* ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدوجہد اور تحریکیں*
* عالمی مجلسِ تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم- تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے محاذ پر عالمی سطح کی ایک کامیاب تحریک*
امیر شریعت سید عطاء ﷲ شاہ بخاریؒ اور ان کے رفقاء قادیانیوں کے عزائم سے بے خبرنہیں تھے۔ چنانچہ جدید حالات میں قادیانیت کے خلاف کام کرنے کا لائحہ عمل مرتب کرنے کے لئے ملتان کی ایک چھوٹی سی مسجد ’’مسجد سراجاں‘‘ (۱۹۴۹عیسوی) میں ایک مجلس مشاورت ہوئی۔ جس میں امیر شریعت ؒ کے علاوہ مجاہد ملت حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ‘ خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ‘ مولانا عبدالرحمن میانویؒ‘ مولانا تاج محمودؒ اور مولانا محمد شریف جالندھری ؒ شریک ہوئے۔ غوروفکر کے بعد ایک غیر سیاسی تبلیغی تنظیم ’’مجلس تحفظ ختم نبوت‘‘کی بنیاد رکھی گئی اور اس کا ابتدائی میزانیہ ایک روپیہ یومیہ تجویز کیا گیا۔ چنانچہ صدرالمبلغین کی حیثیت سے فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیات صاحبؒ کو‘ جو قادیان میں شعبہ تبلیغ احرار اسلام کے صدر تھے۔ ملتان طلب کیا گیا۔ ان دنوں مسجد سراجاں ملتان کا چھوٹا سا حجرہ مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مرکزی دفتر تھا۔ وہی دارالمبلغین تھا۔ وہی دارالاقامہ تھا۔وہی مشاورت گاہ تھی اور یہی چھوٹی سی مسجد اس عالمی تحریک ’’مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم “ کا ابتدائی کنٹرول آفس تھا۔ شہید اسلام حضرت زیدؓ کے بقول: ’’وذلک فی ذات الالہ وان یشاء یبارک علی اوصال شلو ممزع‘‘حق تعالیٰ شانہ نے اپنی قدرت کاملہ سے اس نحیف و ضعیف تحریک میں ایسی برکت ڈالی کہ آج اس کی شاخیں اطراف عالم میں پھیل چکی ہیں اور اس کا مجموعی میزانیہ لاکھوں سے متجاوز ہے۔
*قیادت باسعادت*
’’مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم” کو یہ سعادت ہمیشہ حاصل رہی ہے کہ اکابر اولیاء ﷲ کی قیادت و سرپرستی اور دعائیں اسے حاصل رہی ہیں۔ حضرت اقدس رائے پوریؒ آخری دم تک اس تحریک کے قائد و سرپرست رہے۔ ان کے وصال کے بعد حضرت مولانا خیر محمد جالندھریؒ‘ حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ‘ حضرت مولانا عبدﷲ درخواستیؒ اور حضرت مولانا خان محمدصاحبؒ خانقاہ سراجیہ کندیاں۔ اس کے سرپرست رہے “ مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ‘‘ کے بانی اور امیر اول امیر شریعت سید عطاء ﷲ شاہ بخاریؒ تھے۔ امیر شریعتؒ کی وفات ۱۹۶۱ء میں ہوئی۔ خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ ان کے جانشین مقرر ہوئے۔ ان کے وصال کے بعد حضرت مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھریؒ کو امارت سپرد کی گئی۔ ان کے وصال کے بعد مناظر اسلام مولانا لال حسین اخترؒ امیر مجلس ہوئے۔ مولانا لال حسین اخترؒ کے بعد عارضی طور پر فاتح قادیان حضرت مولانا محمد حیات صاحبؒ کو مسند امارت تفویض ہوئی۔ مگر اپنے ضعف و عوارض کی بناء پر انہوں نےاس گراں باری سے معذرت کا اظہار فرمایا۔ یہ ایک ایسا بحران تھا کہ جس سے اس عظیم الشان تحریک کی پیش قدمی رک جانے کا اندیشہ لاحق ہوگیا تھا۔ لیکن حق تعالیٰ شانہ کا وعدہ حفاظت دین یکایک ایک ایسی ہستی کو اس منصب عالی کے لئے کھینچ لایا جو اپنے اسلاف کے علوم و روایات کی امین تھی اور جس پر ملت اسلامیہ کو بجاطور پر فخر حاصل تھا۔ میری مراد شیخ الاسلام حضرت العلامہ مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ سے ہے۔
تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور رد قادیانیت‘ امام العصر حضرت مولانا محمد انور شاہ کشمیریؒ کی وراثت وامانت تھی اور اس کا اہل علوم انوری کے وارث حضرت شیخ بنوری سے بہتر اور کون ہوسکتا تھا؟ چنانچہ حضرت امیر شریعت قدس سرہ کی امارت خطیب پاکستان مولانا قاضی احسان احمد شجاع آبادیؒ کی خطابت‘ مجاہد ملت مولانا محمد علی جالندھری نورﷲ مرقدہ کی ذہانت‘ مناظراسلام مولانا لال حسین اختر ؒ کی رفاقت‘ حضرت شیخ الاسلام مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ کی بلندئ عزم نے نہ صرف مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عزت و شہرت کو چار چاند لگادیئے۔ بلکہ ان حضرات کی قیادت نے قصر قادیانی پر اتنی ضرب کاری لگائی کہ قادیانی تحریک کے بانی مرزا غلام قادیانی کی نبوت پر کذب وافتراء کی آئینی مہر لگ گئی۔
*غیر سیاسی جماعت*
’’مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم “ کا مقصد تاسیس‘ عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حفاظت اور امت مسلمہ کو قادیانی الحاد سے بچانا تھا۔ اس کے لئے ضرورت تھی کہ جماعت خارزار سیاست میں الجھ کر نہ رہ جائے۔ چنانچہ جماعت کے دستور میں تصریح کردی گئی کہ جماعت کے ذمہ دار ارکان سیاسی معرکوں میں حصہ نہیں لیں گے۔ کیونکہ سیاسی میدان میں کام کرنے کے لئے دوسرے حضرات موجود ہیں۔ اس لئے ’’مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کا دائرہ عمل دعوت و ارشاد‘ اصلاح و تبلیغ اور رد قادیانیت تک محدود رہے گا۔ اس فیصلے سے دو فائدے مقصود تھے۔ ایک یہ کہ: ’’جماعت تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کا پلیٹ فارم تمام مسلمانوں کا اجتماعی پلیٹ فارم رہے گا اور عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جذبہ اہل اسلام کے اتحاد و اتفاق اور ان کے باہمی ربط تعلق کا بہترین ذریعہ ثابت ہوگا۔‘‘ دوم یہ کہ: ’’مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘‘ کا ارباب اقتدار سے یا کسی اور سیاسی جماعت سے تصادم نہیں ہوگا۔ اور امت مسلمہ کا اجتماعی عقیدۂ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اطفال سیاست کا کھلونا بننے سے محفوظ رہے گا۔‘‘
امام العصر علامہ سید محمد انور شاہ کشمیریؒ
امام العصر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیریؒ کو قدرت نے قادیانیت کے خلاف سراپۂ تحریک بنا دیا تھا۔ آپ نے اپنے شاگردوں کی ایک مستقل جماعت کو قادیانیت کے خلاف تحریری و تقریری میدان میں لگایا تھا۔ حضرت مولانا بدر عالم میرٹھیؒ، حضرت مولانا مفتی محمد شفیعؒ، حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ، حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ، حضرت مولانا محمد علی جالندھریؒ، حضرت مولانا غلام غوث ہزارویؒ، حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ، حضرت مولانا محمد ادریس کاندہلویؒ، مولانا غلام ﷲ خانؒ ایسے جید علمائے امت جنہوں نے قادیانیت کو ناکوں چنے چبوائے۔ یہ سب حضرت کشمیریؒ کے شاگرد تھے۔ دارالعلوم دیوبند کی مسند ِ حدیث پر بیٹھ کر اسمردِ قلندر نے اس فتنہ قادیانیت کے خلاف محاذ قائم کیا۔ جسے دیانت دار مورخ سنہرے حروف سے لکھنے پر مجبور ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ، مجلس کے بانی اور عظیم اسلامی رہنماسید عطا اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ علیہ اپنے تمام ساتھیوں سمیت تمام سیاسی مشغولیات سے خود کو الگ کرتے ہوئے اسلام کی تبلیغ اور قادیانیت (حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری عقیدے پر انکار کرنے والے) کی تردید کے لیے اپنی زندگی وقف کردی اور سیاسی میدان مسلم لیگ کے لئے خالی چھوڑ دیا
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اسلامی ملت کی ایک بین الاقوامی ، مذہبی ، تبلیغی اور اصلاحی تنظیم ہے (ملت کا مطلب ایک جغرافیائی حدود سے قطع نظر ایک عالمی اسلامی قومیت ہے)۔ اس کا واحد مقصد یہ ہے کہ وہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تحفظ کے لیے دنیا کے تمام مسلمانوں کو متحد کریں اور پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخری عقیدے پر رد کرنے والوں کا انکار کریں۔
اللہ پاک کے فضل و کرم اور پھر اپنے مقدس مقصد کے لیے مخلصانه کاوشوں اور مقصد کی وجہ سے انہوں نے پوری دنیا میں "عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم" کی بنیاد رکھی۔ پاکستان اور بہت سے دوسرے ممالک میں، قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ کر دیا گیا اور انہیں غیر مسلم قرار دیا گیا اور اگے چل کے تحفظ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی بڑی تحریکیں اس پلیٹ فارم سے چلائی گئیں