عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 26)


*عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کے تحفظ کے لئے جدید اسلوب اپنانے کی ضرورت *

 

جس طرح آج کے دور میں ھر کام میں جدید ذرائع کے استعمال کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اسی طرح  تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے بھی  جدید اسلوب کو اپنانا  وقت کی اھم ضرورت ھے  سوشل میڈیا آج کی دنیا کا سب سے بڑا ذریعہ ابلاغ بن چکا ھے دشمنان ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے ذریعہ سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی مکروہ کوششوں میں پوری طرح مصروف عمل ھیں اور کذاب ودجال غلام قادیانی کی جھوٹی نبوت کا پرچار کر کے بھولے بھالے مسلمانوں کو اپنے جال میں پھنسانے کی مکروہ کوشش کر رھے ھیں لہذا ضرورت اس امر کی ھے کہ اس میدان میں بھی اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے ان کا مقابلہ کیا جائے تاکہ بیچارے بھولے بھالے مسلمان  مکار دشمنوں کی اس یلغار سے اپنے ایمان کو بچا سکیں 

فتنوں سے آگاہی حاصل کرنا اور امت کو اُن سے خبردار کرنا دینی تقاضوں اور فرائض میں سے ہے اور اسلامی معاشرہ میں کسی بھی حوالہ سے پیدا ہونے والی خرابیوں کی نشاندہی کر کے مسلمانوں کو اُن سے بچانے کی کوشش کرنا بھی ہماری دینی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ اس لیے توحید و سنت، ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، مقامِ صحابہ کرامؓ اور اہل سنت کے عقائد و مسلک کے تحفظ کے حوالہ سے  ملک بھرمیں مختلف مقامات پر تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے مجلس احرار اسلام اور دیگر جماعتوں کے جو کورسز  وقتا فوقتا ہوتے رھتے ہیں، وہ  بھی دینی جدوجہد کا  ایک اہم حصہ ہیں اور ان کو کامیاب بنانے کی  ھم سب  کو پوری کوشش کرنی چاہیے۔

جنابِ نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین کے دور میں چار اشخاص (۱) مسیلمہ کذاب (۲) اسود عنسی (۳) طلیحہ اسدی اور (۴) سجاح نے نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ 

ان میں اولُ الذکر دونوں مقابلہ میں قتل ہوگئے تھے۔ جبکہ طلیحہ اور سجاح نے توبہ کر لی تھی اور دوبارہ مسلمانوں کی صف میں شامل ہوگئے تھے۔ طلیحہ اسدیؓ کو محدثین نے صحابہ کرامؓ میں شمار کیا ہے اور وہ حضرت عمرؓ کے دورِ خلافت میں جہاد کے ایک معرکہ میں شہید ہوگئے تھے۔ اور سجاحؒ نے حضرت معاویہؓ کے دور میں توبہ اور تجدیدِ ایمان کی تھی۔ کوفہ میں ان کا انتقال ہوا تھا اور صحابی رسول حضرت سمرہ بن جندبؓ نے ان کا جنازہ پڑھایا تھا۔

اس لیے نہایت ضروری ھے کہ قادیانیوں اور دیگر منکرین ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دجل و فریب کو بے نقاب کرنے اور ان کی سازشوں کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ ھمیں ان کی توبہ اور اسلام میں ان کی واپسی کا دروازہ بھی کھلا رکھنا چاہیے بلکہ  اس کے لئے بھرپور کوشش کرنی چاھیے ان سب کو توبہ کی دعوت دیتے ہوئے دعوت اور توبہ کا مناسب ماحول پیدا کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہیے کیا معلوم اللہ پاک کس کو کب ھدایت نصیب فرما دیں 

قادیانیوں کی دعوت اور سازشوں کا عمومی میدان دین سے وابستہ لوگ ، دینی مدارس کے طلبہ اور مساجد کے نمازی نہیں ہیں، کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ جس شخص کا دینی مدرسہ، مسجد، علماء کرام اور مذہبی جماعتوں سے تھوڑا سا تعلق بھی ہے وہ اُن کے دجل و فریب کا شکار نہیں ہوگا۔ اور جو شخص دین سے اور دین کے علم و معلومات سے جس قدر دُور ہوگا وہ اُن کے فریب کا اتنا ھی جلدی شکار ہوگا۔ اس لیے قادیانیوں کی محنت کا  آصل میدان مسجد و مدرسہ سے لاتعلق افراد و طبقات ھوتے ہیں اور وہ لوگ  جو دین کی معلومات سے بہرہ ور نہیں ہیں یہی وجہ ھے یورپی ممالک میں مقیم ھمارے نوجوان جنکی اکثریت دین سے دور ھے، ان کے جال میں جلدی پھنس جاتے ھیں  دوسری طرف  ہماری محنت کا میدان زیادہ تر ہمارا اپنا ماحول ہوتا ہے۔ اس ماحول میں بھی محنت کی ضرورت ہے کہ اس سے ایمان میں پختگی آتی ہے اور بیداری قائم رہتی ہے۔ لیکن ہماری محنت کا اصل میدان بھی دین سے لا تعلق  اور بیگانہ افراد و طبقات ھونے چاھیے  جن کی طرف بد قسمتی سے ہماری توجہ بہت ھی کم ھوتی ہے۔ اس لیے ہمیں اپنی جدوجہد اور ترجیحات کا از سرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔

قادیانیوں نے اب اپنی محنت کا طریقِ کار بدل لیا ہے، وہ مناظرہ و مجادلہ کا محاذ چھوڑ کر لابنگ اور بریفنگ کے ہتھیاروں سے کام لے رہے ہیں۔ ان کے دلائل انسانی حقوق کے جدید فلسفہ اور آج کے بین الاقوامی قوانین و رواجات پر مشتمل ہوتے ہیں اور وہ ان حوالوں سے لوگوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے میڈیا کے تمام شعبوں صحافت، ٹی وی چینل اور سوشل میڈیا میں اپنی کمین گاہیں قائم کر رکھی ہیں۔ اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں اور سیکولر این جی اوز کو پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ وہ فائل ورک اور لابنگ کی ان صلاحیتوں کو خوب استعمال کر رہے ہیں، جن کی طرف ہماری توجہ نہیں ہے یا پھر بہت کم ھے اس لیے ہمیں اس صورت حال پر توجہ دینا ہوگی اور اُن ہتھیاروں اور اسلوب میں مہارت حاصل کرنا ہوگی جو آج کے دور میں عام طور پر استعمال ہو رہے ہیں، اور جن کے بغیر کوئی جدوجہد آگے نہیں بڑھ سکتی۔

تحفظ ختم  نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال ناگزیر ہوچکا ہے جدید ذرائع ابلاغ کے ذریعے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔

لعنتی قادیانی مختلف طریقوں سے سوشل میڈیا پر مسلمانوں کا ایمان خراب کررہے ہیں اس محاذ پر کام کرنے کی اشد ضرورت ھے کیونکہ مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کرنا انتہائی اہم ہے۔جس طرح ہتھیاروں کی جنگ ہے اس طرح آج کے دور میں میڈیا جنگ بھی ہے اور آج کے دور میں میڈیا کی جنگ کا دائرہ ہتھیاروں کی جنگ سے زیادہ وسیع اور مؤثر ہے اور میڈیا ہتھیار سے زیادہ دشمن پر اثر انداز ہوتا ہے ،جہاں جدید ابلاغ  کے ذرائع کا  وقت کی ضرورت کے مطابق استعمال ضروری ہے وہاں عالمی سطح پر جس طرح میڈیا وار جاری ہے اور اسلام ، حضرت محمد ﷺ کی ناموس و حرمت ، ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلامی تعلیمات وروایات جس طرح بین الاقوامی پروپیگنڈے اور کردار کشی کے ہتھیاروں کی زد میں ہیں اس حوالہ سے ہماری یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ میڈیا سوشل میڈیا وارکو نظرانداز کرنے کی بجائے اس میں پوری قوت کے ساتھ شریک ہوں اور اس محاذ پر بھی کام کیا جائے یہ محاذ  ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمنوں کے لئے خالی نہ چھوڑا جا ئے


بہرحال قادیانیوں کی ھر قسم کی چالبازیوں اور ان کے مکر و فریب سے بچنا تمام مسلمانوں کے لیے بہت ضروری ہے ۔ پاکستان میں ناموس رسالت قانون اور امتناع قادیانیت آرڈینینس کے خلاف سازشیں کرنے والے ان لعنتیوں کا بھرپور انداز میں مقابلہ کیا جانا چاھیے 

اللہ پاک ھم سب کی حفاظت فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: