اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
محترمی مفتی صاحب
یوم عرفہ میں ہمارا اور سعودی عرب والوں کے دن میں اختلاف ھوتا ھے تو روزہ اپنے ملک کے اعتبار سے رکھا جائے یا سعودی عرب کے اعتبار سے وضاحت فرما دیں
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاتہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدا ومصلیا
*ہر ملک کی چاند کی تاریخ کے اعتبار سے نو ذوالحجہ کا اعتبار کرنے کے دلائل*:
نیز یہ بھی واضح رہے کہ :
1۔۔مذکورہ مسئلہ کا دارومدار ا س بات پر ہے کہ سعودی عرب کی رؤیتِ ہلال دیگر ممالک کے حق میں معتبرہے یا نہیں؟ اس بارے میں احناف کا راجح قو ل یہ ہے کہ بلادِبعیدہ جن کےطلوع وغروب میں کافی فرق پایاجاتا ہے ان کی رؤیت ایک دوسرے کے حق میں معتبر نہیں ہے، اور سعودی عرب اور دیگر ممالک کے مطلع میں کا فی فرق ہونا بار بار کے مشاہدہ سے ثابت ہے، لہذا جس طرح نماز وں کے اوقات تہجد اور سحر و افطاروغیرہ میں ہر ملک کا اپنا وقت معتبر ہے، سعودی عرب میں نمازوں کے اوقات کو دیگر ممالک میں نمازوں کے لیے معیار قرار نہیں دیا جاسکتا ، اسی طرح عید ،روزہ اور قربانی میں بھی ہر ملک کی اپنی رؤیت کا اعتبارہوگا ،اور عرفہ کے روزہ کے بارے میں بھی ہر ملک کی اپنی رؤیت معتبرہوگی، لہذا جس دن دیگر ممالک کے حساب سے ذی الحجہ کی نویں تاریخ ہوگی اسی دن روزہ رکھنے سے ’یومِ عرفہ‘ کے روزے کی فضیلت حاصل ہوگی،اگر چہ اس دن مکہ مکرمہ میں عید کا دن ہو۔
2۔۔بعض احادیث میں روزے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے یوم عرفہ کے بجائے 9 ذی الحجہ کے الفاظ مذکور ہیں. مثلاً بعض امہات المؤمنین بیان کرتی ہیں:
''کَانَ رَسُولُ اللّٰهِ صلی الله علیه و سلم یَصُومُ تِسْعَ ذِی الحِجَّةِ وَیَومَ عَاشُورَاء'' . (ابوداؤد :2437، نسائی :2372،2417، احمد: 22334،27376)
"رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ذی الحجہ کے 9 دن اور عاشوراء کے روزے رکھا کرتے تھے."یعنی یہ روزہ در اصل 9 ذی الحجہ کا ہے، کیوں کہ عشرہ ذی الحجہ کے ابتدائی نو دن میں سے ہر روزے کی فضیلت احادیث میں مستقل طور پر آئی ہے، اور ظاہر ہے کہ ایک سے آٹھ تاریخ تک کے روزوں کی فضیلت پوری دنیا کی اپنی تاریخ کے اعتبار سے ہے، لہٰذا نو ذوالحجہ کے روزے کی فضیلت بھی ہر ملک کی اپنی تاریخ کے اعتبار سے ہوگی۔
3۔۔ صومِ یوم عرفہ کے لیے سعودی عرب کے 9 ذی الحجہ کا اعتبار کرنے سے ایک پیچیدگی لازم آئے گی، دنیا کے بعض ممالک کی تاریخیں سعودی عرب سے ایک دن پہلے کی ہوتی ہیں، (یعنی وہ ممالک جہاں چاند کی پیدائش اور طلوع وغروب سعودی عرب سے پہلے ہو) مثلاً: جس دن سعودی عرب میں 9 ذی الحجہ ہے، اس دن بعض ممالک میں 10 ذی الحجہ ہوگا. 10 ذی الحجہ کو اس ملک کے مسلمان عید الاضحٰی منائیں گے اور اس دن ان کے لیے روزہ رکھنا ناجائز ہوگا، پھر وہ اس دن کو سعودی عرب کی متابعت میں 'یوم عرفہ' مان کر اس میں روزہ کیسے رکھ سکتے ہیں؟
4 ۔۔ اسلام صرف اکیسویں صدی کا مذہب نہیں ہے، جدید ذرائعِ ابلاغ سے آج کل معلوم ہوجاتا ہے کہ سعودی عرب میں کس دن "یومِ عرفہ" ہے. پہلے کی صدیوں میں، جب یہ جاننے کے ذرائع نہیں تھے، اس وقت بھی لوگ "یومِ عرفہ" کا روزہ اپنے یہاں کی تاریخ کے حساب سے رکھتے تھے. آج کل بھی دنیا کے تمام خطوں میں ہر شخص کو جدید ترین سہولیات حاصل نہیں ہیں، تمام لوگوں کے لیے اب بھی دوسرے علاقوں کے بارے میں بروقت معلومات حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا، اس لیے اب بھی مناسب، آسان اور قابلِ عمل یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر ملک کے لوگ اس دن عرفہ کا روزہ رکھیں جس دن ان کے یہاں 9 ذی الحجہ ہو.
''.
5 ۔۔ 'یوم' (دن) کا اطلاق طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک کے وقت پر ہوتا ہے اور 'صوم' (روزہ) طلوعِ فجر سے شروع ہوتا اور غروبِ آفتاب پر مکمل ہوتا ہے. اگر 'صومُ یومِ العرفۃ' (یوم عرفہ کا روزہ رکھنے) میں سعودی عرب کی نوذوالحجہ کا اعتبار کیا جائے؛ اس لیے کہ اس دن وہاں وقوفِ عرفہ ہے تو پھر روزہ کے آغاز و اختتام کے سلسلے میں بھی سعودی عرب کے اوقات کی پابندی ہونی چاہیے۔ پھر تو عرفہ کا روزہ دنیا کے ہر خطے میں اس وقت شروع کیا جائے جب سعودی عرب میں 9 ذی الحجہ کو طلوعِ فجر کا وقت ہو اور اُس دن اُس وقت افطار کر لیا جائے جب سعودی عرب میں 9 ذی الحجہ کو غروبِ آفتاب کا وقت ہو، حال آں کہ یہ بات بالکل ہی غیر معقول ہوگی، اس وقت مشرقِ بعید اور مغربِ بعید میں رات کا وقت ہوگا، اور قطبِ شمالی اور قطبِ جنوبی میں یا تو مسلسل رات ہوگی یا مسلسل دن ہوگا، اور سعودی عرب کی تاریخ کے اعتبار سے یوم عرفہ کا روزہ رکھنے میں ان ممالک میں شرعی احکام کی مخالفت اور حرج لازم آئے گا؛ لہٰذا روزے کے اوقات کے معاملے میں لوگ اپنے اپنے علاقے کے پابند ہوں گے.
خلاصہ یہ ہے کہ دنیا کے دیگر ممالک کے مسلمان "یومِ عرفہ" کا روزہ سعودی عرب کی تاریخ کے حساب سے رکھنے کے پابند نہیں ہیں، سعودی عرب کے مسلمان اس دن روزہ رکھیں جب ان کے یہاں 9 ذی الحجہ ہو، اور دوسرے ممالک کے مسلمان اس دن روزہ رکھیں جب ان کے یہاں 9 ذی الحجہ ہو. البتہ پاکستان اور وہ مشرقی ممالک جو سعودی عرب سے ایک تاریخ پیچھے ہوتے ہیں، وہاں کے مسلمانوں کے لیے بہتر ہے کہ وہ آٹھ اور نو ذوالحجہ دونوں دن روزہ رکھ لیا کریں، کیوں کہ عشرہ ذوالحجہ کے ہر روزے کی فضیلت صحیح احادیث سے ثابت ہے، اور ان ممالک کے لوگوں کے لیے اس دن روزہ رکھنے میں کوئی ممانعت بھی نہیں ہے۔
البناية شرح الهداية - (4 / 211)
''وإنما سمي يوم عرفة؛ لأن جبريل -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - علم إبراهيم صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ المناسك كلها يوم عرفة، فقال: أعرفت في أي موضع تطوف؟ وفي أي موضع تسعى؟ وفي أي موضع تقف؟ وفي أي موضع تنحر وترمي؟ فقال: عرفت؛ فسمي يوم عرفة''.
تبيين الحقائق وحاشية الشلبي - (2 / 23)
'' قَوْلُهُ: أَيْ تَفَكَّرَ أَنَّ مَا رَآهُ مِنْ اللَّهِ) أَيْ أَمْ مِنْ الشَّيْطَانِ؟ فَمِنْ ذَلِكَ سُمِّيَ يَوْمَ التَّرْوِيَةِ، فَلَمَّا رَأَى اللَّيْلَةَ الثَّانِيَةَ عَرَفَ أَنَّهُ مِنْ اللَّهِ؛ فَمِنْ ثَمَّ سُمِّيَ يَوْمَ عَرَفَةَ، فَلَمَّا رَأَى اللَّيْلَةَ الثَّالِثَةَ هَمَّ بِنَحْرِهِ؛ فَسُمِّيَ يَوْمَ النَّحْرِ، كَذَلِكَ فِي الْكَشَّافِ''.
العناية شرح الهداية - (3 / 452)
''فَلَمَّا أَمْسَى رَأَى مِثْلَ ذَلِكَ ، فَعَرَفَ أَنَّهُ مِنْ اللَّهِ تَعَالَى ؛ فَمِنْ ثَمَّ سُمِّيَ يَوْمَ عَرَفَةَ.... وَإِنَّمَا سُمِّيَ يَوْمُ عَرَفَةَ بِهِ؛ لِأَنَّ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَامُ عَلَّمَ إبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ الْمَنَاسِكَ كُلَّهَا يَوْمَ عَرَفَةَ، فَقَالَ لَهُ : أَعَرَفْت فِي أَيِّ مَوْضِعٍ تَطُوفُ ؟ وَفِي أَيِّ مَوْضِعٍ تَسْعَى ؟ وَفِي أَيِّ مَوْضِعٍ تَقِفُ ؟ وَفِي أَيِّ مَوْضِعٍ تَنْحَرُ وَتَرْمِي ؟ فَقَالَ عَرَفْت ، فَسُمِّيَ يَوْمَ عَرَفَةَ، وَسُمِّيَ يَوْمُ الْأَضْحَى بِهِ؛ لِأَنَّ النَّاسَ يُضَحُّونَ فِيهِ بِقَرَابِينِهِمْ'' .
تفسير البغوي - (7 / 48)
'' أمر في المنام أن يذبحه، وذلك أنه رأى ليلة التروية كأن قائلاً يقول له: إن الله يأمرك بذبح ابنك هذا، فلما أصبح روی في نفسه أي: فكر من الصباح إلى الرواح أمِنَ الله هذا الحلم أم من الشيطان؟ فمن ثم سمي يوم التروية، فلما أمسى رأى في المنام ثانيًا، فلما أصبح عرف أن ذلك من الله عز وجل؛ فمن ثم سمي يوم عرفةفقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 143909201961
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن