عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 28)


*عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ایمان کی اھم شرط*


نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثرب کی عزت پر

خدا شاہد ہے کامل میرا ایمان ہو نہیں ہو سکتا

(مولانا ظفر علی خان)



اللہ تعالی نے اس کائنات کو اپنی قدرتِ کاملہ سے پیدا فرمایا اور اس کے چلانے کے لئے ایک مربوط نظام اس کائنات کو عطا فرمایا جس پر اس کائنات کا نظام جاری وساری ھے اور قیامت تک  اسی طرح جاری رھے گا

تخلیق کائنات کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو زمین پر اپنا خلیفہ مقر ر کیا اور اسکی راہنمائی کیلئے انبیاء کرام کی صورت میں قیادت سے اورقرآن کریم اور آسمانی کتابوں سے نوازا اور پھر کائنات میں ایسے آثار پیدا کئے جس کے نتیجہ میں ایک انسان اس حقیقت تک پہنچتا ہے کہ کائنات کا ایک خالق ہے اور ہم اس کی مخلوق ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے پہلے جب کوئی نبی رحلت فرماتا تھا تو اللہ تعالیٰ دوسرا نبی بھیجتا تھا۔ خاتم النبیین والمرسلین حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل کی بعثت کا سلسلہ ختم فرما دیا۔قرآن کریم میں سو  سے زیادہ مقامات پر بہت ہی واضح انداز میں اللہ تعالیٰ نے حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعلان فرمایا ہے۔


عقیدہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایمان کی بنیاد ہے۔حضرت محمد  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری نبیؐ ہونے پر غیر متزلزل ایمان اور انکے بعد کسی نبی  یا رسول کی آمدکا تصور بھی نہ کرنے کا عقیدہ ہی دراصل وہ بنیاد فراہم کرتا ہے جس پر ایمان کی عمارت کھڑی رہ سکتی ہے  چنانچہ ارشاد ربانی ھے 

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا0

محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلہِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے (الاحزاب)


ترمذی شریف کی ایک حدیث ہے جس کے راوی حضرت انس بن مالکؓ ہیں فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اب نبوت اور رسالت کا انقطاع عمل میں آ چکا ہے لہٰذا میرے بعد نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔‘‘میرے بعد میرے نمائندے یعنی خلفاء ہونگے۔انبیاء کرام کو انسانیت کی راہنمائی کی جو ذمہ داری  دی گئی تھی وہ ساری ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے  ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدقہ میں اب اس آخری امت پر ڈال کر اسے “بہترین امت “ کے  خطاب سے نوازا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے  ارشاد فرمایا ھے 


كُنْتُـمْ خَيْـرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُـوْنَ بِاللّـٰهِ ۗ وَلَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْـرًا لَّـهُـمْ ۚ مِّنْهُـمُ الْمُؤْمِنُـوْنَ وَاَكْثَرُهُـمُ الْفَاسِقُوْنَ (110) 

تم سب امتوں میں سے بہترین ہو جو لوگوں کے لیے بھیجی گئی ہو  اچھے کاموں کا حکم کرتے ھو اور برے کاموں سے روکتے ھو  اور اللہ پر ایمان لاتے ہو، اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لیے بہتر تھا، کچھ ان میں سے ایماندار ہیں اور اکثر ان میں سے نافرمان ہیں


ایک دوسرے مقام پر ارشاد باری تعالی ھے 

وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّةٌ يَّّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْـرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ ۚ وَاُولٰٓئِكَ هُـمُ الْمُفْلِحُوْنَ (104) 

اور چاہیے کہ تم میں سے ایک جماعت ایسی ہو جو نیک کام کی طرف بلاتی رہے اور اچھے کاموں کا حکم کرتی رہے اور برے کاموں سے روکتی رہے، اور وہی لوگ نجات پانے والے ہیں۔


اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ایک نظام ھے کہ وہ ہر زمانے میں کوئی فرد یا جماعت ایسی اٹھاتا ہے جو دین کے خوبصورت چہرے پر اگر کوئی گرد و غبار پڑی ہوتو اسے صاف کرتی ہے اور دوبارہ اس کو اسی طرح نکھارتی ہے جس طرح یہ دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں پہنچایا تھا ھمارے زمانے میں بھی تبلیغی جماعت اس کی بہت بڑی مثال ھے 


نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ میرے بعد تیس کذاب اٹھیں گے جو نبوت کا دعوی کرینگے۔تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی اسلامی دور حکومت میں، کسی نے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حملہ کیا اس کو بغیر کسی ھچکچاھٹ کے  واصل جہنم کردیاگیا حضور آکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارکہ کے آخری دور میں  ہی مسیلمہ کذاب نے نبو ت کا دعویٰ کردیا ،خلیفہ رسول حضرت  ابوبکر صدیقؓ نے نا مساعد حالات اور حضور آکرم   صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے صدمہ  کے باوجود بھی جھوٹے مدعی نبوت کو قتل کرنے کیلئے ایک لشکر بھیجا اور اسے واصل جہنم کیا اسی طرح  صحابہ کرام  کے بعد کے زمانہ میں بھی مسلمانوں کے خلفاء واُمراء مدعیان نبوت کو جہنم واصل کرتے رھے سوائے ان لوگوں کے جو توبہ تائب ھو کر دوبارہ صدق دل سے مسلمانوں کی صف میں شامل ھو گئے مگر بد قسمتی سے جب استعماری طاقتیں عالم اسلام پر غالب آگئیں اور اس طرح کے فتنوں نے سر اٹھایا، تو علماء کرام  قلم وکاغذ لیکر میدان کارزار میں کودپڑے اور الحمدللہ انہوں نے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بھرپور دفاع کیا، انگریز کے زمانہ میں عدالتوں میں اور کتابوں کے ذریعہ صرف غلام قادیانی لعین کے رد میں لاکھوں  صفحات اردو انگریزی اور دیگر زبانوں میں تحریر کیے گئے، علماء نے  قادیانیت  کے مسئلہ پر مفصل کتابیں تحریر کرکے بلاشبہ اُمت پر ایک عظیم احسان کیا۔ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہ رکھنے والوں کوکافر قرار دلوانے میں علماء  کا بنیادی کردار ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ مسئلہ اُمت مسلمہ کیلئے کتنی اہمیت کا حامل ہے۔زمانہ شاہد ہے کہ حضور نبی کریم  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ کیلئے ہزاروں عاشقان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی جانیں نچھاور کیں اور شمع رسالت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانے آپ  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناموس پر قربان ہوکر ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید ہوگئے۔مسلیمہ کذاب کیخلاف جنگ میں بہت بڑی تعداد میں حافظ قرآ ن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کی شہادت اور پھر اسکے بعد کے آنیوالے ادوار میں نبوت  کے دعوے کرنیوالے ملعونین اور گستاخان رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اللہ کی زمین کو پاک کرنے کیلئے جب بھی جان کا نذرانہ پیش کرنے کا وقت آیا کبھی کوئی مسلمان پیچھے نہیں رہا وہ غازی علم دین  شہید ہو یا  دوسرے  شھداء کرام ،  ان شہداء جیسے ہزاروں ہیرے ناموس رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کٹ مرے مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والوں سے اس زمین کو پاک کرکے چھوڑا۔حضور نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت جب تک ہمیں اپنی جانوں سے بھی زیادہ عزیز تر نہیں ہوجاتی ،ہمارا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔


امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ  فرماتے ہیں کہ جھوٹے نبی کے پیروکار مرتد اور خارج ازاسلام ہوتے ہیں لیکن یہ مسئلہ اتنا حساس اور واضح ہے کہ اگر کوئی شخص جھوٹے مدعی نبوت سے کوئی دلیل بھی طلب کرتا ہے تو وہ بھی اسلام سے خارج ہوجاتا ہے۔غلام قادیانی مردود بھی مسیلمہ کذاب کا ایک تسلسل ھی ہے جسے انگریز نے پالا پوسا اور مسلمانوں میں فکری انتشار پیدا کرنے کیلئے اسے جھوٹا نبی بنا کر پیش کیا۔یہ کذاب اپنی شخصیت کے لحاظ سے ایک غیر متوازن اور مخبوط الحواس شخص تھا اسی لئے اس نے کبھی خود کو نبی کہا،کبھی مسیح موعود اور کبھی کہا کہ میں نبی کاسایہ ہوں۔اسکے بیانات میں مسلسل تضادات ہیں۔ انگریز کا لگایا ہوایہ پودا آج تک امت میں کانٹے بکھیر رہا ہے۔اللہ والوں نے ہمیشہ ان جعلی اور جھوٹے مدعیان نبوت کا مقابلہ کیااورماضی کی طرح برصغیر کے مسلمانوں نے بھی غلام  قادیانی کو جھوٹا ثابت کیا۔الحمد للہ اول روز سے مسلمان ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مسئلہ پر اتنے یکسو ہیں کہ ایک خطاکار اور گنہگار انسان بھی جو عملی لحاظ سے کمزور ہوسکتا ہے لیکن ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معاملے میں وہ ہر وقت اپنی جان نچھاور کرنے کیلئے تیار رہتا ہے۔

علماء کرام اور عوام الناس نے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ کیلئے بے پناہ قربانیاں دیں۔ چنانچہ 22 مئی 1974ء کو نشتر میڈیکل کالج ، ملتان کے کچھ طلبہ معلوماتی دورے پر پشاور جا رہے تھے۔ چناب نگر (ربوہ) ریلوے سٹیشن پر قادیانیوں نے اپنا کفریہ لٹریچر تقسیم کرنے کی کوشش کی ، طلبہ نے اس لٹریچر کو لینے سے انکار کیا اور کچھ پکڑ کر پھاڑ کر پھینک دیا۔ طلبہ نے غیرت ایمانی کا ثبوت دیتے ہوئے ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) زندہ باد ، قادیانی مردہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ 29 مئی کو جب انہی طلبہ کا یہ قافلہ اپنا دورہ مکمل کرکے واپس آیا توقادیانی سٹیشن ماسٹر نے قادیانیوں کو اکٹھے کرلیااور طلبہ کی بوگی پر حملہ کردیا۔ خلافِ ضابطہ چناب نگر ریلوے سٹیشن پر گاڑی روک لی گئی۔سینکڑوں مسلح قادیانیوں نے لاٹھیوں، کلہاڑیوں اور برچھیوں سے حملہ کر کے 30 کے قریب نہتے طلبہ کو تشدد سے شدید زخمی کر دیا۔ اس  واقعہ کا پورے ملک میں زبردست ردِعمل سامنے آیا۔ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں بھرپور احتجاج کیا گیا ۔پورے ملک میں قادیانیوں کی اس غنڈہ گردی نے اشتعال برپا کردیا مولانا یوسف بنوری رحمہ اللہ کی قیادت میں ایک منظم تحریک چلی جس سے یہ مسئلہ اقتدار کے ایوانوں تک جاپہنچا ، قومی اسمبلی میں طویل بحث کے بعد متفقہ طور پر قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا گیا اور آئین پاکستان کی رو سے گستاخ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سزا موت مقرر کی گئی۔قادیانی جس طرح حضرت محمد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غدار اور منکر ہیں اسی طرح آئین پاکستان کے بھی غدار ہیں۔مگر اسکے باوجود ملک کے اہم عہدوں اور مناصب پر براجمان ہیں۔ آئے روز آئین پاکستان کی توہین اور پامالی کے واقعات ہوتے ہیں مگر حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی اور قادیانیوں کو لگام دینے کیلئے تیار نہیں بلکہ ھمارے حکمرانوں کی طرف سے قادیانیوں کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ انہیں وزیر اور مشیر بنایا جاتا ہے اور مختلف طریقوں سے انہیں نوازا جاتا ہے۔عالمی استعماری قوتوں کے کہنے پر حکومتوں کے اس رویے پر پوری قوم دل گرفتہ ہے۔ پاکستان کی سلامتی اور اسکے اسلامی تشخص کیخلاف سازشوں میں مصروف قادیانیوں کے متعلق ھماری اکثر حکومتوں کا رویہ ھمیشہ سے ھی افسوسناک رھا ھے لیکن یہ بھی حقیقت ھے کہ  ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانے اپنی جانیں تو قربان کر دیں گے لیکن ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حرمت پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے ان شاء اللہ  اور بقول حضرت مولانا عطاء اللہ شاہ بخاری  رحمة اللہ علیہ کے کہ ان شاء اللہ وہ وقت ضرور آئے گا جب روئے زمین پر کوئی قادیانی موجود نہیں ھو گا

Share: