عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 33)


*ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*


*قادیان میں مجلس احرار اسلام کے زیر انتظام ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کانفرنس*


مجلس احرار نے ۲۰-۲۱-۲۲ اکتوبر ۱۹۳۴ء کو قادیان میں ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کانفرنس کا اعلان کردیا جس سے مرزا کے اپنے مرکز قادیان میں صف ماتم بچھ گئی۔ بہرحال احرار کے سرفروشوں نے قادیانیت کا  خوب پوسٹ مارٹم کیا اور پورے ملک میں اپنے جوش خطابت سے مرزائیت کے لیے بے پناہ نفرت پیدا کردی اور ان سرفروشوں نے اپنے زورِ خطابت سے قادیانی نبوت کے خرمن کو پھونک ڈالا۔

برطانوی اِستعمارکے متحدہ ہندوستان میں قادیانیت کی تخلیق کے بنیادی مقاصد میں  انگریز سرکار کے  لیے وفاداری کے جذبات پیداکرنا، مسلمانوں میں جذبۂ جہادکی آصل رُوح کا خاتمہ اورمسلمانوں میں مذہب کے نام پر نئے اِرتدادی فتنے کی ترویج تھی۔ اس لیے مرزاغلام قادیانی نے انگریزوں کے ایماء پر مرحلہ وار  مصلح ، مجدد، مہدی ، مثیل عیسی ، عیسی اور نبوت کے دعوے کر کے اُمت مسلمہ میں انتشار و اِفتراق کا بیج بویا اور جہاد کے خلاف اپنی تحریروں کا آغاز کیا۔ 

مرزا قادیانی لعنتی مشرقی پنجاب (انڈیا) کے ضلع گورداس پور کے قصبہ قادیان کا رہنے والا تھا۔ اِس لیے قادیانیوں کے نزدیک قادیان کو مقدس مقام کادرجہ حاصل تھا۔ مرزا قادیانی کے بعد اُس کے پہلے خلیفہ کے جہنم واصل ھونے کے بعد اس کے بیٹے مرزابشیرالدین کے قادیانی جماعت کی سربراہی سنبھالتے ہی قادیان میں اُس کی آمرانہ اور ظالمانہ حکومت قائم ہوگئی اور اس نے غیرقادیانیوں خصوصاً مسلمانوں پر زندگی تنگ کر دی ۔ مسلمانوں کو سماجی بائیکاٹ اور ظلم و تشددکے حربوں سے اس قدر زچ کر دیاگیا تھا کہ اُن کے لیے قادیانیت قبول کر لینے یا پھر قادیان چھوڑ دینے کے سوا کوئی تیسرا راستہ باقی نہ رہا تھا۔


مجلس احراراسلام کے رہنما تحریک کشمیر (1931ء) کے اجراء اوراُس کے نتیجے میں قیدوبند سے آزاد ہوئے ہی تھے کہ اُنہی دنوں قادیان کے مظلوم مسلمانوں نے اُنہیں داد رَسی کی درخواست اور وہاں کے دردناک حالات و واقعات پر مشتمل ایک خط ارسال کیا۔ افسوسناک واقعات سے آگاہی پا کر احرار رہنماؤں میں اضطراب کی شدید لہر دوڑ گئی اور اُنہوں نے میدان میں اُترنے کا فیصلہ کر لیا۔ جنوری 1934ء میں مولانا عنایت اللہ چشتی ؒکو قادیان میں بحیثیت احرار مبلّغ تعینات کر کے وہاں دفتر احرار کھول دیاگیا۔ یہ قادیان کی تاریخ میں پہلی بار کسی مسلمان جماعت کا قادیانیوں کے مقابل آنے اور قادیان میں ڈیرہ لگانے کا جرأت مندانہ فیصلہ تھا۔ مجلس احرار نے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ، قادیانیت کے طلسم کو توڑنے اور اُس کے منفی اثرات کے خاتمے کے لیے اپریل 1934ء میں جماعت کا ایک غیر سیاسی شعبہ، ’’شعبۂ تبلیغ‘‘ کے نام سے قائم کیا۔ اِسی اثناء میں احرار رہنماؤں نے 21 ،22 ،23؍اکتوبر 1934ء کو قادیان میں تاریخ ساز تین روزہ ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کانفرنس کے انعقادکا جرأت مندانہ فیصلہ کیا۔ قادیان ایک قادیانی ریاست کے طورپر پہچانا جاتا تھا۔ جہاں قادیانیوں کو اَنگریزحکام کی مکمل پشت پناہی حاصل تھی۔ وہاں قادیانیوں کے بارے میں کچھ کہنے کی جسارت کرنا گردن  زدنی کے مترادف تھا۔ متعدد علمائے کرام تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاداش میں قادیانیوں کے ہاتھوں پِٹ چکے تھے۔ ظلم اور وَحشت کی اس فضا میں قادیان میں ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کانفرنس کا انعقاد بہت جرأت آزما اور بڑے دل گردے کا کام تھا۔ قادیان مرزائی خاندان کا ملکیتی قصبہ سمجھا جاتا تھا۔ اپنے علاقہ میں وہ ایسی کسی کانفرنس کا منعقد ہونا کیسے برداشت کرسکتے تھے؟ اِس لیے کانفرنس کے لیے متعینہ جگہ کے گرد قادیانیوں نے چار دیواری تعمیرکر دی۔ آخرکار قادیان کی غربی سمت آریہ ہندوؤں کے قائم کردہ ایک سکول کی کئی ایکڑ پر مشتمل وسیع اراضی کو کانفرنس کے لیے منتخب کرلیاگیا۔ احرار ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کانفرنس کا شہرہ برصغیر کے کونے کونے تک پہنچ چکا تھا۔ مسلمانوں کی اپنے اقا رسول اللہﷺ سے محبت اور اُن کے ناموس پر مرمٹنے کا جذبہ دیدنی تھا۔ ہندوستان کے ہر علاقے بالخصوص پنجاب میں کہ جہاں سے قادیانیت نے جنم لیا تھا، مسلمانوں کا جوش و جذبہ اپنے عروج پر تھا۔ ہندوستان کے کونے کونے سے مسلمان قادیان پہنچ رہے تھے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 2 لاکھ سے زیادہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانوں نے اپنے آقاﷺکے ناموس کی حفاظت کے عزم کے لیے کانفرنس میں شرکت کی۔ یہ گویا کہ احرار کا قادیان میں فاتحانہ داخلہ تھا۔ ہندوستان کے نامور علماء کرام اور مشائخ عظام کی بہت بڑی تعداد ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کانفرنس میں شریک ہوئی۔ جن میں مولانا سید حسین احمد مدنی، مولانا مفتی کفایت اللہ دہلوی، مولانا احمد علی لاہوری، مولاناسیدعطاء اللہ شاہ بخاری، مولاناحبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا ظفرعلی خان، مولانا سید محمد داؤد غزنوی، صاحبزادہ سید فیض الحسن، مفتی عبدالرحیم پوپلزئی، مولانا سیدابوالحسنات محمداحمد قادری رحمہم اللہ تعالیٰ سمیت احرار کے تمام مرکزی قائدین شامل تھے۔ کانفرنس حضرت امیرشریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی صدارت میں ہوئی جس میں آپ نے تاریخی تقریر فرمائی


مجلس احراراسلام کے قادیان میں فاتحانہ داخلے اور ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کانفرنس کی تاریخی کامیابی نے مسلمانانِ ہند کے اذہان وقلوب پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ کانفرنس کا ایک منفرد نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ جو قادیانیوں کے کفریہ عقائد سے ناواقفیت کی بناء پر اُنہیں مسلمانوں میں شامل سمجھتے تھے اور مسئلہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو محض ’’احراری، احمدی تنازع‘‘ اور مسلم گروہوں کا فرقہ وارانہ جھگڑا خیال کرتے تھے، مقررین کے مضبوط دلائل سے متاثر ھوئے ، نیز تمام مکاتب فکر کے رہنماؤں کوایک ہی سٹیج پر براجمان اور ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یک نکاتی ایجنڈے پر متحد دیکھ کر قادیانیت کے خلاف اُن کے عقائد میں مزید پختگی پیدا ہوگئی۔ بالخصوص جدید تعلیم یافتہ مسلمان قادیانیوں کی سازشوں سے باخبر ہوگئے۔ جبکہ قادیان کے مسلمانوں کو بہت حوصلہ ملا کہ اب قادیانیوں کے خلاف سینہ سپر ہونے میں سارا ہندوستانی مسلمان اُن کا پشت پناہ تھا دوسری طرف قادیانی فرعونیت کے غبارے سے ہوا نکل گئی اور احرار کے قادیان میں فاتحانہ داخلے سے قادیانیوں پر یہ واضح ہوگیا کہ ظلم و دھونس سے مقامی مسلمان آبادی کو مزید دبائے رکھنا ممکن نہیں رہا، کیونکہ اب قادیانیوں کے مقابلے میں قادیان کے نہتے اور مظلوم مسلمان ہی نہیں، بلکہ مجلس احرار اسلام جیسی ملک گیر دائرہ عمل اور تنظیم رکھنے والی جماعت آچکی تھی۔ جس کے مقابل آنا اب قادیانیوں کے لیے لوہے کے چنے چبانے کے مترادف تھا۔


غرض یہ کہ قادیان میں احرار کے فاتحانہ داخلے ،ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کانفرنس کے انعقاد اور بعد میں مجلس احرار کے زیراِنتظام مرحلہ وار مسجد ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مدرسہ جامعہ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعمیر اور قادیان کے غریبوں کے لیے دیسی کھڈیوں اور سکول کے قیام وغیرہ جیسے اقدامات سے وہاں کے مسلمان قادیانیوں کے مقابلے میں مضبوط ہوتے گئے اور قادیانیت کا مکروہ چہرہ انصاف پسندحلقوں پر مزید واضح ہوتاگیا۔ قادیانیت کے بےنقاب ہونے سے مسلمانوں کے تمام طبقات بالخصوص جدید تعلیم یافتہ طبقے پر قادیانیت کے اصل خدوخال واضح ہوئے اور اُس کے نتیجہ میں علامہ اقبالؒ جیسی عظیم قومی شخصیت کے قلم سے قادیانیوں کے خلاف مضامین نکلے جن کی بدولت قادیانیت کی اصل تصویر سب پر آشکارہوتی چلی گئی۔ سخت  جدوجہد اور بےمثال قربانیوں کے تسلسل کے بعد بالآخر 7ستمبر1974ء کو پاکستان کی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کے کفر و اِرتداد کے بارے میں قرآن و حدیث کے فیصلے کی توثیق کر دی اور بالاتفاق اُنہیں آئینی طور پر غیرمسلم اقلیت قرار دے دیا، جو دراصل قادیان سے شروع ہونے والی مسلمانوں کی اس بے مثال تاریخی جدوجہد کا منطقی نتیجہ تھا۔ درحقیقت اخلاص اور ایمانی غیرت سے آغاز پانے والے اقدامات ایسے ہی شاندار نتائج اور دُوررَس اثرات سے ہم کنار ہُوا کرتے ہیں۔

اللہ پاک  ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے احرار رھنماؤں کی بے مثال قربانیوں کو قبول فرمائے اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اُنھیں اس کا بہترین آجر عنایت فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: