عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 34 )


* ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*


*قادیانیوں کے خلاف مقدمات اور قادیانیت کا جماعتی احتساب   

قادیان  میں منعقد ھونے والی ختم نبوت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ) کانفرنس سے مسلمانوں کو ایک نیا حوصلہ ملا انگریز اور اسکے حواری قادیانیوں کے خلاف مسلمانوں کے دلوں میں نفرت کی آگ بڑھکی  حضرات علماء کرام  کی مساعی جمیلہ کے صدقے پوری امت کے تمام مکاتب فکر قادیانیوں کے خلاف صف آرا ہوگئے تو پورے متحدہ ہندوستان میں قادیانیوں کا کفر امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پوری طرح آشکارا ہو گیا اب مسلمان سینہ  تان کر  انگریزوں کے پیدا کردہ اس فتنہ کے سامنے کھڑے ھو گئے اور ھر محاز پر قادیانیوں کو ذلیل ورسوا کیا ۔ مسلمانوں نے دنیا بھر میں خصوصاً  ھندوستان میں قادیانیوں کے خلاف عدالتوں سے رجوع کیا حالانکہ ھندوستان میں قادیانیوں کے آقاؤں کی  ھی حکومت تھی لیکن پھر بھی قادیانیوں کا عدالتوں میں بھی منہ کالا ھوا ہندوستان کی مختلف عدالتوں نے قادیانیوں کے خلاف فیصلے دیئے۔ ماریشس تک کی عدالتوں کے فیصلے قادیانیوں کے خلاف  ریکارڈ پر موجود ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ جس مقدمہ نے شہرت حاصل کی اور جو ہر عام و خاص کی توجہ کا مرکز بن گیا وہ ’’مقدمہ بہاولپور‘‘ ہے (تفصیل آئندہ قسط میں ھو گی ) علمائے بہاولپور کی دعوت پر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ ، حضرت مولانا ابو الوفا شاہجہانپوریؒ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ، حضرت مولانا سید مرتضیٰ حسن چاند پوریؒ جیسے اکابر علمائے دیوبند نے بہاولپور جیسے  دور افتادہ شہر آکر کیس کی وکالت کی۔ اس مقدمہ کی ۱۹۲۶ء سے لے کر ۱۹۳۵ء تک کارروائی چلتی رہی۔ اس مقدمہ میں جج نے قادیانیت کے کفر پر عدالتی مہر لگا کر قادیانیت کے وجود میں ایسی کیل ٹھونکی جس سے قادیانیت بلبلا اٹھی۔ سپریم کورٹ کے تمام فیصلوں  کی بنیاد یہی فیصلہ ہے جس کی کامیابی میں علماء دیوبند سب سے نمایاں ہیں۔ فالحمد ﷲ اوّلاً و آخراً۔


قادیانیت کا جماعتی سطح پر احتساب کرنا بھی از حد ضروری تھا کیونکہ فرد کا مقابلہ فرد اور جماعت کا مقابلہ جماعت ہی کرسکتی ہے۔ چنانچہ مارچ ۱۹۳۰ء کو لاہور میں انجمن خدام الدین کے سالانہ اجتماع میں جو حضرت شیخ التفسیر مولانا احمد علی لاہوریؒ کی دعوت پر منعقد ہوا تھا۔ ملک بھر سے پانچ سو علمائے کرام کے اجتماع میں امام العصر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ نے حضرت مولانا سید عطاء ﷲ شاہ بخاریؒ کو ’’امیر شریعت‘‘ کا خطاب دیا اور قادیانیت کے محاذ کی ذمہ داری ان کے کاندھوں پر  ڈالی جسے انھوں نے تازندگی آحسن طریقے سے نبھایا اس وقت قادیانیت کے خلاف افراد اور اداروں کی محنت میں دارالعلوم دیوبند کا کردار قابل رشک تھا۔ ندوۃ العلماء لکھنؤ کے بانی حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ تو گویا تکوینی طور پر محاذ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انچارج تھے۔ قادیانیوں کے خلاف ان کا اور مولانا مرتضیٰ حسن چاندپوریؒ کا وجود ہندوستان کی دھرتی پر دُرّۂ  عمرؓ کی حیثیت رکھتا تھا۔ اب جماعتی سطح پر قادیانیوں کے احتساب کے لئے حضرت امیر شریعت سید عطاءﷲ شاہ بخاریؒ کی ڈیوٹی لگی۔ آپ نے مجلس احرار اسلام ہند میں مستقل شعبۂ تبلیغ قائم کردیا۔ جمعیۃ علمائے ہند اور دارالعلوم دیوبند کی پوری قیادت کا ان پر اس سلسلہ میں بھرپور اعتماد تھا۔ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ جیسے مقبولانِ بارگاہِ الٰہی نے اپنی سرپرستی سے سرفراز فرمایا۔اس طرح یہ قافلۂ حق  علماء حق کی سرپرستی میں قربانیوں کے ساتھ رواں دواں رھا اور ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ڈاکوؤں کا ھر محاز پر منہ کالا کرتا رھا


اللہ پاک نے علماء کرام اور دیگر اھل حق کی سعی کو قبول فرمایا اور مسلمانوں کو وہ دن بھی دیکھنا نصیب ھوا جس دن پاکستان کی اسمبلی نے متفقہ طور پر  قادیانیوں کو کافر قرار دے دیا  آئینِ پاکستان میں یہ واضح طور  پر لکھ دیا گیا کہ قادیانی اور لاھوری وغیرہ منکرینِ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافر ھیں ۔  اس رسوائی کو دیکھتے ھوئے  قادیانیوں کا  اس وقت کا سربراہ پاکستان سے چوری چھپی برطانیہ فرار ھو کر اپنے آقاؤں کی گود میں جا بیٹھا اور پھر  ایک عرصہ تک اپنی نحوست پھیلا کر وھیں جہنم رسید ھو گیا اور پھر اس کی نحوست بھری لاش کو قادیان میں لیجا کر قادیانیوں کے جہنم کدہ میں دبا دیا گیا

لعنة الله على الكاذبين

Share: