عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 8 )


*عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور کذاب ودجال مدعیان نبوت *


رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلان نبوت کے بعد جہاں عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اپنی جانیں قربان کرنے والے ھر زمانے میں کثیر تعداد میں موجود رھتے ھیں وھاں ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منکرین جو بلا شبہہ اسلام کے سب سے بڑے دشمن ھیں اپنی ناپاک حرکتوں کے لئے اور فتنہ پھیلانے کے لئے تقریبا ھر زمانے میں موجود ھوتے ھیں لیکن اللہ تعالی کے فضل وکرم سے یہ ناپاک ناسور فتنہ باز ھر زمانے میں اسی دنیا میں ذلیل ورسوا ھوتے آئےھیں اور فرزندان اسلام ھمیشہ ان کا ناطقہ بند کرتے رھے ھیں اور یہ پلید ھر دور میں اس دنیا کی رسوائی کے بعد جہنم واصل ھوتے رھے ھیں

یہ فتنہ آپؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور ہی میں شروع ہوگیا تھا۔ اسی لئے جہاں آپ صلی  اللہ علیہ وآلہ وسلم  ؐنے اپنی ختم نبوت کا اعلان فرمایا، وہیں آپ ؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیامت تک نمودار ہونے والے ان کذابین کا بھی تذکرہ فرمایا تھا۔ ایک بندۂ مومن کبھی ایک لمحے کے لیے بھی نہیں سوچ سکتا کہ آپؐکے بعد کوئی نبی اور رسول آسکتا ہے۔ امام ابوحنیفہ ؒ کا تو اس باب میں قول فیصل ہے جو کذاب نبوت کا دعویٰ کرے۔ اس سے یہ پوچھنا بھی کہ وہ اس کی دلیل پیش کرے۔ ایمان سے خارج کردیتا ہے۔ آج کل بھی یہ فتنہ سر اٹھانے کی پھر کوشش کر رہا ہے۔ 

ذیل میں ان کذاب اور دجال مدعیان نبوت کے حالات اختصار کے ساتھ درج کئے جاتے ھیں : 


*اسود عنسی*

ان کذابین میں سے سب سے پہلا شخص اسود عنسی تھا  اس کذاب کا تعلق یمن سے تھا۔ یہ خاتم الانبیاء سید المرسلین حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں دعویٰ نبوت کرنے والا پہلا شخص تھا۔ اسود عنسی شعبدہ بازی اور کہانت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا چونکہ اس زمانے میں یہ دو چیزیں کسی کے باکمال ہونے کی دلیل سمجھی جاتی تھیں لہٰذا یہی وجہ ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد اس کی معتقد بن گئی۔ اسود عنسی کو ذوالحمار کے لقب سے بھی جانا جاتا تھا، تاریخ نویس لکھتے ہیں کہ اس کے پاس ایک سدھایا ہوا گدھا تھا یہ جب اس کو کہتا خدا کو سجدہ کرو تو وہ فوراً سربسجود ہوجاتا، اسی طرح جب بیٹھنے کو کہتا بیٹھ جاتا اور اور کھڑے ہونے کو کہتا کھڑا ہوجاتا، نجران کے لوگوں کوجب اس کے دعویٰ نبوت کا علم ہوا تو انہوں نے اسے امتحان کی غرض سے اپنے ہاں مدعو کیا۔ اس نے وہاں بھی اپنی شعبدے بازی دکھائی، لوگوں کو متاثر کیا اور چکنی چپڑی باتوں سے اہل نجران کی اکثریت کو اپنا ہم نوا بنالیا اور آہستہ آہستہ اس نے اپنی طاقت بڑھانا شروع کردی۔ سب سے پہلے اس نے نجران پر ہی فوج کشی کرکے عمرو بن حزم اور خالد بن سعید کو وہاں سے بیدخل کیا اور پھر بتدریج پورے یمن پر قبضہ کرلیا۔ عمرو بن حزم اور خالد بن سعید نے مدینہ منورہ پہنچ کر سارا قصہ حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گوش گزار کیا جس پر آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یمن کے بعض سرداروں اور اہل نجران کو اسود کے خلاف جہاد کا حکم نامہ تحریر فرمایا اور یوں یہ لوگ باہم ربط اسود کے خلاف متحد ہوگئے۔


*اسود عنسی کا قتل*

اسود عنسی نے صنعا پر قبضے کے بعد اس شہر کے مسلمان حاکم شیر بن باذان کی بیوی آزاد کو اپنے گھر میں قید کرلیا لیکن وہ اس سے سخت نفرت کرتی تھیں۔ ادھر آزاد کے چچا ذاد بھائی فیروز کو اس کا سخت رنج ہوا اور وہ آزاد کو اسود سے نجات دلانے اور انتقام لینے کے لیے مواقع ڈھونڈنے لگا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حکم نامہ ملا تو یمن کے مسلمان اسود کے خلاف لشکر کشی کے بجائے گھر میں گھس کر اسود عنسی کذاب کو قتل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ اسی دوران فیروز اپنی تایا زاد بہن آزاد سے ملا اور اس کو اسود عنسی کے قتل کرنے میں مدد کے لیے آمادہ کرلیا۔ آزاد کی مدد سے فیروز اپنے ساتھیوں کے ہمراہ محل میں داخل ہوا اور کذاب اسود کے کمرے میں گھس کر اس کی گردن توڑ کر مار ڈالا۔ اسود عنسی کے گلے سے خرخر کی آواز سن کر پہرے دار آگے بڑھے مگر آزادنے یہ کہہ کر انہیں روک دیا کہ خبردار آگے مت جانا تمہارے نبی پر وحی کا نزول ہورہا ہے۔ فیروز نے محل سے باہر نکل کر اس کذاب کی موت کی خبر سنائی تو سب پر سکتہ طاری ہوگیا۔ اسود کے قتل کے بعد جب مسلمانوں کا غلبہ ہوگیا تو اسود کے پیروکار صنعا اور نجران کے درمیان صحرا نوردی اور بادیہ پیمائی کی نذر ہوگئے اور یوں یمن ونجران ارتداد کے وجود سے پاک ہوگیا اور آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات دوبارہ بحال کردیے گئے۔ سو اسود عنسی پہلا کذاب تھا جو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حکم پر آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ میں اپنے انجام کو پہنچا۔

Share: