*ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*
*مرزا قادیانی پر کفر کا فتوی اور علمائے دیوبند کا موقف*
جیسا کہ گذشتہ قسط میں یہ بتایا جا چکا کہ علمائے لدھیانہ کو یہ شرف وسعادت حاصل ہے کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے خلاف اولین فتویٰ کفر ان ہی کی طرف سے جاری ہوا‘ حالانکہ اس وقت اکثر وبیشتر علماء کرام مرزا قادیانی کے افکار ودعاوی سے ناواقفیت کی وجہ سے اس کے خلاف کفر کا فتویٰ دینے میں متردد تھے اور اس کے نظریات کے بارہ میں ٹھوس معلومات اور ثبوت نہ ہونے کی بناء پر فتویٰ کفر جاری کرنے سے گریزاں تھے‘ ان ہی محتاط ومتردد علماء میں قطب الارشاد امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ العزیز بھی شامل تھے
*علماء لدھیانہ کا فتویٰ اور حضرت گنگوہیؒ کا ابتدائی مؤقف*
۱۳۰۱ ہجری (۱۸۸۴ء) میں جب مرزا قادیانی کی پہلی کتاب ”براہین احمدیہ“ منظر عام پر آئی تو اس کی بعض غیر محتاط عبارات سے علماء کرام کا ایک گروہ چونک اٹھا اور ان کے دلوں میں مرزا قادیانی کے بارہ میں شکوک وشبہات سر اٹھانے لگے‘ اسی دوران مرزا قادیانی نے اپنے چند روزہ قیام لدھیانہ کے دوران کچھ عجیب قسم کے دعوے کردیئے‘ گویا وہ مامور من اللہ ہے‘ جس سے علماء کرام کا وہ گروہ مزید چوکنا ہوگیا اور اس نے مرزا قادیانی پر کفر وضلالت کا فتویٰ جاری کردیا۔ یہ فتویٰ جاری کرنے والے یہی علماء لدھیانہ تھے جو مرزا قادیانی کی کتاب اور اس کے زبانی دعوؤں سے نبوت ورسالت کی طرف اس کی غیر محسوس پیش قدمی بھانپ گئے
لدھیانہ کے بعض دیگر علماء مرزا قادیانی کے ان پوشیدہ مقاصد اور نبوت کی طرف اس کی خفیہ پیش رفت کا ادراک نہ کرسکے اور انہیں علماء لدھیانہ کا فتویٰ کفر ناگوار گزرا ‘چنانچہ وہ فتویٰ کفر دینے والے علماء کے خلاف شکایت لے کر قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنے علم وفہم کے مطابق حضرت گنگوہیؒ کو دو طرفہ صورت حال بتائی ‘
*حضرت گنگوھی کا علمائے لدھیانہ کے نام مکتوب*
حضرت گنگوہیؒ نے ان علماء مؤقف سنا تو اس مؤقف کی روشنی میں فتویٰ دینے والے علماء لدھیانہ کی طرف ایک مکتوب جاری فرمایا‘ جس میں حضرت گنگوہیؒ فرماتے ہیں کہ:
”گو کتاب ”براہین احمدیہ“ کے بعض اقوال میں کچھ خلجان سا ہوتا ہے‘ مگر تھوڑی سی تاویل سے اس کی تصحیح ممکن ہے‘ لہذا آپ جیسے اہل علم سے تعجب ہے کہ ایسے امر متبادر المعانی کو دیکھ کر تکفیر وارتداد کا حکم فرمایا‘ اگر تاویل قلیل فرماکر اس کو اسلام سے خارج نہ کرتے تو کیا حرج تھا؟ تکفیر مسلم ایسا سہل امر نہیں کہ ذرا سی بات پر کسی کو جھٹ کافر کہہ دیا جائے․․․․
بہرحال تکفیرکسی وجہ اور شک پر جائز نہیں‘ اگر القائے شیطانی بھی ہو تو بھی ارتداد اور تکفیر کی کوئی وجہ پیدا نہیں ہوسکتی اور آپ کا یہ فرمانا کہ: اس کا دعویٰ انبیاء سے بڑھ کر ہے ‘ یہ بیان میری سمجھ سے باہر ہے‘ کسی مسلمان کی تکفیر کرکے اپنے ایمان کو داغ لگانا اور مواخذہ ٴ اخروی سر پر لینا سخت نادانی ہے‘ یہ بندہ جیسا اس (مرزا قادیانی) کو کافر‘ فاسق نہیں مانتا‘ اس کو مجدد وولی بھی نہیں کہتا‘ صالح مسلمان سمجھتا ہوں اور اگر کوئی پوچھے تو ان کے ان کلمات کی تاویل مناسب سمجھتا ہوں اور خود اس سے اعراض وسکوت ہے“۔ (فتاویٰ قادریہ‘ مطبوعہ لاہور)
حضرت گنگوہیؒ کا مؤقف‘ لدھیانہ سے آنے والے ان علماء کی فراہم کردہ معلومات پر مبنی تھا جو اس وقت تک مرزا قادیانی کے بارہ میں حسن ظن رکھتے تھے اور فتویٰ دینے والے علماء لدھیانہ کی سخت گیری اور جلد بازی سے نالاں بھی تھے‘ ایسے حالات میں اصولِ فتویٰ کی حدود وقیود اور تکفیر مسلم کی حساسیت ونزاکت سے واقفیت رکھنے والے اصحاب علم وفہم اچھی طرح واقف وباخبر ہیں کہ فتویٰ میں کس قدر احتیاط لازم ہے‘ اس لئے اس وقت کے حالات وواقعات کے مطابق یہ حضرت گنگوہیؒ کا ایک انتہائی محتاط فتویٰ تھا‘ لیکن بعد میں جوں جوں مرزا قادیانی کے افکار ودعاوی کی اصل حقیقت حضرت گنگوہیؒ پر واضح وآشکارا ہوتی چلی گئی‘ ان کے مذکورہ مؤقف میں بھی نمایاں اور واضح تبدیلی آتی چلی گئی اور مرزا قادیانی سے متعلق ان کا فتویٰ رفتہ رفتہ سختی وشدت اختیار کرتا چلا گیا۔۔
*علماء لدھیانہ کا جوابی مکتوب*
علماءِ لدھیانہ کے نام حضرت گنگوہیؒ کے مکتوب گرامی کے کچھ اقتباسات ہم گذشتہ سطور میں نقل کر چکے ہیں جس میں حضرت گنگوہیؒ نے مرزا قادیانی سے متعلق معلومات کی روشنی میں اس کے بارہ میں اپنا نکتہ نظر بیان کیا تھا اس کے جواب میں علماء لدھیانہ نے حضرت گنگوہیؒ کے نام اپنے مکتوب کے اندر لکھا کہ:
”ہماری رائے میں علماء کا ایسے موقع پر توقف کرنا‘ عوام کو گمراہی میں ڈالنا ہے‘ کیونکہ عوام تاویل کا نام تک نہیں جانتے‘ اسی بناء پرعلمائے شریعت نے حسین بن منصورحلاج کو قتل کرادیا‘ حالانکہ اس سے کوئی ایسا کلمہ صادر نہ ہوا تھا جو قابل تاویل نہ ہو‘ آپ جیسے اہل فضل اور صاحب کمال سے تعجب ہوا کہ کلمات کفریہ کی تاویلات کے درپے ہوئے اور مرزا غلام احمد کے حالات سے کما حقہ اطلاع حاصل کئے بغیر اس کو صالح مسلمان قرار دے دیا اور نادانستہ عوام کو گمراہی میں ڈالا“۔ (فتاویٰ قادریہ)۔
حضرت گنگوہیؒ کا مکتوب اور علماء لدھیانہ کا جوابی مکتوب دونوں” فتاویٰ قادریہ“ کے علاوہ مؤرخ اسلام حضرت مولانا ابو القاسم محمد رفیق دلاوری رحمہ اللہ علیہ (تلمیذ رشید حضرت شیخ الہند) کی شہرہ آفاق کتاب ”رئیس قادیان“ میں بھی شائع ہوچکے ہیں جو پہلے دوحصوں میں الگ الگ شائع ہوتی رہی اور اب عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے دونوں حصوں کو یکجا کرکے ایک ہی جلد میں شائع کردیا ہے‘ مذکورہ مکاتیب اس میں منقول ہیں ۔ان دونوں مکتوبات کے اندر دو پہلو پوری طرح واضح ہیں۔
۱:- یہ کہ دونوں فریق فتویٰ کے ایک ایک احتیاطی پہلو پر عمل کا مظاہرہ کررہے ہیں‘ حضرت گنگوہیؒ اگر فتویٰ میں تکفیر مسلم (بلاثبوت وتحقیق) سے گریزکر کے احتیاطی پہلو پر عمل پیرا تھے تو علماء لدھیانہ عوام الناس کو مرزا قادیانی کے خود تراشیدہ دعوؤں کی گمراہی سے بچانے کے احتیاطی پہلو کو اختیار کئے ہوئے تھے اور اصحاب علم وفہم اس حقیقت سے اچھی طرح باخبر ہیں کہ فتویٰ کے اندر یہ دونوں پہلو بہت نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔
۲: -یہ کہ علماء لدھیانہ مرزا قادیانی کی ”براہین احمدیہ“ کا مطالعہ کرچکے تھے‘ لدھیانہ کے اندر اس کے دعاوی سن چکے تھے اور اس کے طرز وطریق کافی حد تک جان چکے تھے‘ گویا وہ مرزا قادیانی کی شخصیت‘ اس کی تحریک‘ اس کے حالات وتعلیمات اور اس کے مقاصد سے پوری طرح واقف ہوچکے تھے‘ اس کے برعکس حضرت گنگوہیؒ کی معلومات مرزا قادیانی کے بارہ میں صرف شنیدہ حد تک تھیں اور دیدہ وشنیدہ میں فرق ہرایک پر واضح ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا قادیانی کے بارہ میں مکمل معلومات حاصل ہونے کے بعد حضرت گنگوہیؒ نے علماء لدھیانہ کے فتویٰ کفر کو نہ صرف تسلیم کیا‘ بلکہ بھر پور طریقہ سے اس کی تائید وتصدیق بھی کی‘ یہاں تک کہ مرزا قادیانی کی مناظر انہ چیلنج بازیوں کا ناطقہ بند کردیا۔
*علمائے لدھیانہ کی دار العلوم دیوبند میں حاضری*
حضرت گنگوہیؒ اور علمائے لدھیانہ کے ما بین مذکورہ خط وکتابت کے بعد اسی سال دار العلوم دیوبند کا سالانہ جلسہ دستار بندی قریب آگیا‘ چنانچہ علماء لدھیانہ اس جلسہ میں شرکت کے لئے ۱۲ جمادی الاول ۱۳۰۱ ہجری کو دیوبند پہنچے‘ جلسہ کے موقع پر حضرت گنگوہیؒ بھی (گنگوہ شریف سے) دیوبند تشریف لائے تھے اس موقع پر ملک بھر (متحدہ ہندوستان) سے بڑے بڑے علماء کرام بھی تشریف لائے ہوئے تھے‘ علماء لدھیانہ نے ان اکابر علماء کی موجودگی میں حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ کے سامنے مرزا غلام احمدقادیانی کا کچھ حال بیان کیا اور انہیں مرزا قادیانی کے دعاوی ومقاصد کے بارہ میں تفصیلی حالات سے آگاہ کیا اور اس کی بعض تحریرات بھی بطور ثبوت دکھلائیں۔
*مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ کی وضاحت*
حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ ‘ حضرت مولانا مملوک علی نانوتویؒ کے فرزند ارجمند اور حضرت شاہ عبد الغنی مجددیؒ کے شاگرد رشید تھے‘ قیام دار العلوم دیوبند کے بعد دار العلوم کے پہلے صدر مدرس مقرر ہوئے اور اپنی وفات (۳/ربیع الاول ۱۳۰۲ھ) تک اس عظیم منصب پر فائز رہے‘ علماء لدھیانہ نے جب انہیں مرزا قادیانی کے بارہ میں تفصیلی حالات سے آگاہ کیا تو انہوں نے حالات سن کر فرمایا کہ:
”میں مرزا غلام احمد کو اپنی تحقیق میں ایک آزاد خیال‘لامذہب جانتا ہوں‘ چونکہ آپ (یعنی علماء لدھیانہ) قریب الوطن ہونے کی وجہ سے اس کے تمام حالات سے بخوبی واقف ہیں‘ اس لئے آپ کو اس کی تکفیر سے منع نہیں کرتا‘ اس کے علاوہ آپ نے اس شخص کی کتاب ”براہین احمدیہ“ پڑھی ہے اور میں نے اور مولوی رشید احمد صاحب (گنگوہی) نے اس کا مطالعہ نہیں کیا“۔ (رئیس قادیان ص:۳۷۹‘ ۳۸۰)
مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ کی مذکورہ وضاحت کا ایک ایک جملہ فتویٰ کی اصولی احتیاط ظاہر کررہا ہے اور وہ اصولِ فتویٰ کی روشنی میں برملااس چیز کا اعتراف فرمارہے ہیں کہ علماء لدھیانہ چونکہ مرزا قادیانی کے بارہ میں معلومات کاملہ کی بنیاد پر اس کے خلاف فتویٰ کفر دے رہے ہیں‘ اس لئے ہم ان کو منع نہیں کرتے۔ البتہ خود فی الوقت فتویٰ کفر اس لئے نہیں دیتے کہ ہم نے ابھی تک نہ تو ”براہین احمدیہ“ کا مطالعہ کیا‘ نہ مرزا قادیانی کے کلمات کفریہ خود سنے اور نہ ہی اس کے دعاوی باطلہ کی تحریرات ہماری نظر سے گزریں‘ البتہ علماء لدھیانہ کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر مولانا یعقوب نانوتویؒ نے مرزا قادیانی کے بارہ میں درج ذیل تحریری مؤقف ان کو ارسال کردیا:
”یہ شخص (مرزا قادیانی) میری دانست میں لامذہب معلوم ہوتا ہے‘ اس شخص نے اہل اللہ کی صحبت میں رہ کر فیض باطنی حاصل نہیں کیا‘ معلوم نہیں اس کو کسی روح کی اویسیت ہے مگر اس کے الہامات اولیاء اللہ کے الہامات سے کچھ مناسبت اور علاقہ نہیں رکھتے“۔ (رئیس قادیان ص:۳۸۰)۔
احتیاط کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اس سے زیادہ واضح مؤقف تحریر میں لانا شاید ممکن نہ تھا ‘ جو حضرت نانوتویؒ نے تحریر فرمادیا۔
*حضرت گنگوہیؒ کی تائید*
مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ سے مذکورہ تحریری وضاحت حاصل کرنے کے بعد علماء لدھیانہ حضرت گنگوہیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت نانوتویؒ کا مؤقف ان کے سامنے پیش کردیا‘ اس پر حضرت گنگوہیؒ نے فرمایا کہ: ”مولانا محمد یعقوبؒ ہم سب کے بڑے ہیں‘ جو کچھ وہ فرمائیں گے مجھے بسرو چشم قبول ہوگا“۔ (ایضاً ص:۳۸۰)
مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ کے مذکورہ فرمان کہ مرزا قادیانی آزاد خیال اور لامذہب ہے‘ صحبت اہل اللہ اور ان کے فیض باطنی سے محروم ہے اور اس کے الہامات اولیاء اللہ کے الہامات سے کچھ مناسبت نہیں رکھتے‘ حضرت گنگوہیؒ کی طرف سے اس فرمان کی غیر مشروط تائید کے بعد ان کا سابقہ مؤقف کہ میں مرزا قادیانی کو صالح مسلمان جانتا ہوں‘ خود بخود منسوخ ہوجاتاہے‘ اس تائید کے بعد ان کے سابقہ مؤقف سے استدلال کرنا سراسر ظلم اور صریح ناانصافی ہے۔
*شاہ عبد الرحیمؒ کا خواب اور مرزا قادیانی کی بے دینی*
حضرت گنگوہیؒ اور مولانا محمد یعقوب نانوتویؒ سے ملاقات کے بعد علماء لدھیانہ نے شیخ طریقت حضرت مولانا شاہ عبدالرحیم سہارنپوریؒ سے ملاقات کی اور انہیں مرزا قادیانی کے افکار ونظریات سے آگاہ کیا‘ شاہ عبدالرحیم سہارنپوریؒ (رائے پوری) ظاہری وباطنی علوم کے جامع اور حضرت گنگوہیؒ کے خلیفہ مجاز تھے‘ انہوں نے مرزا قادیانی کے حالات اور اس پر علماء لدھیانہ کے فتویٰ کفر سے علماء کے اختلاف کا تذکرہ سنا تو فرمایا: میں اس کے لئے استخارہ کروں گا‘ تاکہ اس کے بارے میں کوئی غیبی اشارہ مل جائے‘ چنانچہ انہوں نے استخارہ کیا اور فرمایا:
”میں نے دیکھا کہ یہ شخص (مرزا قادیانی) بھینسے پر اس طرح سوار ہے کہ منہ دم کی طرف ہے‘ جب غور سے دیکھا تو اس کے گلے میں زنار (غیر مسلموں کا علامتی نشان جو عیسائی ‘ یہودی‘ مجوسی کمر میں اور ہندو گلے میں دھاگے کی صورت میں ڈالتے ہیں) نظر آیا‘ جس سے اس شخص کا بے دین ہونا ظاہر ہے جو علماء اس کی تردید میں اب متردد ہیں‘ کچھ عرصہ بعد وہ بھی اسے خارج از اسلام قراردیں گے“۔ (ایضاً ص:۳۸۰)
شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ کی یہ پیش گوئی حرف بحرف ثابت ہوئی‘ نہ صرف وہ علماء جو فتویٰ کفر دینے میں متردد تھے‘ بلکہ مرزا قادیانی کی تائید ونصرت کرنے والے علماء بھی اس کے خلاف فتویٰ کفر پر متفق ہوئے اور علمائے امت نے مرزا قادیانی کے خلاف متفقہ فتویٰ کفر شائع کیا۔
*حضرت مولانا گنگوہیؒ کا مرزا قادیانی کے حوالہ سے مطبوعہ فتویٰ کفر*
جب مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی نے (حضرت مولانا شاہ محمد اسماعیل شہیدؒ‘ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ‘ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہیؒ اور حضرت مولانا شاہ محمد اشرف علی تھانویؒ وغیرہ) اکابر علماء دیوبند کی بعض عبارات میں قطع برید کرکے اور ان کو خانہ ساز مفہوم کا جامہ پہنا کر علماء حرمین شریفین سے ان کے خلاف کفر کا فتویٰ حاصل کرلیا‘ تو شیخ الاسلام والمسلمین حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نور اللہ مرقدہ نے علماء حرمین شریفین کو خان صاحب بریلوی کے مکر وفریب اور دجل وتلبیس سے آگاہ کیا اور ان کے سامنے اسلاف دیوبند کے عقائد ونظریات کی اصل وحقیقی تصویر رکھی‘ اس پر علماء حرمین شریفین نے اپنی تسلی کے لئے ۲۶/ سوالات مرتب کرکے علماء دیوبند کے پاس ارسال کئے۔ فخر المحدثین حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوریؒ نے علماء دیوبند کے نمائندہ کی حیثیت سے ان کے جوابات تحریر کئے جو ”المہند علی المفند“ کے نام سے عربی میں طبع ہوئے اور پھر حضرت سہارنپوریؒ نے ہی ان کا اردو ترجمہ کیا اور آج کل وہ عربی متن اردو ترجمہ کے ساتھ شائع ہورہے ہیں‘ اس وقت کے جید اکابر علماء دیوبندحضرت شیخ الہندؒ‘ حضرت تھانویؒ‘ حضرت مولانا شاہ عبد الرحیم رائے پوریؒ اور حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ دہلویؒ وغیرہ نے ان کی تائید وتصدیق فرمائی‘ اس اعتبار سے وہ جماعت دیوبند کی ایک اجماعی دستاویز ہے‘ علماء حرمین شریفین نے جو سوالات ارسال کئے ان میں ایک سوال مرزا قادیانی سے متعلق بھی تھا‘ اس کے جواب میں حضرت مولانا سہارنپوریؒ فرماتے ہیں کہ:
”ہم اور ہمارے مشائخ سب کا مدعئ نبوت ومسیحیت مرزا قادیانی کے بارہ میں یہ قول ہے کہ شروع شروع میں جب تک اس کی بدعقیدگی ہم پر ظاہر نہ ہوئی‘ بلکہ یہ خبر پہنچی کہ وہ اسلام کی تائید کرتا ہے‘ اور تمام مذاہب کو بدلائل باطل کرتا ہے تو جیساکہ مسلمان کو مسلمان سے زیبا ہے‘ ہم اس کے ساتھ حسن ظن رکھتے اور اس کے بعض ناشائستہ اقوال کو تاویل کرکے محمل حسن پر حمل کرتے رہے اور اس کے بعد جب اس نے نبوت ومسیحیت کا دعویٰ کیا‘ اور عیسیٰ مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کا منکر ہوا اور اس کا خبیث عقیدہ اور زندیق ہونا ہم پر ظاہر ہوا تو ہمارے مشائخ نے اس پر کافر ہونے کا فتویٰ دیا‘ قادیانی کے کافر ہونے کی بابت ہمارے حضرت گنگوہیؒ کا فتویٰ تو طبع ہوکر شائع بھی ہوچکا ہے اور بکثرت لوگوں کے پاس موجود ہے‘ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں“۔ (المہند علی المفند ص:۷۱‘۷۲)۔
اس سے واضح ہے کہ حضرت گنگوہیؒ کا مرزا قادیانی کے خلاف فتویٰ کفر باقاعدہ طور پر شائع ہوچکا ہے‘ ممکن ہے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ریکارڈ میں وہ موجود ہو اور ”احتساب قادیانیت“ کی کسی جلد میں شائع ہو جائے اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت مولانا مفتی سعید احمد جلال پوری مدظلہ کے مرتبہ ”فتاویٰ ختم نبوت“ کی کسی جلد میں شائع ہوچکا ہو‘
*حضرت گنگوہیؒ کے مکاتیب , مفاوضات رشیدیہ*
حضرت مولانا سید محمد اشرف علی سلطان پوریؒ کا شمار شیخ المحدثین حضرت مولانا احمد علی سہارنپوری نور اللہ مرقدہ کے ارشد تلامذہ میں ہوتا ہے اور طریقت میں وہ حضرت گنگوہیؒ کے جلیل القدر خلفاء میں سے ہیں‘ اپنے شیخ ومرشد حضرت گنگوہیؒ سے اپنی فکری وباطنی اصلاح کے لئے انہوں نے مختلف عنوانات پر جو خط وکتابت کی اسے انہوں نے اپنے پاس محفوظ رکھا‘ اگست ۱۹۳۸ء میں ان کے صاحبزادہ حکیم سید نور الحسن منظور سلطان پوری مرحوم نے اپنے والد بزرگوار کے نام حضرت گنگوہیؒ کے وہ مکاتیب ”مفاوضات رشیدیہ“ کے نام سے شائع کردیئے۔
حضرت گنگوہیؒ کے ان مکاتیب میں سے بعض مرزا قادیانی سے بھی متعلق ہیں‘ ان مکاتیب سے معلوم ہوتا ہے کہ جوں جوں مرزا قادیانی کی ماموریت‘ مجددیت اور مہدویت کے دعاوی سے نبوت ورسالت کی طرف پیش رفت جاری رہی توں توں حضرت گنگوہیؒ کے اس کے بارہ میں تأثرات وفتاویٰ میں بھی تبدیلی وشدت آتی چلی گئی جو بالآخر فتویٰ کفر تک پہنچی۔المختصر یہ کہ تمام علماء دیوبند اس پر متفق ھیں کی مرزا قادیانی اور اس کے پیروکار کافر، مرتد اور زندیق ھیں اور جو انھیں کافر نہیں مانتا وہ بھی کافر ھے
*کافر کافر مرزا کافر*