عقیدہ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم* ( قسط: 38)


* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*



*مجلسِ احرار اسلام ۔ تحریکِ خلافت و تحریکِ کشمیر سے تحریکِ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک کا تسلسل(دوم)*


*قادیان سے ربوہ تک*


مختصر یہ کہ ان اکابر کی قیادت میں امیر شریعت مولانا سید عطاء ﷲ شاہ بخاریؒ اور ’’مجلس احرار اسلام‘‘ کے سرفروشوں نے اپنی شعلہ بار خطابت کے ذریعے انگریز اور انگریز کی ساختہ پرداختہ قادیانی نبوت کے خرمن خبیثہ کو پھونک ڈالا۔ تاآنکہ 1947 ء میں انگریزی اقتدار رخت سفر باندھ کر رخصت ہوا تو برصغیر کی تقسیم ہوئی اور پاکستان معرض وجود میں آیا ۔ اس تقسیم کے نتیجہ میں قادیانی نبوت کا منبع خشک ہوگیا اور قادیان کی منحوس بستی دارالکفر اور دارالحرب ہندوستان کے حصہ میں آئی۔ قادیانی خلیفہ اپنی ’’ارض حرم‘‘ اور ’’مکۃ المسیح‘‘ (قادیان) سے برقعہ پہن کر فرار ہوا اور پاکستان میں ربوہ  (اب چناب نگر) کے نام سے نیا دارالکفر تعمیر کرنے کے بعد جھوٹی نبوت کی ترکتازیاں دکھانے اور پورے ملک کو مرتد کرنے کا اعلان کرنے لگا۔


قیام پاکستان کے بعدقادیانیوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ پاکستان کے ارباب اقتدار پر ان کا تسلط ہے۔ ملک کے کلیدی مناصب ان کے قبضے میں ہیں۔ پاکستان کا وزیر خارجہ ظفر ﷲ خان خلیفہ قادیان کا ادنیٰ مرید ہے۔ اس لئے پاکستان میں مرزا غلام  قادیانی کی نبوت کا جعلی سکہ رائج کرنے میں انہیں کوئی دقت پیش نہیں آئے گی۔ ان کی امید افزائی کا خاص پہلو یہ بھی تھا کہ ’’احرار اسلام‘‘ کا قافلہ تقسیم ملک کی وجہ سے بکھر چکا تھا۔ تنظیم اور تنظیمی وسائل کا فقدان تھا اور پھر “احراراسلام‘‘  ناخدایان پاکستان کے دربار میں بھی معتوب تھے۔ اس لئے قادیانیوں کو غرور تھا کہ اب ختم نبوت  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پاسبانی کے فرائض انجام دینے کی کسی کو ہمت نہیں ہوگی۔ لیکن وہ یہ بھول گئے تھے کہ حفاظت دین اور ’’تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘  کا کام انسان نہیں کرتے بلکہ یہ سب کچھ اللہ رب العزت کی طرف سے ھوتا ھے وہ اس کام کے لئے خود ہی رجال کار بھی پیدا فرمادیتا ہے۔خوش نصیب ھوتے ھیں وہ لوگ جو اس کام میں کسی درجہ میں بھی استعمال ھو جاتے ھیں بہرحال اللہ تعالی کے فضل سے  نہ صرف یہ کہ مرزائیوں کی بنائی ھوئی سٹیٹ ( ربوہ) کا خاتمہ ھوا بلکہ مرزائی منحوس خلیفہ بھی اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ یہاں سے فرار ھو کر اپنے آقاؤں سے پناہ مانگنے پر مجبور ھوا

Share: