عقیدۂ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 37 )


* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*


*مجلسِ احرار اسلام ۔ تحریکِ خلافت و تحریکِ کشمیر سے تحریکِ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کا تسلسل(دوم)*


تحریک آزادی ہند میں جن انقلابی جماعتوں نے اپنے مذہب و قوم اور وطن کے لیے انگریز سامراج کا مقابلہ کیا اور جدوجہد آزادی میں لا زوال و بے مثال ایثار وقربانی اور ایمان وعزیمت کی داستانیں رقم کیں ان میں مجلس احراراسلام سر فہرست ہے، جس کی جرأت ، استقامت ، بہادری اور بے باکی کی داستانیں تاریخ کے صفحات پر درج ہیں، یہ وہ وقت تھا کہ امت مسلمہ میں غلامی کے مسموم اثرات تیزی سے پھیل رہے تھے۔انگریز مسلمانوں کے دلوں اور ذہنوں سے جذبۂ جہاد کی آخری چنگاری اور رمق ختم کرنے کے لیے ایک جھوٹے نبی مرزا غلام قادیانی کو جنم دے چکا تھا، ایسے سنگین حالات کے پیش نظر اسلام کے مصدقہ اصولوں کے تحت ایک بہادر اور جری دینی عوامی جماعت کی شدید ضرورت تھی، جو مسلمانوں کے متوسط اور نچلے طبقات کے غیور اور جفاکش لوگوں کی اپنی آواز ہو جو غیر مسلم جماعتوں کی شر انگیزیوں اور فرقہ ورانہ سرگرمیوں کا سد باب کرے، اسی سلسلہ میں 29 دسمبر 1929 کو دریائے راوی کے کنارے لاہور شہر میں تحریک آزادی اور تحریک خلافت کے رہنمائوں مولانا امیر شریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری، رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، مفکر احرار چودھری افضل حق، شیخ حسام الدین، مولانا مظہرعلی اظہر، سید محمدداؤد غزنوی مولانا ظفرعلی خان، ماسٹر تاج الدین انصاری رحمھم اللہ علیھم جیسے سربکف وجان باز مجاہدوں نے مجلس احرار کے نام سے ایک نئی انقلابی جماعت کے قیام کا اعلان کیا، عوام نے مسر ت آمیز جذبات کے ساتھ اس جماعت کا پر جوش خیر مقدم کیا، بطل حریت امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ قافلہ احرار کے اوّلین سالار  مقرر ہوئے۔

کفن بردوش سرخ پوش مجاہدین سرخ پرچم ہاتھوں میں تھامے انگریز سے بغاوت کے لیے شہادت کے گیت چھیڑ کر میدان عمل میں قدم رکھنے کے لیے رواں دواں ہوئے، جبکہ مقابلے میں انگریز سامراج کی طرف سے اپنے تمام تر ظلم واستبداد اور قہر سامانی کے ساتھ تعذیب خانوں کے دروازے کھول دیے گئے، پھانسی کے تختوں، مشین گنوں، لاٹھی چارج، پولیس، فوج، ڈندا فورس سے لیس ھر حکومتی مشینری ان وفا شعار مجاہدوں اور جفا کش رضا کاروں کے  استقبال کے لیے موجود تھی، ادھر مجلس احراراسلام کے قیام کے اگلے سال ہی قادیانی خلیفہ مرزا بشیرالدین نے کشمیر کے معاملات میں مداخلت کرکے کشمیر کو مرزائی اسٹیٹ بنانے کی بھرپور سازش کی تو مجلس احراراسلام نے اس گہری سازش کو ناکام بناتے ہوئے تحریک کشمیر میں قائدانہ کردار ادا کیا اور جنت نظیر وادی کے مسلمانوں کو نہ صرف ڈوگرہ راج کے مظالم سے نجات دلائی بلکہ وہاں قادیانی سازش کے خطرناک نتائج سے بھی بچایا، قادیانی سازشیں بڑھ رہی تھیں اور قادیان کو مسلمانوں کے لیے نو گو ایریا بنادیا گیا تھا، اس کے توڑ کے لیے مجلس احراراسلام نے قادیان میں سب سے پہلے اپنا دفتر قائم کر کے اس جمود کو توڑا، اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری  رحمہ اللہ کی الوالعزم قیادت میں احرار کا جانثار قافلہ قادیان میں داخل ہوا 11,12,13, رجب 1353ھ، مطابق21,22,23 اکتوبر 1934ء بروز اتوار، سوموار، منگل، قادیان میں 3روزہ  ختم نبوت  (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ہندوستان کے طول و عرض سے احرار کارکنوں اور علماء کرام مشائخ عظام نے شرکت کی، احرار کی اس یلغار سے انگریزی نبوت کا شیش محل چکنا چور ہوگیا، مرزائیت کی غنڈہ گردی ختم ہوئی خصوصاً قادیان کے مسلمانوں نے سکھ کا سانس لیا اور تحریک تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آغاز ہوگیا امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی تین دن کی تقریروں نے استعماری ایجنٹ قادیانیوں کی  چولیں ڈھیلی کر دیں، تحریک پاکستان بڑی شد ومد سے چل رہی تھی اسی اثناء میں قادیانیوں نے باؤنڈری  کمیشن کے سامنے تقسیم ہند کا ایک علٰیحدہ فارمولہ پیش کر کے گورداس پور کو ہندوستان میں ضم کرنے اور کشمیر کی حیثیت متنازع بنانے کی سازش کی، اس سازش وتلبیس کے خلاف مجلس احراراسلام نے پورے ہندوستان میں احتجاج کیا اور بھرپور جدوجہد کی لیکن انگریز کی منافقت آڑے آئی اور یہ علاقے جن میں مسلمان اکثریت میں تھے ھندوستان میں چلے گئے 

قیام پاکستان کے بعد مجلس احرار اسلام نے یہ حکمت عملی اور پالیسی طے کی کہ مجلس احراراسلام  فی الحال عارضی طور  پر ملک کی انتخابی سیاست میں حصہ نہیں لے گی، جبکہ مجلس احراراسلام کے شعبہ تبلیغ تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زیادہ سے زیادہ متحرک  کرنے  اور  متحرک رکھنے کا فیصلہ کیا گیا

1953ء میں مرزائیوں نے مسلمانوں اور پاکستان کے خلاف سازش کے اگلے مر حلے پر عمل کرتے ہوئے بھارت سے سازباز کرکے پاکستان کو تباہ کرنے اور اکھنڈ بھارت بنانے کی مذموم کوشش کی تو مجلس احراراسلام نے اپنے پلیٹ فارم پر پاکستان بھر کی مختلف مذہبی جماعتوں کو عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ کے لیے ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور تحریک تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہایت پُر امن طور پر چلائی گئی، جبکہ اس وقت کی حکومت نے 5 مارچ 1953ء کو لاہور میں مارشل لا لگا کر عاشقان ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بڑی بے دردی سے گولیاں چلائیں، لاہور، گجرانوالہ، سیالکوٹ، گجرات، ملتان، ساہیوال کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں میں شمع ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانے جام شہادت نوش کرکے جنت کو سدھار  گئے، بقول شورش کاشمیری مرحوم

بے گناہوں کا لہو عام تھا بازاروں میں

خون احرار میں ڈوبی ہوئی شمشیریں تھیں


بظاہر تو اس تحریک کو کچل دیا گیا لیکن امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں تو زندہ نہ رہوں گا، مگر تم دیکھو گے کہ شہیدوں کا خون بے گناہی رنگ لا کر رہے گا، میں اس تحریک کی صورت میں مسلمانوں کے دلوں میں ایک ٹائم بم فٹ کرچکاہوں جو وقت آنے پر پھٹے گا اور اس کی تباہی سے مرزائیت کو کوئی نہیں بچاسکے گا، چنانچہ 1974ء میں ایسا ہی ہوا تحریک تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  پھر بھرپور انداز میں چلی اور قادیانی و لاہوری مرزائیوں کو پاکستان کی پارلیمنٹ میں بحث کے بعد غیر مسلم قرار دیدیا گیا، جبکہ 26 اپریل 1984ء کو صدر محمد ضیاء الحق مرحوم نے امتناع قادیانیت ایکٹ جاری کر کے قادیانیوں کو شعائر اسلامی کے استعمال سے قانوناً روک دیا۔ 


اگست 1961 ء میں مجلس احرار  کے قائد امیر شریعت سیدعطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی رحلت کے بعد اُن کے جانشین و فرزند حضرت مولانا سید ابوذر بخاری ؒ نے احرار کا شیرازہ جمع کیا اورحکومت الہٰیہ کے نفاذ، تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اورتحفظ ناموس صحابہؓ کے لیے احرار کو منظم اور متحرک کیا۔


بعداَزاں فرزندانِ امیرشریعت مولانا سیدعطاء المحسن بخاریؒ، مولانا سید عطاء المومن بخاری اورمولانا سیدعطاء المہیمن بخاری کی قیادت میں عہد بہ عہد مجلس احراراسلام کا قافلہ رواں دواں رہا 


اب  بھی  مجلس احراراسلام، پاکستان کو اِسلام کا قلعہ بنانے کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔ تحریک تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تناظر میں آج بھی مجلس احرار  کے پروانے پوری طرح  سرگرم عمل ہیں، نوّے برس سے زیادہ اس جماعت کو بنے ہوئے ھو گئے ھیں اور ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اس کی سرگرمیاں اب بھی پورے آب وتاب سے جاری ھیں ۔ اب بھی ملک بھر میں ھر سال مختلف مقامات پر یوم تاسیس احرار کی پر وقار تقریبات  منعقد ھوتی ھیں ، پرچم کشائی ہوتی ھے علماء کرام ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اھمیت اور فلسفہ بیان کرتے ھیں  عوام کی بڑی تعداد جوش وخروش سے ان تقریبات میں شریک ھوتی ھے مرزائیوں کو کھلے میدان میں للکارا جاتا ھے اور  قافلۂ احرار کو رواں دواں رکھنے کے مصمم عزم کا اعادہ کیا جاتا ھے

Share: