عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* (قسط : 9)


*عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور کذاب ودجال مدعیان نبوت *


*مسیلمہ کذاب*

کذابین میں سے مسیلمہ کذاب نہایت ھی خطرناک آدمی تھا۔ اس کا انجام بھی بہت ھی عبرت ناک ہوا۔ یہ شخص بہت دھوکے باز، عیّار، مکّار اور چرب زبان تھا۔ اس نے آپؐ کی زندگی ہی میں نبوت کا دعویٰ کردیا تھا۔ 

یہ شخص کذاب یمامہ کے لقب سے بھی مشہور ہے اس کی خود ساختہ نبوت کا فتنہ کافی عرصے تک رہا جس کو بڑے بڑے صحابہؓ نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر جڑ سے اکھاڑ دیا


مسیلمہ نے دربار نبویﷺ میں حاضر ہوکر آپ ﷺ سے عرض کیا کہ مجھے اپنا جانشین مقرر فرمائیں، اس وقت آپ ﷺ کے سامنے کھجور کی ٹہنی پڑی تھی آپ ﷺ نے اس کی طرف اشارہ کرکے فرمایا! اے مسیلمہ اگر تم امرخلافت میں مجھ سے یہ شاخ خرما بھی مانگو تو میں دینے کو تیار نہیں۔ یہ جواب سن کر وہ مایوس لوٹ گیا۔


جب آپ ﷺ کے دربار سے مایوس مسیلمہ کذاب یمامہ واپس لوٹا تو اس نے اہل یمامہ کو جھوٹی یقین دہانی کرائی کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی نبوت میں شریک کرلیا ہے اور اپنی من گھڑت وحی اور الہام سنا سناکر کئی لوگوں کو اپنا ہم نوا اور معتقد بنالیا۔ جب آپ ﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ نے اس کے ہی قبیلے کے ایک بااثر شخص ’’نہار‘‘ کو یمامہ روانہ کیا تاکہ وہ مسیلمہ کو سمجھا بجھاکر راہ راست پر لے آئے مگر یہ شخص بھی یمامہ پہنچ کر مسیلمہ کذاب کا معتقد بن گیا اور لوگوں کے سامنے اس کے شریک نبوت ہونے کی جھوٹی تصدیق کرنے لگا۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسیلمہ کذاب کا حلقہ بڑھنے لگا۔ اپنے ہم نواؤں کی کثرت دیکھ کر مسیلمہ کذاب نے اپنے دماغ میں یہ بات پختہ کرلی کہ واقعی وہ حضور نبی کریم ﷺ کی نبوت میں شریک ہے۔

یہ بدبخت کہا کرتا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) بھی اللہ کے رسول ہیں اور میں بھی اللہ کا رسول ہوں۔ نبی اکرم ؐ نے یہ سن کر اسے کذّاب قرار دیا تھا۔ مسیلمہ کا ایک خط تاریخ کی کتابوں میں منقول ہے، جس میں اس نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ آپؐ کے ساتھ شریکِ نبوت بنایا گیا ہے۔ نبی اکرم ؐ کے وصال سے تھوڑا ہی عرصہ قبل اس نے آپؐ کے نام جو خط لکھا وہ مورخ طبری نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے: 

مِنْ مُسیلمہ رسول اللہ الیٰ محمدٍ رسول اللہ سلامٌ علیک فانی اُشرکتُ فی الامر مَعَکَ۔

مسیلمہ رسول اللہ کی طرف سے، محمد رسول اللہ کی طرف، آپ پر سلام ہو۔ آپ کو معلوم ہو کہ میں آپ کے ساتھ نبوت کے کام میں شریک کیا گیا ہوں۔

مسیلمہ اور اس کے پیروکار بہت مکار، فریبی اور دھوکے باز تھے۔ وہ اذان اور نماز کا اہتمام کرتے تھے۔ اذان میں اشھدان محمد رسول اللّٰہ کے بعد اشھد ان مسیلمۃ رسول اللّٰہ کہا کرتے تھے۔ نبی اکرم ؐ نے اس کا خط ملتے ہی اس پر لعنت بھیجی اور اسے کافر وکذّاب قرار دیا 

یہ خط دو قاصدوں کے ہاتھ جب حضور نبی کریم خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں پہنچایا گیا تو آپ ﷺ نے ان قاصدوں سے پوچھا تمہارا مسیلمہ کے بارے میں کیا عقیدہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی وہ ہی کہتے ہیں جو ہمارا سچا نبی کہتا ہے۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ’’اگر قاصد کا قتل جائز ہوتا تو میں تم دونوں کو قتل کرادیتا‘‘۔ چنانچہ خاتم المرسلین سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے جواب میں مسیلمہ کو لکھا۔ 

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ 

منجانب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بنام مسیلمہ کذاب۔

سلام اس شخص پر جو ہدایت کی پیروی کرے، اس کے بعد معلوم ہو کہ زمین اللہ کی ہے، اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتا ہے اس کا مالک بنادیتا ہے اور عاقبت کی کامیابی متقیوں کے لیے ہے‘‘۔


آنحضرت ﷺ کی حیات مبارکہ میں یہ مسئلہ کسی نہ کسی طرح چلتا رہا مگر آپ ﷺ کے وصال پاتے ہی مسیلمہ کذاب نے لوگوں کو اپنے دین اور جھوٹی نبوت کی طرف راغب کرنے کے لیے ایک ایسے عامیانہ اور رندانہ مسلک کی بنیاد ڈالی جو عین انسان کے نفس امارہ کی خواہشات کے مطابق تھا، چنانچہ اس نے شراب حلال کردی، زنا کو مباح کردیا، نکاح بغیر گواہوں کے جائز کردیا، ختنہ کرنا حرام قرار پایا، ماہ رمضان کے روزے اڑادیے، فجر اور عشاء کی نماز معاف کردی، قبلہ کی طرف منہ کرنا ضروری نہیں، سنتیں ختم صرف فرض نماز پڑھی جائے۔ان کے علاوہ اور بہت سی خرافات اس نے اپنی خود ساختہ شریعت میں جاری کیں چونکہ یہ سب باتیں انسانی نفس امارہ کے عین مطابق تھیں اس لیے کم عقل لوگ اس پر ایمان لانے لگے اس کا اثر یہ ہوا ہر طرف فواحشات اور عیش کوشی کے شرارے بلند ہونے لگے اور پورا علاقہ فسق وفجور کا گہوارہ بن گیا ۔

*جھوٹے نبی کے معجزات*

*ایک مرتبہ ایک شخص کے باغات کی شادابی کی دعا کی تو درخت بالکل سوکھ گئے۔*کنوؤں کا پانی بڑھانے کے لیے حضور علیہ التحیتہ والسلام کی طرح مسیلمہ نے اپنا آب دہن ڈالا تو کنویں کا پانی اور نیچے چلاگیا اور کنواں سوکھ گیا ۔*بچوں کے سر پر برکت کے لیے ہاتھ پھیرا تو بچے گنجے ہوگئے۔*ایک آشوب چشم پر اپنا لعاب دہن لگایا تو وہ بالکل اندھا ہوگیا۔*بکری کے تھن پر ہاتھ پھیرا تو اس کا سارا دودھ خشک ہوگیا اور تھن سکڑ گئے وغیرہ


مسیلمہ کذاب کی پذیرائی کو دیکھ کر دوسرے مزید بدباطن لوگوں کو بھی دعویٰ نبوت کی جرأت ہوئی جس میں طلیحہ اسدی بھی تھا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فراست ایمانی سے آغاز خلافت ہی میں ان تمام ہنگاموں کی قوت کا پورا اندازہ لگالیا تھا۔ چنانچہ منصب خلافت سنبھالتے ہی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا تقرر طلیحہ مدعی نبوت کے مقابلے میں کیا اور ساتھ ہی طلیحہ اسدی کے قبیلے سے حضرت عدی بن حاتمؓ کو بھی روانہ کیاکہ ان کو سمجھاکر تباہی سے بچائیں۔ انہوں نے اپنے قبیلے کو بہت سمجھایا جس کے نتیجے میں قبیلہ طئے اور قبیلہ جدیلہ نے خلیفہ اسلام کی اطاعت قبول کرلی۔طلیحہ حضرت خالد بن ولیدؓ کے مقابلے میں شکست کے بعد شام کی طرف بھاگ گیا جہاں کچھ عرصہ بعد دوبارہ حلقہ بگوش اسلام ہوگیا۔


بنوحنیفہ کے بیش تر مسلمان نیک نیتی کے ساتھ سمجھتے تھے کہ مسیلمہ بھی اللہ کا رسول ہے۔ اس غلط فہمی میں مبتلا ہونے کے بعد انہوں نے اس کی اتباع شروع کردی۔ اس کے باوجود کچھ مخلص اور فہیم اہلِ ایمان اس پر ایمان نہیں لائے تھے۔ اس کے خلاف آپ ؐ فوج بھیجنا چاہتے تھے، مگر اجل مسمّٰی نے آپ کو مہلت نہ دی۔ یہ اہم کام سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے دور خلافت میں انجام دیا گیا۔ یہ شخص دھوکا دینے کے لیے کبھی نرمی اختیار کرتا اور کبھی اپنی دھونس جمانے کے لیے ظلم وستم کی انتہا کردیتا تھا۔ امام ابن کثیرؒ نے اپنی تفسیر میں ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ سورۂ النحل کی آیت نمبر۱۰۶میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’جو شخص ایمان لانے کے بعد کفر کرے (وہ اگر) مجبور کیا گیا ہو اور دل اس کا ایمان پر مطمئن ہو (تب تو خیر) مگر جس نے دل کی رضا مندی سے کفر کو قبول کرلیا اس پر اللہ کا غضب ہے اور ایسے سب لوگوں کے لیے بڑا عذاب ہے۔‘‘ (النحل: ۱۶:۱۰۶)

اس کی تفسیر میں امام ابن کثیر لکھتے ہیں کہ آپ ؐ کے صحابہؓ اس رخصت کے باوجود عمومی طور پر عزیمت کا راستہ اختیار کرتے تھے اور جان کی قربانی دے دیتے تھے، مگر کفریہ کلمہ اپنی زبان سے نہیں نکالتے تھے۔ سیدنا حبیب بن زید انصاریؓ (سیدہ ام عمارہ کے فرزندِدل بند) یمامہ کے علاقے سے گزر رہے تھے۔ مسیلمہ کو اس کی اطلاع ملی۔ مسیلمہ نے انہیں اپنے پاس بلایا اور کہا: ’’کیا تو گواہی دیتا ہے کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟‘‘ انہوں نے فرمایا: ہاں میں گواہی دیتا ہوں۔ پھر اس نے پوچھا کیا تم گواہی دیتے ہو کہ مسیلمہ اللہ کا رسول ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ نہیں۔ مسیلمہ کذّاب ہے۔ اس نے کہا: تم اگر یہ گواہی نہ دو گے تو میں تمہیں قتل کردوں گا۔ انہوں نے فرمایا: تمہیں جو کچھ کرنا ہے کرلو، میں ہر گز یہ گواہی نہیں دوں گا۔ پھر اس نے حکم دیا کہ ان کا ایک ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ ہاتھ کٹنے کے باوجود وہ اپنے موقف پر قائم رہے۔ پھر ان کا ایک پاؤں کاٹا گیا، مگر ان کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی۔ پھر دوسرا ہاتھ اور پاؤں بھی کاٹا گیا۔ امام ابن کثیرؒ کے الفاظ میں: فَلَمْ یَزَلْ یَقْطَعُہٗ اِرْباً اِرْباً وَھُوَ ثَابِتٌ عَلٰی ذَالِکَ۔ یعنی انہیں ایک ایک عضو کاٹ کر شہید کیا گیا، مگر وہ اپنے موقف پر ثابت قدم رہے۔ (تفسیرابن کثیر)

مسیلمہ کذاب کے خلاف سیدنا ابوبکرصدیقؓ نے سیدنا عکرمہؓ بن عمروکو ایک فوج دے کر روانہ کیا اور حکم دیا کہ تمہارے پیچھے شرحبیل بن حسنہؓ ایک مزید دستہ لے کر آرہے ہیں۔ ان کے آنے تک جنگ شروع نہ کرنا، جب وہ پہنچ جائیں تو مسیلمہ پر حملہ کردینا۔ اہلِ یمامہ نے مضبوط قلعے تعمیر کر رکھے تھے اور مسیلمہ کے گرد مختلف قبائل کے مرتدین اور جنگجو بھی ہتھیار بند ہو کر پہنچ چکے تھے۔ سیدنا عکرمہؓ اور ان کے ساتھی جب اس علاقے میں پہنچے تو انہوں نے سیدنا شرحبیلؓ اور ان کے ساتھیوں کا انتظار کرنے کے بجائے مسیلمہ سے جنگ چھیڑ دی۔ چوں کہ ان کی تعداد کم تھی اور دشمن پہلے سے تیار بیٹھا تھا، اس لیے مسلمانوں کو پسپا ہونا پڑا۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو جب یہ اطلاع ملی تو انہوں نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا اور ایک خط میں سرزنش کرتے ہوئے فرمایا کہ تم نے کیوں عجلت سے کام لیا اور شرحبیل کے پہنچنے سے قبل جنگ کیوں چھیڑ دی، خیر جو مقدر تھا وہ ہوا، اب واپس مدینہ آنے کے بجائے مہرہ اور عمان کے مرتدین کے خلاف لڑنے کے لیے حذیفہؓ اور عرفجہؓ سے جاملو۔ جب وہاں سے فارغ ہوجاؤ تو پھر حضرموت اور یمن کے مرتدین سے لڑنے کے لیے مہاجر بن ابی امیہؓ کے پاس چلے جانا۔

اس عرصے میں سیدنا خالدؓ بھی اپنی مہمات سے فارغ ہوچکے تھے اور مالک بن نویرہ کے قتل کی شکایات پر مدینہ آکر خلیفۂ رسولؐ کی خدمت میں اپنا موقف پیش کررہے تھے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے ان کی معذرت اور وضاحت قبول کرتے ہوئے انہیں مسیلمہ کذاب کے مقابلے پر سپہ سالار بنا کر بھیجا اور سیدنا شرحبیلؓ کو حکم دیا کہ وہ خالدؓ کے لشکر میں شامل ہو کر مسیلمہ کے مقابلے پر جہاد میں حصہ لیں۔ سیدنا خالد کے لشکری تو پہلے سے ان علاقوں میں موجود تھے۔ ان کی مدد کے لیے مدینہ سے انصار ومہاجرین صحابہ پر مشتمل دو دستے بھی روانہ کیے گئے۔ ان صحابہؓ میں بہت سے حفاظ وقرأ بھی شامل تھے اور وہ اصحاب بھی بڑی تعداد میں تھے، جو بدر واحد اور احزاب وحنین کے معرکوں میں آپؐ کے ساتھ جہاد میں حصہ لے چکے تھے۔ مہاجر صحابہؓ کے امیر سیدنا ابوحذیفہؓ اور انصار کے امیر سیدنا ثابت بن قیس انصاریؓ تھے۔ فوج کے علم بردار سیدنا عمربن خطابؓ کے بھائی سیدنا زید بن خطابؓ مقرر کیے گئے۔ 

(البدایۃ والنہایۃ، امام ابن کثیر)

جنگ یمامہ تاریخ اسلام کے عظیم ترین اور اہم ترین معرکوں میں شمار ہوتی ہے۔ سیدنا خالدؓ اپنی فوج کو لے کر اس علاقے میں پہنچے تو دیکھا کہ مسیلمہ چالیس ہزار جنگجو اپنے گرد جمع کیے اپنے قلعے کے باہر عقربا کے مقام پر خیمہ زن ہے۔ اس کے سامنے کھلے میدان میں سیدنا خالد بن ولیدؓ نے بھی پڑاؤ ڈال دیا۔ اس عرصے میں یہاں پہنچنے سے قبل سیدنا خالدؓ کا آمنا سامنا بنوحنیفہ ہی کے ایک اور کافر سردار مجاعہ بن مرارہ کے ساتھ ہوا، جو بنو عامر اور بنو تمیم پر شب خون مارنے کے بعد مال غنیمت لے کر واپس جارہا تھا۔ اس کے سب ساتھیوں کو قتل کردیا گیا اور سیدنا خالدؓ کے حکم سے اسے جنگی حکمت عملی کے پیش نظر قید کردیا گیا۔ سیدنا خالدؓ کے میدان جنگ میں پہنچنے کے دوسرے روز باقاعدہ لڑائی شروع ہوگئی۔ دشمن کا ایک جنگجو میدان میں نکلا اور مسلمانوں کو مقابلے کے لیے للکارا۔ سیدنا زید بن خطابؓ اس کے مقابلے کے لیے آگے بڑھے اور اسے تہہ تیغ کردیا۔ دشمن کا یہ جنگجو رجال بن عنفوہ تھا جو اپنی بہادری کے لیے مشہور تھا۔ اس کے قتل پر مسیلمہ کی فوج بپھر کر مسلمانوں پہ حملہ آور ہوئی۔ یہ حملہ اتنا سخت تھا کہ مسلمانوں کی صفوں میں قدرے کمزوری نظر آنے لگی۔ اس موقع پر علم بردرانِ لشکر سیدنا زید بن خطابؓ سیدنا ثابت بن قیسؓ اور ان کے دیگر ساتھی بڑی پامردی سے لڑے اور مسلمانوں کو خطاب کرتے ہوئے دونوں علم برداروں نے جہاد کی عظمت، شہادت کا مقام ومرتبہ اور جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ آج آگے بڑھنے کا دن ہے۔ سیدنا ابوحذیفہؓ اور سیدنا سالمؓ مولیٰ ابوحذیفہؓ نے بھی اپنے ساتھیوں کو آگے بڑھنے کی تلقین کرتے ہوئے دشمن پر زوردار حملہ کیا۔ وہ بھی مسلمانوں کو مسلسل تلقین کیے چلے جارہے تھے: ہَلَمُّوْا اِلَی الْجَنَّۃِ یعنی آؤ جنت کی طرف بڑھو۔ بنوحنیفہ بڑے ماہر تیرانداز تھے۔ مسلمان بنوحنیفہ کے تیراندازوں کے تابڑ توڑ حملوں سے منتشر ہونے لگے تو ان صحابہؓ کے ساتھ سیدنا عمار بن یاسرؓ بھی آگے بڑھ کر صحابہؓ کو پکارنے لگے: اے اہلِ ایمان! میں عمار بن یاسرؓ ہوں، میری طرف آؤ۔ وہ سامنے جنت ہے، جنت سے کیوں فرار اختیار کررہے ہو۔ سیدنا عمارؓ اس نازک مرحلے پر ایک بلند ٹیلے پر کھڑے تھے اور ان کا ایک کان شہید ہوچکا تھا، مگر اس تکلیف سے بے پرواہ وہ مردانہ وار دشمن سے برسرپیکار تھے، جب کہ سیدنا سالمؓ نے ایک گڑھا کھود کر اس میں پاؤں جما لیے اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

سیدنا زید بن خطابؓ، سیدنا ثابت بن قیسؓ، سیدنا ابوحذیفہؓ، سیدنا سالمؓ اور عمار بن یاسرؓ دشمن سے لڑرہے تھے تو بہت سارے دشمن ان کے ہاتھوں جہنم رسید ہوئے۔ صحابہ میں سب سے پہلے سیدنا زیدؓ شہید ہوئے، پھر سیدنا ابوحذیفہؓ اور سیدنا سالمؓ نے جام شہادت نوش کیا۔ سیدنا سالمؓ شہادت کے وقت سیدنا ابوحذیفہؓ کے قدموں میں گرے ہوئے تھے اور ان کے دونوں ہاتھ بھی شہید ہوچکے تھے، مگر انہوں نے آخری وقت تک جھنڈا کٹے ہوئے بازؤں سے اپنے سینے کے ساتھ لگاکر بلند رکھا تھا۔ سیدنا ثابت بن قیسؓ نے کفن زیب تن کررکھا تھا اور خود کو خوشبو میں بسا رکھا تھا۔ انہیں آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی زندگی میں جنت کی بشارت دی تھی۔ آج وہ جنت کے شوق سے یوں سرشار تھے کہ ان کو دیکھ کر مسلمانوں کے حوصلے بھی بڑھے اور وہ ان پر رشک بھی کرنے لگے۔ سیدنا انسؓ فرمایا کرتے تھے کہ آپؐصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے سیدنا ثابتؓکو جب شہادت اور جنت کی بشارت دی گئی تو اس کے بعد صحابہ جب بھی ان کو دیکھتے تو کہتے وہ جنتی چلا آرہا ہے۔

جب سورۂ الحجرات نازل ہوئی جس میں آپؐصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند آواز سے بات کرنے سے منع کیا گیا تھا، تو سیدنا ثابتؓ نے سمجھا کہ ان کے تو سارے اعمال ضائع ہوگئے ہیں، کیونکہ ان کی آواز فطری طور پر بلند تھی۔ جب آپؐ نے ان کے بارے میں یہ سنا تو فرمایا کہ جاؤ اسے خوش خبری دو کہ وہ سعادت کی زندگی گزارے گا، شہادت کی موت آئے گی اور سیدھا جنت میں جائے گا۔ یمامہ کے دن سیدنا ثابتؓ کی عجیب شان تھی۔ دشمن پر بڑھ بڑھ کر حملے کررہے تھے اور مسلمانوں کو بلند آواز سے جنت کی ترغیب دے رہے تھے۔ آخر بے جگری سے لڑتے ہوئے وہ بھی شہید ہوگئے۔ سیدنا عمارؓ کا کان اس جنگ میں شہید ہوا اور وہ شدید زخمی ہوئے، مگر بے جگری سے لڑنے کے باوجود اللہ نے ان کو محفوظ رکھا۔ قرآن کا ارشاد کیا خوب ہے: ’’ایمان لانے والوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے اللہ سے کیے ہوئے عہد کو سچا کر دکھایا ہے۔ ان میں سے کوئی اپنی نذر پوری کرچکا اور کوئی وقت آنے کا منتظر ہے۔ انہوں نے اپنے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں کی۔‘‘ (الاحزاب: ۳۳، ۲۳)

جس طرح یہ صحابہؓ اپنے ساتھیوں کو جنت کی ترغیب دے کر جنگ پر ابھار رہے تھے اسی طرح مسیلمہ کا بیٹا شرحبیل بن مسیلمہ بھی اپنے قبیلے کو عصبیت جاہلیہ کا واسطہ دے کر جنگ پر ابھار رہا تھا۔ اس نے کہا: اے بنوحنیفہ! آج قبیلے کی عزت خطرے میں ہے، قومی غیرت کا مظاہرہ کرنے کا یہی وقت ہے۔ دشمن کے مقابلے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہ رکھو۔ جان لو یہ معمولی جنگ نہیں، اگر حملہ آور فوج غالب آگئی تو تمہارے اہل وعیال ان کے قبضے میں ہوں گے۔ اپنی عزت وناموس کی حفاظت کرو اور دشمن کو صفحۂ ہستی سے مٹا دو۔

شہید ہونے والے صحابہؓ نے اپنی شہادت سے قبل جو تقاریر کی تھیں، انہوں نے مسلمانوں کے جوش وجذبے کو بہت مہمیز دی۔ مسیلمہ اور اس کے ساتھی آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگے اور اپنے قلعے کی طرف پسپائی اختیار کی۔ اس وقت سیدنا خالدؓ نے موقع کو غنیمت جانا اور زوردار حملہ کرکے آگے بڑھے۔ بنوحنیفہ کا ایک بہادر اور ماہر جنگجو محکم بن طفیل بھی مسیلمہ کے بیٹے شرحبیل کے طرح اپنی قوم کو غیرت دلا رہا تھا۔ سیدنا عبدالرحمن بن ابوبکرؓ نے اس پر نشانہ باندھ کر تیر چلایا جو اس کی گردن میں جا لگا اور اسی سے وہ موت کے گھاٹ اتر گیا۔ اب مسلمانوں کی ہمت بڑھ گئی اور انہوں نے زور دار حملہ کردیا۔ تاہم لڑائی کی کیفیت اس وقت تک ایسی تھی کہ ابھی یہ کہنا مشکل تھا کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

اب سیدنا خالدؓ کو ایک جنگی تدبیر سوجھی۔ انہوں نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ہر قبیلہ الگ الگ اپنے نشان کے تحت دشمن سے لڑے۔ اس کا بہت اچھا اور مثبت نتیجہ نکلا۔ چنانچہ مسیلمہ اور اس کے ساتھی مسلسل پیچھے ہٹتے ہوئے اپنے قلعہ ’’حدیقۃ الرحمن‘‘ میں داخل ہوگئے اور اندر سے چاردیواری کے تمام دروازے بند کردیے۔ شیطان کے حربے بڑے خطرناک ہوتے ہیں، مگر اللہ فرماتا ہے کہ شیطان کی چالیں بودی اور ضعیف ہوتی ہیں۔ ’’یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں۔‘‘ (النساء: ۴:۷۶) شیطان نے مسیلمہ کو پٹی پڑھائی کہ اپنے باغ اور قلعے کو رحمن کے نام سے منسوب کردو، حالاں کہ یہ حدیقۃ الرحمن نہیں بلکہ حدیقۃ الشیطان تھا۔ سیدنا خالدؓ نے اپنے ساتھیوں کو فرمایا کہ دشمن کا تعاقب کرو چنانچہ بہت سارے مرتدین قلعہ سے باہر رہ گئے جن میں سے بیش تر تہہ تیغ ہوگئے۔

اب مسئلہ یہ تھا کہ قلعے کے اندر کیسے جایا جائے؟ اس مشکل کو بھی اللہ نے آسان کردیا۔ سیدنا انس بن مالکؓ کے بھائی سیدنا براء بن مالکؓ بڑے جنگجو تھے اور ان پر کبھی کبھار ایسی کیفیت آتی تھی کہ جیسے لرزہ طاری ہوگیا ہو۔ اس کے بعد وہ شیر کی طرح دشمن پر جھپٹتے تھے۔ اس لڑائی میں بھی ان پر یہ کیفیت طاری ہوئی اور انہوں نے مسلمانوں سے کہا کہ مجھ کو اٹھا کر باغ [حدیقہ، قلعہ] کے اندر کسی طرح پھینک دو۔ ان کے ساتھیوں نے کہا کہ یہ مناسب نہیں کیوں کہ آپ دشمن کے قابو میں آجائیں گے۔ سیدنا براءؓ نے انہیں قسم دے کر کہا: مجھے باغ میں اتار دو۔ آخر مسلمانوں نے ان کو دیوار پر چڑھا دیا اور وہ قلعے کے اندر کود گئے۔ بے شمار مرتدین ان پر ٹوٹ پڑے۔ وہ لڑتے بھڑتے قلعے کے پھاٹک تک پہنچ گئے اور اس کو کھول دیا۔

پھاٹک کھلتے ہی اسلامی لشکر جو باہر کھڑا تھا باغ کے اندر داخل ہوگیا اور فریقین میں خون ریز جنگ ہونے لگی۔ سیدنا خالدؓ نے مسلمانوں کو للکار کر کہا: مسلمانو! ثابت قدم رہو، بس تمہارے ایک اور ہلے کی دیر ہے کہ دشمن تباہ ہوجائے گا۔ اس للکار پر مسلمانوں نے اس قیامت کا حملہ کیا کہ مرتدین کے قدم اکھڑ گئے۔ مسیلمہ بھاگنے لگا تو اس کے ساتھیوں نے کہا: تیرا وعدہ کیا ہوا جو خدا نے تیرے قول کے مطابق تجھ سے کیا تھا؟ اس نے کہا: یہ موقع ان باتوں کا نہیں ہے، اپنی جان اور اپنا ننگ وناموس بچانا ہے تو بچالو۔

اس وقت اس کذّاب پر دو حربے ایک ساتھ پڑے۔ ایک سیدنا وحشی بن حربؓ (قاتل حمزہؓ) نے پھینکا اور دوسرا سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم انصاریؓ نے جن کے بھائی سیدنا حبیب بن زیدؓ کو کچھ عرصہ پہلے مسیلمہ نے نہایت سفاکی سے شہید کر ڈالا تھا۔ ان کی بہادر والدہ ام عمارہؓ بھی ان کے ساتھ تھیں اور مسیلمہ کو تباہ کرنے کے علاوہ اپنے مظلوم بیٹے کا اس سے بدلہ لینے کی خاطر میدانِ جنگ میں آئی تھیں۔ یہ حربے پڑتے ہی مسیلمہ ہلاک ہوگیا اور مرتدین حواس باختہ ہوکر بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس لڑائی میں مرتدین کے دس ہزار آدمی مارے گئے۔ جس جگہ وہ قتل ہوئے اس کا نام حدیقۃ الرحمن کے بجائے حدیقۃ الموت مشہور ہوگیا۔ مسلمان شہدا کی تعداد ایک ہزار سے زائد تھی۔ ان میں تین سو سابقون الاوّلون انصار ومہاجرین تھے جب کہ مجموعی طور پر سات سو کلام اللہ کے حفاظ تھے۔

بنوحنیفہ کے جن مرتدین نے توبہ کرکے دوبارہ اسلام قبول کرلیا سیدنا خالدؓ نے انہیں معاف کردیا اور پھر ایک قاصد کو فتح کی خوش خبری دے کر بنوحنیفہ کے ایک وفد کے ساتھ مدینہ منورہ بھیجا۔ سیدنا ابوبکرصدیقؓ نے اس وفد کے اراکین سے فرمایا: افسوس تمہارے حال پر، تم کس طرح مسیلمہ کذاب کے دامِ فریب میں پھنس گئے؟ انہوں نے ندامت کا اظہار کیا اور معافی کی التجا کی۔ سیدنا ابوبکرؓ نے پوچھا: اس کی تعلیم کیا تھی؟ انہوں نے عرض کیا: اس کی خود ساختہ وحی کا نمونہ یہ ہے:

یَا ضَفْدَعَ بِنْتِ الضَفْدَ عَیْن، نَقِیٌّ کَمْ تَنْقِیْنَ، لَا الْمَآءَ تَکْدِرِیْنَ، وَلَا الشَّارِبَ تَمْنَعیْنَ، رَأسُکَ فِی الْمَاءِ وَ ذَنْبُکَ فِی الطِّیْنِ۔ 

اے مینڈکی تو ایک مینڈک اور ایک مینڈکی کی بیٹی ہے۔ تو پاک صاف ہے، اتنی پاک کہ نہ تو پانی کو گدلا کرتی ہے اور نہ ہی پینے والوں کو روکتی ہے۔ تیرا سر پانی کے اندر ہوتا ہے اور تیری دم مٹی میں۔

اس کلام کو وحی ماننے والے کتنے بے وقوف تھے۔ سچی بات یہ ہے کہ انسان کا نفس اسے دھوکے میں ڈال دے تو بڑے بڑوں کی عقل ماری جاتی ہے۔ اس کلام میں عربی زبان کے لحاظ سے جو سقم ہے اسے اہلِ زبان خوب جانتے ہیں۔ اسی لیے اس کی زبان سے ایسی ہفوات ولغویات سن کر سیدنا عمرو بن العاصؓ نے، جب کہ وہ ابھی مسلمان بھی نہیں ہوئے تھے، اسے کہا تھا کہ تیرے اس کلام کو وحی سے کیا نسبت ہوسکتی ہے۔ یہ تو کسی دیوانے اور مخبوط الحواس کا لغو کلام ہی ہوسکتا ہے اور یقیناًتوجھوٹا ہے۔ آج بھی برصغیر میں انگریزوں کے کاشتہ و خود ساختہ جھوٹے مدعئ نبوت کے ملفوظات دیکھ لیجیے۔ نبوت تو اعلیٰ ترین منصب ہے، ان تحریروں کو دیکھ کر ہر صاحبِ عقل و شعور پکار اٹھتا ہے کہ یہ کسی شریف النفس انسان کا کلام نہیں ہوسکتا مگر جن کی عقل ماری جائے ان کا کون علاج کرسکتا ہے۔ آنکھیں دیکھ بھی رہی ہوں تو دل اندھے ہوجاتے ہیں۔ قرآن میں اس مضمون کو خوب صورت انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ’’حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں مگر وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہیں۔‘‘ (الحج)

مؤرخین نے لکھا ہے کہ یہ جنگ (یمامہ) جھوٹے ’’مدعیان نبوت‘‘ کے خلاف آخری معرکہ تھا جس کے بعد دور صدیقی رضی اللہ عنہ میں کسی اور شخص کو نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنے کی ہمت نہ ہوسکی۔

Share: