ یہ لوگ اس سے بری کیے ہوئے ہیں جو وہ کہتے ہیں، ان کے لیے بڑی بخشش اور باعزت روزی ہے‘‘۔

امام ابن القیم رحمہ اﷲ فرماتے ہیں: ’’یہ محض آپ رضی اﷲ عنہا کی خصوصیت ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اہلِ افک کے تہمتوں سے آپ کو بری ثابت کیا اور آپ کی براء ت و صفائی میں ایسی وحی نازل فرمائی جسے قیامت تک مسلمانوں کی نمازوں میں اور ان کے منبر و محراب پر پڑھی جاتی رہے گی، ان کے حق میں گواہی دی کہ آپ ’’طیبات‘‘ پاک عورتوں میں سے ہیں اور ان کی مغفرت اور رزق کریم کا وعدہ کیا۔ ان آیات میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مطلع کیا کہ آپ رضی اﷲ عنہا کے بارے میں جو کچھ بہتان تراشیاں کی گئیں، ان سے آپ کا دامن داغ دار نہیں ہوا اور نہ آپ کی شان کم ہوئی، بلکہ ان کے حق میں بہتر ثابت ہوئیں،اس واقعہ کے سبب اﷲ نے آپ کی عظمت کو چار چاند لگا دیے اور آپ کے فضل و منقبت کو نکھار دیا۔ دونوں جہان والوں کے درمیان آپ کی شخصیت پاکیزگی کی یادگار بن گئی‘‘۔


تیمّم کی سہولت اور سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا

وہ آیت جس سے آپ رضی اﷲ عنہا کے ذریعے اُمت محمدیہ کو عظیم سہولت میسر آئی، وہ آیت تیمم ہے۔

سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے اسماء رضی اﷲ عنہا سے ہار عاریتاً لیا۔ اتفاق کی بات کہ وہ گم ہو گیا۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس کی تلاش میں اپنے چند صحابہؓ کو بھیجا، اسی دوران نماز کا وقت ہو گیا اور انھوں نے بغیر وضو کے نماز پڑھی۔ جب وہ لوگ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس لوٹ کر آئے تو اس واقعہ کی آپ کو اطلاع کی، تب آیت تیمم ناز ل ہوئی۔

اسید بن حفیر کہنے لگے (جزاکِ اللّٰہ خیْرا)اﷲ آپ کو جزائے خیر دے، اﷲ کی قسم آپ کے ساتھ جو بھی ناپسندیدہ معاملہ پیش آیا۔ اﷲ نے اس میں آپ کے لیے اور اُمت کے لیے خیر پید کر دی۔ (صحیح بخاری، حدیث :326)


رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری آیام اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے زندگی کے آخری ایام میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے حجرہ میں قیام فرمایا۔ اﷲ کے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کی باری کے دن اور اُن کی ٹھوڑی اور سینہ کے درمیان ٹیک لگائے ہوئے ہوئی۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ کی دنیوی زندگی کی آخری گھڑی اور اخروی زندگی کی پہلی گھڑی میں آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کے اور سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے لعاب دہن کو اکٹھا کر دیا اور سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا کے گھر میں تدفین ہوئی۔ (سیراعلام النبلاء، 189/2)


 خواب میں فرشتہ کا نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے سیدہ عائشہ طاہرہ رضی اﷲ عنہا کی صورت پیش کرنا 

سیدہ عائشہ طاہرہ رضی اﷲ عنہا وہ مومنہ ہیں، خواب میں فرشتہ نے نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے سامنے جن کی صورت پیش کی۔ جن کے سوا کوئی اور کنواری بیوی آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی خدمت میں نہ تھی۔ جن کے بستر پر ہوتے تب بھی وحی آتی تھی۔ سرورِ کائنات صلی اﷲ علیہ وسلم کو محبوب ترین بیوی تھیں۔ جن کی شان میں قرآن کی آیات اتریں، جن کی گود میں سر رکھ کر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے وفات پائی۔ سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا یقینا مومنوں کی ماں ہیں لیکن ایمان کی نعمت سے محروم صاحبان کی ہرگز ماں نہیں۔ اﷲ تعالیٰ اُن کی برائت کی قرآنی آیات اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے فرمودات پر غور کرنے کی توفیق دے۔ آمین


وفات

ماہ رمضان کی 17 تاریخ منگل کی رات ام المومنین عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا نے وفات پائی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہا  18 سال کی عمر میں بیوہ ہوئی تھیں اور وفات کے وقت ان کی عمر 66 برس تھی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی۔

حضرت  عائشہ   رضی اللہ عنھا نے  57ھ    اور ایک قول کے مطابق       58ھ     حضرت امیرمعاویہ کے عہد خلافت میں مدینہ منورہ میں وفات پائی، اور آپ کی وصیت کے مطابق آپ کی میت کو رات میں جنت البقیع میں دفن کیا گیا، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔ (کذا في إکمال في أسماء الرجال لصاحب المشکاة)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی وفات بیماری کے باعث اپنے گھر میں ہوئی۔ آپ نے وصیت کی تھی کہ مجھے جنت البقیع میں دفن کیا جائے نیز  بعض  لوگ  جو  صحابہ  کرام  رضی  اللہ  عنھم  پربہتان  باندھتے  ہیں   اور  کچھ  صحابہ  کی  طرف  منسوب  کرکے  کہتے  ہیں  کہ  انہوں  نے  ایک گڑھا  کھدوایا  اور  اماں  عائشہ  رضی  اللہ  عنھا  اس  میں  گر  گئی  اور  اس  سے  ان  کی  وفات  ہوئی  ،  اس  الزام  اور  بہتا ن  کی  کوئی  حقیقت  نہیں  ہے،بلکہ  اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات طبعی ہی تھی، بخاری کی ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کہ فطری وفات ہوئی تھی کیونکہ اگر گڑھے میں گر کر وفات ہوگئی ہوتی تو پھر وفات سے قبل لوگوں کی آمدرفت کا سلسلہ نہ ہوتا اسی طرح اجازت وغیرہ کا ذکر بھی نہ ہوتا کیونکہ یہ صورت حال اسی وقت ہوتی ہے جب کسی کی وفات اس کے گھر میں فطری طور پر ہو۔


*فضائل و کمالات

﴿1﴾ عن ابی موسیٰ عن النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قال کمل من الرجال کثیر، ولم یکمل من النساء الا مریم بنت عمران و آسیتہ امراتہ فرعون، و فضل عائشتہ علی النساء کفضل الثرید علیٰ سائر الطعام۔                      ﴿رواہ البخاری و مسلم﴾

حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ، سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مردوں میں تو بہت لوگ درجہء کمال کو پہنچے ہیں، مگر عورتوں میں صرف مریم بنت عمران اور فرعون کی بیوی آسیہ بی ہی کامل ہوئی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی فضیلت تمام عورتوں پر ایسی ہے جیسے کہ تمام کھانوں میں ثرید افضل و اعلیٰ ہے


﴿2﴾ وعن عائشة قالت  قال لی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اریتک فی المنام ثلات لیال، یجی بک الملک فی سرقة من حریر، فقال لی، ھٰذا من عنداللہ یمضہ ۔ ﴿رواہ البخاری و مسلم﴾

حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے، انہوں نے بیان کیا کہ مجھ  سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم مجھے دکھائی گئیں خواب میں تین رات، فرشتہ ریشمی کپڑے کے سایک ٹکڑے میں تمہیں لے کر آتا، اور مجھ سے کہتا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں، تو میں نے تمہارے چہرے سے کپڑا ہٹایا، تو دیکھا کہ وہ تم ہو، تو میں نے دل میں کہا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ اس کو پورا فرمائے گا۔       

﴿3﴾ وعن عائشة قالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یاعائشة ھٰذا جبریل یقرئک السلام قالت وعلیہ السلام ورحمة اللہ ، قالت وھریریٰ مالا اریٰ ۔   (رواہ البخاری و مسلم )

حضرت عائشہ   رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے بیان فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اے عائشہ یہ جبرائیل ہیں جو تم کو سلام کہلوارہے ہیں تو میں نے عرض کیا وعلیہ السلام ورحمة اللہ ﴿ ان پر بھی سلام ہو اور اللہ کی رحمت﴾ آگے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا  نے فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ دیکھتے تھے، جو ہم نہیں دیکھتے۔ 

﴿4﴾ وعنھا قالت ان الناس کانوا یتحرون بھدایاھم یوم عائشة یبغون بذالک مرضاة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وقالت ان نساءَ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کُن حزبین فحزب فیہِ عائشة وحفصة وصفیة وسودة، والحزب الاٰخر ام سلمة وسائر نساءِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فکلم حزب ام سلمة فقلن لھا کلمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یکلم الناس فیقول من اراد ان یھدی الیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلیھدہ الیہ حیث کان، فکلمتہ فقال لھا لاتو ذینی فی عائشة فان الوحی لم عا تنی وانا فی ثواب امراة الا عائشة، قالت اتوب الی اللہ من اذاک یا رسول اللہ، ثم انھن دعون فاطمة فارسلن الیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فکلمتہ فقال  عا بنیة الاتحبین ما احب قالت بلیٰ، قال فاحبی ھٰذہ۔ ﴿رواہ البخاری ومسلم)

﴿حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب خصوصیت سے میری باری ہی کے دن ہدیے بھیجنے کا اہتمام کرتے تھے، وہ اپنے اس عمل سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خوشنودی چاہتے تھے، ﴿اور صورت حال یہ تھی کہ﴾ آپ کی ازواج کے دوگروہ تھے، ایک گروہ میں عائشہ، حفصہ، صفیہ اور سودہ رضی اللہ تعالی عنہما تھیں، اور دوسرے گروہ میں ام سلمہ اور باقی ازواج رضی اللہ تعالی عنہما ، ام سلمہرضی اللہ تعالی عنہا کی گروہ والیوں نے ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا سے بات کی، ار ان سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تم کہو کہ آپ اپنے اصحاب سے فرمادیں کہ اگر کوئی آپ لئے ہدیہ بھیجنا چاہے تو آپ جہاں بھی ہوں ﴿یعنی ازواج میں سے کسی کے یہاں بھی مقیم ہوں﴾ تو وہ وہیں آپ کو ہدیہ بھیجے، چنانچہ ام سلمہ  رضی اللہ تعالی عنہا نے آپ سے یہی عرض کیا، آپ نے فرمایا کہ تم مجھے عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا کے بارے میں اذیت نہ دو، یہ عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا ہی کی خصوصیت ہے کہ انہیں لے لحاظ میں مجھ پر وحی نازل ہوئی ہے، ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے عرض کیا۔ اے اللہ کے رسول میں اللہ کے حضور میں آپ کا اذیت دینے سے توبہ کرتی ہوں۔ پھر ام سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کی گروہ والی ازواج مطہرات نے ﴿ آپ کی صاحبزادی﴾ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا کو اسی غرض سے آپ کے پاس بھیجا، چنانچہ انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وہی عرض کیا تو آپ نے فرمایا اے بیٹا کیا تم اس سے محبت نہیں کروگی جس سے مجھے محبت ہو، عرض کیا کیوں نہیں ﴿یعنی آپ جس سے محبت کرے ہیں میں ضرور اس سے محبت کروں گی﴾ آپ نے فرمایا فاحبی ھٰذہ تو تم اس ﴿عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا ﴾ سے محبت کرو۔       


*


 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا  اوراحادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 

آپ رضی اللہ عنہا کاشانۂ اقدس میں آنےکے بعد دن رات سرکارِ اقدس صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے دیدار اور صحبتِ بابَرکت سے فیض یاب ہونے کے ساتھ ساتھ آپ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّم کے چشمۂ عِلْم سے بھی خوب سیراب ہوئیں اور اس بحرِ محیط سے عِلْم کے بیش بہا موتی چُن کر آسمانِ عِلْم ومعرفت کی اُن بلندیوں کو پہنچ گئیں جہاں بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہُم، آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کے شاگردوں کی فَہْرِسْت میں نظر آنے لگے۔ صحابۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان کو جب بھی کوئی گھمبیر اور ناحَل مسئلہ آن پڑتا تو اس کے حَل کے لئے آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کی طرف رُجُوع لاتے، چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا ابوموسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عَنۡہُ فرماتے ہیں: ہم اصحابِ رسول کو کسی بات میں اِشْکَال ہوتا تو اُمُّ المؤمنین حضرتِ عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا کی بارگاہ میں سوال کرتے اور آپ رَضِیَ اللہُ عَنۡہَا سے ہی اس بات کا عِلْم پاتے۔ (سنن الترمذی،5/ 471، حديث:3909)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالی عنہا کو علمی صداقت اور احادیث روایت کرنے کے حوالے سے دیانت و امانت میں امتیاز حاصل تھا۔ ان کا حافظہ بہت قوی تھا جس کی وجہ سے وہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے صحابہ کرام کے لیے بڑا اہم مرجع بن چکی تھیں۔

حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا حدیث حفظ کرنے اور فتویٰ دینے کے اعتبار سے صحابہ کرام سے بڑھ کر تھیں۔ حضرت عائشہ  رضی اللہ تعالی عنہا  نے 2 ہزار 2 سو 10 احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی۔

دور نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی خاتون ایسی نہیں جس نے ام المومنین عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے زیادہ رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے احادیث روایت کرنے کی سعادت حاصل کی ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ  رضی اللہ تعالی عنہا سے 174 احادیث ایسی مروی ہیں جو بخاری و مسلم میں ہیں۔


حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی دس امتیازی خصوصیات

یوں تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تمام ہی ازواجِ مطہرات امہات المؤمنین رضی اللہ عنہن سب ہی اپنی اپنی جگہ عظمت و بزرگی اور شان و شوکت کی حامل ہیں ۔ ہاں! یہ اللہ جل شانہٗ کی قدرت اور شان ہے کہ وہ ایک دوسرے کو آپس میں درجوں بلند فرما تا ہے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکو بھی اُس نے اپنے فضل وکرم سے کئی فضیلتوں کا جامع فرمادیا ۔

چنانچہ خود ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :’’ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دس صفات  مرحمت ہوئیں جو پہلے کبھی کسی عورت کو نہ ملیں :

(۱) نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حضرت جبریل امین علیہ السلام ایک ریشمی کپڑے میں میری تصویرلے کر آئے ۔

(۲) نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میر ے علاوہ کسی دوسری کنواری لڑکی سے نکاح نہ فرمایا۔

(۳) نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے علاوہ کسی ایسی خاتون سے نکاح نہ فرمایاجس کے والدین مہاجر ہوں ۔

(۴) جبریل امین علیہ السلام نے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : ’’ ان سے نکاح فرمالیجیے یہ آپ کی بیوی ہیں ۔ ‘‘

(۵) نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی کا نزول بھی میرے بستر پر ہوا۔

(۶) آسمانوں سے میری براء ت نازل ہوئی ۔

(۷) نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ساری دنیا میں مَیں ہی سب سے زیادہ محبوب تھی۔

(۸) جب آپ کا وصال ہوا تو میری ہی باری کا دن تھا۔

(۹) نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب وصال فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میر ے سینے اور گلے کے درمیان ٹیک لگائے ہوئے تھے ۔

(۱۰) نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تدفین بھی میرے ہی مکان میں ہوئی۔‘‘

Share: