حشر کے پانچ سوال” پہلا سوال”

 *حشر کے پانچ سوال*


حدثنا حميد بن مسعدة، حدثنا حصين بن نمير ابو محصن، حدثنا حسين بن قيس الرحبي، حدثنا عطاء بن ابي رباح، عن ابن عمر، عن ابن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا تزول قدما ابن آدم يوم القيامة من عند ربه حتى يسال عن خمس: عن عمره فيم افناه، وعن شبابه فيم ابلاه، وماله من اين اكتسبه، وفيم انفقه، وماذا عمل فيما علم " , قال ابو عيسى: هذا حديث غريب لا نعرفه من حديث ابن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم إلا من حديث الحسين بن قيس، وحسين بن قيس يضعف في الحديث من قبل حفظه، وفي الباب عن ابي برزة , وابي سعيد.

عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم نے فرمایا: ”آدمی کا پاؤں قیامت کے دن اس کے رب کے پاس سے نہیں ہٹے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ چیزوں کے بارے پوچھ لیا جائے: 

اس کی عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا، 

اس کی جوانی کے بارے میں کہ اسے کہاں کھپایا، 

اس کے مال کے بارے میں کہ اسے کہاں سے کمایا

 اور کس چیز میں خرچ کیا

 اور اس کے علم کے سلسلے میں کہ اس پر کہاں تک عمل کیا


*پہلا سوال: *عمر کے بارے میں کہ اسے کہاں صرف کیا*


حدیث مبارکہ کے مطابق حشر میں جن چیزوں سے متعلق استفسار ہو گا ان میں سب سے پہلے اس دنیاوی زندگی کے بارے میں سوال ہو گا جس کا ایک ایک لمحہ بہت قیمتی ہے، اس لیے اسے حیات مستعار سمجھتے ہوئے اللہ کی اطاعت و فرماں برداری میں گزارنا چاہیئے، کیونکہ اس  کے ایک ایک لمحہ کا حساب قیامت والے دن دینا ہے،

فضول، بے مقصد اور لا یعنی زندگی گزارنا  ایک مسلمان  کی شان کے خلاف ھے اور قیامت کے اس سوال کے لئے بہت ھی نقصان کا سبب ھے لیکن بدقسمتی سے یہ آج کے دور کا ایک فیشن بن گیا ہے کہ زندگی کے قیمتی لمہات فضولیات میں گزر رھے ھیں اور  طرفہ تماشہ یہ کہ ان ہی حضرات سے جو وقت کو فضول، بے مقصد اور لا یعنی کاموں میں ضائع کرتے رہتے ہیں ان ہی سے دین و ملت اور سماج و سوسائٹی کی خدمت اور دین کے تقاضوں کے لئے اگر کچھ وقت مانگا جائے  تو  صاف کہتے ہیں کہ صاحب ! بہت مصروفیت چل رھی ہے  بھلا میرے پاس فرصت کہاں ہے  میں  کہاں فارغ ھوں لیکن یہ بات جاننی چاھیے کہ جلد ھی وہ وقت  بھی آنے والا ھے جب اس دنیا  سے ھی آپ کو بالکل  فارغ کر دیا جائے گا پھر قبر کے  سوالات کے بعد مذکورہ بالا سوالات کا سامنا  بھی کرنا پڑے گا تو احساس ھو گا کہ ھم نے اپنی عمر کے قیمتی اوقات کو فضول  اور لا یعنی کاموں میں ضائع کرکے کتنا بڑا نقصان کر لیا ھے لیکن اس وقت اس احساس کا کوئی فائدہ نہیں ھو گا بلکہ یہ پچھتاوے کا سبب بنے گا

آج زندگی میں ھمارے پاس موقعہ ھے  ھم اسے غنیمت سمجھتے ھوئے   اپنی زندگی کے اوقات کو دعوت الی اللہ اور عبادت  وغیرہ میں لگا کر قیمتی بنا سکتے ھیں اور  قیامت والے دن سرخرو ھو سکتے ھیں اسی طرح اپنے اوقات صرف دنیاوی مشغولیت میں ھی لگا دینا اور یہ کہنا کہ روزی کمانا بھی تو فرض ھے کوئی آچھی روش نہیں ھے اس سلسلہ میں ھمیں صحابہ کرام کی زندگی کو مثال بنانا چاھیے کہ ان کے اوقات دنیا کی مصروفیات میں کتنے لگتے تھے اور دینی مصروفیات میں کتنے؟ 

اللہ پاک ھمیں عمل کی توفیق عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: