اللہ تعالی کی عظیم نعمت “عافیت “

 حدیث مبارکہ کا مفہوم ھے کہ اللہ تعالی سے جب بھی سوال کرو “عافیت” کا سوال کرو ، یہ ایک حقیقت ھے کہ  عافیت سے بڑھ کر انسان کو اس دنیا میں کوئی نعمت عطا نہیں کی گئی، عافیت ایک عظیم دائمی نعمت ہے اور کلمۂ اخلاص (لا الہ الا اللہ) کے بعد اس سے بہتر اور کوئی شے نہیں۔

عبداللہ بن عمر سے روایت ہے- وه کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلہ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یعنی تم میں سے جس کے لیے دعا کا دروازه کهولا جائے، اس کے لیے رحمت کے تمام دروازے کهول دئے گئے- اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیاده محبوب دعا یہ ہے کہ بنده اس سے عافیت مانگے-

دعا دراصل اللہ کے مقابلے میں اپنے عجز کا اظہار ہے- عجز کا اظہار ہمیشہ اللہ کی عظمت کے کامل اعتراف سے پیدا هوتا ہے- جو آدمی اللہ کی عظمت دریافت کرے، اس کے نتیجے میں اس کے اندر اپنے بارے میں کامل عجز total helplessness کا احساس پیدا هوتا ہے-عجز کا احساس جب لفظوں میں ڈهل جائے تو اسی کا نام دعا ہے-

عافیت کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں آدمی کو صحت اور سکون کی زندگی حاصل هو جائے- دنیا کی زندگی میں صحت اور سکون بلاشبہہ سب سے بڑی نعمت کی حیثیت رکهتی ہے- کوئی بهی کام کرنے کے لیے ضروری ہے کہ آدمی کو اس قسم کی عافیت حاصل هو- عافیت کا حصول انسان کے اپنے بس میں نہیں- جس طرح زندگی اللہ کی طرف سے ملتی ہے، اسی طرح عافیت بهی اللہ کی طرف سے ملتی ہے- عافیت کی اسی اہمیت کا تقاضا ہے کہ آدمی ہر وقت خدا سے عافیت کی دعا کرتا رہے-

عافیت کا تعلق دولت یا مادی سامان راحت سے نہیں ہے- عافیت کا تعلق تمام تر ذہنی سکون سے ہے- یہ ذہنی سکون کسی انسان کو اللہ کی خصوصی توفیق سے ملتا ہے- کوئی انسان ذکر اور دعا اور عبادت اور معرفت کا ثبوت اسی وقت دے سکتا ہے جب کہ اس کو عافیت کی زندگی حاصل هو جائے- ایسی حالت میں یہ کہنا درست هو گا کہ اللہ سے مانگنے کی سب سے بڑی چیز عافیت ہے، نہ کہ دولت یا مادی سامان راحت-

حضرت ابو ہریرہؓ نے فرمایا: میں نے حضرت ابوبکرؓ کو اس منبر رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پر فرماتے ہوئے سنا : میں نے پچھلے سال آج ہی کے دن رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا، پھر حضرت ابوبکر صدیقؓ رُکے اور رونے لگے۔ پھر فرمایا: میں نے رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کو فرماتے ہوئے سنا: نہیں عطا کی گئی کلمۂ اخلاص کے بعد کوئی شے جو عافیت کے مثل ہو۔ پس اللہ سے عافیت کا سوال کرو (احمد، ترمذی، ابن ماجہ )

یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی دعا افضل ہے تو آپؐ نے جواب دیا تھا کہ ’عافیت کی دعا‘۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے پاس آیا اور پوچھا کہ کون سی دعا افضل ہے؟ فرمایا: اللہ سے دنیا اور آخرت کی عافیت کا سوال کرو۔ اگلے دن وہی آدمی پھر آیا اور اپنا سوال دہرایا: اے اللہ کے رسولؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  !کون سی دعا افضل ہے؟ فرمایا: وہی جو تجھے بتائی تھی۔ تیسرے دن وہ آدمی پھر آیا اور بولا: وہی دعا۔ رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: جس کو دنیا میں عافیت عطا کی گئی۔ اس کو نہیں عطا کیا جائے گا آخرت میں کچھ سواے فلاح کے۔ (ترمذی)

عافیت کی دعا کی وہ شان ہے کہ اس کا التزام نہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کرتے تھے بلکہ اپنے گھر والوں کو بھی اس کی تاکید کرتے تھے۔ مسند احمد اور ترمذی میں مذکور ہے، حضرت عباسؓ نے فرمایا: میں نے رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے کہا: مجھے ایسی شے کے بارے میں بتائیے جس کا میں اللہ سے سوال کروں؟ فرمایا: اللہ سے عافیت کا سوال کرو۔ کچھ دنوں کے بعد میں پھر گیا اور رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  سے پوچھا: مجھے ایسی شے کے بارے میں بتائیے جس کا میں اللہ سے سوال کروں؟ فرمایا: اے عباسؓ!اے میرے چچا!اللہ سے دنیا اور آخرت میں عافیت کا سوال کیجیے۔

رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود عافیت کے بغیر کوئی دعا نہیں مانگتے تھے مسند احمد اور ترمذی میں مذکور ہے، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ایک آدمی نے اللہ سے صبر کی دعا کی تو رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: کیا تو اللہ سے ابتلا و آزمایش مانگ رہا ہے؟اگر سوال کرنا ہے تو اللہ سے عافیت کا سوال کر، لہٰذا جس نے اللہ سے صبر کا سوال کیا تو اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ صبر مشقت کے بغیر نہیں اور جس نے مشقت مانگی تو گویا اس نے ابتلا و آزمایش مانگی، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نصیحت کی کہ جب بھی اللہ سے اس کے فضلِ عظیم کا سوال کرو تو عافیت کا سوال کرو۔

عربی لغت میں عافیت اسم ہے اور یہ عفو سے نکلا ہے۔ اس کا مطلب مکمل صحت ہے اور اس کی مختلف قسمیں ہیں۔ دین کے معاملے میں عافیت سے مراد گناہوں اور بدعات جیسے اُمور سے بچنا اور اطاعت میں کاہلی سے چھٹکارا ہے۔ دنیا کے معاملے میں عافیت سے مراد اس کے شر اور مصائب سے اللہ کی پناہ میں آنا ہے۔ خاندان کے معاملے میں عافیت سے مراد مرض و بیماری اور گناہوں کی زیادتی سے سلامتی ہے، جب کہ مالی عافیت سے مراد نت نئی مالی آفتوں سے بچنا ہے۔

عافیت کی ان تمام قسموں میں دینی عافیت انسان کے لیے سب سے نفع بخش ہے کیونکہ یہ اتنی معتبر ہے کے اس کے مثل دنیا میں کلمۂ اخلاص کے بعد کوئی نعمت نہیں۔ یہ نہ صرف بندے کے ایمان کو قائم رکھتی ہے بلکہ اللہ کی پکڑ سے بھی بچاتی ہے۔ اگر انسان کو سب عافیتوں میں سے کسی عافیت کو چننا پڑے تو دین کی عافیت کے مقابل کسی عافیت کو نہ پائے گا، جو نہ صرف اللہ کی پکڑ سے بچاتی ہے بلکہ بندوں کے شر سے بھی محفوظ رکھتی ہے۔

عافیت کی قسموں میں بدنی عافیت بھی شامل ہے، کیونکہ یہ انسان کی زندگی ہی ہے جس کی وجہ سے انسان احسن طریقے سے عبادت کر سکتا ہے، اور اپنے دیگر امور کے لیے بھی اقدامات و جدوجہد کر سکتا ہے۔ اسی طرح اس میں خاندان کی عافیت بھی شامل ہے تاکہ اللہ ان کے دین، اخلاق، صحت، احوال، رزق، مال اور دیگر دنیاوی نعمتوں میں برکت ڈالے۔


اللہ سے دین و دنیا کی عافیت کا ملنا ایک ایسی نعمت ہے جو ان تمام باتوں کا احاطہ کرتی ہے جن کا تقدیر میں ذکر ہے۔ جو اس بات کو سمجھے اس پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ کا شکر ادا کرے کیونکہ یہ توحید کے بعد نعمتِ عظیم ہے۔

حضرت عباسؓ کا قول ہے: جب تم اللہ تعالیٰ کا قول اُذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ،تم پر جو اللہ کی نعمتیں ہیں ان کا ذکر کرو، تو کہا کرو: عافیۃ اللّٰہ،اللہ کی عافیت۔ اور جب اللہ تعالیٰ فرمائیں: 

وَمَا بِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْہِ تَجۂَرُوْنَ o

(النحل)

’’تم کو جو نعمت بھی حاصل ہے اللہ ہی کی طرف سے ہے۔ پھر جب کوئی سخت وقت تم پر آتا ہے تو تم لوگ خود اپنی فریادیں لے کر اسی کی طرف دوڑتے ہو‘‘۔ اس آیت کی تلاوت کے بعد پھر حضرت عباسؓ نے پوچھا: اے لوگو!کیا تم اس نعمت کو جانتے ہو؟ وہ نعمت ہے عافیت، صحت، سلامتی اور تمھارے مالوں کا نقصان سے بچنا اور یہ سب اللہ کی نعمتیں ہیں، پھر فرمایا: اور یہ بھی اسی کے ہاتھ سے ہوتا ہے، یعنی جو بھی مصیبت تمھارے بدن پر آتی ہے، مثلاً بیماری اور آسایشات میں کمی، تو تم اللہ کی استعانت طلب کرتے ہو اور اس مستغیث سے دعا مانگتے ہو، کیونکہ تم جانتے ہو کہ اس سے بچانے والا اس کے سوا کوئی نہیں۔ پس تم اللہ کی ثنا بیان کرو، اس کی اطاعت کرو اور اس کا شکر ادا کرو تاکہ وہ تمھیں گناہوں سے بچائے اور مغفرت کرے۔


عافیت اور ابتلا 

ابتلا و آزمایش اللہ کی اپنی مخلوقات کے لیے سنت ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کا کثرت سے تذکرہ کیا ہے، کیونکہ یہ یا تو گناہوں کا کفارہ ہے یا پھر درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے۔ انسان مصیبت میں یا تو اپنے گناہوں کی وجہ سے گرفتار ہوتا ہے، یا پھر اللہ اپنے بندے کی آزمایش کرتے ہیں، جیسا کہ انبیاے کرام ؑ میں حضرت ایوب علیہ السلام کی ہوئی تاکہ ان کے درجات بلند ہوں۔ 

انسان پر جو بھی پریشانی و مشکلات آتی ہیں یا آسایشات و کشادگیاں ملتی ہیں وہ سب آزمایش کی قسمیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَ نَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَ الْخَیْرِ فِتْنَۃً ط وَ اِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَo(انبیا ۲۱:۳۵)’’اور ہم تمھیں اچھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمایش کر رہے ہیں۔ آخرکار تمھیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے‘‘۔

حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو لکھا: دنیا میں جو رزق تمھیں دیا گیا ہے اس پر قناعت کرو ،کیونکہ یہ تو رحمن کا فضل ہے جو وہ اپنے بندوں میں سے کچھ بندوں پر رزق کے معاملے میں کرتا ہے۔ اس طرح سے وہ سب لوگوں کو ان کی بساط کے مطابق آزمایش میں مبتلا کرتا ہے تاکہ وہ دیکھے کہ کون کیسے شکر ادا کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے سے ہی یہ حق ادا ہوتا ہے اور یہ واجب ہے ۔

عافیت کی نعمت کا نہ ہونا اور آزمایش کا آنا متنبہ کرتا ہے کہ آدمی شکر اور ذکر کا محتاج ہے۔ رزق کا اُٹھا لیا جانا بھی آزمایش ہے، جس میں صبر واجب ہے۔ ذرا سوچیے، مومنین جنھیں صبر سے نوازا گیا اور شکر عطا کیا گیا۔ ان کا اللہ کے ہاں کیا مقام ہوگا! اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: 

وَ اِنَّ کُلًّا لَّمَّا لَیُوَفِّیَنَّھُمْ رَبُّکَ اَعْمَالَھُمْط اِنَّہٗ بِمَا یَعْمَلُوْنَ خَبِیر۱۱۱)’’اور یہ بھی واقعہ ہے کہ تیرا رب انھیں ان کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دے کر رہے گا، یقیناًوہ ان کی سب حرکتوں سے باخبر ہے ‘‘۔

ابتلا کسی بھی بُرے کام کے سبب آ سکتی ہے۔ ابتلا عبادت میں تغیر کے سبب سے بھی آتی ہے اور اس صورت میں ابتلا ظاہری طور پر ہوتی ہے، اور باطنی طور پر بھی اللہ کے اذن سے عافیت ہوتی ہے۔ اس کیفیت کا پایا جانا ابتلا کی حکمتوں میں سے ہے۔ ایسی صورت حال میں انسان کو اپنے نفس کا محاسبہ، رب کی طرف پلٹنے کی فکر اور توبہ کرنی چاہیے، تاکہ ابتلا ایک نعمت اور خیر کا سبب بن جائے۔ اس لیے ہمیں ابتلا پر نظر رکھنی چاہیے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَ لَنُذِیْقَنَّھُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَo(السجدہ ۳۲:۲۱) ’’اس بڑے عذاب سے پہلے ہم اسی دنیا میں (کسی نہ کسی چھوٹے) عذاب کا مزا انھیں چکھاتے رہیں گے شاید کہ یہ (اپنی باغیانہ روش سے) باز آجائیں‘‘۔

حضرت عباسؓ فرماتے تھے کہ چھوٹا عذاب اس دنیا کے مصائب ہیں، اور جس پر ابتلا آئے اسے اللہ کا بندہ بن کر توبہ کرنی چاہیے۔ ابتلا و آزمایش کا سبب خواہ کچھ بھی ہو، اس سے نکلنے کا راستہ صرف اللہ کی اطاعت ہے، کیونکہ صرف اطاعت کی دوا ہی ابتلا کے مرض سے شفا دیتی ہے، اور ابتلا کا ازالہ بھی کرتی ہے۔

ایک مسلمان کو اس بات کا یقین ہونا چاہیے کہ وہ جس ابتلا میں گرفتار ہے وہ اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہے، اور وہی رب ذوالجلال اسے دفع کر سکتے ہیں اور درجات بلند کر سکتے ہیں۔ حضرت عباسؓ نے استسقا کے لیے انھی دلائل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اللہ آزمایش میں گناہوں کی وجہ سے مبتلا کرتے ہیں، اور جب تک توبہ نہ کی جائے وہ اسے دور نہیں کرتے۔ 

حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے فرمایا: قضا کو کوئی چیز رد نہیں کرتی سواے دعا کے۔ اور عمر میں کوئی چیز اضافہ نہیں کرتی سواے نیکی کے (مسند احمد و طبرانی)۔ امام شوکانی ؒ کہتے ہیں کہ دعا دافع قضا ہے بندے کے لیے، یعنی اللہ کی پناہ ہی دعا کا حاصل ہے۔ دعا کفایت کرتی ہے ہر شر سے جو بندے کے مقدر میں لکھا ہے۔ لہٰذا دعا ہی دافع ابتلا ہے۔ جو کوئی یہ جاننا چاہے کہ ابتلا کے مرض کی شفا کیا ہے تو اس کا اعتقاد اس بات پر ہونا چاہیے کہ اس کی شفا اللہ کی طرف سے عافیت میں ہے۔ عافیت رب ذوالجلال اسے عطا کرتے ہیں جس سے وہ خوش ہوں اور اپنی نعمتوں سے نوازنا چاہیں یا پھر اپنے بندے کی آزمایش چاہیں۔

ابتلا میں بھی اللہ کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوتی ہیں جیسا کہ مریض کو حالتِ مرض میں ان سارے اعمال کے اجر ملتے ہیں جو وہ صحت مندی کی حالت میں انجام دیتا تھا، کیونکہ اگر وہ صحت مند ہوتا تو وہ نیک اعمال کو انجام دیتا جسے وہ بیماری کی وجہ سے کرنے سے قاصر ہے۔ اس پر اللہ کا مزید کرم و نوازش دیکھیے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: 

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً ج وَ لَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ o(النحل ۱۶:۹۷)جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے۔

مومن کی زندگی تو مکمل خیر ہے۔ اس کی ابتلا بھی مکمل خیر ہے اور اس کو جو نعمتیں مختلف مواقع پر دی جاتی ہیں وہ بھی خیر ہیں۔ پس اسے عافیت کی نعمت کا شکر ادا کرنا چاہیے، جب کہ وہ ابتلا دیکھ چکا ہو۔مومن کا ہر غم ثواب کا سبب ہے، ہر اس چھوٹی بڑی شے کے بدلے میں جو اس سے اس دوران روک لی گئی تھی، یہ ہے حال مومن کا!

حضرت ابو موسٰیؓ سے روایت ہے، رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مریض اور مسافر کے حساب میں وہ سارے اعمال لکھے جاتے ہیں جو وہ حالتِ صحت اور قیام میں کرتا تھا(بخاری)۔ اسی بات کو ابوداؤد نے ذرا مختلف الفاظ کے ساتھ اس طرح نقل کیا ہے: جو بندہ نیک عمل کرتا ہے پھر یا تو وہ مرض میں مبتلا ہو جاتا ہے یا سفر اختیار کرتا ہے، تو اس کے اعمال میں نیک اعمال اسی طرح لکھے جاتے ہیں، جس طرح وہ حالتِ صحت میں اپنے قیام کے دوران کیا کرتا تھا۔ 

مرض کی دو قسمیں ہیں۔پہلا مرض وہ ہے جو جسم کو لاحق ہوتا ہے جسے عرف عام میں بیماری کہتے ہیں۔ اس کا پہلا علاج اللہ کی طرف توجہ اور اس سے شفا کی طلب ہے۔ پھر اسباب کا اختیار کرنا جیسے کہ ڈاکٹر کو دکھانا، دوا کھانا اور پرہیز کرنا وغیرہ ۔یہ دونوں چیزیں مل کر انسان کو شفا دیتی ہیں۔

مرض کی دوسری قسم حقیقت میں زیادہ مہلک ہے اور یہ جسم کے ظاہری عضو کا مرض نہیں بلکہ دل کا مرض اور اس کا فساد ہے۔ اس کی بڑی وجہ اللہ کی اطاعت سے غفلت ہے۔ اس مرض کے بڑھنے کے اسباب میں سے ایک دل کا گناہوں سے سیاہ ہو جانا ہے، جس سے اس کی بصیرت ختم ہوجاتی ہے اور دل پر قفل پڑجاتا ہے۔اس مرض کی کئی اقسام ہیں، جیسے کہ مرض شہوات، مرض شبہات۔ انسان ان سے بچ نہیں سکتا سواے سلامتی کے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: یَوْمَ لاَ یَنْفَعُ مَالٌ وَّلاَ بَنُوْنَ oاِِلَّا مَنْ اَتَی اللّٰہَ بِقَلْبٍ سَلِیْمٍ o(الشعراء ۲۶:۸۸۔۸۹)’’جس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا نہ اولاد، بجز اس کے کہ کوئی شخص قلبِ سلیم لیے ہوئے اللہ کے حضور حاضر ہو‘‘۔

انسان کی طرح دل بھی زندگی و موت کے بیچ میں منقسم ہے: زندہ، مُردہ اور مریض۔ زندہ یا سلیم قلب ایک مومن کا قلب ہوتا ہے۔ مُردہ قلب ایک کافر یا منافق کا خاصہ ہے، اور مریض قلب زندگی اور موت کے درمیان میں ہے یا تو قلبِ سلیم بنے گا یا پھر اس کی موت واقع ہو گی۔

قلب کے مرض میں قلب کا درد ملتا ہے، جیسے شک اور جہالت۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ آدمی سوال تو جب کرتا ہے جب اسے علم ہو اور شفا تو سوال کرنے پر ملتی ہے۔ جہاں تک شک کا تعلق ہے تو شک کسی بھی چیز کی وجہ سے دردِ دل بن جاتا ہے، حتیٰ کہ آدمی علم اور یقین حاصل کرلے۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ جو جواب مانگے گا اسے حق کی پہچان شفا کے طور پر دی جائے گی۔ مریض قلب کا اختتام موت ہے مگر اس کی زندگی، موت، مرض اور شفا ایک اٹل حقیقت ہیں۔

عافیت کا راستہ صرف اللہ عزوجل سے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے جو صرف اطاعت کے راستے پر چل کر ہی مل سکتا ہے۔ پس ابتلا کی سمجھ سے تطہیر کی ابتدا ہوتی ہے اور بندہ عافیت کے راستے پر چل پڑتا ہے، جس سے اس کے درجات بھی بلند ہوتے ہیں ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دن رات اللہ تعالیٰ سے عافیت مانگتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ میں نے کوئی دن اور رات ایسی نہیں دیکھی جب رسولؐ اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  یہ کلمات نہ ادا کرتے ہوں: 

اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْءَلُکَ الْعَفْوَ وَالْعَافِیَۃَ فِیْ دِیْنِیْ وَ دُنْیَایَ وَ أَہْلِیْ وَ مَالِیْ، اَللّٰہُمَّ اسْتُرْ عَوْرَتِیْ، وَٰامِنْ رَوْعَتِیْ، اَللّٰہُمَّ احْفَظْنِیْ مِنْ بَیْنِ یَدَیَّ وَمِنْ خَلْفِیْ، وَعَنْ یَّمِیْنِیْ وَعَنْ شِمَالِیْ ، وَمِنْ فَوْقِیْ، وَأَعُوْذُ بِعَظَمَتِکَ اَنْ اُغْتَالَ مِنْ تَحْتِیْ۔ (عن عمرؓ، ابوداؤد، ابن ماجہ، نسائی)

اے اللہ! میں تجھ سے مانگتا ہوں، معافی اور عافیت اپنے دین میں اور اپنی دُنیا میں، اور اپنے اہل اور مال میں۔ اے اللہ! میرا عیب ڈھانپ دے اور خوف کو امن سے بدل دے۔ اے اللہ! میری حفاظت کر، میرے آگے سے اور پیچھے سے اور میرے داہنے سے اور میرے بائیں سے اور میرے اُوپر سے، اور مَیں تیری عظمت کے واسطے سے پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ ناگہاں اپنے نیچے سے پکڑ لیا جاؤں۔(الطریق الی العافیۃ سے اخذ و ترجمہ)

Share: