عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 35)


* ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*



*مقدمۂ بہاولپور*

*فتنۂ قادیانیت کے تابوت میں پہلی کیل*


ردِّ قادنیت کے حوالے سے مقدمہ بہاول پور بہت اہمیت کا حامل ہے اوراسے قادیانیت کے تابوت میں پہلی کیل کہنا بےجا نہ ہوگا۔ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاذ پر مضبوط بنیاد اور قانونی واخلاقی بالادستی اسی مقدمہ نے مہیا کی۔ گویا  بہاولپور کی سرزمین کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ باقاعدہ عدالتی فیصلے میں قادیانیوں کو کافر قرار دیتے ہوئے ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم بلند کر دیا ۔


اس سے پہلے برصغیر پاک و ہند کے تمام مکتبِ فکر  کے جید علمائے کرام قادیانیت کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے چکے تھے لیکن یہ پہلی مرتبہ تھا کہ باقاعدہ سرکاری عدالت نے غلام مرزا قادیانی کو کذاب قرار دیتے ہوئے قادیانی گروہ کو کافر قرار دیا ۔

اس مقدمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ تحصیل احمد پور شرقیہ ،ریاست بہاول پور میں عبد الرزاق نامی ایک شخص مرزائی ہوکر مرتد ہوگیا اور اس  کا نکاح  غلام عائشہ بنت مولوی الٰہی بخش  نامی ایک لڑکی سے  بچپن میں ھوا تھا اور ابھی تک رخصتی نہیں ھوئی تھی لڑکی والوں کو اس بات کا پتہ چل چکا تھا کہ عبدالرزاق مرزائی ھو کر مرتد ھو گیا ھے اس لئے جب اس نے رخصتی کا مطالبہ کیا تو لڑکی والوں نے بوجوہ  اس کے مرتد ھونے کے  لڑکی کو رخصت کرنے سے صاف انکار کر دیا  لیکن وہ مسلسل رخصتی کے لئے دباؤ ڈالتا رھا جونہی لڑکی سن بلوغت کو پہنچی تو اُس نے اپنے باپ کے توسط سے 24جولائی 1924ء کو احمد پور شرقیہ کی مقامی عدالت میں فسخ ِنکاح کا دعویٰ دائر کر دیا ۔ دعوی میں کہا گیا کہ  اس کے خاوند نے قادیانی مسلک اختیار کر لیا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ مرتد ہوگیا ہے۔ اس لئے اس شخص سے مدعیہ جو راسخ العقیدہ مسلمان ھے  کا نکاح فسخ قرار دیا جائے۔اس مقدمہ نے ملک گیر شہرت حاصل کر لی اور مسلمانوں میں ایک ہیجان پیدا ہوگیا۔ اس لئے نہیں کہ اس میں فریقین کی حیثیت بڑی ممتاز تھی بلکہ وہ تو بالکل غیر معروف سے لوگ تھے۔ یہ اس لئے کہ ہندوستان میں (غالباً) یہ اپنی نوعیت کا پہلا مقدمہ تھا۔ جس میں فیصلہ طلب سوال یہ تھا کہ ایک شخص قادیانی مسلک اختیار کرنے کے بعد مسلمان رہتا ہے یا نہیں۔ اس اعتبار سے یہ مقدمہ متعلقہ فریقین کا مابہ النزاع معاملہ نہ رہا۔ بلکہ قادیانیوں اور غیرقادیانیوں کے مابین ایک دینی سوال بن گیا۔ جس کا عدالتی فیصلہ (ظاہر ہے کہ) بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ یہ مقدمہ تقریباً نوسال تک زیر سماعت رہا اور آخر الامر محمد اکبر صاحب مرحوم ،  ڈسٹرکٹ جج بہاول نگر نے ۷؍فروری ۱۹۳۵ء کو اس کا فیصلہ سنادیا۔ یہ فیصلہ اپنی شہرت اور اہمیت کے پیش نظر اس زمانے میں بھی الگ چھپ گیا تھا اور اس کے بعد بھی بار بار چھپتا رہا۔

یہ مقدمہ درآصل  ڈسٹرکٹ جج بہاول پور کو بغرضِ شرعی تحقیق منتقل  کیا گیا تھا کہ آیا قادیانی دائرہٴ اسلام سے خارج ہیں یا نہیں؟ اس طرح یہ مقدمہ دو افراد  کے بجائے اسلام اور قادیانیت کے مابین حق وباطل کا مقدمہ بن گیا ۔قادیانیت کے خلاف اُمت مسلمہ کی نمائندگی کے لیے سب کی نظر دارالعلوم دیوبند کے سپوت مولانا انور شاہ کاشمیری رحمة اللہ علیہ پر پڑی اور وہ مولانا غلام محمد گھوٹوی رحمة اللہ علیہ کی دعوت پر اپنے تمام پروگرام منسوخ کرکے بہاول پور تشریف لائے اور فرمایا:

”جب مجھے یہاں سے بلاوا آیا تو اس وقت میں ڈھابیل جانے کے لیے پابۂ رکاب تھا،مگر میں یہ سوچ کر یہاں چلا آیا کہ ہمارا نامہ اعمال تو سیاہ ہے ہی،شاید یہی بات میری مغفرت کا سبب بن جائے کہ میں آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا جانب دار بن کر یہاں آیا تھا…اگر ہم ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کام نہ کریں تو گلی کا کتا بھی ہم سے اچھا ہے۔،،

پھر اس مقدمہ میں مسلمانوں کی طرف سے مولانا غلام محمد گھوٹوی، مولانا محمد حسین ، کولوتارڑوی، مولانا محمد شفیع، مولانا مرتضیٰ حسن چاند پوری، مولانا نجم الدین، مولانا ابوالوفاء شاہ جہانپوری اور مولانا انور شاہ کاشمیری (رحمہم اللہ تعالیٰ) کے دلائل اور بیانات پرمرزائیت بوکھلا اُٹھی۔مولانا ابوالوفاء شاہ رحمة اللہ علیہ جہاں پوری نے عدالت میں جواب الجواب داخل کرایا جو چھ سو صفحات پر مشتمل تھا،جس نے قادیانیت کے پرخچے اُڑا دیے۔


عدالت میں موجود علماء کا کہنا تھا کہ مولانا انور شاہ کاشمیری رحمة اللہ علیہ جب مرزائیت کے خلاف قرآن وحدیث کے دلائل دیتے تو عدالت کے در و دیوار جھوم اُٹھتے اور جب جلال میں آکر مرزائیت  کو للکارتے تو کفر کے نمائندوں پر لرزہ طاری ہوجاتا۔ایک دن مولانا مرحوم نے جلال الدین شمس مرزائی کو للکار کر کہا:”اگر تم چاہو تو میں عدالت میں یہیں کھڑے ہوکر دکھا سکتا ہوں کہ مرزا قادیانی جہنم میں جل رہا ہے“۔یہ سن کر عدالت میں موجود تمام مرزائی کانپ اُٹھے اور مسلمانوں کے چہرے خوشی سے کھل اُٹھے۔خواجہ خان محمد رحمة اللہ علیہ اس بارے میں لکھتے ہیں:”اہل دل نے گواہی دی کہ عدالت میں انور شاہ کاشمیری رحمة اللہ علیہ نہیں‘بلکہ حضور سرورِ کائنات صلی الله علیہ وسلم کا وکیل اور نمائندہ بول رہا ہے۔“


جب مرزائیوں کو اس مقدمہ میں اپنی شکست سامنے نظر آنا  شروع ہوئی تو انہوں نے دسمبر1934ء میں عبدالرزاق کے مرجانے کی وجہ سے یہ درخواست دائر کردی کہ اب اس مقدمے کے فیصلہ کی ضرورت نہیں ہے ‘لہٰذا اس مقدمہ کو خارج کردیا جائے…بعض شواہد سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شکست سے بچنے کے لیے مرزائیوں نے از خود عبدالرزاق کو قتل کرادیا تھا تاکہ مقدمہ خارج ہوجائے،مگر ہوتا وہی ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے۔لہٰذا یہ مقدمہ جاری رہا اور حق وباطل کے اس مقدمہ کا فیصلہ جناب محمد اکبر خان(اللہ تعالیٰ اُن کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے)نے 7فروری1935ء کو سنایا،جس کے مطابق مرزا غلام  قادیانی اور اس کے پیروکار اپنے عقائد واعمال کی بنا پر مسلمان نہیں،بلکہ کافر اور خارج از اسلام ہیں اور اس ضمن میں عبدالرزاق مرزائی کا غلام  عائشہ کے ساتھ نکاح فسخ قرار دے دیا گیا اس فیصلے سے مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور مرزائی شرم کے مارے منہ چھپاتے پھرنے لگے ۔مرزائیوں نے اپنے نام نہاد خلیفہ مرزابشیر الدین کی سربراہی میں سر ظفر اللہ قادیانی سمیت جمع ہو کر آپس میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا مشورہ کیا لیکن آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ فیصلہ اتنی مضبوط اور ٹھوس بنیادوں پر صادر ہوا ہے کہ اپیل بھی ہمارے خلاف جائے گی لہذا اپیل نہ کرنا ہی بہتر ھوگا اس تاریخ ساز فیصلہ نے پوری دنیا کے مسلمانوں پر مرزائیت کے عقائد کو آشکار کردیا اور اس طرح مرزائیوں کی ساکھ روزبروز کمزور ہونے لگی۔


اس مقدمہ کے حوالے سے جہاں علماء کرام ومشائخ عظام اور جج صاحب کی کاوشیں سنہری حروف سے لکھی جانے کے قابل ہیں ،وہیں غلام عائشہ اور ان کے والد گرامی مولوی الٰہی بخش کا بھی پوری اُمت مسلمہ پر عظیم احسان ہے کہ انہوں نے ایک مرزائی کے خلاف فسخ ِنکاح کے دعویٰ کیا، جو ردِّ قادیانیت کے لیے پیش خیمہ ثابت ہوا۔

جب مولانا انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ عدالت میں بیان دے کر واپس جا رہے تھے تو ان کی طبیعت کافی زیادہ خراب ھو رھی تھی تو انہوں نے مولانا محمد صادق رحمة اللہ علیہ (جو اس مقدمے کے پیروی کرنے والوں میں سے ایک تھے) کو وصیت کی کہ” اس مقدمے کا فیصلہ اگر میری زندگی میں ہوگیا تو میں آکر خود ھی سن لوں گا اور اگر فیصلہ میری وفات کے بعد ہوا تو تم میری قبر پر آ کر یہ فیصلہ مجھے سنا دینا تاکہ میری روح کو تسکین پہنچے۔”


مولانا انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ نے 2، صفر، 1352ھ بمطابق 28 مئی 1933ء کو شب کے آخری حصہ میں تقریباً 60 سال کی عمر میں دیوبند میں داعئ اجل کو لبیک کہا۔اور  بہاولپور کا یہ فیصلہ آپ کی وفات کے دو سال بعد آیا۔


1945 میں اس فیصلے کو آئے دس سال بیت گئے تھے جب مولانا محمد صادق رحمة اللہ علیہ دیوبند میں مولانا حسین احمد مدنی رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ مولانا انور شاہ کشمیری رحمة اللہ علیہ کی قبر کی نشاندہی کی خاطر کوئی طالب علم  میرے ساتھ بھیج دیں انھوں نے مولانا مجاہد الحسینی کو ساتھ بیجھ دیا 

قبر پر پہنچ کر مولانا محمد صادق رحمة اللہ علیہ نے پہلے سلام عرض کیا ۔پھر مقدمے کے فیصلے کی اطلاع دیتے ہوئے مقدمہ کا فیصلہ مکمل پڑھ کر سنایا ۔اس طرح مولانا انور شاہ کاشمیری رحمة اللہ علیہ نے یہ اھم فیصلہ اپنی وفات کے بعد سنا۔  اللہ پاک اُن کے درجات بلند فرمائے

آمین یا رب العالمین

Share: