عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 22)

*عقیدۂ ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت عین اسلام کی حفاظت ہے*


کی محمدؐ سے وفاتو نے تو ہم تیرے ہیں

یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں


ایک مسلمان گناہگار ھو سکتا ھے تارک نماز ھو سکتا ھے تارک صیام ھو سکتا ھے فسق وفجور میں مبتلا ھو سکتا ھے لیکن قرآن پاک ، توحید اور رسول کریم کی رسالت اور ختم نبوت پر  ایک منٹ کے لئے بھی کمپرومائز نہیں کرسکتا چودہ سو سال کی تاریخ گواہ ھے کہ 

قرآن، توحید اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر اعمال کے لحاظ سے بدترین اور گنہگار مسلمان نے بھی کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔ تارک نماز، تارک روزہ اور فسق وفجور میں مبتلا مسلمان کی جب بھی حمیت دینی کو ٹھیس پہنچی اس نے قرآن حکیم اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کی اپنے لہو سے حفاظت کی۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر مسلمان کے رگ و ریشہ میں سرایت کیے ہوئے ہے اور وہ مسلمان ہی نہیں جو اپنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر درود نہ بھیجے اور لاکھوں بارزندگی ملنے پر اسے لاکھوں باران پر قربان نہ کردے۔


عقیدہ ختم نبوت…… کہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں۔ ان کے بعد دعویٰ نبوت کرنے والے  اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب سے لے کر ملعون مرزا غلام قادیانی کذاب تک تمام جھوٹے، کافراور علامہ اقبال کے بقول شرک فی النبوت کے مرتکب اور واجب القتل ہیں(جس پر عمل درآمد حکومت کاکام ہے) ۔ اسلام کا یہ بنیادی عقیدہ کئی پہلو رکھتا ہے کیونکہ اگر کوئی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے بعد کسی کی نبوت کا قائل ہے تو اس سے قرآن کی آخری کتاب ہونے پر زد پڑتی ہے پھر جس طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پرانی شریعتیں منسوخ ہوگئیں تو کل کوئی بدبخت یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میری آمد سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت بھی منسوخ ہوگئی ہے۔ اس طرح قیامت تک آپ کی رسالت پر حرف آسکتا ہے۔ پھر کوئی کم بخت کہہ سکتا ہے کہ ان کی شریعت صرف عرب تک تھی اور اس کے آنے تک تھی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عقیدہ ختم نبوت بہت دور رس عمرانی، سیاسی، تمدنی اور دینی اثرات رکھتاہے۔ اگر اس عقیدے سے روگردانی کی اجازت دے دی جائے تو اسلام کی عالمگیریت اور آفاقی حیثیت ختم ہو کر رہ جائے گی۔ لہٰذا عقیدہ ختم نبوت کی حفاظت خود اسلام کی حفاظت ہے۔ یہ محض قادیان کے ایک بدبخت تک محدود امر نہیں ہے۔ ان ملحدوں کو کیا معلوم کہ انہوں نے کتنا خوفناک جرم کیا ہے؟


برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کی یہ بدنصیبی بھی ہے کہ حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک گستاخ، سارق ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وسلم  برصغیر بالخصوص پنجاب میں پیدا ہوا اور یہ خوش نصیبی بھی ہے کہ انہوں نے پوری عزیمت، طاقت، قوت اور سرفروشی سے اس فتنہ کا تعاقب کیا۔ علماء کرام، صوفیاء عظام، سیاست دانوں، رضا کاروں اور فدائین اسلام اور اہل قلم نے ہر طرح سے اس کا گھیرائو کیا اور بالآخر اسے کافر اور پاکستان میں اقلیت قرار دلوا کر دم لیا۔ اور اس عقیدے کے تحفظ میں کوئی نرمی نہیں دکھائی۔ اس کے لئے پھانسیاں، جیل کی کال کوٹھڑیاں، بھوک، پیاس، عدالتوں کی اکتا دینے والی پیشیاں، سفر کی صعوبتیں اور مال و دولت سب کچھ قربان کیا اور انگریز کے کاشتہ اس برگ حشیش اور ہندو کے پروردہ اس فتنہ کو قبول نہ کیا۔


اس جہاد کے راہ نورد اور غازی ہزاروں ہیں۔ حضرت علامہ انور شاہ کاشمیریؒ، علامہ اقبالؒ، حضرت عطاء اللہ شاہ بخاریؒ، مولانا عبدالقادر رائے پوریؒ، پیر مہر علی شاہؒ گولڑوی، مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ، سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ، مولانا الیاس برنی، علامہ  یوسف لدھیانویؒ، مولانا منظور احمد چنیوٹیؒ، قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ جانباز مرزا ،شورش کاشمیری، مولانا لال حسین اخترؒ، سید امین گیلانیؒ، حضرت مولانا احمد علی لاہوریؒ، مولانا عبدالستار نیازیؒ، ماسٹر تاج الدین انصاریؒ، مولانا محمد علی جالندھریؒ، مولاناغلام غوث ہزارویؒ، مولانا مفتی عبدالقیوم پوپلزئیؒ، مولانا محمد حیاتؒ، مفتی محمد شفیعؒ اور حضرت مولانا ادریس کاندھلویؒ۔ غرض اس قافلے کے شرکاء کی ایک لمبی قطار ہے۔ جنہوں نے  اس جادہ راہ میں ہر قربانی کو خندہ پیشانی سے قبول کیا اورختم نبوت کے عقیدے کی دل وجان سے حفاظت کی۔


ہماری تاریخ کے بعض بڑے دردناک عبرت ناک واقعات بھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ1965ء کی جنگ صدر جنرل ایوب خان کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے قادیانیوں نے  ھی کروائی۔ جس کو آپریشن جبر الٹر کا نام دیا گیا۔ اس جنگ کے ذمہ دار پاک فوج کے میجر جنرل اختر حسین ملک (قادیانی) ایم۔ ایم ۔ احمد سیکرٹری مالیات(قادیانی) سیکرٹری خارجہ عزیز احمد (قادیانی) اور نذیر احمد ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن(قادیانی) تھے۔ قدرت اللہ شہاب مرحوم نے اپنی معروف کتاب ’’شہاب نامہ‘‘ میں متعدد ایسے واقعات کا ذکر کیا ہے، جن میں قادیانیوں کی ریشہ دوانیوں اور پاکستان دشمنی کو بے نقاب کیا گیا ہے۔ سرکاری اداروں میں فوج میں بھرتی کے پیچھے چوہدری ظفراللہ قادیانی کا ہاتھ رہاہے۔ 

اللہ تعالی کے ھر کام میں بے شمار حکمتیں پوشیدہ ھوتی ھیں  اس ذات کے  کوئی کام بھی حکمت سے خالی نہیں ہوتے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کام میں کتنی حکمتیں پوشیدہ ھیں ان کا اندازہ کرنا بھی ناممکن ھے  بعض لوگ ھر چیز کو عقل کی کسوٹی پر  پرکھنے کے عادی ھوتے ھیں  تو آئیے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عقلی دلائل کا جائزہ لیتے ھیں 


جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت جملہ اقوام عالم کے لئے اور قیامت تک کے لئے ہے۔ جب حضور  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل شدہ کتاب بغیر کسی ادنیٰ تحریف کے جوں کی توں ہمارے پاس موجود ہے۔ جب سرور عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ اپنی ساری تفصیلات کے ساتھ اس کتاب کی تشریح وتوضیح کر رہی ہے۔ جب کہ شریعت اسلامیہ روز اوّل کی طرح آج بھی انسانی زندگی کے تمام شعبوں میں ہماری رھنمائی کر رہی ہے۔ جب قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ آج بھی اعلان کر رہی ہے۔ 


’’  اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِىْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا ۚ 


آج میں تمہارے لیے تمہارا دین پورا کر چکا اور میں نے تم پر اپنا احسان پورا کر دیا اور میں نے تمہارے لیے اسلام ہی کو دین پسند کیا ہے، (المائدہ:۳)‘‘ 




تو پھر کسی اور نبی کی بعثت کا کیا فائدہ اور کیا مقصد ہے آخر اس سے کونسے مقصد کی تکمیل مطلوب ہے۔ آفتاب محمدی  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طلوع پورے عالم میں جگمگا رھا ھے  عالم کا گوشہ گوشہ اس کی کرنوں سے روشن ہورہا ہے۔ تو پھر  سوچیے دن کے اجالے میں کسی  بجھے ھوئے چراغ کو روشن کرنے کی کوشش کرنا  کونسی دانشمندی ہے؟


مزید غور فرمائیے! نبی کی آمد کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوتی کہ نبی آیا۔ جس نے چاہا مان لیا اور جس نے چاہا انکار کر دیا اور بات ختم ہوگئی۔ بلکہ نبی کی بعثت کے بعد کفر اور اسلام کی کسوٹی نبی کی ذات بن کر رہ جاتی ہے۔ کوئی کتنا نیک، پاکباز، پارسا اور عالم باعمل ہو۔ اگر وہ کسی سچے نبی کی نبوت کو تسلیم نہیں کرے گا تو اس کانام مسلمانوں کی فہرست سے خارج کر دیا جائے گا اور کفار منکرین کے زمرہ میں اس کا نام درج کر دیا جائے گا اور یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ھوتا بلکہ نجات کا دارومدار اسی پر ھوتا ھے 


اب ذرا عملی دنیا میں ملعون مرزاقادیانی  کا جائزہ لیجئے۔ صرف برصغیر میں مسلمانوں کی تعداد کم سے کم اعداد وشمار کے مطابق پچاس کروڑ سے زائد ہے۔ یہ سب اﷲتعالیٰ کی توحید پر ایمان رکھتے ہیں۔ قرآن کریم کو خدا کا کلام یقین کرتے ہیں۔ تمام انبیاء جو اﷲتعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہوئے ان کی نبوت اور صداقت کا اقرار کرتے ہیں۔ قیامت کی آمد کے قائل ہیں۔ عملی طور پر غافل اور ناقص سہی۔ لیکن احکام خداوندی اور ارشادات نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے برحق ہونے پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ ضروریات دین میں سے ہر چیز پر ان کا ایمان ہے اور اس امت میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی تعداد میں  ایسے بندگان خدا بھی ہرزمانہ میں موجود رہے ہیں۔ جو شریعت پر پوری طرح کاربند اور عبادات پر سختی سے پابند رہے ہیں۔ ان کے اخلاص وللہیت پر فرشتے رشک کرتے ہیں اوران کے کارہائے نمایاں پر خود ان کے خالق کو ناز ہے۔ اسی پاک امت میں آکر مرزاقادیانی نے نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ اس کی آمد سے پہلے تو یہ سارے کے سارے پکے مسلمان تھے۔ چلو! بعض میں عملی کوتاہیاں ہم تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن کم ازکم نعمت ایمان سے تو وہ بہرہ ور تھے۔ اب حقیقت حال یہ ہے کہ طویل عرصہ  کوششوں کے باوجود چند ھزار  یا چند لاکھ کی نفری نے مرزاقادیانی کو نبی مانا اور باقی پچاس ساٹھ کروڑ نے ان کو دجال اور کذاب قرار دیا۔ نبی کو ماننا اسلام ہے اور انکار کفر ہے۔ مرزاقادیانی نے اپنا نحوست زدہ قدم جب دنیائے اسلام میں رکھا تو یہ نتیجہ سامنے آیا کہ اس کذاب کا مطابق سارے کے سارے مسلمان مرتد قرار پائے اور اسلام سے محروم ہوکر کفر میں مبتلا ہوگئے( نعوذ باللہ)  صرف گنتی کے چند آدمی (جنہوں نے مرزا کو نبی تسلیم کر لیا ) مسلمان باقی رہے۔ ان میں بھی غالب اکثریت بلیک مارکیٹ کرنے والوں، رشوت لینے والوں، اقرباء نوازی اور مرزائیت پروری کی قربان گاہوں پرلاکھوں حقداروں کے حقوق بھینٹ چڑھانے والوں کی ہے۔ ان میں اکثر بے نمازی ، ڈاڑھی منڈے اور آوارہ مزاج لوگ ہیں۔ ہر قسم کی رذیل حرکتیں کرنے والوں کا ایک لشکر جرار ٹھاٹھیں مارتا ہوا آپ کو نظر آئے گا۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ دنیائے اسلام کے لئے عملی طور پر مرزاقادیانی کی آمد برکت کا باعث بنی یا نحوست کا؟


اﷲتعالیٰ کی حکمت اس کو پسند نہیں کرتی  کہ نبوت کا دروازہ بند ھونے کے بعد مرزاقادیانی جیسے زندیق کو سچا نبی بناکر بھیجا جائے۔ تاکہ اسلام کے سارے ہرے بھرے پیڑ اپنے خنک سایوں ، میٹھے پھلوں، رنگین اور مہکتے ہوئے پھولوں سمیت اکھاڑ پھینک دئیے جائیں اور چند خاردار جھاڑیوں کے جھرمٹ پر ’’گلشن اسلام‘‘ کا بورڈ آویزاں کر دیا جائے۔ متقیوں، پرہیزگاروں، عالموں اور عاشقوں کی امت پر کفر کا فتویٰ لگادیا جائے اور چند دجال صفت طالع آزما افراد کو مسلمان ہونے کا سرٹیفکیٹ دے دیا جائے جبکہ کھلی ھوئی  حقیقت یہ ھے کہ مرزا قادیانی پرلے درجے کا  مرتد اور کافر ھے  یقیناً اپنی موت کے بعد جہنم رسید ھوا ھے 

ایک واقعہ ملاحظہ ھو   کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ  جو ایک صاحب کرامت بزرگ تھے ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ  وسلم ) کانفرنس سے اپنے خطاب کے بعد جب  سٹیج سے نیچے اُترے تو ایک صاحب  جو غالباً قادیانی تھے نے سوال کیا کہ مرزا قادیانی جنت میں ھے یا جھنم میں؟  تو حضرت نے جلال میں آکر فرمایا کہ اگر میں تمہیں مرزا  غلام قادیانی کو  اس وقت جہنم میں جلتے ھوئے دکھا دوں تو پھر مان جاؤ گے کہ مرزا کافر ھے اس شخص نے تو اس چیلنج کو قبول  نہ کیا لیکن حضرت کے ساتھ جو ان کے شاگرد ان کے ساتھ  تھے انھوں نے بتایا  کہ جب حضرت نے جلال میں آکر یہ الفاظ ادا کیے تو اس وقت میں نے اپنی آنکھوں سے مرزا لعنتی کو جہنم میں جلتے ھوئے دیکھا  یہ تو خیر ان کی کرامت تھی جس کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں ھوتی

مرزاقادیانی کے پیروکار  بڑی  بڑی ڈینگیں مارتے ہیں کہ ہم دنیا کے گوشے گوشے میں اسلام پہنچا رہے ہیں۔ ہماری کوششوں سے یورپ میں اتنی مسجدیں تعمیر ہوئیں۔ اتنے لوگوں کو ہم نے کلمہ پڑھایا۔

ان لعنتی قادیانیوں سے اگر یہی پوچھ لیا جائے کہ کیا تم مرزاقادیانی کو صرف اس لئے نبی کہتے ہو کہ اس  نے چند کافروں کو کلمہ پڑھایا۔ ہم اولیاء کرام کے زمرہ سے آپ کو ایسے ایسے مبلغ دکھاتے ہیں۔ جنہوں نے ہزاروں لاکھوں کفار کو کفر کی ظلمتوں سے نکال کر ہدایت کی شاہراہ پر گامزن کردیا۔ خواجہ  اجمیریؒ نے لاکھوں مشرکوں کے زنار توڑے اور ان کی پیشانیوں کو بارگاہ  رب العزت میں شرف سجود بخشا۔ حضرت علی ہجویریؒ نے اس کفرستان میں راوی کے کنارے پر توحید کا جو پرچم گاڑا تھا وہ آج بھی لہرا رہا ہے اور لاکھوں لوگ ان کے ھاتھ پر مسلمان ھوئے  اولیاء  کرام نے اسلام کی جو تبلیغ کی اور جو فرشتہ صفت مرید بنائے  اس کے علاوہ نے شمار بزرگان دین ھیں جن کی قربانیوں سے  نہ صرف برصغیر بلکہ پورے عالم کا چپہ چپہ  نور اسلام سے جگمگا رھا ھےان کے مقابلے میں ساری امت مرزائیہ کی تبلیغی کوششوں کی نسبت سمندر اور قطرہ کی بھی نہیں۔ ان کارہائے نمایاں کے باوجود ان حضرات نے نہ نبوت کا دعویٰ کیا۔ نہ مہدیت کا، نہ مسیحیت کا، نہ ظلی کا، نہ بروزی کا، بلکہ اپنے آپ کو غلامان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کہا اور اسی کو اپنے لئے باعث صدافتخار اور موجب سعادت دارین سمجھا۔

بہرحال جس کسی میں بھی عقل سلیم اگر کسی درجہ میں بھی ھے تو اسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خاتم النبیین اور لعنتی مرزا قادیانی کو کذاب، دجال، زندیق ، مرتد اور انتہائی غلیظ ترین کافر سمجھنے میں ذرا سی بھی دیر نہیں لگے گی

اللہ پاک ھم سب کو صراط مستقیم پر قائم رکھے

آمین یا رب العالمین


Share: