*عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کذاب ودجال مدعیان نبوت *
*سجاح بنت حارث*
یہ عورت اپنے زمانے کی مشہور کاہنہ تھی۔ نہایت فصیحہ وبلیغہ اور بلند حوصلہ عورت تھی۔ مذہباً عیسائی تھی، سجاح کو اپنی فطرت اور باکمال خوبیوں پر بہت ناز تھا۔ ایک دن اس نے سوچا مسیلمہ کذاب جیسا 100سالہ بوڑھا نبوت کا دعویٰ کرکے بااقتدار بن گیا ہے تو مجھے بھی اپنی خوبیوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ جیسے ہی اس نے سید المرسلین ﷺ کے وصال کی خبر سنی تو دعویٰ نبوت کردیا چونکہ جناتی طاقت اور تحریر وتقریر کے فن پر اس کو عبور حاصل تھا۔ لہٰذا اس نے بہت جلد بنی تغلب اور بنی تمیم کے بڑے بڑے سرداروں کو اپنا ہم نوا بنالیا، مالک بن ہبیرہ، حنف بن قیس اور حارث بن بدر جیسے سردار بھی سجاح کی سحر بیانی سے مرعوب ہوکر مرتد ہوگئے۔
جب سجاح کی طاقت بڑھ گئی تو اس نے ایک رات تمام معتقدین سرداروں کو بلاکر یمن پر حملے کی تیاری کا حکم دیا، جب سجاح کا لشکر یمن کی طرف روانہ ہوا جہاں مسیلمہ کذاب پہلے سے اپنی جھوٹی نبوت کی دکان کھولے بیٹھا تھا تو اسی دوران حضرت صدیق اکبرؓ نے ایک لشکر سجاح بنت حارث کی سرکوبی کے لیے بھی روانہ کردیا تھا۔ لشکر اسلام کچھ فاصلہ آگے بڑھا تھا کہ معلوم ہوا کہ نبوت کے دو جھوٹے دعویداروں کے درمیان تصادم ہونے جارہا ہے تولشکر اسلام وہیں رک گیا۔ ادھر مسیلمہ کذاب کو جب سجاح کے حملے کی خبر ملی تو وہ سخت پریشان ہوا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ سجاح بہت ہوشیار اور حوصلہ مند عورت ہے۔ اس لیے اس نے کمال مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انتہائی قیمتی تحائف کے ساتھ راستے میں ہی سجاح بنت حارث سے ملاقات کی اور اسے اپنے جال میں پھانس لیا اور دونوں نے تین دن تک مسیلمہ کذاب کے خیمے میں اپنی اپنی نبوت پر بحث ومباحث کے دوران داد وعیش کے دور گزارنے کے بعد نکاح کرلیا۔ جب تین دن کے بعد سجاح نے اپنے معتقدین کو مسیلمہ کذاب کے نبی برحق ہونے اور نکاح کی خبر سنائی تو بڑے بڑے سردار اس سے ناراض ہوکر الگ ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے سجاح بنت حارث اکیلی رہ گئی اور خاموشی سے اپنے نانہالی قبیلے بنی تغلب میں زندگی گزارنی شروع کردی، جب حضرت امیر معاویہؓ کے زمانے میں ایک سال قحط پڑا تو انہوں نے بنی تغلب کو بصرہ میں آباد کرلیا، سجاح بن حارث بھی ان کے ساتھ یہاں آباد ہوگئی اللہ پاک نے اسے ھدایت عطا فرمادی اور یہ توبہ استغفار کرکے سچے دل سے دوبارہ مسلمان ہوگئیں اور مرنے تک اسلام پر قائم رھیں اور انتہائی دینداری، پرہیز گاری اور ایمانی کیفیت میں ان کا انتقال ہوا، بصرہ کے حاکم اور صحابی رسولﷺ سمرہ بن جندبؓ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی۔
*حارث کذاب دمشقی*
یہ شخص انتہائی مکار جادوگر اور شعبدہ باز تھا بظاھر بڑے بڑے مجاھدے کرتا تھا اور عجیب قسم کے شعبدے دکھا کر لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا تھا درآصل جو شخص بھوکا رہے، کم سوئے، کم بولے اور نفس کشی اختیار کرلے اس سے بعض دفعہ ایسے افعال صادر ہوجاتے ہیں جو دوسروں سے نہیں ہوسکتے، ایسے لوگ اہل اللہ میں سے ہوں تو ان کے ایسے فعل کو کرامت کہتے ہیں اور اگر اہل کفر یا گمراہ ہوں تو ان کے ایسے فعل کو استدراج کہتے ہیں۔ حارث کذاب بھی اپنی ریاضت ومجاہدات اور نفس کشی کی بدولت ایسے افعال کرتا تھا، مثلاً یہ لوگوں کو کہتا کہ آؤ میں تمہیں دمشق سے فرشتوں کو جاتے ہوئے دکھاؤں چنانچہ حاضرین محسوس کرتے کہ نہایت حسین وجمیل فرشتے بصورت انسان ( جو درآصل شیطانی جن ھوتے تھے )گھوڑوں پر سوار جارہے ہیں۔ یہ لوگوں کو جنات کی مدد سے موسم سرما میں گرمیوں کے اور گرمیوں میں موسم سرما کے پھل کھلاتا۔ اس کے گمراہ کن افعال اور شعبدوں کی شہرت آس پاس پھیل گئی اور پھر اس بدبخت نے بھی نبوت کا دعویٰ کردیا۔ خلق خدا کو گمراہ ہوتے دیکھ کر ایک دمشقی رئیس قاسم بن بخیرہ اس کے پاس آئے اور دریافت کیا کہ تم کس چیز کے دعویدار ہو، حارث بولا میں اللہ کا نبی ہوں۔ اس پر قاسم نے کہا اے دشمن خدا تو بالکل جھوٹا ہے۔ حضرت خاتم المرسلینؐ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد نبوت کا دروازہ ہمیشہ کے لیے بند ہوچکا ہے۔ یہ کہہ کر قاسم سیدھا خلیفہ وقت عبدالمالک بن مروان کے پاس گئے اور سارا ماجرا سنادیا۔
عبدالمالک نے حارث کو گرفتار کرکے دربار میں پیش کرنے کا حکم دیا لیکن اس دوران وہ بیت المقدس کی جانب فرار ہوچکا تھا اور وہاں پہنچ کر اس نے اعلانیہ اپنی جھوٹی نبوت کا آغاز کردیا۔ بصرہ کے ایک شخص نے اس سے ملاقات کی اور بہت دیر تک تبادلہ خیال کے بعدسمجھ گئے کہ یہ جھوٹا نبی ہے۔ تاہم اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے اس کا اعتماد حاصل کیا اور کچھ عرصے بعد خلیفہ کے دربار میں پہنچ کر سارا قصہ بیان کرنے کے بعد حارث کی گرفتاری کے لیے 20سپاہی لے کر پھر بیت المقدس پہنچ گئے اور موقع ملتے ہی حارث کو زنجیروں میں باندھ لیا۔ بیت المقدس سے بصرہ تک راستے میں حارث نے شیطانی طاقتوں کے ذریعے تین سے زائد بار اپنی زنجیریں کھلوائیں مگر یہ شخص جس نے گرفتار کیا تھا وہ کسی طور مرعوب نہیں ہوئے اور جھوٹے نبی کو خلیفہ کے دربار میں پیش کردیا۔ خلیفہ کے دربار میں بھی حارث نبی ہونے کا دعویدار رہا جس پر خلیفہ نے محافظ کو نیزہ مارنے کا اشارہ کیا لیکن پہلے نیزہ کے وار نے اس کے جسم پر کوئی اثر نہیں کیا جس پر اس کے حواریوں کی بانچھیں کھل گئیں۔ پھر خلیفہ عبدالمالک نے محافظ سے کہا کہ بسم اللہ پڑھ کر نیزہ مارو۔ اس نے بسم اللہ پڑھ کر نیزہ مارا تو وہ حارث کے جسم کے آر پار ہوگیا اور یہ بدبخت جہنم رسید ھو گیا اور یوں یہ جھوٹا نبی بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔