عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 19 )


*عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور کذاب ودجال مدعیان نبوت *


*مرزا بہاء اللہ شیرازی*


انیسویں صدی کے وسط میں مرزا محمد علی نامی ایک صاحب نے دعوٰی کیا کہ امام غائب سے میرا رابطہ ہو گیا ہے، ملاقات ہوئی ہے، امام غائب نے مجھے اپنا نمائندہ مقرر کیا ہے۔ چونکہ یہ بات اثنا عشری عقیدے کے خلاف تھی تو اس وقت کی ایرانی سلطنت میں اس کے خلاف مقدمہ چلا اور تبریز چھاؤنی میں مرزا محمد علی باب کو ارتداد اور امام کی توہین کے جرم میں سزائے موت دے دی گئی۔ 

مرزا بہاء اللہ شیرازی بھی مرزا محمد علی کے شاگردوں میں سے تھا اس نے دعوٰی کر دیا کہ مرزا محمد علی تو میری بشارت دینے آئے تھے، اصل تو میں ہوں اور میں امام غائب نہیں بلکہ نبی ہوں، مجھ پر وحی آتی ہے۔

مرزا شیرازی نے نعوذ باللہ قرآن کریم کی منسوخی کا اعلان کیا۔ اس کی کتاب ’’الواح مقدسہ‘‘ کے نام سے ہے، اس میں قرآن کریم کے طرز پر سورتیں بنائی گئی ہیں، اس میں سورۃ الملک کی طرز پر سورۃ الملوک ہے۔ نمازیں منسوخ کر دیں اور قبلہ تبدیل کر دیا۔ جس زمانے میں صفویوں اور عثمانیوں کی کشمکش تھی، صفوی عالم اسلام میں شیعیت کے فروغ کے لیے کام کر رہے تھے، ایران پر تقریبًا کنٹرول حاصل کر لیا تھا اور پھر عراق اور مصر میں اپنے پاؤں بڑھا رہے تھے، تو عثمانی خلفاء نے مزاحمت کی اور سلطان سلیم اول کے دور میں صفویوں اور عثمانیوں کی بڑی جنگ ہوئی، جس جنگ کے نتیجے میں مصر بچ گیا، ورنہ ایران کی طرح مصر بھی صفویوں نے گھیرے میں لے لیا تھا، سلطان سلیم اول مقابلے پر آئے تھے۔ عثمانیوں نے صفویوں کا مقابلہ کیا اور اس کا مذہبی پس منظر بالکل واضح تھا۔ 

بہرحال صفویوں اور عثمانیوں کی اس کشمکش سے بہاء اللہ شیرازی نے فائدہ اٹھانا چاہا، چونکہ ایران میں سبھی اثنا عشری علماء تھے اور انہوں نے بہاء اللہ شیرازی کو برداشت نہیں کیا تو اس مخاصمت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ صاحب قسطنطنیہ چلے گئے تاکہ صفویوں کے خلاف عثمانیوں کی کشمکش سے فائدہ اٹھائیں۔ انہوں نے سیاسی پناہ دی لیکن کچھ عرصے کے بعد عثمانیوں کو اندازہ ہو گیا کہ یہ ٹھیک نہیں ہوا۔ یہ صاحب ہمارے لیے قابل قبول نہیں ہیں تو انہوں نے قسطنطنیہ سے نکال دیا۔ پھر بہاء اللہ شیرازی نے فلسطین میں عُکہ نامی جگہ پر اپنا ٹھکانہ بنا لیا اور اور عکہ کو ھی قبلہ ڈکلئیر کر دیا اب بھی بہائیوں کا قبلہ عکہ ہی ہے، بہاء اللہ شیرازی عکہ میں فوت ہوا، وہیں اس کی قبر ہے، اس کے بیٹے مرزا عبدالبہاء نے بھی عکہ ہی کو مرکز رکھا اور انہوں نے دنیا میں پھیلنا شروع کر دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت فلسطین کے علاقوں میں کافی بہائی ہیں، اور یہ بھی فلسطین کے تنازعے میں عکہ کے حوالے سے فریق ہیں۔

بہاء اللہ نے  اپنے مذہب میں نماز منسوخ کر دی، الواح مقدسہ کے نام سے نئی تعلیمات دیں، اور یہ تصور دیا کہ ہم تمام مذاہب کے جامع ہیں۔ ان کے مطابق پہلے تمام انبیاء نہریں تھیں اور بہاء اللہ شیرازی سمندر ہے جس میں ساری نہریں اکٹھی ہو گئی ہیں۔ کہتے ہیں ہم مجمع البحار ہیں، بہاء اللہ شیرازی خاتم الانبیاء ہے، اس کی تعلیمات نسل انسانی کی رہنما ہیں۔ عورت اور مرد کی ہر لحاظ سے مساوات کا تصور مذہبی طور پر پیش کیا کہ عورت اور مرد کے احکام اور معاشرت میں کسی حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے۔ جبکہ ہمارا مغرب کے ساتھ جھگڑا ہے کہ مرد اور عورت کی نفسیات، خلقت، اور فطری فرائض میں فرق ہے، اس لیے احکام بھی دونوں کے یکساں نہیں ہیں۔

اتحاد بین المذاہب بہائیوں کا ٹائٹل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم تمام مذاہب کو حق سمجھتے ہیں اور تمام مذاہب کے اتحاد کے قائل ہیں۔ عملی طور پر اس کا ایک مظہر یہ ھے  کہ شکاگو میں بہائیوں کے عالمی مراکز میں سے ایک مرکز ہے۔ (ان کے تین چار عالمی مراکز ہیں، دہلی، شکاگو اور لندن وغیرہ میں)

شکاگو کے بہائی مرکز میں  ایک بہت بڑا ہال بنایا گیا ھے ، اس ایک ہال میں ایک چھت کے نیچے چھ مذاہب کے عبادت خانے بنے ہوئے ھیں ، بالکل ان کے اپنے اپنے ماحول کے مطابق۔ ایک کونے میں مسجد کی طرز کا عبادت خانہ بنا ہوا تھا جس میں مسجد کا ماحول منبر، دریاں، تپائیاں پڑی ھیں ۔ دوسرے کونے میں گرجا ھے، ان کے ماحول کے مطابق۔ ایک کونے میں ہندوؤں کا مندر۔ ایک کونے میں یہودیوں کا معبد۔ بالکل وسط میں سکھوں کا گردوارہ اور بدھوں کا عبادت خانہ۔

ایک چھت کے نیچے چھ عبادت خانے بنے ہوئے  ھیں سب کو اجازت ہے کہ ہر کوئی اپنے عبادت خانے میں اپنے طریقے کے مطابق عبادت کرے۔ 


بہرحال یہ اتحاد بین المذاہب کے عملی مناظر شو کرتے ہیں بالکل اسی طرح جیسےاکبر بادشاہ نے ’’دینِ الٰہی‘‘ کے نام سے جو ملغوبہ بنایا تھا، اس نے بھی یہی کیا تھا۔ یہ نئی بات نہیں ہے، اس دور میں بہائی اس کے مذہبی طور پر دعویدار ہیں۔ 


بہائیوں کے ہاں انیس کا عدد بہت متبرک  سمجھا جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن میں تو انیس کا عدد جہنم کے حوالے سے ذکر ہوا ہے۔ انہوں نے اپنا الگ کیلنڈر تشکیل دیا ہوا ہے جس میں انیس مہینے، اور ہر مہینے کے انیس دن ہیں۔ اس کا پس منظر کیا ہے، یا نتائج کیا ہیں، یہ ان کو ہی معلوم ہوگا۔ 


ایک زمانے میں ایران میں بادشاہت کے دور میں بہائیوں نے یہ پوزیشن حاصل کر لی تھی کہ وہاں کے بڑے جرنیل، بیوروکریٹ حتٰی کہ ان کے ایک وزیراعظم امیر عباس ہویدا بہائی تھے۔ 


خمینی انقلاب میں آیت اللہ خلخالی نے بہائیوں کو ٹارگٹ کیا، ان کو نکالا اور قتل بھی کیا۔ یہ اس وقت وہاں سے بھاگے اور مختلف علاقوں میں پناہ لی۔ اس وقت بہت سے بہائی ایران، عرب، فلسطین، امریکہ، برطانیہ اور پاکستان میں ہیں۔ پاکستان میں ان کے مراکز پشاور، سیالکوٹ، لاہور، کوئٹہ سمیت بارہ شہروں میں کام کر رہے ہیں۔ ان کا اردو ماہنامہ نفحات پشاور سے چھپتا تھا۔ بہرحال یہ ھے بہائیوں کا تعارف، پس منظر اور دائرہ کار، اور اس کے پیروکار آج بھی دنیا کے مختلف علاقوں میں موجود ھیں

اللہ پاک تمام مسلمانوں کو ان فتنوں سے محفوظ رکھے

آمین یا رب العالمین

Share: