عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 18 )


*عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور کذاب ودجال مدعیان نبوت *


*ابو القاسم احمد بن قسی*


ابتداء میں یہ شخص جمہور مسلمین کے مذہب ومسلک پر کاربند تھا لیکن بعد میں اغوائے شیطان سے مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح قرآنی آیات کی عجیب عجیب تاویلات بیان کرنا شروع کردیں اور ملحدوں کی طرح نصوص پر اپنی نفسانی اور شیطانی خواہشات کا روغن  ملنے لگا  اس نے اپنا کافی اثر ورسوخ قائم کر لیا پھر آھستہ آھستہ  نوبت یہاں تک پہنچی کہ  اس نے اپنی نبوت کا دعویٰ بھی کردیا۔

اس کو بھی ہزاروں بے وقوف متابعت اور عقیدت مندی کے لیے مل گئے۔ 

شاہ مراکش علی بن یوسف بن تاشقین کو جب معلوم ہوا کہ ایک شخص احمد بن قسی نام کا نبوت کا دعویدار ہے تو اس نے اس کو اپنے پاس بلالیا اور پوچھا کہ میں نے سنا ہے تم نبوت کے دعویدار ہو؟ اس نے صاف لفظوں میں اپنی نبوت کا اقرار نہیں کیا بلکہ مختلف قسم کی باتیں بناکر اور حیلے  بہانے گڑھ کر بادشاہ کو مطمئن کرکے چلا آیا۔

واپس آنے کے بعد اس نے شیلہ کے ایک گاؤں میں ایک مسجد تعمیر کرائی اور اس میں بیٹھ کر اپنے مسلک اور مذہب کا پرچار کرنے لگا۔ جب اس کے ماننے والوں کی تعداد کافی بڑھ گئی تو اس نے ثلب کے مقامات احیلہ اور مزیلہ پر بزور شمشیر قبضہ کرلیا۔ 

اس کی فوج میں ایک فوجی سردار محمد بن وزیر بہت اھمیت کا حامل تھا فوج میں اس کا اثر ورسوخ بہت زیادہ تھا اس سردار نے ابو القاسم کو کئی عظیم کامیابیاں دلائی تھیں   ان دونوں کے درمیان اختلافات پیدا ھو گئے اور محمد اس سے برگشتہ ہوکر اسکا مخالف ہوگیا اس کو دیکھ کر دوسرے معتقدین بھی اس سے الگ ہوگئے اور اس کو ہلاک کرنے کی تدبیریں سوچنے لگے۔

انہیں ایام میں مراکش کی حکومت شاہ یوسف بن تاشقین کے ہاتھ سے نکل کر عبدالمومن کے عنان اختیار میں آگئی۔ یہ شخص بھاگ کر عبدالمومن کے پاس پہنچا۔ عبدالمومن نے اس سے کہا کہ میں نے سنا ہے تم نبوت کے مدعی ہو کہنے لگا جس طرح صبح صادق بھی ہوتی ہے اور کاذب بھی اسی طرح نبوت بھی دو طرح کی یعنی صادق اور کاذب۔ میں نبی ہوں مگر کاذب ہوں۔

اس پر پر عبدالمومن نے اس کو قیدکردیا۔ اس کے سوا اس کا مزید حال تاریخ میں نہیں ملتا۔ اس کی موت 550ھ اور 560ھ کے درمیان کسی وقت ہوئی ہے اور اس کے ساتھ ہی اس کی خانہ ساز نبوت بھی دم توڑ گئی۔


*محمد مہدی ذکری*


 کم و بیش چار سو سال پہلے یہ محمد مہدی جس کے بارے  میں قیاس کیا جاتا ھے کہ جس زمانے میں ایران میں صفویوں نے قبضہ کیا اور زبردستی لوگوں کو شیعہ بنایا اس دور میں کچھ لوگ وہاں سے بھاگے تھے ان میں باطنی فرقہ کے لوگ بھی  تھے، ان میں یہ  محمد مہدی تھا اس کا تعلق بھی باطنی فرقہ سے تھا ۔ یہ ۹۷۷ھ کی بات ہے، سرباز کے علاقے میں آئے۔ وہاں تربت کے علاقے میں اس نے آ کر دعوٰی کیا کہ میں مہدی ہوں، وہاں کا ایک سردار تھا مراد، جس کے نام پر کوہ مراد ہے، وہ سب سے پہلے  اس پر ایمان لایا۔ جہالت کا دور تھا، لوگ ساتھ ملتے گئے، ایک اچھا خاصا گروہ بن گیا۔ مہدی نے بعد میں نبوت اور وحی کا دعوٰی بھی کر دیا اور اپنے فرقے کو ذکری کا نام دیا  اور کہا کہ میں افضل الانبیاء ہوں۔( نعوذ باللہ)

اس نے ایک  خود ساختہ کتاب  ’’معراج نامہ‘‘  پیش کی جیسے وحی کا نام دیا گیا  جو خرافات سے پر ھے  اس کی خرافات میں سے ایک نقل ملاحظہ ھو نقل کفر کفر نباشد۔ 

اس ’’معراج نامہ‘‘ میں لکھا ھے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ معراج کرانے کی وجہ یہ تھی کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہا کہ میں تمام انبیاء کا سردار ہوں، اللہ کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ نے عرش پر بلا لیا یہ دکھانے کے لیے کہ انبیاء کا سردار کون ہے، جب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرش پر تشریف لے گئے تو وہاں اللہ تعالٰی بیٹھے ہوئے تھے اور ساتھ ملا محمد مہدی  بیٹھے ہوئے تھے۔ اللہ تعالٰی نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا کہ میں نے آپ کو یہ بتانے کے لیے بلایا ہے کہ انبیاء کا سردار یہ ہے جو میرے پہلو میں بیٹھا ہوا ہے۔ 

اس  نے شریعت کے کچھ احکام منسوخ قرار دے دیئے مثلاً نماز منسوخ کر دی اور اس کی جگہ کچھ مخصوص اذکار صبح و شام کے بتا دیے۔ یہی ان کا ٹائٹل بن گیا، اس علاقے  میں پہچان کے لئے مسلمانوں کو نمازی جبکہ ان کو ذکری کہا جاتا ہے۔ روزے منسوخ کر دیے اور رمضان کی بجائے ذی الحجۃ کے عشرے کے دس روزے طے کر دیے۔ اور حج بھی منسوخ کر دیا ،کوہ مراد پر ستائیس رمضان کو اکٹھے ہوتے ہیں، کوہ مراد کا طواف کرتے ہیں، اور وہاں ایک میدان کو عرفات کا نام دیا ہوا ہے، وہاں یہ لوگ وقوف کرتے ہیں، مصنوعی حج کرتے ہیں۔

ایک زمانے میں حضرت مولانا محمد عبد اللہ درخواستیؒ نے بلوچستان کا دورہ کر کے مصنوعی حج کے خلاف فضا بنائی تھی اور حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ اسے بند کیا جائے۔ لیکن وہ لوگ اب بھی کرتے ہیں، ہزاروں کی تعداد میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ ان کی آبادی ساحل کے ساتھ ساتھ  ہے، کراچی میں بھی اس فرقہ کے لوگ ہیں ذکریوں سے لوگوں کو بچانے اور عام لوگوں کا ایمان محفوظ رکھنے کے لیے جن لوگوں نے سالہاسال محنت کی ہے ان میں سب سے نمایاں نام کراچی میں حضرت مولانا علی محمد قصر قندیؒ اور بلوچستان میں حضرت مولانا احتشام الحق آسیا آبادی شہیدؒ کا ہے۔ مولانا آسیا آبادی کو چار یا  پانچ سال پہلے بیٹے سمیت شہید کر دیا گیا تھا

موجودہ دور کے مدعیان نبوت میں ذکری گروہ نئی نبوت، نئی وحی اور نئی کتاب کے نام سے ہمارے ملک میں  اس وقت بھی موجود ھے  یہ چار سو سال سے چلے آرہے ہیں، کسی زمانے میں اس پوری پٹی پر ان کی حکومت بھی رہی ہے۔ بلیدی خاندان ایک زمانے میں ذکری فرقہ  رہا ہے، سو سال سے زیادہ ان کی حکومت رہی ہے۔  بتایا جاتا ھے کہ کراچی کے بعض قبرستانوں میں اس فرقے کے لوگوں کی قبروں کے کتبوں پر نعوذ باللہ یہ کلمہ لکھا ہوا ہے ’’لا الٰہ الا اللہ، نور پاک محمد مہدی رسول اللہ‘‘۔ ( واللہ عالم) ذکری لوگ کام سارا مسلمانوں کے انداز سے ہی کرتے ہیں کہ عام لوگوں کو پہچان تک  نہیں ہوتی، سوائے قریبی لوگوں کے جو ان کو جانتے ہیں۔محمد مہدی کی موت کیسے واقع ھوئی اس کا حال نامعلوم ھے

Share: