عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 21 )


*عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور کذاب ودجال مدعیان نبوت *


مرزا غلام  قادیانی

موجودہ زمانہ میں نئی نبوت اور نئی وحی کے عنوان سے جو گروہ قائم ہوئے اور اس وقت موجود اور مختلف علاقوں میں متحرک ہیں، ان میں سے ذکریوں، بہائیوں،  اور نیشن آف اسلام کا ذکر کیا  جا چکا ھے  ایک اور مدعی نبوت خلیفہ رشاد کا گروپ  ابھی بھی موجود ھے لیکن اس کے قتل ھونے کے بعد یہ زیادہ  متحرک نہیں رھا اس لئے اس کا ذکر نہیں کیا گیا  جیسا کہ یہ  بات ھر ایک کو معلوم ھے کہ ھمارے ھاں نئی نبوت کا دعویدار بڑا گروہ قادیانیت ہے، 

چونکہ قادیانیت کا مسئلہ ہمارے علاقے برصغیر کا مسئلہ ہے، ہماری براہ راست ان کے ساتھ تقریباً سوا سو سال سے کشمکش چل رہی ہے، اس لیے زیادہ تر بات ان کے ہی بارے میں کی جاتی ہے اور زیادہ مسائل بھی ان کے حوالے سے ہی درپیش ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں ختم نبوت کے حوالے سے جتنا کام ہوتا ہے نوے فیصد قادیانیوں کے حوالے سے ہوتا ہے۔لیکن پہلے جن  تین چار گروہوں کا ذکر کیا گیا ہے کہ وہ بھی اسی حوالے سے کام کر رہے ہیں اور ان سے بھی مسلم اُمة کو مسائل درپیش ہیں۔ لیکن ہمارا آمنا سامنا اور محاذ آرائی قادیانیت سے ہے اور اعتقادی حوالے سے، سماجی حوالے سے، اور سیاسی حوالے سے ان کے ساتھ ھی ہماری کشمکش چل رہی ہے 


مرزا قادیانی ملعون وکذاب بھارتی صوبہ پنجاب ضلع گورداسپور کی تحصیل بٹالہ کے موضع قادیان میں 1839ء یا 1840ء میں پیدا ہوا۔ 7,6سال کی عمر میں اس نے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا۔ چند فارسی کتب بھی پڑھیں مگر تفسیر، فقہ اور دوسرے دینی علوم سے قطعاً محروم رہا۔ والد نے طب کی تعلیم بھی دلانے کی کوشش کی مگر یہ اس میدان میں بھی آگے نہ بڑھ سکا اور نتیجتاً ’’نیم ملا خطرہ ایمان اور نیم حکیم خطرہ جان‘‘ بن گیا۔ سیالکوٹ میں ملازمت کی۔ مختار کے امتحان میں بیٹھا مگر ناکام رہا۔ پھر قادیان کا رخ کیا۔ قانون کے چند نکات سے واقفیت تھی، والد کے اثرورسوخ پر وکیل بن گیا اور کچہریوں کی خاک چاٹتا رہا اور اپنے خاندانی مقدمات بھی ہارتا رہا۔

بٹالہ اور گردونواح میں بزرگان دین کے جاء وجلال کو دیکھ کر اس کے منہ میں بھی رال ٹپکنے لگی اور یہ پیری مریدی کے خواب دیکھنے لگا۔ اسی دوران اس کے بچپن کے دوست ہم مکتب مولوی محمد حسین ابو سعید بٹالوی دینی تعلیم مکمل کرکے بٹالہ آئے۔ خبر ملتے ہی یہ ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور غیر اسلامی ادیان کے رد میں کتاب لکھنے کا مشورہ طلب کیا۔ مولوی محمد حسین نے کہا کہ یہ مبارک خیال ہے ۔ کتاب کی اشاعت کے لیے سرمایہ کا مسئلہ درپیش تھا مگر مولوی صاحب نے لاہور آنے کا مشورہ دے کر یہ مشکل بھی حل کردی۔

یہی وہ زمانہ تھا جب پنڈت دیانند سرسوتی نے اپنی ہنگامہ خیزیوں سے ملک میں مذہبی فضا کو آلودہ کردیا تھا۔ اسلام کیخلاف ہرزہ سرائی عروج پر تھی، غلام احمد قادیانی نے مولوی محمد حسین کے پاس مسجد چینیا لاہور میں رہائش اختیار کی اور مختلف مذاہب کی کتابوں کا مطالعہ کرنے لگا، اس دوران گاہے بگاہے اس کی ہندو، عیسائی اور دیگر مذاہب ومسلک کے لوگوں سے مڈبھیڑ بھی ہونے لگی اور اس نے اپنے گرد مجمع اکٹھا کرنے کا ہنر سیکھ لیا۔ اب مرزا قادیانی نے ان بحث مباحثوں سے باہر نکل کر الہام بازی کی دنیا میں قدم رکھا اور ملہم ومستجاب الدعوات ہونے کا پروپیگنڈا شروع کردیا، شہرت تو پہلے سے تھی اب اہل حاجات کی آمدورفت کا بھی سلسلہ بھی بڑھ گیا ۔

لالہ شرمپت رائے اور لالہ ملا واہل یہ دو ہندو اس کے مشیر خاص اور حاشیہ نشین تھے۔ خوشامدیوں اورمدح سراؤں کی بھی ایک کثیر تعداد موجود تھی۔ ’’براہین احمدیہ‘‘ مرزائیوں کے نزدیک مرزا قادیانی کا سب سے بڑا علمی کارنامہ ہے، یہ 564صفحات پر مشتمل کتاب ہے جس کے جواب پر مرزا قادیانی نے غیر مسلموں کے لیے 10ہزار روپے کا انعام مقرر کیا۔ اس اعلان پر مسلمانوں کو یقین ہوگیا کہ مرزااسلام کی تائید میں غیر مسلموں کو منہ توڑ جواب دے گا۔ ’’برائین‘‘ میں قادیانی نے ایسا لب ولہجہ اختیار کیا کہ آریوں اور عیسائیوں کے دلوں میں بھی اسلام کے خلاف نفرت وعناد میں اضافہ ہوگیا۔ پنڈت لیکھ رام نے ’’تکزیب براہین احمدیہ‘‘ کے نام سے جواب شائع کیا جو دشنام طرازی اور بدگوئی میں اپنی مثال آپ تھی۔

اس بدبخت نے انبیاء ورسل کی اس قدر توہین کی کہ شاید پہلے ایسا نہ ہوا ہو اور اس سب کا ذمے دار مرزا قادیانی ہی قرار پایا لیکن مرزا اور اس کے حواریوں کے نزدیک برائین کامیاب ترین کتاب رہی۔ اسی دوران امرتسر میں مرزا قادیانی کے دوست حکیم محمد شریف کلانوری نے اس کو ’’مجدد‘‘ ہونے کے دعویٰ کا مشورہ دیا۔ چنانچہ مرزا نے ’’مجددیت‘‘ کا ڈھنڈورا بھی پیٹنا شروع کردیا اور دنیا بھر میں مختلف زبانوں میں لٹریچر بھجوانے شروع کردیے۔ لیکن مرزا تجدید کے اثر کا کمال یہ ہوا کہ 20ہزار دعوتی اشتہار کی ترسیل کے باوجود ایک بھی غیر مسلم اسکا ہم نوا نہ بنا۔

علمائے لدھیانہ میں ممتاز حیثیت کے حامل مولوی محمد، مولوی عبداللہ اور مولوی اسمعٰیل تینوں حقیقی بھائیوں نے کہیں سے کتاب ’’براہین احمدیہ‘‘ حاصل کرکے اس کا مطالعہ کیا۔ اس میں الحاد وزندقہ کے طومار نظر آئے انہوں نے شہر میں اعلان کردیا کہ یہ شخص مجدد نہیں بلکہ ملحد وزندیق ہے اور مرزا کی تکفیر کا فتویٰ جاری کردیا۔ تھوڑے ہی دنوں بعد علماء حرمین کی طرف سے بھی مرزا کے کفر کے فتوے ہندوستان پہنچ گئے۔ جب تکفیری فتوؤں کے بعد مرزا قادیان کی سرگرمیاں متاثر ہونے لگیں تو اس نے مسیح ہونے کے اعلان کی منصوبہ بندی شروع کردی سب سے پہلے اس نے حضرت مسیحؑ کی حیات اور آپ کی آمدثانی سے انکار کیا۔ حالانکہ اپنی کتاب کے صفحہ نمبر498میں پہلے یہ حضرت عیسیٰؑ کی حیات اور آمد ثانی کا اقرار کرچکا تھا۔

پھر اس بدبخت نے یہ پروپیگنڈا شروع کردیا کہ میں مثیل مسیح ہوں علماء حق کی جانب سے اس کے اس دعویٰ کی بھی بھرپور نفی کی گئی مگر پادریوں کی جانب سے خاموشی نے اس کا حوصلہ بڑھایا اور آخر کار اس نے 1890ء میں یہ دعویٰ بھی کردیا کہ احادیث میں جس مسیح کے آنے کی پیشن گوئی کی تھی وہ میں ہی ہوں (نعوذ باللہ) جب ہر طرف سے معجزات مسیح میں سے کوئی ایک ایک معجزہ دکھانے کے مطالبات بڑھنے لگے تو اس زندیق نے معجزات مسیح کا سرے سے ہی انکار کردیا۔

1892ء میں اس نے مہدی ہونے کا بھی دعویٰ کردیا۔ مرزا کے جھوٹ پر جھوٹ اور دین اسلام کا حلیہ بگاڑنے پر اس کے محسن ومربی مولوی محمد حسین سمیت کئی لوگوں نے اس کا ساتھ چھوڑ دیا اور اس کے جھوٹے دعوؤں کے پول کھولنے لگے اسی دوران حضرت پیر مہر علی شاہؒ گولڑی نے مرزا قادیان کی ایسی خبر لی کہ اس کے چودہ طبق روشن ہوگئے جب اس نے محسوس کیا کہ اب بچنے کا کوئی راستہ نہیں تو مناظرے کی دعوت دے دی اور جب بے حد مصروفیت کے باوجود حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب مناظرے کے لیے لاہور پہنچے تو یہ بھاگ گیا اور پروپیگنڈہ پیر صاحب کے خلاف شروع کردیا کہ وہ تشریف نہیں لائے۔

1901ء میں مرزا کذاب نے ظلی وبروزی اور غیر تشریعی بنی اور پھر اصلی نبی ہونے کا دعویٰ کردیا۔ (معاذ اللہ)اور 29مئی 1908ء کو اچانک قہر خدا کا شکار ہوا اور ہیضہ میں مبتلا ہوکر لاہور میں پاخانے کے اندر موت واقع ہوئی

قادیانیت کے دوسرے خلیفہ اور مرزا غلام  قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین 1910ء نے قادیانیوں کے دوسرے مختصر گروپ لاہوری پارٹی کے خلاف حقیقۃ النبوۃ نام کی ایک کتاب لکھی جس کے 50صفحات صرف اس لیے سیاہ کیے کہ مرزا غلام  قادیانی اسی قسم کے نبی تھے جس کے اور جیسے نبی پہلے آتے رہے اور اگلے نبیوں کے نہ ماننے والے جس طرح کافر ہیں اور نجات کے مستحق نہیں اسی طرح مرزا صاحب کے نہ ماننے والے سارے مسلمان بھی کافر اور نجات سے محروم رہنے والے ہیں۔

اس میں مرزا کی نبوت پر 20دلیلیں دی گئی ہیں، ان میں ایک دلیل یہ بھی ہے کہ مرزا صاحب نے خود اپنے کو نبی اور رسول کہا ہے، اس کے بعد اس کے لڑکے اور حقیقۃ النبوۃ کے مصنف نے مرزا کی کتابوں سے 39 عبارتیں درج کی ہیں ان میں سے کچھ آپ بھی پڑھیے، مرزا کہتے ہیں۔

(1) میں اس خدا کی قسم کھاکر کہتا ہوں کہ جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نام نبی رکھا ہے (تتمہ حقیقۃ الوحی، صفحہ 68/از مرزا قادیانی)۔(2) ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول ونبی ہیں (بدر5،مارچ1908ء)۔(3) سچا خدا وہی ہے جس نے قادیان میں اپنا رسول بھیجا (دافع البلای، صفہ11)۔(4) خدا تعالیٰ قادیان کو اس طاعون کی خوفناک تباہی سے محفوظ رکھے گا کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے (دافع البلای، صفحہ10)۔(5) پس خدا نے اپنی سنت کے موافق ایک نبی مبعوث ہونے تک وہ عذاب ملتوی رکھا اور جب وہ نبی مبعوث ہوگیا۔ تب وہ وقت آیا کہ ان کو ان کے جرائم کی سزا دی جائے (تتمہ حقیقۃ الوحی، ص 52)

مرزا غلام  قادیانی نے اپنے دعوائے نبوت کے ساتھ ساتھ کچھ خدائی الہامات بھی گڑھے ہیں۔ اس کے بیٹے بشیر الدین محمود نے ان الہامات کو بھی اپنے باپ کی نبوت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے، ان من گھڑت الہامات میں سے چند ملاحظہ کریں۔*ہم نے احمد (مرزا غلام اقادیانی) کو ایک قوم کے پاس بھیجا تو اس نے اعراض کیا اور کہا یہ انتہائی جھوٹا اور بہت شریر ہے۔* میں رسول کے ساتھ قائم ہوں اور ملامت کرنے والے کو ملامت کرتا ہوں۔ *میں نے نیند میں خود کو ’’ہو بہو اللہ دیکھا اور مجھے یقین ہوگیا کہ میں وہی اللہ ہوں۔ (نعوذ باللہ ذالک) (آئینہ کمالات اسلام، ص564از مرزا)اسی طرح اس بدبخت کذاب نے خدا کا بیٹا ہونے کا بھی دعویٰ کیا، اس کے علاوہ کرشن، اوتار اور درجنوں جھوٹے دعوے کیے اور آج بھی اس کے پیروکار دنیا بھر میں اس کی تعلیم کو عام کرنے اور ارتدادی سرگرمیوں میں مصروف کار ہیں۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ مسلمانوں کو عقل سلیم کے ساتھ ان جھوٹے مدعیان نبوت کی شرانگیزیوں سے محفوظ رکھے۔ مندرجہ بالا تحقیق وتحریر کا مقصد عالم اسلام اور راسخ العقیدہ مسلمانوں کو ان جھوٹے نبیوں کی کارستانیوں اور ان کے عبرتناک انجام سے آگاہ کرنا مقصود ہے۔


قادیانیوں کے ساتھ ایک  میدان مباہلے کا ہے جو مرزا قادیانی نے خود چھیڑا تھا۔ یہ ملعون مباہلے کے چیلنج کرتا رہا، کبھی عیسائی پادریوں کو، کبھی مسلمان علماء کو۔ اس کا ایک بڑا مشہور مباہلے کا چیلنج ہے، حضرت مولانا ثناء اللہ امرتسری جو اہل حدیث اور اکابر علماء میں سے تھے، شیخ الہندؒ کے شاگردوں میں سے اور جمعیت علماء ہند کے بانیوں میں سے ہیں۔ جمعیت علماء ہند کا تاسیسی اجلاس امرتسر میں ان کے گھر میں ہوا تھا۔ ان کا بڑا میدان مناظرہ کا تھا، بہت زبردست مناظر تھے، آریہ سماج ہندوؤں کے خلاف بھی، عیسائیوں کے خلاف بھی، قادیانیوں کے خلاف بھی، مرزا سے بھی مولانا امرتسری کی نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔ امرتسر سے ان کا پرچہ نکلتا تھا۔ مرزا نے ان کو مباہلے کا چیلنج دے دیا اور کہا اگر مولوی ثناء اللہ سچا ہے تو میں اس کی زندگی میں اتنے عرصے کے اندر ذلت کی موت مر جاؤں، اور اگر میں سچا ہوں تو مولوی ثناء اللہ میری زندگی میں اتنے عرصے کے اندر ذلت کی موت مر جائے ۔ اس پر اشتہار چھاپے، کتابیں چھاپیں، دنیا میں ڈھنڈورا پیٹا کہ مولوی ثناء اللہ کی خیر نہیں ہے۔ اس چیلنج کے ایک سال کے اندر اندر مرزا غلام  قادیانی  لاہور میں بیت الخلا میں مر گیا  جبکہ مولانا امرتسری اس کے بعد چالیس سال تک حیات رہے۔

پھر پاکستان بننے کے بعد  مباہلے کا ایک اور میدان سامنے آیا۔ حضرت مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ  جو چنیوٹ کے رہنے والے تھے۔ چنیوٹ کے قریب ربوہ میں قادیانیوں نے اپنا مرکز بنایا ھوا تھا مولانا چنیوٹیؒ حضرت مولانا محمد یوسف بنوریؒ، مولانا ظفر احمد عثمانیؒ اور مولانا بدر عالمؒ کے شاگرد تھے۔ بڑے مناظر اور متکلم قسم کے بزرگ تھے۔ انہوں نے مباہلے کا ایک نیا رخ اختیار کیا۔ ۱۹۵۲ء یا ۱۹۵۳ء کی بات ہے کہ مرزا بشیر الدین محمود قادیانیوں کا سربراہ تھا جو مرزا غلام کا بیٹا تھا، ۔ مولانا چنیوٹیؒ نے مرزا بشیر الدین محمود کو چیلنج دے دیا کہ مناظرے چھوڑو، دریائے چناب کے اس طرف آپ رہتے ہیں، اس طرف میں رہتا ہوں، درمیان میں ایک خشک پٹی ہے، وہاں دونوں جمع ہوتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہم میں سے جو جھوٹا ہے اسے برے انجام کا شکار کر۔ قادیانیوں کی طرف سے کہا گیا کہ تم ایک عام مولوی ہو، کس کے نمائندے ہو؟ اس وقت کی چار بڑی جماعتوں جمعیت علماء اسلام، مجلس تحفظ ختم نبوت، تنظیم اہل سنت، اور جمعیت اشاعۃ التوحید والسنۃ کے بڑے بزرگوں، جمعیت علماء اسلام کے ناظم اعلٰی حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، تحفظ ختم نبوت کے ناظم اعلیٰ مولانا محمد علی جالندھریؒ، تنظیم اہلسنت کے امیر حضرت مولانا نور الحسن شاہ بخاریؒ، اور جمعیت اشاعۃ التوحید والسنۃ کے قائد حضرت مولانا غلام اللہ خان سے لکھوایا کہ یہ ہمارا نمائندہ ہے، اس کی فتح و شکست ہماری فتح و شکست ہو گی۔ اس وقت دیوبندیوں کے دائرے میں بڑی جماعتیں یہی تھیں۔ مولانا چنیوٹیؒ نے اس کے بعد اعلان کیا کہ میں سب کا نمائندہ ہوں، سب سے نمائندگی لے لی ہے، تاریخ مقرر کی، دریائے چناب کے درمیان خشک پٹی پر گئے، سارا دن انتظار کرتے رہے لیکن مرزا بشیر الدین   نہیں آیا۔ اس کے بعد مولانا چنیوٹیؒ کا ہر سال معمول  یہ رہا کہ ۲۶ فروری کو باقاعدہ اعلان دہراتے، اشتہار چھاپتے اور وہاں جاتے۔ اب  بھی ان کے بعد  ان کے بیٹے مولانا محمد الیاس چنیوٹیؒ جاتے ہیں اور فتح مباہلہ کانفرنس بھی ہوتی ہے۔ یہ بھی ایک مباہلہ کا دائرہ ہے جو چلا آ رہا ہے


مباہلہ کا دائرہ ایک اور تھا۔ مرزا طاہر  نے جو مرزا ناصر  کے بعد قادیانی خلیفہ بنا، دنیا بھر کے بڑے بڑے مسلم علماء کو  مباھلہ کی دعوت دی کہ اللہ جھوٹے کا جھوٹ ظاہر کر دے۔ کتابچہ چھاپ کر دنیا کے مشہور علماء کو بھیجا، ۔  اس وقت مباہلہ قبول کرنے کا اعلان جن شخصیات نے کیا ان میں مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری اور مجلس تحفظ ختم نبوت کے ناظم اعلیٰ حضرت مولانا عزیز الرحمٰن جالندھری  اور مولانا زاھد راشدی دامت برکاتہم  شامل تھے۔ مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ نے مباہلہ قبول کرتے ہوئے اعلان کیا کہ میں لندن آ رہا ہوں، وہاں مباہلہ کریں گے۔ مولانا زاھد راشدی صاحب  نے خط لکھا کہ مجھے  تمہارا چیلنج قبول ہے، ہمارے ان تین حضرات نے مباہلہ قبول کیا ہے، ان میں سے جس کی دعوت آپ قبول کریں گے مجھے آپ ان کے ساتھ موجود پائیں گے۔ اس پر قادیانی تاویلیں کرنے لگے کہ مباہلے کا یہ مطلب نہیں تھا، ہم نے بھی لکھ دیا آپ نے بھی لکھ دیا، بس کافی ہے، میدان میں آنا ضروری نہیں ہے۔

لندن میں ہائیڈ پارک، جو لندن کے وسط میں بہت بڑی پارک ہے، اس کا ایک کونہ ہے جو ہائیڈ پارک کارنر کہلاتا ہے، یہ کونہ قانون سے بالاتر سمجھا جاتا ہے گفتگو کے حوالے سے۔ اس میں کسی قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ وہاں جو کوئی جو کچھ کہنا چاہے کہے، کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ کوئی خدا کے خلاف بات کرے یا رسول کے خلاف کرے، جو چاہے کہے۔ شام کو بڑا عجیب منظر ہوتا ہے کہ مختلف ٹولیوں میں لوگ کھڑے ہوتے ہیں۔ ہر ٹولی میں ایک ایک آدمی اپنی بھڑاس نکال رہا ہوتا ہے۔ پریشر ککر کی طرح غصہ نکال کر ٹھنڈے ہو کر گھر چلے جاتے ہیں۔ مولانا چنیوٹیؒ نے کہا میں فلاں تاریخ کو ہائیڈ پارک کارنر آ رہا ہوں تم بھی آجاؤ، مرزا طاہر بھی لندن میں تھا لیکن وہ نہیں آیا۔ مولانا چنیوٹیؒ اپنے ساتھیوں سمیت ایک نہیں دو دفعہ وہاں گئے لیکن مرزا طاھر نے نہ آنا تھا نہ آیا تاھم مباھلے  کے اس چیلنج کے  کچھ عرصہ بعد جسمیں وہ خودچھپتا پھرتا رھا  ایک بیماری میں مبتلا ھو کر  ذلیل وخوار ھو کر جہنم واصل ھو گیا 

مرزا طاہر  کا  سیکرٹری ایک فلسطینی نوجوان حسن عودہ تھا اس کے نانا قادیانی ہوئے تھے۔ اس کا خاندان قادیان آگیا تھا۔ حسن عودہ کی پرورش قادیان میں ہوئی تھی یہ قادیانیوں کے عربی جریدے کے ایڈیٹر تھے۔ یہ اس زمانے میں مسلمان ہو گئے تھے انہوں نے لندن میں مولانا چنیوٹیؒ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا تھا  اور ویمبلے کانفرنس میں تقریر  کرتے ھوئے کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ میں مرزا ناصر  کی دعوت مباہلہ کا پہلا ثمرہ ہوں انا اول ثمرۃ المباھلۃ کہ اسے چھوڑ کر اسلام قبول کر رہا ہوں۔

خاتم الانبیاء سید المرسلین حضرت محمدﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں جھوٹے مدعیان نبوت کے قتل اور انہیں منطقی انجام تک پہنچانے کے احکامات جاری کیے۔ حضرت صدیق اکبرؓ نے اپنے دور خلافت میں ترجیح بنیادوں پر ان بدبختوں کا قلع قمع کیا، آپ کے بعد بھی ہر دور میں اس طرح کے لوگ سامنے آئے اور انجام بد سے دوچار ہوئے لیکن افسوسناک امر یہ ہے کہ گزشتہ 2،3صدیوں کے دوران عالم اسلام کی جانب سے ان جھوٹے نبیوں کی سرکوبی کے لیے حکومتی سطح پر کوئی واضح اقدامات نظر نہیں آئے، مرزا غلام احمد قادیان کا اثرورسوخ اس وقت دنیا بھر کے کم وبیش 8ممالک میں مضبوط تر ہے، بالخصوص جنوبی ایشیا پاکستان اور بھارت کے مسلمان اس کے مرتد مریدوں کے نشانے پر ہیں۔ پاکستان میں حکومتی راہ داریوں میں گھسے یہ قادیانی کچھ ضمیر فروش سیاستدانوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز بیورو کریٹ اور ریاستی اداروں میں اعلیٰ افسران کی حیثیت سے ہر موقع پر دین اسلام میں نقب لگانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس پر مستزادیہ کہ بعض ایسے لوگ بھی انہیں اپنے بھائی قرار دے رہے ہیں جن کے بارے میں عمومی طور پر مسلمانان پاکستان میں اچھا تاثر پایا جاتا ہے۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ دین اسلام کے پاک وجود کو بچانے کے لیے ان شیطانوں اور کذابوں کا قلع قمع کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا جائے بلکہ خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت واحکامات کی پیروی کرتے ہوئے سخت سے سخت فیصلے کیے جانے چاہئیں۔


نبی کریمﷺ کی پیش گوئی کے مطابق تاریخ میں کئ جھوٹے مدعیان نبوت ظاہر ہوکر اپنے حصہ کی ذلت و رسوائی حاصل کرچکے ہیں اور قیامت تک اسی طرح جھوٹے مدعیان نبوت کا یکے بعد دیگرے ظہور ہوتا رہے گا حتی کہ وہ تعداد پوری ہو جائے گی جو صادق ومصدوق نبی کریمﷺ نے ہمیں خبر دی ہے پھر أخیر میں مسیح دجال ظاہر ہوگا اور عیسی علیہ السلام تشریف لائیں گے اور اس کے فتنہ کو بھی نابود کردیں گے.


 کچھ لوگ نبوت کا دعویٰ تو نہیں کریں گے مگر اپنے کذب و فریب اور دجل و مکر سے اسلام کی حقیقی صورت کو مسخ کرکے حدیث نبویﷺ کے مصداق بنتے رہیں گے *حافظ ابن حجر رحمہ اللہ* کے نزدیک غالی وباطنی شیعہ  بھی اسی زمرے میں شامل ہیں *(فتح الباری :١٣/٩٣).* 


 * اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان علامتوں سے عبرت حاصل کرتے ہوئے آخرت کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے

 (آمین یا رب العالمین)

Share: